آسام میں چالیس لاکھ افراد کے نام جن میں اکثریت یقیناًمسلمانوں ہی کی ہے‘ نیشنل رجسٹر آف سٹیزنس (این آر سی) نے حذف کردےئے ہیں۔ اگرچہ کہ ان مظلوم افراد کو مختلف ای سیوا مراکز کے توسط سے مقررہ فارم کے ذریعہ اپنے نام شامل کروانے کا موقع دیا جارہا ہے اور ساتھ ہی سپریم کورٹ نے یہ کہہ دیا ہے کہ محض ڈرافٹ کی بنیاد پر کسی کو شہریت سے محروم نہیں کیا جاسکتا اور حکومت نے بھی اگرچہ کہ تیقن دیا ہے کہ جن کے نام این آر سی میں شامل نہیں ہے انہیں نہ تو پریشان کیا جائے گا نہ ہی ملک بدر کیا جائے گا تاہم بی جے پی کے صدر امیت شاہ نے دو ٹوک لہجے میں کہا ہے کہ جن کے نام این آر سی میں نہیں ہے وہ غیر ملکی شہری ہیں۔ بی جے پی کے ایک اور رکن پارلیمنٹ نے سینہ ٹھوک کر اعلان کیا کہ آسام کے بعد اگلا نشانہ بنگال ہے‘ جہاں کروڑوں کی تعداد میں غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکی شہری ہیں۔
آسام میں جو کچھ ہوا یا جو کچھ ہورہا تھا‘ یہ آج کل کا نہیں برسوں کا بلکہ کئی دہائیوں کا منصوبہ بند پروگرام تھا جس پر پیشرو حکومتوں نے حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے عملی جامہ نہیں پہنایا تھا تاہم بی جے پی حکومت نے بڑی تیزی و تندہی کے ساتھ این آر سی کی دوسری فہرست جاری کی۔ آسام ایک طویل عرصہ سے فرقہ پرست عناصر کی نگاہوں میں کھٹک رہا تھا کیوں کہ یہاں مسلم آبادی 34فیصد ہوگئی تھی۔ یہاں کے مسلمان بتدریج سیاسی شعور کے حامل ہونے لگے تھے۔ اور ان کی معاشی و سماجی حالت میں قدرِ سدھار آنے لگا تھا۔ آسام اس لئے بھی تعصب پسند عناصر کے دلوں میں ایک پھانس کی طرح چبھتا رہا کہ یہاں مسلمانوں نے بھی حکومت کی۔ جہاں جہاں مسلمانوں نے حکومتیں کیں، جہاں جہاں انگریزوں نے اپنے ناپاک قدم رکھے وہاں وہاں انہوں نے منظم منصوبہ بند انداز میں مسلمانوں کو پہلے آپس میں بانٹ کر کمزور کیا ان کی مذہبی قیادت کو مسلمانوں کی نظروں سے گرایا تاکہ وہ انہیں دوبارہ منظم نہ کرسکیں۔ انہیں تعلیم حاصل کرنے نہیں دیا‘ تاکہ وہ ہمیشہ احساس کمتری کا شکار رہے اور خود کفیل نہ بن سکے۔ اسپین میں یہی ہوا۔ چند صدیوں بعد بوسنیا میں تاریخ دہرائی گئی۔ گذشتہ صدی میں بلغاریہ میں ترکوں اور دیگر مسلمانوں کے ساتھ وہی کیا گیا جو آج آسام میں کیا جارہا ہے۔ فرانس، جرمن، ہالینڈ، شمالی امریکہ اور پھر چین کے یغوری مسلمانوں کے ساتھ یہی مظالم ڈھائے گئے۔ روہنگیائی مسلمانوں کے ساتھ ایسا ہی کیا جارہا ہے یہ سب مظالم مقامی باشندوں سے حق شہریت چھین کر انہیں ان کی جائیدادوں، ملازمتوں سے محروم کرتے ہیں‘ اور نسل کشی کے ذریعہ انہیں نقل مقام کرنے کے لئے مجبور کرتے ہیں۔ آسام میں بھی ایسا ہی کچھ 1983ء میں ہوچکا ہے جب نیلی میں 2000 مسلمانوں کو ہجومی تشدد کے ذریعہ شہید کیا گیا جہاں مسلمان جان بچانے میں کامیاب رہے وہاں ان کی معیشت کو تباہ کردیا گیا تاکہ یہ مجبور ہوجائیں۔ آسام میں مسلم آبادی کے بڑھتے ہوئے فیصد تناسب سے مقامی آسامی نہیں بلکہ انگریز پریشان تھے۔ انہوں نے آسام کو تقسیم کیا اور انہیں ایک مقام سے دوسرے مقام کو ہجرت کرنے کے لئے ترغیب دی۔ اسٹوڈنٹس اسلامک آرگنائزیشن نے بڑی تحقیق کے بعد ایک تحقیقی مقالہ ’’ایک اور روہنگیا کی تیاری‘‘ جاری کیا ہے۔ جس میں تاریخی حوالوں حقائق پیش کئے گئے ہیں کہ کس طرح تیرہویں اور سترہویں صدی کے درمیان یہاں مسلمانوں کی حکومت تھی‘ اور کس طرح سے آسامیوں نے مسلم قیدیوں کے طرز عمل، حسن سلوک، رواداری، سادگی سے متاثر ہوکر اپنی مرضی سے اپنی خوشی سی اسلام قبول کیا۔ 1971ء میں پاکستان تقسیم ہوا اور بنگلہ دیش کا وجود عمل میں آیا۔ اس سے بہت پہلے سے بنگلہ دیش کا جو علاقہ مشرقی پاکستان یا مشرقی بنگال کہلاتا تھا وہاں سے مسلمانوں کو انگریزوں نے اپنے خرچ پر آسام کے لئے روانہ کیا تاکہ وہ برہم پترا وادی کی بنجر زمینات کو زرخیز زرعی اراضیات میں بدل سکے۔ 1900 سے 1947ء تک مشرقی بنگال سے مسلمانوں کی آسام کو ہجرت کا سلسلہ جاری رہا۔ انگریزوں نے انہیں بنگالی مسلمان کی پہچان دی۔ یہیں سے مقامی اور غیر مقامی باشندوں کے درمیان نفرت اور دشمنی کی خلیج پیدا ہوگئی۔ ایس آئی او کی رپورٹ کے مطابق 1931ء میں آسام بولنے والوں کی آبادی 36فیصد تھی مگر1971میں یہ 62فیصد ہوئی کیوں کہ مردم شماری کے دوران انہوں نے اپنی مادری زبان آسامی ہی لکھایا تھا۔ اختلافات کے باوجود آپس میں دشمنی نہیں ہوئی۔ اس کی بنیاد اپریل 1979ء میں اس وقت پڑی جب یہ خبر عام ہوگئی تھی کہ منگودوئی پارلیمانی حلقہ کے ضمنی انتخابات میں مسز اندرا گاندھی کانگریس کی امیدوار ہوں گی۔ اُسی وقت سے آسام میں غیر ملکی باشندوں کی بڑھتی ہوئی آبادی کے خلاف آواز اٹھنے لگی جس کے بعد سے آل آسام اسٹوڈنٹس یونین اور آل آسام گن سنگم پریشد نے ’’بیرونی شہریوں‘‘کے خلاف احتجاج شروع کیا۔ یہ بیرونی شہری آخر میں بنگلہ دیشی قرار دےئے گئے۔جن کے خلاف وقفہ وقفہ سے پُرتشدد مظاہرے کئے جاتے رہے۔ ان کی جائیدادوں کو لوٹا گیا، جانیں ضائع کی گئیں۔ گجرات جیسے مسلم کش فسادات ہوئے مقدمہ درج کئے گئے مگر مرکز اور ریاستی حکومتوں کے درمیان ہونے والے معاہدات کے تحت قاتلوں اور خاطیوں کے خلاف درج کردہ مقدمات واپس لے لئے گئے اور بیرونی شہریوں یا بنگلہ دیشی شہریوں کے نام پر مسلمانوں کو ہریساں پریشاں کرنے کا سلسلہ جاری رہا۔ فسادات کی وجہ سے خوفزدہ مسلمان دوسرے محفوظ علاقوں کو منتقل ہوجاتے ہیں اور جب حالات قابو میں آجاتے ہیں تو وہ واپس اپنے مقام پر �آجاتے ہیں۔ 1950ء کے فساد میں سرکاری ذرائع کے مطابع 53ہزار مسلم خاندان بے گھر کردےئے گئے۔ 1951ء کی مردم شماری میں اُن خاندانوں کے نام شامل نہیں کئے گئے جو اپنے اصل مقام پر واپس نہیں آسکے تھے۔ 1979ء میں آسام کے احتجاجی لیڈرس کے مطالبے پر مشکوک یا متنازعہ رائے دہندے یا D-voters کے طور پر ہزاروں نام فہرست رائے دہندگان میں شامل کئے گئے۔ 1996ء میں الیکشن کمیشن کی ہدایت پر 126اسمبلی حلقوں میں ووٹرس لسٹ پر نظر ثانی کی گئی اور پھراُن ووٹرس کو جائز قرار دیا گیا جن کے نام یکم جنوری 1997ء کی فہرست شامل ہوں‘ سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں الیکشن کمیشن نے ایسے افراد کے نام فہرست رائے دہندگان میں شامل کرنے کی ہدایت دی جنہوں نے مختلف ٹریبونلس سے رجوع ہوئے تھے۔ 