Monday , April 29 2024
enhindiurdu

کمزورمرد…خلع…سماجی بگاڑ

ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز

ایک ہفتہ پرانی بات ہے… میرے ایک عزیز کی بیٹی نے جس کی دو مہینے پہلے بڑی دھوم دھام سے شادی ہوئی تھی‘ اپنے شوہر سے خلع لے لیا۔ میرے لئے یہ خبر انتہائی افسوسناک تھی‘ کیوں کہ یہ ایک یتیم لڑکی تھی جس کی اس کے بھائی نے خلیج ملک میں خون پسینے کی کمائی سے شادی کی تھی۔ پتہ چلا کہ شوہر صرف نام کا ہے‘ کسی کام کا نہیں۔ شادی کے دو مہینے گزرنے کے باوجود بھی یہ دلہن ایک اَن بیاہی لڑکی کی طرح زندگی گزارتی رہی۔ ماہر امراض مردانہ سے رجوع ہوئے۔ مختلف ٹسٹس کئے گئے جس کے مطابق 25سالہ نوجوان کی جسمانی صحت 65سالہ شخص کی طرح ہے۔ اور یہ قابل علاج نہیں ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ لڑکی اپنی زندگی تو برباد نہیں کرسکتی۔ خلع لے کر ایک نئی زندگی کی شروعات کرسکتی ہے۔ تاہم معاملہ جب عقد ثانی کا ہوتا ہے تو وجوہات چاہے کچھ بھی رہے لڑکی کی قدر و قیمت کم ہوجاتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب لڑکے کو اپنی اصلیت و حقیقت پوری طرح سے معلوم تھی تو اس نے کیوں اپنے خاندان کو بھی رسوا کیا اور دوسرے خاندان کو بھی تباہ و برباد کیا۔
آج کا دور ایسا تو نہیں کہ لڑکیاں اپنے شوہر کی کمزوری کی پردہ پوشی کرتے ہوئے اپنی ساری زندگی چپکے چپکے آنسو بہاکر گزار دیں گی۔ ویسے بھی یہ ظلم بھی ہے اور جرم بھی ہے۔ جس کے لئے سزاوار نہ صرف لڑکے بلکہ اس کے ارکان خاندان بھی ہیں۔ کیوں کہ اس قسم کے لڑکوں کے طور طریقے، عادات و اطوار، ان کے طرز عمل دوسرے لڑکوں سے جداگانہ ہوتا ہے۔ اور والدین سے پوشیدہ نہیں رہتا۔ اگر والدین یا خاندان کا کوئی بھی فرد اس حقیقت کو جانتے ہیں تو اس کا علاج کرتے ہیں تو نہ صرف اس لڑکے پر بلکہ خود اپنے آپ پر احسان کرتے ہیں۔ اگر اسے نظر انداز کردیتے ہیں اور جان بوجھ کر شادی کے لئے مجبور کرتے ہیں تو یہ گناہ کرتے ہیں۔ یہیں سے خاندان میں اختلافات، تلخیاں پیدا ہوتی ہیں اور بسا اوقات سماجی بے راہ روی کا سبب بنتی ہے۔
چوں کہ مسلم معاشرہ اخلاقی اقدار اور روایات کا پابند ہوتا ہے‘ جبکہ بعض اقوام ”تو نہیں تو کوئی اور سہی“ کے فارمولے پر عمل پیرا رہتے ہیں۔ اور معاشرتی بے راہ روی کو پروان چڑھاتے ہیں۔ جب مسلم معاشرہ میں ایسے واقفات ہوتے ہیں تو بات قتل و غارت گری تک پہنچ جاتی ہے۔
شادی شدہ زندگی میں شوہر کی ناکامی کوئی نئی یا تعجب کی بات نہیں۔ مختلف امراض کی وجہ سے بھی اس کی جنسی صحت متاثر ہوتی ہے۔ کبھی تفکرات، نفسیاتی مسائل تو کبھی ذیابطیس، بی پی اور دوسرے امراض ازدواجی زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ عام طور پر مرد حضرات اپنی کمزوری کا علاج کرنا بھی معیوب سمجھتے ہیں۔ شرماتے ہیں اور ڈاکٹر یا حکیم سے رجوع ہونے سے گریز کرتے ہیں جو دانشمند ہیں جنہیں اپنی زندگی خوشحال اور آسودگی کے ساتھ گزارتی ہے تو بروقت تشخیص اور علاج پر توجہ دیتے ہیں۔ مردانہ کمزوری دو قسم کی ہوسکتی ہے۔ ایک قابل علاج اور دوسرا ناقابل علاج۔ تجربہ کار خواتین (دائی) پہچان لیتی ہیں کہ بچہ پیدائشی طور پر نااہل ہے یا نہیں۔
