Thursday , November 21 2024
enhindiurdu

بادِ مخالف سے نہ گھبرا..

سچ تو مگر کہنے دو ! ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز

مفتی سلمان ازہری کی گرفتاری‘ اور احمد آباد و جوناگڑھ کی عدالتوں سے ضمانت کی منظوری پر ملک و بیرون ملک کا مسلمان مسرور ہے تو اس دوران اس گرفتاری پر احتجاج اور مسلکی اختلافات سے بے نیاز ملی اتحاد کے مظاہرہ سے مسلم دشمن طاقتیں حیران اور پریشان ہیں۔ اور ان کی یہ پریشانی واجبی ہے کیوں کہ بریلوی عالم دین کی گرفتاری پر دیوبندی علماء کا احتجاج ان کی توقعات کے برعکس ہے۔ وہ تو ہمیشہ اس بات پر خوش ہوتے رہے ہیں کہ مسلمانوں کو برباد کرنے کے لئے غیروں کو محنت اور سازش کی ضرورت نہیں کیوں کہ ان کے آپسی اختلافات ہی ان کو تباہ کرنے کے لئے کافی ہیں۔ مگر مفتی سلمان ازہری کی گرفتاری پر جس طرح سے مسلم سیاسی، سماجی اور مذہبی قائدین‘ تنظیموں اور جماعتوں کے ساتھ غیر مسلم حضرات بالخصوص بعض سادھو سنتوں نے احتجاج و مذمت کی وہ تاریخ ساز ہے۔ ایک عرصہ بعد ملی اتحاد اور قومی یکجہتی کا مظاہرہ ہوا ہے جو حالیہ واقعات سے روح پر لگے زخموں پر کسی حد تک مرہم کی ٹھنڈک تابث ہوا ہے۔ گودی میڈیا بھونکتا رہا، سوشیل میڈیا حق و صداقت کا ترجمان بنارہا۔
مفتی سلمان ازہری نوجوان ہیں۔ اور اس عمر میں انہیں بین الاقوامی شہرت حاصل ہوچکی ہے۔ یہ ایک طرح سے تخریب میں تعمیر کا پہلو ہے۔ یہ ایک اتفاق ہے کہ مفتی صاحب نے مسلم دشمن ملعون نرسمہا آنند کو مباہلہ کی دعوت دی تھی۔ اس کم بخت نے اس مباہلہ کو ”اگنی پریکشا“ سے تعبیر کیا‘ اسے یقین تھا کہ اگنی پریکشا میں ناکام ہوکر بھسم ہوجائے گا۔ اس لئے اس نے راہِ فرار اختیار کی۔
برصغیر کے ممتاز عالم دین مفتی یاسر ندیم واجدی نے اپنے یوٹیوب چیانل پر مفتی سلمان ازہری کی تعریف کی ہے۔ یہ مفتی صاحب کی گرفتاری سے پہلے کی بات ہے۔ مفتی یاسر ندیم واجدی نے جو دیوبند سے فارغ التحصیل ہیں اور جن کے اقطاع عالم میں لاکھوں چاہنے والے ہیں‘ ایک بریلوی عالم دین کے اخلاق و اوصاف حمیدہ کی ستائش کی اور ان سے ٹیلی فونک بات چیت کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا تھا کہ نرسمہانند کو مباہلہ کی دعوت دینے کا مقصد اس خبیث کو کذاب ثابت کرنا ہے اور یہ مسئلہ کسی ایک مسلک کے ماننے والوں کا نہیں بلکہ مسلمانان عالم کا ہے۔ نرسمہا نند کا راہِ فرار اختیار کرنا اس کی بزدلی، کمزوری اور اعتراف شکست ہے۔ اسی خفت کو مٹانے کے لئے ہندوتوا طاقتیں موقع کی تلاش میں تھیں اور پھر فلسطین کے مسئلہ پر ان کی تقریر میں کچھ نہ ملا تو لفظ ”کتا“ مل گیا۔ اور ایف آئی آر درج کردی گئی۔
یہ عجیب اتفاق ہے کہ ڈاکٹر ذاکر نائک نے سری سری روی شنکر کو بھی بحث کی دعوت دی تھی۔ اور روی شنکر بحث کے درمیان سے ہی میدان چھوڑ گئے۔ کرناٹک کے سابق وزیر روشن بیگ نے ان دونوں کو ”خدا کے تصور“ کے موضوع پر ایک پلیٹ فارم پر اپنے خیالات کے اظہار کی دعوت دی تھی۔ سری سری روی شنکر ”آرٹ ان لیونگ“ کے لئے مشہور اور ان کے لاکھوں فالوورس ان کی سبکی برداشت نہ ہوسکی‘ اس کے بعد ہی مدمات کی وجہ سے ذاکر نائک کو جلاوطنی کی زندگی کیلئے مجبور ہونا پڑا۔
