Sunday , December 22 2024
enhindiurdu

افریقی یونین کی شمولیت کے بعد اب جی 20 کی جگہ جی 21 عالم وجود میں آگیا۔ اس کے ساتھ ہی وزیر اعظم نریندر مودی نے جی-21کی سربراہی برازیل کے صدر لوئس اناسیو لولا دا سلوا کو سونپ دی یعنی اب وہ اس کے صدر نہیں رہے۔ اس بات پر وہ لوگ یقین نہیں کرپائیں گے جو مودی جی کو اس وفاق کا تاحیات سربراہ سمجھتے تھے۔ ایسے لوگوں کو آئندہ سال ایک اور جھٹکا لگ سکتا ہے کیونکہ وہ انہیں تاقیامت وزیر اعظم بھی سمجھتے ہیں۔پارلیمانی انتخاب سے قبل جی20 کی سربراہی کو چھوڑنا مودی جی کو گراں توگزرا ہوگا مگر وہ بے بس تھے۔ اس صدارت کا ملنا نہ تو ان کی اپنی صلاحیت اور کوشش کا نتیجہ تھی اور نہ اس کا چھن جانا ان کے قابو یا اختیار میں ہے۔ انسان کو جب کچھ ملتا ہے تو وہ بہت ساری خوش فہمیوں کا شکار ہوجاتا ہے۔ دنیا کے ہر فردِ بشر کو ایسا کرنے کی مکمل آزادی ہے اور کوئی دنیوی طاقت اسے اس حق سے محروم نہیں کر سکتی لیکن جب وہ کسی نعمت سے محروم کردیا جاتا ہے تو اسے اپنی بے بسی کا احساس ہوجاتا ہے۔ مودی جی کیلئے یہ ایک ٹریلر ہے پوری پکچر اگلے سال ریلیز ہوسکتی ہے۔
سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں
ثبات ایک تغیّر کو ہے زمانے میں
گردشِ زمانہ سے ہونے والی تبدیلیوں کی ایک مثال خود جی20 ہے۔ معاشی بحران سے نمٹنے کی خاطر اسے 1999 میں قائم کیا گیا تھا۔اس وقت یکے بعد دیگرے ایشیائی ممالک کے دیوالیہ ہونے اور قرض کے ڈوبنے سے امریکی معیشت متاثر ہورہی تھی۔ ہندوستان میں اٹل بہاری واجپائی وزیر اعظم تھے اور ان کے وزیر خزانہ یشونت سنہا نے اس کے قیام میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ ان بے نیاز لوگوں نے اپنا سیاسی قد بڑھانے کے لیے تنظیم کا استعمال نہیں کیا۔ ابتدا میں جی20 کے اجلاس معاشی مسائل پر مرکوز ہوتے تھے اور ان میں وزرائے خزانہ کے ساتھ سینٹرل بینکوں کے گورنروں کی شرکت ہوتی تھی۔ 2007ء کے عالمی معاشی بحران نے اسے سربراہی اجلاس میں تبدیل کر دیا۔ پہلا سربراہی اجلاس 2008ء میں واشنگٹن میں منعقد ہوا تو‘ اس وقت امریکہ میں انتخابات ہورہے تھے۔ اس کے باوجودامریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے اس کا سیاسی استعمال نہیں کیا۔ یہ حسن اتفاق ہے کہ اس اجلاس کے بعد برسرِ اقتدار ریپبلکن پارٹی الیکشن ہار گئی۔ ہندوستان میں بھی اس کا قوی امکان ہے۔
2012ء سے باقاعدہ سالانہ سربراہی اجلاس کا آغاز ہوا تو پہلی نشست میکسیکو میں ہوئی اور پھر روس، جرمنی، ارجنٹینا، جاپان، سعودی عرب،اٹلی اور ملیشیا سے ہوتے ہوئے یہ قافلہ ہندوستان پہنچا۔ اس لیے یہ کوئی نئی چیز نہیں ہے لیکن ایسے پھوہڑ انداز میں اسے اپنے انتخابی فائدے کے لیے کسی نے استعمال نہیں کیا اور شاید آگے بھی نہ ہو کیونکہ خود ستائی کے معاملے میں مودی جی کا کوئی ثانی نہیں ہے۔ عالمی معیشت کے 85 فی صد جی ڈی پی پر قابض اس تنظیم کے ممالک کا دنیا کی 75 فی صد تجارت پر قبضہ ہے کیونکہ دو تہائی عالمی آبادی بھی انہیں ملکوں میں رہتی ہے۔ بدقسمتی سے یہ معاشی فورم اب ایک سیاسی اکھاڑہ بن چکا ہے۔ اس کی بنیادی قدر چونکہ دولت ہے اس لیے اسی بنیاد پر سربراہوں کے ساتھ معاملہ بھی کیا جاتا ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے اجلاس سے قبل سب سے زیادہ اہمیت امریکی صدر جو بائیڈن اور بعد میں سعودی عرب کے ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان کو دی گئی۔
