Thursday , November 21 2024
enhindiurdu

ہندوستان میں رہنا ہے… ووٹ ضرور دینا ہے

مفتی ندیم احمد، ممبئی

ملک ہونے جا رہے عام انتخابات کی تاریخ قریب ہے اس انتخاب کی اہمیت بھی کچھ زیادہ ہی ہے۔ایسے میں ہر بالغ شہری یعنی ہر ووٹر کو اور بھی زیادہ بیدار مغزی سے کام لینا ہوگا۔ انسانی سماج ومعاشرے کو منظم طور پر چلانے کے لیے حکومت وسلطنت ایک ناگزیر امر ہے۔ ہر مہذب، سماج اور معاشرہ کسی نہ کسی حکومت کے زیرِ سایہ ہی پروان چڑھتا ہے۔ حکومت و سلطنت جس قدر صلاح و فلاح کی حامل ہوتی ہے اسی قدراس کے زیرِ نگیں رہنے والی قوم میں یہ خوبیاں ابھر کر سامنے آتی ہیں۔ البتہ حکومت کس طرح وجود میں آئے یہ ایک مختلف فیہ مسئلہ ہے،جس پر گفتگو کا یہ موقع نہیں،من جملہ ان کے ایک نظام ’جمہوریت‘ہے،اسے انگریزی میں Democracyکہتے ہیں،جس کے اصل معنی ہوتے ہیں ’عوام کی حکومت‘۔ جمہوریت میں انتخابات کا دارومدار صرف بالغ رائے دہی پر ہوتا ہے اور اہلیت کی اہمیت نہیں ہوتی۔اس نظام میں ہر کس و ناکس،اہل و نااہل،خرد و مجنون ووٹ دے سکتا ہے۔آج تمام فرقہ پرست جماعتیں اسی بات کا فائدہ اٹھانے کے فراق میں ہیں۔ایسے میں ہر سیکولر بھارتی اور ہر مسلمان کو خصوصی طور پر ملک کی اخوت و بھائی چارگی کی سا لمیت بنائے رکھنے کے لیے آگے آنا ہوگا۔ان حالات میں کسی بھی سبب سے سیکولر ووٹوں کی تقسیم نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔ اس لیے کہ جمہوریت میں محض اکثریت کی بنیاد پر فیصلے ہوتے ہیں۔
بنیادی طورپر عوام پر عوامی نمائندوں کے ذریعے عوام کی حکومت کا نام جمہوریت ہے۔ حکمراں عوام کے انتخاب سے مقرر ہوتے ہیں اور وہ عوام کے سامنے اپنے افعال کے بارے میں جواب دہ بھی ہوتے ہیں۔ اسلام خاندانی بادشاہت کا قائل نہیں۔ خلیفہ کا انتخاب عام مسلمانوں کی رائے سے ہوتا ہے اور وہ اپنی عوام کے سامنے جواب دہ بھی ہوتا ہے، لیکن موجودہ جمہوریت اور اسلام کے تصورِ حکمرانی میں دو اساسی فرق ہیں؛ جمہوریت میں عوام کو ہر طرح کی قانون سازی کا حق ہوتا ہے، گویا تحلیل و تحریم کی کلید ان لوگوں کے ہاتھ میں ہوتی ہے جن کو عوام نے منتخب کیا ہے۔ اسلام کی نظر میں اصل سرچشمہئ قانون کتاب اللہ اور سنتِ رسول اللہ ہے۔ البتہ مجلسِ شوری کو انتظامی مسائل میں قانون سازی اور مشورے کا حق حاصل ہوتا ہے، یہ نہایت دوررس نظریاتی اختلاف ہے۔ دوسرے جمہوریت میں عددی اکثریت کا حاصل کرلینا حکمراں اور حکمرانی کا حصہ بننے کے لیے کافی ہے، اس کے لیے کوئی لیاقت و اہلیت ضروری نہیں۔ ہمارے ملک میں پارلیمنٹ اور اسمبلی کے متعدد ایسے ناخواندہ ارکان رہے ہیں جو اپنے دستخط بھی خود نہیں کرسکتے اور نشانِ ابہام سے کام چلاتے رہے ہیں اور اس وقت ملک کی متعدد مجالسِ قانون ساز میں ایک تہائی سے زیادہ ایسے ارکان موجودہیں جو پولیس کے نامزد سنگین مجرم ہیں۔ اسلام میں ایسی اعلیٰ ذمہ داریوں کے لیے ایک مقررہ معیار ہے، اور رائے بھی اصحابِ رائے کی معتبر ہے۔ تاہم ایک ایسا ملک جہاں مختلف قومیں اور مختلف مذاہب کے ماننے والے برابر کی سطح پر رہتے ہیں، جمہوریت ایک نعمت ہے، اور ان حالات میں اس سے بہتر کوئی نظامِ حکومت نہیں ہوسکتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ تشریف لے گئے تو وہاں مسلمان، یہودی اور مشرکین تینوں اقوام تھیں اور آپ انے ان میں یہی معاہدہ کرایا کہ یہ سب بقائے باہم کے اصول پر مدینہ میں رہیں گے۔ ہر ایک کو اپنے مذہب پر چلنے کی آزادی ہوگی اور مدینے پر کوئی حملہ آور ہو تو سب مل کر دفاع کریں گے۔ ہندستان اور ان جیسے ممالک میں دراصل اسی اصول پر ہم باہم مل جل کر رہ رہے ہیں۔(ملخصاً از کتاب الفتاویٰ)
یہ بات بھی اب ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ کوئی بھی سیاسی پارٹی مسلمانوں کے حق میں پورے طور پر مخلص نہیں ہے، ہر ایک کے دورِ اقتدار میں مسلمانوں کو ناقابلِ تلافی جانی‘ مالی نقصان برداشت کرنا پڑا ہے۔ اقتصادیات میں مسلمانوں کو اتنا پیچھے ڈھکیل دیا گیا ہے کہ سچر کمیٹی رپورٹ کے مطابق’مجموعی طور پر مسلمان ہندوستان کی سب سے پس ماندہ ذات ہے‘۔ان سب کے نزدیک مسلمانوں کی حیثیت اس سے زیادہ نہیں کہ ان کے تعاون سے حکومت بنالینے کے بعد انھیں چوسے ہوئے آم کی طرح پھینک دیا جاتا ہے۔ بہت سی جگہوں پر الیکشن لڑنے والے تقریباً تمام امید وار نا اہل ہوتے ہیں اور فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ ووٹ کس کو دیں۔ مذہب کو بنیاد بنا کر ووٹ دیا جائے تو بسا اوقات مسلم امید وار،غیر مسلم امیدوار سے زیادہ مفسد اور خطرناک ہوتا ہے اور اگر پارٹی کو وجہِ ترجیح قرار دیا جائے تو کبھی کوئی فاشسٹ اور فرقہ پرست پارٹی کا امیدوارتمام پارٹیوں کے امیدواروں کے بالمقابل زیادہ لائق، محنتی، ذمہ دار،عوام دوست ہوتا ہے۔پھر انتخابات میں ہر قسم کی دھاندلیاں بے حد وحساب ہوتی ہیں،بلکہ موجودہ دور میں تو عروج پر ہیں۔مثلاًروپے تقسیم کرکے ووٹ حاصل کرنا۔فریقِ مخالف امیدوار کو بڑی رقم دے کربٹھا دینا بلکہ بعض تو ایسی رقم حاصل کرنے کیلئے ہی امیدوار بن کر کھڑے ہوتے ہیں۔ الزام تراشیاں، بہتان طرازیاں بھی معمولی بات ہے۔