2005ء میں ایک بار پھر نیشنل رجسٹر سٹیزن اور نیشنل آئی ڈنٹیٹی کارڈ کے مسئلہ نے سر اٹھایا جس کے خلاف آل آسام مائناریٹی اسٹوڈنٹس یونین نے احتجاج کیا جس پر وقتی طور پر ہی سہی یہ مسئلہ ختم ہوگیا۔ تاہم 2014ء میں مرکزی حکومت نے این آر سی کو اَپڈیٹ کرنے کی ہدایت دی جس کے تحت 24؍مارچ 1971ء کی نصف شب سے پہلے جاری ہونے والے دستاویزات میں سے کسی ایک کی پیشکشی کو این آر سی میں شمولیت کے لئے لازم قرار دیا جس میں 1951ء کا این آر سی، 1971ء کے ووٹرلسٹ میں نام کی موجودگی، اراضیات کے حق ملکیت کا ثبوت، شہریت کا سرٹیفکیٹ یا مستقل رہائشی سرٹیفکیٹ، رفیوجی رجسٹریشن سرٹیفکیٹ، پاسپورٹ، ایل آئی سی، حکومت کی جاری کردہ کوئی بھی لائسنس، سرٹیفکیٹس، گورنمنٹ سرویس، ایمپلائمنٹ سرٹیفکیٹ، بینکس، پوسٹ آفس اکاؤنٹ، برتھ سرٹیفکیٹس بورڈ یونیورسٹی سرٹیفکیٹس، عدالتی ریکارڈ شامل ہیں۔
سپریم کورٹ نے 2014ء میں ہدایت دی تھی کہ این آر سی کو مقررہ مدت میں اَپڈیٹ کردیا جائے ساتھ ہی اس سے متعلقہ مقدمات کی سماعت و یکسوئی کے لئے دستوری بنچوں کی تشکیل کی بھی ہدایت دی تھی جس کی روشنی میں قانون شہریت 55، سٹیزن شپ رول 2013 وغیرہ سے متعلق مقدمات کی سماعت شروع ہوئی۔ 31؍دسمبر 2017ء تک کئی مقدمات کی یکسوئی ہوئی تھی۔ 30؍جولائی 2018ء کو این آر سی کی دوسری فہرست کی اجرائی کے بعد جو خوف دہشت وسوسے آسامی مسلمانوں میں پیدا ہوئے ہیں اس سے بڑے پیمانے پر ماحول کے بگڑنے کا اندیشہ ہے۔
یہ دراصل 2019ء کے الیکشن کی تیاری ہے۔ آسام اور پھر مغربی بنگال میں بی جے پی کو اپنے قدم جمانے کے لئے این آر سی کو ہتھیار بنانا ضروری ہے۔ یہ وقت آہ و بکا، ایک دوسرے پر الزام تراشی کا نہیں ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ بعض گوشوں سے آسام کے مسلم قائد بدرالدین اجمل پر تنقید کی جارہی ہے جو موجودہ حالات میں مناسب نہیں ہے۔ مسلم دشمن عناصر تو چاہتے ہی یہی ہیں کہ مسلم قیادت کمزور ہو۔ مسلمانوں کے اعتماد سے محروم ہو تاکہ ان میں انتشار پیدا کرکے وہ اپنے مقاصد میں کامیاب ہوسکے۔ یہ وقت اتحاد کا ہے۔ بیان بازی، ٹیلیویژن چیانلس پر غیر ضروری بحثوں میں الجھنے کا نہیں ہے بلکہ سپریم کورٹ جس پر ہمارا بھرپور ایقان ہے یہاں بہترین ماہرین قانون کی مدد سے اپنے حق کو حاصل کرنے کی جدوجہد کرنے کا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ مسلمان خواب غفلت سے جاگے‘ صدیوں سے وہ سویا ہوا ہے اسے اب تو اپنے ووٹ کی اہمیت کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ہوسکتا ہے کہ آنے والے برسوں میں اُن مسلمانوں کے نام بھی ووٹر لسٹ سے غائب کردےئے جائیں گے جنہوں نے پچھلے الیکشن میں اپنے ووٹ کا استعمال نہیں کیا تھا اور ان کی شہریت کو بھی چیلنج کیا جاسکتا ہے۔ سرکاری دستاویزات میں اپنے نام اندراج کرنے، ووٹر آئیڈنٹیٹی کارڈ، آدھار کارڈ مختلف لائسنس کے ذریعہ ہم کو اپنی پہچان اور ہم کو اپنی ہندوستانی حیثیت سے پہچان برقرار رکھنے کی ضرورت ہے۔