مال کے چکر میں ہندوستان کی ہندوتوا نواز حکومت نے ایک ہندو وزیر اعظم رشی سونک کو بھی نظر انداز کردیا۔ صدر بائیڈن کی مہمان نوازی تو وزیر اعظم مودی نے اپنے گھر پر مگر رشی سونک سے ملنے خاطر کی 8ستمبر کو وقت نہیں نکال سکے۔ دوسرے دن بھی گھر کے بجائے جلسہ گاہ میں رشی سونک سے ملاقات ہوئی جبکہ ان کے اور آباء و اجدادمتحدہ ہندوستان سے تعلق رکھتے تھے۔ رشی سونک کے خسر کرشنا مورتی تو اب بھی ہندوستانی شہری ہیں۔ سونک اور ان کی زوجہ دہلی میں اپنے رشتے داروں سے بھی نہیں مل سکے کیونکہ شہر میں لاک ڈاؤن کی حالت تھی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مودی جی دولت و شہرت کے لیے قوم و مذہب کو ثانوی درجہ میں ڈھکیل دیتے ہیں۔ ان کے لیے برطانیہ کے ہندو سربراہ کے مقابلے امریکہ کا عیسائی صدر اور سعودی عرب کا مسلمان بادشاہ قابلِ ترجیح قرار پاتا ہے۔ کھلی آنکھوں سے یہ دیکھنے کے باوجود اگر اندھے بھکتوں کی نظروں پر پردہ پڑا رہتا ہے تو اس میں کس کا قصور ہے؟ سربراہانِ مملکت کے درمیان تفریق و امتیاز کرنے والی مودی حکومت کے آگے عام لوگ کس شمار اور قطار میں ہیں؟
معروف سماجی کارکن اروندھتی رائے نے جی20 اجلاس کیلئے بی جے پی حکومت کی جانب سے نئی دہلی کو خوبصورت اورآراستہ کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر کچی آبادیوں اور جھونپڑیوں کو زمین دوز کر نے کی مذمت کی۔ شہر میں جا بجا دیواروں پر کنول کے پھول یعنی بی جے پی کے انتخابی نشان بنائے جانے اور اور مودی کی تصویریں لگانے کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔ اروندھتی رائے کے مطابق یہ تاثر دیا گیا کہ اس تقریب کی میزبانی حکومت ہند نہیں بلکہ بی جے پی کررہی ہے۔ انہوں نے شرکاء کی بابت کہا انہیں اس بات سے کوئی سروکار نہیں کہ ہندوستان میں اقلیتوں سے کیا سلوک ہوتا ہے بلکہ ہر کوئی یہاں تجارت اور عسکری معاہدوں کے لیے آیا تھا۔ ہندوستان کی خطرناک صورتحال پر وہ بولیں بی جے پی کو ہی ملک، قوم، حکومت اور اس کے ادارے بناکر پیش کیا جا رہا ہے نیز ایک فرد مودی کو بھارتیہ جنتا پارٹی کا مترادف بنایا جاچکا ہے۔
دہلی والوں کی دگرگوں صورتحال کوانہوں نے اس طرح بیان کیا کہ ہم سب کو بند کردیا گیا ہے، کوئی گھر سے باہر نہیں جا سکتا، غریبوں کو شہر سے نکال دیا گیا ہے، جھونپڑیوں اور کچی آبادیوں کا صفایا کردیا گیا ہے، سڑکوں پر پہرا ہے اور ٹریفک غائب ہے، یہ موت کا منظر ہے۔ اس رویہ سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گویا انہیں ہم سے شرم آتی ہے۔ ایک کانفرنس کے لیے پورے شہر کو بند کردیا گیاتعجب ہے۔ بی جے پی والے بار بار مودی کے بچپن کی غربت کا حوالہ دے کر کہتے ہیں کانگریس کے شہزادے نہیں چاہتے کہ ایک غریب کا بیٹا وزیر اعظم رہے۔ ابھی حال میں کرناٹک کے غریبوں کو چاول نہیں دینے پر جب وہاں کے وزیر اعلیٰ سدا رامیا نے مرکزی حکومت کو نیچ کہا تو پارلیمانی امور کے وزیر پرہلاد جوشی نے اسے غریب وزیر اعظم کی توہین قرار دے دیا لیکن سوال یہ ہے کہ کیا وہ نام نہاد مسکین سربراہ مملکت ملک غریبوں کا خیر خواہ بھی ہے؟ اس سوال کا نفی میں جواب جی20 کی کانفرنس نے دے دیا۔
9-10 ستمبر کو عالمی سربراہان مملکت کے سامنے اپنی جھوٹی شان بگھارنے کیلئے پہلے تو دہلی کی کچی آبادیوں کو پلاسٹک کی چادروں اور فلیکس بورڈز سے ڈھانپنے کی کوشش کی گئی اور پھر کئی لوگوں کے گھروں پر بلڈوزر بھی چلایا گیا۔ ایک طرف جھگیاں ٹوٹ رہی تھیں دوسری جانب 2 ہزار 700 کروڑ روپے خرچ کرکے ایک نیا کنونشن سینٹر تعمیر کیا جارہا تھا جس کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ نئی دہلی میں پہلے سے موجود کسی بڑی عمارت کو اس کام کے لیے استعمال کیا جاسکتا تھا۔ شروع میں اجلاس کا بجٹ صرف 990 کروڑ تھا مگر بالآخر اس پر 4,100 کروڑ روپئے خرچ ہوگئے۔ اس طرح سرکاری خزانے سے اضافی 3110 کروڑ خرچ کرکے بی جے پی نے آئندہ انتخاب کیلئے اپنی تشہیر کی۔ اس خرچ کو اس کے خزانے سے وصول کیا جانا چاہئے کیونکہ وہ دنیا کی سب سے امیر پارٹی ہے۔ موجودہ دور میں مہمانوں کو سونے چاندی کی رکابی میں کھانا کھلانے سے اپنی غربت کو چھپایا نہیں جاسکتا۔ ساری دنیا کو پتہ ہے ان بیس ممالک میں فی فرد جی ڈی پی سب سے کم ہندوستان کا ہے۔ سب سے اوپر 80,034 ڈالر کے ساتھ امریکہ اور سب سے نیچے 2,601 ڈالر پر ہندوستان ہے۔ ہم سے اوپر انڈونیشیا بھی 5,016 پر ہے۔ ایسے میں مودی کس کو بیوقوف بنا رہے ہیں؟
سابق آئی اے ایس آفیسراور معروف سماجی کارکن ہرش مندر نے جی 20 کے دوران بے دخلی کے خلاف عوامی سماعت کے دوران کہا تھا کہ، ”جس چیز نے مجھے سب سے زیادہ فکر مند کیا وہ یہ ہے کہ ہندوستان کی نمائندگی کرنے والی حکومت کا غربت کی وجہ سے شرمندہ ہونا ہے۔ وہ غربت کو غیر ملکیوں کی نظروں سے ہٹانے کی کوشش کر رہی ہیں – سال کے آغاز سے، بہت سے رہائشی مکانات اور سڑک کنارے دکانیں بلڈوزہو چکی ہیں، جس کے نتیجے میں ہزاروں لوگ بے گھر ہو گئے ہیں“۔غریب عوام تو اس جابرانہ دھاندلی کے خلاف بے بس تھے مگر قدرت نے ان کی جانب سے انتقام لے لیا۔ عین جی20 اجلاس کے دوران شدید بارش کے سبب اجتماع گاہ میں پانی جمع ہوگیا۔اس کی ویڈیو پر کانگریس نے لکھا کروڑوں روپیوں سے بنایا گیا کنونشن سینٹر تیراکی کر رہا ہے۔ حکومت کی جانب سے اس وائرل ویڈیو کو گمراہ کن قرار دیا گیا مگر عصر حاضر میں تصویر کو جھٹلانا ناممکن ہے۔ قدرت کی اس مار نے رنگ میں بھنگ ڈال دیا۔ اس اجلاس کے تناظر میں وزیر اعظم کا غریبوں کے ساتھ سلوک پر احمد فراز کا یہ شعر من و عن صادق آتا ہے:
امیرِ شہر غریبوں کو لوٹ لیتا ہے
کبھی بہ حیلہئ مذہب کبھی بنامِ وطن

About Gawah News Desk

Leave a Reply