عام طور پر نوکرانیوں کی گود میں پلنے والے بچے مردانہ صفات سے بہت جلد محروم ہوجاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر راجہ، بادشاہ، شہزادے نوجوانی ہی میں نااہل ہوگئے۔ واجد علی شاہ کے بارے میں کہیں پڑھا تھا کہ یہ اٹھارہ برس کی عمر میں شادی کے قابل نہ رہا تھا۔ ہم نے بڑوں سے یہ بھی سنا ہے کہ خود ہمارے اپنے وطن کے کئی نام نہاد خاندانوں کی لڑکیاں رکشہ، ٹانگے والوں یا گھر کے نوکروں کے ساتھ محلوں، دیوڑھیوں اور بنگلوں سے فرار ہوجاتی تھیں‘ کیوں کہ ان شہزادے، نوابوں اور امراء کو عیش و عشرت سے فرصت نہیں ملتی اور ان کی اولاد کی نہ تو صورت ان سے ملتی نہ بلڈ گروپ….
روس کے آخری شاہی خاندان کے بارے میں آپ نے پڑھا ہوگا۔ بادشاہ سلامت ”اوئی ماں کا پنڈو“ تھے اور ملکہ پر راسپوتین کا قبضہ تھا۔ اور راسپوتین ہی روس کا اصل حاکم بن گیا تھا۔ آج بھی بڑے گھروں کا یہی حال ہے۔
بہرحال! اگر لڑکے کمزور ہیں‘ پڑھے لکھے ہیں تو آج کل انٹرنیٹ پر اپنا علاج کس سے کروایا جائے‘ کس ڈاکٹر سے ربط پیدا کیا جائے‘ جانتے ہیں۔ ہاں حالیہ عرصہ کے دوران مردانہ کمزوری کی ایک وجہ انٹرنیٹ، سوشیل میڈیا بھی ہے۔ کمسن بچے بھی، نو عمر لڑکے بھی اس کے عادی ہوکر اپنی صحت برباد کررہے ہیں۔
ہندوستان کے ایک ماہر امراض جنسیات ڈاکٹر چراغی جنہوں نے انسٹی ٹیوٹ آف اینڈرالوجی سیکسول ہیلت (IASH) قائم کیا‘ بتایا کہ ہندوستان نامردوں کا دارالحکومت بنتا جارہا ہے۔ حیرت اور اتفاق کی بات ہے کہ 1997ء میں میں نے رہنمائے دکن کے مسلم شفاخانہ نمبر کے لئے عوامی دواخانہ کے بانی ڈاکٹر احمد اشرف کا ایک انٹرویو لیا تھا جس میں انہوں نے اپنے جواب میں بتایا تھا کہ آزادیئ ہند سے چند سال پہلے ملک کے عظیم المرتبت طبیب فصیح الملک حکیم اجمل خان نے ایک کانفرنس طلب کی تھی جس میں ملک کے مختلف مقامات سے سرکردہ اطبائے کرام شریک ہوئے تھے۔ اس نشست میں جس کی حیثیت ایک بورڈ سی تھی‘ مختلف گوشوں پر غور کیا گیا اس کے ساتھ ساتھ امور جنسیہ کا بھی جائزہ لیا گیا تھا کانفرنس کے اختتام کے بعد یہ خبر شائع ہوئی کہ ہندوستان کے 90فیصد مر‘ نامرد ہیں۔ یہ اس دور کی بات ہے جب اعلیٰ قسم کے مغذیات سستے دام میں تھے۔ مخرب اخلاق محاذ نہیں تھے۔ سنیما تعلیمو تربیت کا اعلیٰ معیار تھا اس کے باوجود 90فیصد مرد‘ نامرد۔ بات سمجھ میں نہیں آئی مگر نامرد جسمانی معنی میں نہیں‘ بلکہ اس معاملے میں نامرد تھے کہ وہ مدمقابل کو آسودگی بخشنے میں ناکام رہے۔ ان میں بعض کو قدرتی نقص تھا۔ بعض خود اس کیلئے ذمہ دار تھے۔