جہاں تک مولانا مفتی سلمان ازہری کا تعلق ہے‘ یہ مولانا محمد ابن احسن کے فرزند ہیں۔ مولانا ابن احسن الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور میں حافظ ملت علیہ الرحمہ کے زیر تربیت رہے۔ ان کے بڑے فرزند مفتی زبیر احمد مصباحی بھی ممتاز عالم دین اور خطیب ہیں۔ مفتی سلمان سے متعلق کہا جاتا ہے کہ جب وہ علم حاصل کرنے کی غرض سے گھر سے نکلے تو ان کے والد کی نصیحت کانوں میں گونج رہی تھی کہ ”بیٹا ہم امت مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اور اپنی آخرت کے سامان کے لئے تمہیں وقف کررہے ہیں“۔
سلمان احمد انصاری نے الجامعۃ الاشرفیہ میں حافظ شبیر صاحب کے پاس چھ پارے حفظ کئے اور صرف ڈیڑھ برس میں قرآن پاک کا حفظ مکمل کیا۔ افتاء کے لئے بریلی شریف گئے اور حضرت مولانا اختر رضا خاں علیہ الرحمہ کے آگے زانوئے ادب تہہ کیا۔ ان کے سب سے چہیتے شاگرد بن گئے اور ان سے بیعت و خلافت سے بھی سرفراز ہوئے۔
مفتی سلمان ازہری ایک شعلہ بیان مقرر ہیں۔ شعلہ بیان تو بہت سارے مقررین ہیں‘ ان میں بیشتر جہلاء بھی ہیں جو آپس میں انتشار پھیلاتے ہیں۔ سلمان صاحب کے الفاظ میں تاثیر ہے۔ 2015ء میں ایک نسل حرام نے شان رسالت میں گستاخی کی تھی تو مفتی سلمان نے ہبلی میں اس کے خلاف زبردست احتجاج منظم کیا تھا۔ یہ محض اتفاق ہی تھا کہ یہ گستاخ کچھ ہی عرصہ میں جہنم رسید ہوگیا۔ مسلم دشمن طاقتوں کو مفتی صاحب کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کا اندازہ ہے اور وہ نہیں چاہتے کہ ہندوستان میں ایک ایسا مذہبی رہنما ہو جس کی آواز پر قوم متحد ہوجائے۔
آج جانے کتنے نوجوان ابھرتے قائدین جیلوں میں محض اس لئے بند ہیں کہ جیل کی کوٹھریوں میں ان کے حوصلے کچلے جائیں۔ ان کے جذبوں کو ختم کردیا جائے۔ ایسے کئی مذہبی رہنما ماضی میں فرضی الزامات کے تحت برسوں جیلوں میں بند رکھے گئے اور جیلوں سے رہا ہوئے تو ان کی عمر ڈھل چکی تھی۔ مختلف امراض کے وہ شکار ہوچکے تھے۔
مفتی سلمان کو ضمانت تو مل گئی‘ مگر ان کا پیچھا نہیں چھوڑا جائے گا۔ مستقبل میں ان کے اداروں پر دھاوے بھی ہوں گے۔ ان کے ملنے والوں پر نظر رکھی جائے گی۔ مگر اس سے اللہ کی شیروں کو آتی نہیں روباہی۔ ایک طرف قوم مفتی صاحب کی گرفتاری پر پریشان تھی تو دوسری طرف ہندوتوا طاقتوں کی جانب سے مساجد پر حق ملکیت کے دعوؤں… آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کے موقف عدالت کے فیصلوں سے فکر مند بھی ہے۔
اُترکھنڈ میں یکساں سیول کوڈ نافذ کردیا گیا۔ اس پر بیرسٹر اسدالدین اویسی، مولانا ارشد مدنی اور کئی قائدین نے احتجاج کیا ہے۔ اس قانون کا نشانہ صرف اور صرف مسلمان ہیں۔ دوسری ریاستوں میں قانون نافذ ہوتا یا نہیں کہا نہیں جاسکتا۔ مسلمانوں کے ساتھ ہمدردی کا دعویٰ کرنے والی جماعتیں ای ڈی اور سی بی آئی کے دھاوؤں سے پریشان ہوکر اپنا موقف بدل دیتی ہیں اور مسلمان کا حال تپتے ہوئے لق و دق صحرا میں بھٹکے ہوئے مسافر جیسا ہے نہ کوئی رہبر ساتھ‘ نہ ہی منزل کا پتہ۔
