از: پروفیسر مجیدبیدار
سابق صدرشعبہ اردوجامعہ عثمانیہ‘ حیدرآباد
دنیاکی یہ حقیقت ہے کہ محنت اور جستجو کادامن تھامنے سے نہ صرف انسانوں کو سربلندی عطا ہوتی ہے بلکہ انہیں قدرت سے حاصل ہونے والی نعمتوں کے بارے میں وہم و گمان بھی نہیں ہوتا کہ وہ انسان کو کس بلندی پر پہنچادے گی۔ دنیا کے تمام معاملات پر غور کیا جاتا ہے تو پتہ چلتاہے کہ اللہ تعالیٰ عطا کرنے پر آئے تو بے حساب عطا کرتے ہیں۔ اس قسم کی عملی صورت گری پروفیسر غیاث متین کی شخصیت کاحصہ تھی‘ جو نہ صرف روحانیات کے تابع تھے بلکہ حد درجہ ہمدردی اور انکساری کے رویہ کے ساتھ اپنے سادات ہونے کا بھرپور ثبوت پیش کرتے تھے۔ انہیں مشہور و معروف ترقی پسند افسانہ اور ناول نگار عاتق شاہ کے بھانجے ہونے کا شرف حاصل تھا۔ بلاشبہ انہیں ذات میں انجمن ہونے اور گفتگو سے لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کرلینے کا ہنرخوب آتاتھا۔ چنانچہ جب جماعت میں غزل کی تدریس میں مصروف ہوتے تو ان کے تدریسی انداز سے ہر طالب علم ہمہ تن گوش نظر آتا تھا۔ اِن تمام صلاحیتوں کااجتماع پروفیسر غیاث متین کی شخصیت میں موجود تھا۔ وہ خوش قسمت اس لئے قرار دیئے جاتے ہیں کہ ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کئے بغیر انہیں یونیورسٹی کی پروفیسرشپ کا اعزاز حاصل ہوا۔ ایک مقامی خانگی مدرسہ ڈائزلنگ ہائی اسکول کے مدرس اور پھرمحبوبیہ کالج سکندرآباد میں لکچرر مقرر ہونے کے بعد جامعہ عثمانیہ کے ریڈراور پروفیسرکی حیثیت سے شہرت کے حامل قرار پائے۔ بلاشبہ ان کی شاعری میں موجود جدیدیت پسندی کے انداز کو عوامی سطح پر مقبولیت حاصل نہیں ہوئی لیکن ان کی شناخت حیدرآباد کے جدید غزل گو شاعر کی حیثیت سے اعتبار کی حامل ہوتی۔ انہوں نے ساری زندگی شاعر کی حیثیت سے شہرت حاصل کی اوراردو کے پروفیسرکی حیثیت سے شاعری کی تدریس میں نمایاں مقام پیدا کیا۔
بلاشبہ غیاث متین کے ہر رویے میں عقیدت اور فرض شناسی کا جذبہ شامل رہتاتھا۔ جس طرح انہیں جامعہ عثمانیہ سے وابستگی کا موقع ملا اُسی طرح اردو کے مایہ ناز شاعر کی حیثیت سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کئے بغیر راست پروفیسرشپ پر فائز ہونے کا موقع مل گیا۔ عقیدتوں میں ڈوبے ہوئے سید غیاث الدین اگرچہ شاعر کی حیثیت سے عزت سادات سے وابستہ رہنے کا موقف حاصل کیا۔غیاث متین لیکن ان کے عقیدت کے خدمات میں کسی قسم کی کمی نہیں آئی۔ عقیدت شناسی اور فرض کی ادائیگی میں وہ اس قدر غرق رہتے تھے کہ خدا کی نعمتوں کے شکرگزار ہونے کے ساتھ ساتھ خدا کے برگزیدہ بندوں کے تصرفات سے بھی فیضیاب ہوتے تھے۔ چنانچہ ان کا ہمیشہ کاشعار یہی رہا کہ یونیورسٹی کے احاطہ میں داخل ہوتے ہی اپنے کیبن کے دروازے کے قفل کو کھولنے سے پہلے شہادت کی انگلی سے کچھ آیتیں درج کرتے اور کچھ پڑھ کر دروازہ کھولتے‘ اور واپسی کے دوران ان کا یہی آیتوں کو قفل پرلکھنامعمول ہوتا تھا۔ سب سے اہم بات تو یہی ہے کہ پہلی تاریخ کو اپنی تنخواہ حاصل کرنے کے بعد اس رقم سے ایک پیسہ بھی خرچ نہیں کرتے تھے اور یونیورسٹی سے سیدھے سردار بیگ صاحب قبلہؒ کی درگاہ پہنچ کر آستانہ میں فاتحہ گزران دیتے اور رقم کو حضرت کی مزار کے سرہانے غلاف کے نیچے رکھ کر دعائیں پڑھتے پھر اس کے بعد اس رقم کو خرچ کیا کرتے تھے۔ اکثر تنخواہ حاصل کرنے کے بعد ستانے کے لئے پروفیسر بیگ احساس ان سے چائے پلانے یا ریفرشمنٹ کے لیے تنخواہ سے خرچ کرنے کا تقاضہ کرتے مگروہ بارگاہ سردار بیگ میں پہنچانے سے پہلے تنخواہ کوخرچ کرنا معیوب تصور کرتے تھے۔ چنانچہ اپنے احباب سے کہہ دیتے کہ ضیافت کا کام ضروروہ انجام دیں گے لیکن بل کوئی دوست ادا کردے۔ دوسرے دن ان کو رقم لوٹادیا کرتے تھے۔ ان کے ہرماہ کی پہلی تاریخ کی آمد سے اندازہ ہوتا ہے کہ غیاث متین کو بزرگان دین سے بڑی عقیدت رہی‘ جس کا مظاہرہ رہاکہ مشاہرے کو بزرگ کی بارگاہ میں پیش کرنے کے بعدذاتی خرچ پر توجہ دیتے تھے۔ وہ نہ صرف خوش فکر اور خوش خوراک انسان تھے‘ بلکہ ضیافتوں کے اہتمام پر بھی خصوصی توجہ دیتے تھے۔ ضیافت کی منصوبہ بندی اور اس کی تکمیل تک تمام ذمہ داریوں کو بذات خود نبھانا ان کی فطرت میں شامل تھا۔ بلاشبہ انہوں نے انسانیت دوستی کے ناطے بیشمار افراد سے رابطے رکھے۔ انہوں نے ترقی پسندی کے بجائے جدیدیت کی راہ کو اختیار کیا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ حیدرآباد میں ترقی پسندوں کے بعد جدیدیت پسند افراد کی جس انجمن کا قیام عمل میں لایا گیا اُس انجمن کو ”حیدرآباد لٹریری فورم“ کی حیثیت سے شہرت حاصل ہوئی۔ جسے عرف عام میں ”حلف“ کے نام سے یاد کیا جاتا تھا۔ غیاث متین ہی نہیں‘ بلکہ دیگرکئی ترقی پسند شاعروں نے اس نئی انجمن سے اپنا رشتہ جوڑ لیا۔ جن میں مظہرمہدی‘ حسن فرخ اور بیگ احساس کے علاوہ دیگر کئی حیدرآبادی شاعروں اور ادیبوں نے حلف کا ساتھ نبھایا جہاں وقفہ وقفہ سے سمینار اور تخلیقات اور شاعری پرمحاکمے منعقد ہوا کرتے تھے۔ جن میں کوئی شاعر اپنا کلام پیش کرتا اور عام طور پر اس کے کلام کی زیراکس سامعین کے حوالے کردی جاتی تھیں‘ پھر اس پر بحث و مباحثہ کا آغاز کرنے کے علاوہ مشاعروں کا انعقاد بھی عمل میں لایا جاتا تھا۔ غیاث متین کی فطرت یہ تھی کہ وہ کسی کو مجبور نہیں کرتے تھے اور کسی کے سخت خلاف اقدام بھی نہیں اٹھائے تھے۔ لیکن جب سادات کو غصہ آتا تو اسے تھامنا سخت دشوار ہوتاتھا۔ کبھی غصہ میں نہ آنا ان کی فطرت میں داخل تھا اور غصے میں آتے تو پھر ہر قسم کے بدلے کی تدبیر اختیار کرتے تھے۔ بنیادی طور پر سچائی پسند تھے۔ اس لئے کوئی بھی ناحق کام ہو‘ یا سچائی کے خلاف کاروائی کی جائے تو اس پر بازپرس ان کی فطرت ثانیہ تھی۔ یہی وجہ رہی کہ جب اسٹیٹ سنٹرل لائبریری کے کتب خانے سے ان کے شعری مجموعے ”دھوپ، دیواریں، سمندر، آئینہ“ کے چند نسخے خریدنے کا اعلامیہ جاری ہوا۔ اور ان کے برادرِ نسبتی کی کتاب ”شاخ زیتون“ کے کئی نسخے خریدے گئے۔ تو سادات کے غصے میں اضافہ بلاشبہ فطرت کے عین مطابق تھا۔ چنانچہ انہوں نے لائبریری کے ڈائرکٹر سے ملاقات کی۔ اور اپنا عندیہ بیان کیا۔ جب لائبریری کے اردو کے شعبے کے سربراہ سے پوچھا گیا تو انہوں نے یہ دلیل پیش کی کہ غیاث متین شاعر ہیں‘ اور ان کی شاعری کی کتابیں کم خریدی گئیں جبکہ ”شاخ زیتون“ کا تعلق یونانی طب سے ہے۔ اس لئے اس کے زائد نسخے کتب خانے میں خریدنے کا اہتمام کیاگیا۔ حالانکہ شاخ زیتون بھی شعری مجموعہ تھا۔ وہ اپنے غصے کو پی کر اردو والوں کی کم علمی پر افسوس کرتے ہوئے لائبریری کے ڈائرکٹر کے کیبن سے واپس ہوگئے۔ غیاث متین جیسے سادات کے غصہ کی اہم مثال واضح کردی گئی ہے۔
پروفیسر غیاث متین کو علم عروض کی ریاضت حاصل تھی اور شاعری کے نکات سے واقفیت کے علاوہ شعری آہنگ کی بلندی اور پستی کو بھی محسوس کرتے تھے۔ یہی وجہ رہی کہ انہوں نے اپنی غزل کو علامہ اقبال کی غزل کے نرم آہنگ کے بجائے سراج اورنگ آبادی کی غزل کے بلند آہنگ کی خصوصیت سے آراستہ کرکے پیش کیا۔ جس سے شعر کے فن اور شاعری کے امکانات سے ان کی دلچسپی کا ثبوت ملتاہے۔
یونیورسٹی میں طلبہ کو درس دینے کے دوران بطور خاص شاعری کی تدریس کو پروفیسر غیاث متین نے خصوصی اہمیت کا حامل بنادیا تھا۔ اگرچہ وہ مختلف اصناف کی تدریس سے دلچسپی رکھتے تھے‘ لیکن شاعری کی تدریس پر انہیں حد درجہ کمال حاصل تھا۔ عام طور پر جسے ڈوب کر پڑھانا کہا جاتا ہے وہ کیفیت ان کی تدریس کے دوران محسوس کی جاسکتی تھی۔ شعر کی ادائیگی سے لے کر اس کی تفہیم اور پھر باضابطہ تشریح کا انداز اس قدر جداگانہ ہواکرتا تھا کہ جس کی وجہ سے طلبہ میں شعر گوئی سے دلچسپی پیدا ہوجانا فطری بات تھی۔ یہ دور ہی ایسا تھی جبکہ طالب علموں کو شاعری سے کم اور نثر سے زیادہ رغبت تھی۔ چنانچہ وہ تحقیق کے لئے بھی نثری موضوعات پر توجہ دیتے تھے‘لیکن جس طالب علم نے غیاث متین کی تدریس سے استفادہ کیا‘ بلاشبہ اسے شاعری سے دلچسپی کا شعور پیدا ہونا لازمی ہوجاتا ہے۔ غرض اپنے پیشے سے مکمل انصاف کرتے ہوئے غیاث متین نے عثمانیہ یونیورسٹی کے شعبہ اردو کو نمائندہ شعری تدریس سے شہرت کی بلندیاں حاصل کرلیں۔ یہ بھی ایک عجیب بات ہے کہ بیشمار صلاحیتوں کے مالک اور صحیح مشورے دینے کے ساتھ ساتھ دوسروں کی غلطیوں کو معاف کردینے والے غیاث متین اگر کسی سے دشمنی مول لیتے تو پھر ہمیشہ کے لئے دشمنی کا سلسلہ جاری رکھتے تھے۔ شعبہ اردو میں جس انداز سے پروفیسر اکبرعلی بیگ اور ان کے ہمنواؤں سے چشمک کا سلسلہ جاری رہا۔ وہ آخری دم تک بھی قائم رہا۔ اسی طرح حیدرآباد کے ایک اہم اخبار سے وابستہ شاعر اور اس کی مخالفت کے نتیجہ میں غیاث متین نے کسی وقت بھی اپنے رویے میں تبدیلی نہیں لائی۔ اگرچہ انہیں سید اور جمالیہونے کا وصف حاصل تھا لیکن بعض اوقات جب وہ جلالی سید بن جاتے تو پھر ان کے جلال کا مقابلہ کرنا دشوار ہوجاتا تھا۔ دوستی نبھانا ا ور دوستی کی قدر کرنا ان کی فطرت کاحصہ تھی۔ یہی نہیں بلکہ کم عمروں سے بھی دوستی کرتے اور ہم عمروں کے علاوہ معمر حضرات سے بھی دوستی کا حق نبھانا ان کا وصف تھا۔ شعر پڑھنے کا انداز بھی حد درجہ شاعرانہ تھا۔ جس وقت ویمنس کالج میں مشاعرہ منعقد ہوااور پروفیسر مغنی تبسم کی صدارت میں دربار ہال میں مشاعرہ کی سرگرمیاں جاری رہیں تو دربار ہال کی خوبصورتی میں مزید اضافہ اس وقت ہوگیا‘ جب کہ غیاث متین نے تحت میں غزل سناکر لوگوں کا دل موہ لیا۔ لازمی طور پر ان کی شاعری میں ترقی پسند عناصر کے ساتھ ساتھ جدیدیت کے عناصر بھی کارفرما رہے۔ عملی زندگی میں انہوں نے کبھی جدیدیت کی نمائندگی نہیں کی۔ سچے سادات تھے‘ اس لئے ہمیشہ عقیدت پسندی اور سعادت مندی اختیار کرتے ہوئے زندگی گزاردی۔ ان کی ادبی سرگرمیوں کا دائرہ وسیع نہیں تھا۔ مخصوص مشاعروں میں شرکت کرتے اور خاص محفلوں میں ہی کلام سنایا کرتے تھے۔انہیں کلام سنانے کا شوق نہیں تھا‘ جیسا کہ عام طور پر شاعروں میں ایساوصف ہوتا ہے کہ وہ شعر سنائے بغیر اطمینان محسوس نہیں کرتے‘ لیکن غیاث متین کو کبھی اس قسم کے شاعر ہونے پر فخر نہیں تھا اور نہ ہی وہ کسی مرحلے میں ایسے رویوں کے حامل ہوتے کہ جس کی وجہ سے پتہ چل جائے کہ ایک شاعر سے سابقہ پڑا ہے۔ البتہ شاعری میں روایتی لفظیات اور پرانے خیالات کو پیش کرنے کے علاوہ جمالیاتی احساس کے پس منظر میں جدید غزلوں کو سنوارنے اور سجانے کا کام انجام دیتے تھے۔ ان کی ایک مشہور غزل میں جمالیاتی احساس اس قدر شامل ہے کہ انہوں نے موسم باراں کی خصوصیت کو ظاہر کرنے کے لئے اپنے مصرعہ میں ”دونوں مل کر بھیگیں گے“ کی روایت کے توسط سے احساس دلایا ہے کہ عالمی سطح پر زندگی کی شدت اور سرگرمی کا تمام تر تعلق مرد اور عورت کی ازدواجی زندگی میں ہی پوشیدہ ہے۔ حالات اور مسائل کی شاعری سے زیادہ غیاث متین نے انسانی زندگی اور اس کی کج روی کو اشعار میں ڈھالنے کا کام انجام دیا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی غزلوں میں نغمگی اور احساس کی گرمی کے بجائے زندگی کی بدلتی ہوئی کیفیت اور بے بسی اور مجبوری کے بجائے نئے ماحول کی تلاش کا خصوصی وصف دکھائی دیتا ہے۔ غرض غیاث متین نے اپنے شعری رویے میں رومانیت، روایت، ترقی پسندی اور جدیدیت کے تصورات کو نمائندگی دینے کی کوشش کی۔ البتہ حسن و عشق کی سرگرمی اور تغزل کی ریشہ دوانی ان کے کلام کا حصہ نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہی ہوسکتی ہے کہ غیاث متین نے زندگی کی حقیقتوں کو قبول کیا تھا اور زندگی میں بیشمار مسائل سے گزرتے ہوئے جامعہ عثمانیہ کی ملازمت سے وابستہ ہوئے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ وہ ہرمرحلے میں احتیاط برتتے تھے۔ سرمایہ خرچ کرنے کے معاملے میں بھی حد درجہ محتاط تھے۔ ان کے دوسرے ساتھیوں نے سرمایہ کا استعمال کرکے تونگری حاصل کی۔ لیکن غیاث متین نے شائد ابتداء میں معیاری زندگی گزاری ہوگی چنانچہ اُسی معیار پر قائم رہے۔ انہیں دعوتیں کھلانے اور دعوتوں کو منظم کرنے کا بڑا شوق تھا۔ یہی وجہ ہے کہ یونیورسٹی کے اساتذہ کے علاوہ اپنے خاص اساتذہ کے ساتھ دعوتیں دینا اور دعوتیں کھلانا ان کا محبوب مشغلہ تھا۔ غرض اپنی زندگی کے متوازن وقت کے ساتھ کام کرتے رہے۔ شوگر کے قدیم مریض تھے۔ لیکن احتیاط ان کی فطرت کا حصہ نہیں تھی۔ کئی مرتبہ شوگر کی وجہ سے مزاج خراب رہا لیکن پرہیز کو کبھی قریب آنے نہیں دیا۔ غرض اسی مرض نے انہیں دواخانے کی سیڑھیوں تک پہنچادیا۔ ورنہ کسی وقت بھی ان کو کسی نے بیمار ہوتے نہیں دیکھا۔ شوگر کے مرض نے ان کے جسم کو کھوکھلا کردیا تھا لیکن اپنی شاعری اور اقدار کو انہوں نے کبھی کھوکھلا ہونے نہیں دیا۔ غرض غیاث متین نے دواخانہ میں شریک ہوکر علاج کے دوران اس دارِ فانی سے کوچ کیا۔ وہ بذات خود شاعر ہی نہیں تھے‘ بلکہ ان کے تمام برادر نسبتی بھی اچھے شاعر کی حیثیت سے حیدرآباد میں شہرت رکھتے ہیں۔ غرض حیدرآباد کے علاقہ منیارپٹی (چادرگھاٹ) کے علاقہ میں 10/نومبر 1942ء کو پیدا ہونے والے سید غیاث الدین نے 21/اگست 2007ء کو اس دنیا سے کوچ کیا۔ ان کے دو شعری مجموعے ”زینہ زینہ راکھ“ 1980ء میں اور دوسرا شعری مجموعہ ”دھوپ، دیواریں، سمندر، آئینہ“ 1993ء میں شائع ہوئے۔ تدریس میں خصوصی دلچسپی کے نتیجہ میں جامعہ عثمانیہ کے فاصلاتی تعلیم کی ”خود تدریسی کتابوں“ میں نہ صرف ان کے تحقیقی و تنقیدی مضامین شامل ہیں‘ بلکہ ”اردو تنقید“ جیسی کتاب کے مدیر کی حیثیت سے انہوں نے ثابت کیا کہ شاعرانہ مزاج اور شاعری سے دلچسپی کے باوجود ان میں نثر لکھنے اور تحقیقی و تنقیدی نثر کو طلبہ کی ضرورت کے مطابق پیش کرنے کا خصوصی وصف موجود تھا۔ غرض ساری زندگی حد درجہ سادگی سے گزاردی۔ کسی وقت بھی کسی کے احسان کو قبول کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ یہی وجہ تھی کہ غیاث متین کے رویے کو ہر طالب علم پسند کرتا اور ان کے تدریسی رویہ پر کبھی شاکی نہیں ہوتا تھا۔ غرض حیدرآباد کی سرزمین سے جدید شاعری کو فروغ دینے والے اور جدید نظریات سے شعری افکار کو سنوارنے والے ایک شخص کا گزر جانا بلاشبہ اردو شاعری کے لئے حیدرآبادی ادیبوں کیلئے بہت بڑا نقصان کا پیش خیمہ۔ غرض غیاث تین نے ساری زندگی خودداری کے ساتھ گزاری۔ چنانچہ اپنے خاندان کی کفالت کے ساتھ ساتھ بیٹوں اور بیٹیوں کو بھی اعلیٰ تعلیم سے آراستہ کیا۔ کسی انسان کے لئے یہی کیا کم ہے کہ اس نے اس دنیا میں نام کمایا اور اپنی اولادوں کو علم و فن سے آراستہ کیا۔ اسی کامیابی کے ساتھ غیاث متین نے ہمیشہ کے لئے دنیا سے منہ موڑ لیا‘ لیکن ان کے کارنامے ہمیشہ یادگار کا درجہ رکھتے ہیں۔
Check Also
Telangana Family Digital Cards Pilot Project Begins Today: All You Need to Know
The Telangana Government has launched a pilot project for issuing Family Digital Cards (FDC) to …
CM Revanth Reddy Calls for Unity and Secularism at ‘Prophet for the World’ Book Launch
Hyderabad, September 14: Telangana Chief Minister A. Revanth Reddy stressed the need for unity and …