آج کے دور میں ایک سروے کے مطابق دس میں سے ایک‘ ایک سو میں سے 25 مرد جن کی عمر 30برس ہے‘ جنسی طور پر کمزور ہیں۔ جبکہ شہری علاقوں میں 20سال سے کم عمر نوجوانوں کی اکثریت جنسی طور پر بے حد کمزور ہے۔ ڈاکٹر چراغی ایسے مریضوں کا ان کے لائف اسٹائل میں تبدیلی کے علاوہ Shock wave therapy، Testa Magnetic & stimulation therapy سے علاج کرتے ہیں۔
ڈاکٹر سدھاکر کرشنا مورتی جو حیدرآباد کے مشہور ماہر مردانہ امراض ہیں‘ ان کا کہنا ہے کہ صحیح تشخیص، آدھا علاج ہے۔ عام طور پر مرد حضرات، شرماکر ڈاکٹر سے رجوع ہونے کی بجائے ٹی وی اور اخباری اشتہارات‘ پر یقین کرکے ایسی ڈرگس لینے لگتے ہیں جس سے وقتی طور پر انہیں فائدہ ہوتا ہے مگر آگے چل کر انہیں کئی اور عوارض لاحق ہوسکتے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ایلوپیتھی نے بہت ترقی کی‘ اس وقت کمزور مردوں کے علاج کے لئے Penile implantation کا طریقہ بھی رائج ہے۔ جس طرح دل کے لئے پیس میکر کام کرتا ہے‘ یہ بھی اسی طرح کام کرتا ہے۔ مگر یہ جوکھم بھرا علاج ہے۔ ایلوپیتھی علاج سے فائدہ وقتی اور نقصان ہمہ وقتی ہوتا ہے ایسا عام تاثر ہے۔ مردانہ امراض کے لئے دیسی علاج کو موثر اور قابل بھروسہ سمجھا جاتا ہے۔ یونانی، آیورویدک اور ہومیوپیتھی علاج سے نقصان نہیں ہوتا۔ یہ اور بات ہے کہ ان ادویات کا اثر دیر سے ہوتا ہے اور دیر پا رہتا ہے۔حکیم غلام محی الدین (لقمان ہاسپٹل) کے مطابق مردانہ کمزوری گناہوں کا نتیجہ ہے‘ اور گناہ کا آغاز آنکھ سے ہوتا ہے۔ نوجوانوں کے لئے اچھی صحت کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں۔ یہ بات انہوں نے کیرالا کے جامعۃ الثقافیہ السنیہ میں کہی تھی۔ پدم شری حکیم ایم اے وحید کے مطابق ”اسٹریس“ اور نفسیاتی مسائل کی وجہ سے زیادہ تر مرد حضرات کی ازدواجی زندگی متاثر ہوتی ہے۔ اس کا یونانی میں بہترین علاج ہے۔ تاہم ساتھ ہی ساتھ ماہر نفسیات سے بھی اس کو رجوع کرنا چاہئے۔
اکثر لڑکوں اور لڑکیوں کی شادی زندگی میں ایک ہی بار ہوتی ہے۔ بڑے آرزؤں اور ارمانوں سے‘ والدین کو جہیز، شادی خانہ، اچھے کھانے کی فکر ہوتی ہے۔ دولت اور رہن سہن دیکھ کر اکثر لڑکی والے تو لڑکے کے حسب و نسب سے واقف ہونے کواہمیت نہیں دیتے۔ اس کی نوکری، آمدنی اور صحبت کی فکر تو ہوتی ہے‘ خود لڑکے کی ذاتیات پر توجہ نہیں دی جاتی۔ جبکہ لڑکی کے چال چلن کے بارے میں بہت زیادہ کھوج کی جاتی ہے۔ اگر شادی سے پہلے لڑکے کے میڈیکل فٹنس ٹسٹ کروالی جائے تو بہت سارے خاندان بکھرنے سے محفوظ رہ جائیں گے۔ ممکن ہے کہ بعض شاطر حضرات پیسہ دے کر فٹنس سرٹی فکیٹ حاصل کر بھی لیں‘ اور میدان عمل میں ناکام رہیں تب سرٹی فیکٹ جاری کرنے والے ادارہ یا ڈاکٹر کے خلاف بھی قانونی کاروائی کی جاسکتی ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ ایک کامیاب خوشگوار ازدواجی زندگی کے لئے میاں بیوی دونوں کا صحت مند ہونا ضروری ہے۔ میاں بیوی میں رشتہ مضبوط ہوتا ہے اولاد سے اور لڑکے والے چاہتے ہیں کہ شادی کے دوسرے دن سے ہی انہیں خوش خبری مل جائے۔ اگر خوش خبری میں تاخیر ہوتی ہے تو لڑکی کو طعنے سہنے پڑتے اور دوسری شادی کی دھمکیاں ملنے لگتی ہیں۔