ان حالات سے مقابلہ اب بھی ممکن ہے‘ مایوسی تو بہرحال کفر ہے۔ اس سے زیادہ بدترین حالات میں سے ہمارے اسلاف گزر چکے ہیں۔ آج کے حالات میں ہمیں اپنے تشخص کی حفاظت کرنے کے لئے قربانیاں دینی ہوں گی۔ یکساں سیول کوڈ سے وہ مسلمان متاثر ہوں گے جو شرعی قوانین کو نہیں مانیں گے۔ قرآن و سنت پر عمل آوری سے دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی۔ جب ہم بے ایمانی، بددیانتی پر اترتے ہیں‘ دوسروں کی حقوق تلفی کرتے ہیں تو عدالتوں کے دروازوں پر دستک دی جاتی ہے جہاں کے فیصلے ہمارے خلاف ہوتے ہیں۔
موجودہ حالات میں ہمیں تخریب میں تعمیر کا پہلو تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ یہی وقت ہے کہ ہم اسلامی قوانین اور اصولوں پر سختی سے عمل آوری کرنے کا تہیہ کرلیں۔ آپسی اختلافات‘ نزاعی معاملات کو شرعی عدالتوں میں حل کرنے کی کوشش کریں۔ ان شاء اللہ یہ آزمائشی دور بھی بہت جلد گزر جائے گا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گزشتہ دنوں ایوان پارلیمنٹ میں عمران پرتاب گڑھی کی تقریر خوب رہی۔ ابھی تک بیرسٹر اسدالدین اویسی کی گھن گرج سنائی دیتی تھی۔ اب کانگریس کے رکن راجیہ سبھا عمران پرتاپ گڑھی بھی کھل کر بڑی بے باکی سے بولنے لگے ہیں۔ ان کا انداز بیان بہت ہی دلچسپ ہے اور شاعرانہ انداز میں طنزیہ اشعار کے ساتھ ارباب اقتدار اور حاکم وقت کے خلاف ان کی تقریر نے دل موہ لیا۔
عمران پرتاپ گڑھی نے بہت کم عمری میں ایک عوامی، انقلابی شاعر کے طور پر عالمی سطح پر اپنی پہچان بنائی ہے۔ آج ان کا نام کسی بھی جلسہ یا مشاعرہ کی کامیابی کی ضمانت سمجھا جاتا ہے۔ دیکھنا ہے کہ دستور زبان بندی ان پر کب لاگو ہوتا ہے۔ اب تک کی تاریخ ہے کہ جس کسی نے ایوان پارلیمنٹ میں بے باکی سے بات کی اسے ای ڈی اور سی بی آئی کے ذریعہ پریشان کیا گیا۔ ایک خاتون ا یم پی کو تو ایوان سے برخواست بھی کیا جاچکا ہے۔
بہرحال! ابھی تک عمران پرتاپ گڑھی نے خبر جو کچھ بھی کہا‘ جو کچھ بھی کیا وہ قابل تعریف ہے‘ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا
ہیمنت سورین کو جھارکھنڈ کے چیف منسٹر کے عہدہ سے ہٹایا گیا۔ جسے آدی واسیوں کے خلاف اعلیٰ ذات کی سازش اور ان کی توہین کے مترادف قرار دیا گیا۔ ہیمنت سورین کا یہ بیان معنی خیز اور فکر انگیز ہے کہ جس طرح ڈاکٹر امبیڈکر نے مجبور ہوکر ہندو مذہب چھوڑ کر بدھ مذہب اختیار کیا تھا آدی واسیوں کو بھی انہی کی راہ اختیار کرنی ہوگی۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو یقینی طور پر آج کے ارباب اقتدار کے لئے یہ لمحہ فکر ہے۔ مسلمان خوش ہوجاتا ہے کہ دلت مسلم مل کر ہندوستان کی سیکولر کردار کو بچالیں گے یہ محض خوش فہمی ہے۔ عملی طور پر ایسا نہیں ہوتا کیوں کہ الیکشن سے پہلے 3فی صد طبقہ سے تعلق رکھنے والے لوگ دلتوں کی جھونپڑیوں میں جاگ کر ان کے ساتھ بھوجن کرتے ہیں۔ اور دلت خوش ہوجاتا ہے اور پھر پولنگ کے ایک دن کے لئے وہ ذات پات کو کی تفریق، اعلیٰ ذات کے ہزاروں سال سے ڈھائے جانے والے مظالم کو بھلاکر ہندو راشٹر کے حق میں ووٹ دے دیتا ہے۔

About Gawah News Desk

Check Also

نئی نسل کی تباہی کے ذمہ دار کون؟

ماہِ مقدس رمضان المبارک سے متعلق موضوع پر کچھ لکھنے کا ارادہ تھا، مگر علماء …

عدلیہ‘ فوج‘ تعلیم اور میڈیا،بی جے پی کا سایہ

کولکتہ ہائی کورٹ کے جج ابھیجیت گنگوپادھیائے گنگولی نے اپنے عہدہ سے استعفیٰ دیا اور …

Leave a Reply