ہم ایک ایسے ملک میں رہتے ہیں جہاں مسلمانوں کی آبادی دوسری سب سے بڑی آبادی ہے، یہاں دو ہی صورتیں ہیں:(۱)یا تو ملک’ہندو راشٹر‘ بن جائے (۲)یا جمہوری نظام باقی رہے۔پہلی صورت نہایت خطرناک ہے، اس میں نہ ہمارے عائلی قوانین محفوظ رہ سکیں گے،نہ ہمیں تبلیغِ مذہب کی اجازت ہوگی۔نیز جو بھی شرعی قانون ہندو نظریہ سے متصادم ہوگا، ا علانیہ ممنوع ٹھہرے گا۔ایسی صورت میں مسلمانوں کے لیے آنے والی نسلوں کی حفاظت بہت دشوار ہو جائے گی۔
دوسری صورت نظامِ جمہوریت ہے،جو نسبتاً کم خراب ہے۔کیوں کہ جب حکومت کا اپنا کوئی مذہب نہیں ہوگا اور عوام کو قانون سازی کا کام دیا جائے گا اور ہم بھی عوام کا ایک حصہ ہوں گے تو ہم قانونِ شریعت کو قائم رکھنے کی کوشش کریں گے۔گویا یہ دو مصیبتوں میں سے کم تر درجے کی مصیبت ہے اور قاعدہ یہی ہے کہ جہاں دو شر ہوں،وہاں کم تر درجے کے شر کو قبول کیا جائے۔اس لیے موجودہ حالات میں مسلمانوں کو شرعی احکام کی پابندی کرتے ہوئے لائق،اہل،محنتی،عوام دوست،قوم کا خیر خواہ،غیر متعصب،جس کی ذہنیت فرقہ پرستی سے آلودہ نہ ہو،جو ہمارے حقوق کے تحفظ میں معاون بن سکتا ہو ایسے اوصاف کے حامل امیدوار کو کامیاب کرنے کیلئے ضرور ووٹ دینا چاہئے اور اس میں ہرگز کوتاہی نہیں کرنی چاہئے۔
جو لوگ اس جھنجھٹ میں پڑنے کو وقت کا ضیاع سمجھتے ہیں، وہ سمجھ لیں کہ یہ وقت کا ضیاع نہیں بلکہ آپ کا جمہوری حق اور ذمہ داری ہے۔ اگر آپ سیاست کے میدان کو گندا تالاب مانتے ہیں اور اس کی صفائی کی فکر نہیں کرتے وہ گندگی کے گھروں تک پہنچنے کا انتظار کریں۔مسلمانوں کے ذمے تو شرعی طور پر بھی یہ فریضہ عائد ہوتا ہے کہ وہ ظالم کو ظلم سے روکیں۔رسول اللہ ا نے ارشاد فرمایا:اگر لوگ ظالم کو دیکھ کر اس کا ہاتھ نہ پکڑیں تو کچھ بعید نہیں کہ اللہ تعالیٰ ان سب پر اپنا عذاب نازل فرمائے۔ (جمع الفوائد)اس لیے اپنے ووٹ کو سستی یا کاہلی وغیرہ کے سبب ضائع کرنا یا کسی مفاد کے سبب صحیح استعمال نہ کرناشرعاً ناجائز اور گناہ ہے۔
شرعی نقطہئ نظر سے ووٹ کی حیثیت شہادت اور گواہی کی سی ہے اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:اور تم گواہی کو نہ چھپاؤ، جو شخص گواہی کو چھپائے، اس کا دل گنہ گار ہے۔(البقرہ)رسول اللہ انے ارشاد فرمایا:جس کو شہادت کے لیے بلایا جائے پھر وہ اسے چھپائے، تو وہ ایساہے جیسے جھوٹی گواہی دینے والا۔(جمع الفوائد) اس طرح غور کریں تو ووٹ محض دنیوی معاملہ نہیں، بلکہ ہمارا جمہوری حق اور شرعی ذمہ داری ہے، جسے ضائع ہونے سے بچانا ہم پر واجب ہے۔

About Gawah News Desk

Leave a Reply