ڈاکٹر رویا روضاتی ماہر امراض بانجھ پن کے مطابق اولاد سے محرومی کے لئے صرف عورت نہیں بلکہ مرد حضرات بھی برابر کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ مردانہ صحت کے باوجود اگر ہارمونز میں کمی یا کمزوری ہو تو تولیدی صلاحیتیں مفقود ہوجاتی ہیں۔ اس حقیقت کے باوجود بانجھ پن یا اولاد سے محرومی کے زخم عورت ہی کو سہنے پڑتے ہیں۔
مرد حضرات کی جسمانی کمزوری ہی نہیں بلکہ ان کی طویل مدت تک اپنی بیویوں دوسری بھی خاندانوں کو بکھیر دیتی ہے۔ گھر چلانے، پیسہ کمانے کے لئے مرد حضرات مہینوں نہیں بلکہ برسوں اپنے گھروں سے دور رہتے ہیں۔ حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں جب ایک مکان کی بالکنی پر کھڑی خاتون اپنے شوہر کے ہجر میں غمگین اشعار پڑھ رہی تھی تو امیرالمومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کے پس منظر کو معلوم کرتے ہوئے حکم جاری کیا تھا کہ کوئی مرد جہاد کے لئے اپنی بیوی سے تین ماہ سے زیادہ دور نہ رہے۔
اور ہم آج دیکھ رہے ہیں کہ میاں بیوی کے درمیان طویل مدتی فاصلوں کے کس قدر منفی اثرات ہورہے ہیں۔ میاں بیوی میں ذہنی آہنگی نہیں‘ جس کا اثر اولاد پر پڑرہا ہے۔ اولاد کیا کررہی ہے‘ کسی کو فکر نہیں۔ اور یہی بے فکری اور بے حسی آگے چل کر دو خاندانوں کی رسوائی و بربادی کا سبب بنتی ہے۔ بعض مرد حضرات تو اپنی ناکامی سے دلبرداشتہ ہوکر موت کو گلے لگالیتے ہیں۔ اور بعض بیویوں سے علیحدگی اختیار کرکے جان چھڑا لیتے ہیں۔ یہ نوبت ا ٓنے ہی کیوں دیں۔
کیوں نہ جس طرح ہم شادی سے پہلے عمر معلوم کرنے کے لئے برتھ سرٹی فیکیٹ کا مطالبہ کرتے ہیں‘ اسی طرح بلاجھجک لڑکے کی میڈیکل فٹنس کا سرٹی فیکیٹ بھی طلب کریں اگر وہ ٹال مٹول کرے، ناراضگی کااظہار کرے تو سمجھ لینا چاہئے کہ دال میں کچھ کالا ہے۔ رشتہ نہ ہی دینا بہتر ہے۔ کیو ں کہ شادی کے چند ماہ بعد یہ رشتے ٹوٹ جاتے ہیں تو لڑکی کنواری رہنے کے باوجود داغدار بن جاتی ہے اور اس کی دوسری شادی آسانی سے نہیں ہوتی۔اس کے علاوہ قاضی صاحبان کو بھی چاہئے کہ جس طرح شادی کے وقت آدھار کارڈ لازمی کیا جارہاہے وہ میڈیکل فٹنس سرٹیفیکیٹ لازم کردیں تاکہ خاندان بکھرنے سے بچ جائے اور مسلم معاشرے میں بے رواہ روی نہ ہونے پائے۔

About Gawah News Desk

Check Also

Congress To Interact with Muslims and Christians Leaders On Socio-Economic Problems

Party to Release Minority Declaration after Dussehra Hyderabad, October 14: The Congress party will release …

دنیا بھر کے مسلمان جمعہ 13/اکتوبر کو ”یوم طوفان اقصیٰ“ کا اہتمام کریں گے۔ نماز …

Leave a Reply