از : ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز‘ چیف ایڈیٹر گواہ اردو ویکلی، حیدرآباد
ممبئی کے اردو صحافی پہلی مرتبہ اردو جرنلسٹس اسوسی ایشن کے پرچم تلے متحد ہوئے۔ پہلی بار انہیں احساس ہوا کہ جب تک اَنا کے خول کو توڑ کر باہر نہیں نکلیں گے اس وقت تک مسائل، مصائب، معاشی تنگ دستی کی نحوست سے آزاد نہیں ہوسکیں گے۔ 27؍مئی کو فنڈ ریزنگ ایونٹ کا اہتمام بھی کیا گیا‘ کانگریس کے سابق ایم ایل اے یوسف ابراہانی اور ممتاز کانگریس رہنما گروداس کامت نے اسوسی ایشن کی تشکیل اور فنڈز اکٹھا کرنے میں بڑا اہم رول ادا کیا۔ اسوسی ایشن کی جانب سے چار افراد کی مالی اعانت بھی کی گئی۔ اس میں ایک کثیر الاشاعت اردو روزنامہ کے سابق مالک کی اہلیہ بھی شامل ہیں جو کسمپرسی کی زندگی گزار رہی ہیں۔ بہرحال ممبئی کے سربراہ تاجروں اور اہم شخصیات نے اردو صحافیوں کی تنظیم کے ساتھ بھرپور تعاون کیا اور مستقبل میں بھی تعاون کا یقین دلایا۔ یہ واقعی ایک قابل ستائش اقدام ہے‘ دوسرے شہروں اور ریاستوں میں بھی اس کی تقلید ہونی چاہئے‘ کیوں کہ اردو کا صحافی چاہے وہ ہندوستان کے کسی بھی علاقہ سے کیوں نہ تعلق رکھتا ہو اس کی حالت ہر اعتبار سے کمزور ہے۔ حیدرآباد کے چند صحافیوں کی حالت بہتر ہے‘ بیشتر معاشی تنگ دستی کا شکار ہیں۔ اخبارات چاہے کتنے ہی مشہور اور کتنے ہی کثیرالاشاعت کیوں نہ ہوں‘ ان میں معاوضہ اتنا نہیں کہ قرض لئے بغیر کوئی صحافی اپنے ماہانہ گھریلو اخراجات کی تکمیل نہیں کرسکے۔ ہاں اگر دوسرے وسائل آمدنی معقول ہوں جیسے بیگم صاحبہ بھی ملازم ہوں یا بچے برسر روزگار ہوں اور شادی کے بعد بھی والدین کا خیال رکھتے ہوں تو اور بات ہے ورنہ اکثریت پریشان حال ہی ہے۔ اچھے اسکول میں داخلہ‘ اچھے ہاسپٹل میں علاج و معالجہ‘ ہمیشہ سے مسئلہ رہا ہے۔ زیادہ تر صحافی کرایہ کے گھر میں رہتے ہیں جس کی وجہ سے اگر کرایہ دیں تو اناج غلہ لانا مشکل ہوجاتا ہے اگر اناج غلہ لائیں تو بچوں کے اسکول یا کالجس کی فیس کی ادائیگی مسئلہ بن جاتی ہے۔ حکومتیں بنتی ہیں‘ بدلتی ہیں‘ صحافیوں کو تیقنات دیتی ہیں‘ وعدے کرتی ہیں جو کبھی پورے نہیں ہوتے۔ باربار صحافیوں کی نمائندہ انجمنیں نمائندگی کرتی ہیں‘ کچھ نمائندے نوازے
جاتے ہیں اور ان کے منہ بند ہوجاتے ہیں‘ مسائل جوں کے توں رہ جاتے ہیں۔
بیشتر اردو اخبارات کے مالکین ماشاء اللہ سے کم از کم کروڑپتی ہیں۔ اگر یہ خود چاہیں تو اپنے ملازمین کے مسائل حل ہوسکتے ہیں‘ یہ خود پلاٹ یا فلیٹ اپنے ملازمین کو اقساط پر فراہم کرسکتے ہیں‘ اس سے ملازمین کی وفاداریاں بھی برقرار رہ سکتی ہیں اور حکومت کے آگے ہاتھ پھیلانے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ مگر کیا کیا جائے‘ دولت جن کے پاس ہے ان کے پاس فراخدلی نہیں۔ ساری دنیا پر لٹانے کے لئے دولت ہے‘ اپنے ملازمین کی ضروریات کی تکمیل کیلئے پھوٹی کوڑی نہیں۔ وہ دنیا کے لئے حاتم طائی اور اپنے ملازمین کے لئے قارون بن جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملازمین میں وفاداری کا جذبہ کمزور پڑتا جارہا ہے۔ اس سے ان کے کام کا معیار بھی متاثر ہونے لگا ہے۔ کارپوریٹ سیکٹر نے بھی بعض اردو اخبارات کو تو خرید لیا مگر اپنے ملازمین کے ساتھ ان کا رویہ اور بھی زیادہ افسوسناک ہے۔ سینئر ہوں یا جونےئر صحافی کنٹریکٹ کی بنیاد پر ان کی خدمات حاصل کی جارہی ہیں اور اس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ آیا دوسال یا تین سالہ کنٹریکٹ کی تکمیل کے بعد اس کی تجدید ہوگی یا نہیں…. جس کی وجہ سے صحافیوں کو اپنا مستقبل غیریقینی دکھائی دینے لگا ہے۔ صرف صحافی ہی کیوں‘ اخبار سے وابستہ تمام ملازمین کی یہی صورتحال ہے‘ چاہے وہ کمپیوٹر آپریٹر ہوں یا پلیٹ میکر ہوں۔
اردو صحافیوں کے کئی مسائل ہیں۔ سب سے بڑا مسئلہ احساس کمتری ہے۔ چند ایک ہوں گے جو پورے وقار کے ساتھ انگریزی یا سرکردہ مقامی زبانوں کے اخبارات کے صحافیوں کے شانہ بہ شانہ چلنے کے اہل ہوں۔ ورنہ کمزور انگریزی اور مقامی زبانوں سے ناآشنا ہونے کی وجہ سے اکثر و بیشتر سہمے سہمے سے رہتے ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مذہبی ہو یا سیاسی قیادت تعلیمی ادارے ہوں کہ مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے مراکز‘ یہ سب اردو صحافت اور صحافیوں کے مرہون منت ہیں۔ اردو صحافت نہ ہو تو ان کا وجود بھی نہ ہو۔ ان کی پہچان اردو اخبارات ہی کے ذریعہ ہوتی ہے۔ مگر سیاست داں تو خود غرض اور موقع پرست ہوتے ہی ہیں‘ بیشتر مسلم ادارے‘ چاہے وہ کسی عالم دین کے قائم کردہ ہوں یا سماجی شخصیت کے‘ وہ بھی اردو صحافت اور اردو صحافیوں کے ساتھ جانبداری اختیار کرتے ہیں۔ ہم نے اکثر مختلف سیاسی جماعتوں کے قائدین کا بڑی گہرائی کے ساتھ مشاہدہ کیا۔ وہ اردو صحافیوں کے گلے میں ہاتھ ڈال کر، بڑے خلوص کے ساتھ مزاج پرسی کرتے ہیں اور بے چارے اردو صحافی ان کی ’’خوش اخلاق‘‘ پر ہی مسرور رہتے ہیں۔ ان ہی سیاستدان، مسلم اداروں کے سربراہوں کا انگریزی اور دوسری زبان کے اخبارات کے نمائندوں کے ساتھ رویہ بالکل جداگانہ ہوتا ہے۔ انگریزی اخبار یا ٹی وی چیانل کے نمائندے کو یہ اپنے خصوصی کمرہ میں بلکہ خلوص میں بیڈ روم تک بھی لے جاتے ہیں۔ ان کی ضروریات کی فوری تکمیل کردی جاتی ہے۔ حالاں کہ انگریزی اخبارات کے نمائندے نہ تو ان کے حق میں لکھتے ہیں‘ اور نہ ہی لکھ سکتے ہیں۔ شاید ہمارے سیاست داں اور مسلم اداروں کے سربراہ ان کی پذیرائی اسی لئے کرتے ہوں کہ کم از کم وہ ان کے خلاف نہ لکھیں۔ اردو اخبارات سے وابستہ‘ صحافیوں کو یہ سیاست داں اور مسلم مذہبی اداروں کے سربراہ ہمیشہ یہ احساس دلاتے رہتے ہیں کہ ان کے مالکین سے ان کے دوستانہ تعلقات ہیں۔ حالاں کہ ہم نے ایسے کئی سیاست دانوں کو اور اہم شخصیات کو انگریزی اخبارات کے مالکین‘ ان کے بیورو چیفس کے ساتھ تاش کھیلتے بھی دیکھا اور مشترکہ طور پر رنگ رلیاں منانے کی داستانیں بھی سنیں۔ اس کے باوجود ان کے اخبارات میں ان قائدین کا پوسٹ مارٹم کیا جاتا رہا ہے۔
اردو صحافیوں کا المیہ یہ بھی ہے کہ کوئی کتنا ہی سینئر، کتنا ہی قابل کیوں نہ ہو‘ اس کی خدمات کتنی ہی غیر معمولی کیوں نہ رہی ہوں‘ اگر وہ کسی بڑے اخبار سے وابستہ نہ ہو تو اس کی طرف نظر اٹھاکر بھی نہیں دیکھا جاتا۔ اگر نظر پڑ بھی جائے تو طوطے کی طرح نظر پھیر لی جاتی ہے۔ اس کے برعکس کسی بڑے اخبار کا کوئی ڈرائیور یا چپراسی بھی ہو تو اسے اہمیت دے دی جاتی ہے۔ یہ قدرت کا نظام اور انصاف ہے کہ ہر پانچ برس بعد یا وقفہ وقفہ سے سیاست دانوں کی تقدیر کے فیصلے بدلتے رہتے ہیں۔ کبھی جن کے اطراف بھیڑ ہوا کرتی ہے‘ وہ بھیڑ کی تلاش میں رہنے لگتے ہیں…
اردو صحافت اور صحافیوں کا المیہ یہ بھی ہے کہ صحافتی اداروں کے مالکین کسی بھی بہانہ سے اپنے ملازمین ہی کے ذریعہ مختلف شخصیات یا اداروں سے رقومات حاصل کرتے ہیں تو یہ نیک کاز کے لئے ڈونیشن ہوجاتا ہے۔ جب ایک معمولی تحفہ کسی کارپوریٹ ادارہ یا کسی شخصیت کی جانب سے کسی صحافی کو دیا جاتا ہے تو اس پر کئی بیہودہ قسم کے الزامات عائد ہوجاتے ہیں۔ مالکین چاہیں تو اپنے اثرات و رسوخ کے استعمال سے اراضیات حاصل کرلیں‘ عہدے‘ ایوارڈس لے لیں اور ملازمین کوکچھ دے دیتا ہے تو وہ رشوت؟
ہندوستان بھر میں اردو کے بڑے اخبارات کی تعداد انگلیوں پر شمار کی جاسکتی ہے‘ جبکہ چھوٹے اخبارات کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ سب کے گھروں میں چولہے ہیں‘ سب کو سر پر چھت اور صحت چاہئے۔ بچوں کو اچھے اسکولس اور کالجس میں تعلیم کا موقع چاہئے۔ آج کے دور میں جبکہ انفارمیشن ٹکنالوجی عام ہوچکی ہے‘ کوئی اخبار چھوٹا یا بڑا نہیں ہے کیوں کہ ہر وہ اخبار جو مختلف وسائل کا استعمال کرکے اپنے قاری تک رسائی حاصل کرتا ہے‘ اس کا رتبہ یکساں ہے۔ اس لئے ہر اس اخبار سے وابستہ صحافیوں کی یکساں طور پر عزت کی جانی چاہئے۔ جو اخبارات باقاعدہ شائع ہوتے ہیں اور منظر عام پر آتے ہیں۔ بعض اوقات چھوٹے اخبارات وہ کام کرجاتے ہیں جو بڑے اخبارات نہیں کرپاتے۔
اردو صحافت کا یہ بھی تو ایک المیہ رہا ہے کہ اخبارات کے مالکین کے اختلافات کے اثرات سے ملازمین متاثر ہوتے ہیں۔ اخبارات کے اختلافات مالکین کے مفادات کے ٹکراؤ کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ مگر خمیازہ اکثر ملازمین کو بھگتنا پڑتا ہے۔ اداروں سے وفاداری کے نام پر یہ بھی گروہوں میں تقسیم ہوجاتے ہیں‘ ان میں اتحاد نہیں ہوپاتا۔ ممبئی کے اردو صحافیوں نے اپنے اختلافات کی دیواریں گراکر ایک اچھی مثال قائم کی‘ اور اب نہ صرف حیدرآباد بلکہ ہندوستان کے دوسرے علاقوں کے صحافیوں کو بھی اس کی تقلید کرنی چاہئے….
ہر شہر ہر علاقہ میں اردو جرنلسٹس کا ویلفیر فنڈ قائم کیا جائے… ہر وہ فرد اس میں تعاون کرے جو اردو اخبارات سے فیضیاب ہوتا ہے۔ چاہے وہ مذہبی سیاسی شخصیات ہوں یا ادارے… کیوں کہ آج وہ جو کچھ بھی ہیں اردو صحافیوں اور اردو اخبارات کے طفیل میں ہیں۔ سیاسی اور مذہبی قائدین کے اخبارات کے مالکین سے تعلقات اپنی جگہ وہ ضرور ایک دوسرے کی ضیافت کریں… ایک دوسرے کا احترام کریں… مگر اردو صحافیوں کے استحکام کے لئے اگر کوئی اقدام کیا جائے تو اس میں صرف وعدے‘ تیقنات یا دعاؤں تک مدحود نہ رہیں بلکہ دامے درمے سخنے حصہ لیں۔
بذریعہ ’’گواہ اردو ویکلی‘‘ حیدرآباد