Monday , April 29 2024
enhindiurdu

کیرالا اسٹوری،اسلام دشمن فلم

دنیا میں سوشل میڈیا فلمیں اور ٹی وی سیریلس کے ذریعہ اقوام عالم کی سونچ بدلتے ہوئے اچھی تبدیلیاں کم اور تباہی و بربادی عام کی جارہی ہے۔اپنے مقاصد فاسدہ کے مطابق مثبت اور منفی ذہن بنانے کےلئے عالمی و علاقائی طاقتیں زبردست سرگرم ہیں‘لغو فلمیں بنا کر اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ ایسی ہی ایک خطرناک فلم ”کیرالا اسٹوری“ ابھی ریلیز ہوئی ہے۔
ہندوستان میں مسلمانوں کو ہر سمت سے ٹارگٹ کرکے ان کے خلاف نفرت ‘ عداوت اور دشمنی کا زہر عام ہندوستانیوں کے ذہن میں بھرا جارہا ہے۔ یہ کام کئی دہوں سے جاری تھا لیکن ہندوتوا کے علمبردار حکومت میں آنے کے بعد مسلمانوں پر ظلم و استبداد میں کئی سو فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔امریکہ کے کمیشن برائے مذہبی آزادی (USCIRF) کی ایک رپورٹ میں واضح طور پر دکھایا گیا ہے کہ مسلم اقلیتوں ‘ عیسائیوں ‘ سکھوں کےخلاف موجودہ بی جے پی حکومت کے مظالم میں 600 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ مذہبی اقلیتوں پر طرح طرح کی زیادتیوں اور مظالم اس طرح جاری رہیں گے تو 20 کروڑ مسلم آبادی مزید زوال کا شکار ہو کر ان کی اور دلتوں سے بھی کم ملک میں حیثیت ہوجائےگی۔ وقفہ وقفہ سے اسلاموفوبیا کا ماحول گرمانے کےلئے نئی نئی لغو ‘ بے بنیاد فلمیں تیار کی جارہی ہے ہندوتوا طاقتیں بڑے پیمانے پر مسلم مخالف فلمیں تیار کرنے کےلئے بے دریغ پیسہ خرچ کر رہی ہے۔ 2022میں ایک انتہائی نفرت آمیز فلم کشمیر فائیلس ریلیز کی گئی تھی۔ جس میں مسلمان کشمیریوں کے پنڈتوں پر مظالم کو خوفناک انداز میں فلمایا گیا۔ سارے ملک میں حکومت کی مشنری نے اس کا خوب پروپگنڈہ کیا بلکہ کئی تھیٹروں میں بی جے پی سیاسی قائدین نے کئی کئی دن کے ٹکٹ بک کرنے عوام کےلئے مفت فلم بینی کا انتظام کیا تھا ‘ اس سے ملک کے طول و عرض میں مسلمانوں کے خلاف بعض آفتہ منظم پیمانے پر نفرت ‘ عداوت اور انتقام کی آگ بھڑکائی گئی۔علاقائی زبانوں میں بھی اس طرح مسلمانوں کے خلاف نفرت آمیز کئی فلمیں گزشتہ 20 سالوں میں بنتی رہیں۔ ایک جانب سیاسی قائدین ہندوتوا کے علمبردار سماجی کارکن ‘ گلی گلی مسلمانوں کو نفرت کا شکار بنانے والے اشرار ‘ اب پر سکون آپس میں شیر و شکر بن کر رہنے والے تکثیر ہندو مسلم سوسائٹی میں ایک ہلاکت خیز سازش کے تحت زہر آلود ماحول ہمیشہ بنائے رکھنے کےلئے بدترین قابل مذمت فلمیں تیار کی جارہی ہیں۔
6 مئی کو جاری کردہ کیرالا اسٹوری جس میں کیرالا کے مسلم فرضی دہشت گردوں کی کہانی و اسکرپٹ لکھ کر ڈرامائی انداز میں فلمایا گیا اور اس میں یہ ظاہر کیا گیا کہ جہادی تنظیمیں غیر مسلم لڑکیوں اور عورتوں کو دامِ محبت میں گرفتار کرکے مسلمان بنا کر ISIS کےلئے جہادی دلہن بنا کر بھیجا کرتے ہیں۔قتل و خون و خرابے کے دوران جہادی لڑکیوں کےساتھ جنسی استحصال بتایا گیا۔ کوئی بھی سچا مسلمان مجاہد ہر گز زانی نہیں ہوسکتا۔ اسلام میں زنا پر رجم جیسی سخت سزائیں ہیں۔جب تک حکمران سیاسی پارٹی بی جے پی کی پشت پناہی حاصل نہیں اس وقت تک اتنی بڑی مسلم اقلیت کے خواتین کے خلاف کوئی اس طرح کی فلم نہیں بنا سکتا اور آر ایس ایس کا تیار کردہ لغو اسکرپٹ پر مسلمانان کیرالا کو بدنام کرنے کےلئے یہ فلم بنائی گئی۔
Vipul Amrut Lal Shah کا کہنا ہے کہ میں کسی سوال کا جواب نہیں دو ں گا۔ صورتحال بہت خراب ہے ‘ ہم معصوم لڑکیوں کے درد کو سمجھتے ہیں ‘ ہم شعور پیداکرنے کےلئے یہ فلم بناتے ہیں وغیرہ۔ 32,000 نو مسلم لڑکیوں کو کیرالا سے افغانستان،شام اور عراق اسمگل کرنے کی ایک جھوٹی کھانی گھڑی گئی پھر اس کو فکشن فلم کا نام دیا گیا۔ Vipul گفتگو میں کہتا ہے اس طرح کیرالا کی دو لڑکیاں افغانستان اور شام کی جیلوں میں مقید ہیں جنھیں جہادی لوگوں نے بھیلا پھسلا کر اپنے گرفت میں لےکر بیرونی ملک جہادی سرگرمیوں اور جنسی جہاد کےلئے اسمگل کیا تھا۔
یہ فلم ‘ فلم انڈسٹری کی تیار کردہ نہیں ہے :
یہ جان کرتعجب ہوگا کیرالا اسٹوری کے مصنف اور ڈائرکٹر ‘ پروڈیوسر کا کوئی تعلق کیرالا سے نہیں ہے۔ اس کا رائٹر اور پروڈیوسرSudipto Sen ہے جو بدنام زمانہ شاردا 2013 کے اسکام کا اصل ملزم اور سرغنہ ہے۔ شاردا چٹ فنڈ کمپنی کے مالک سوڈ پٹوسن اس نے 250 کمپنیاں بنائی تھیں۔ جس میں 17 لاکھ غریب ‘ معصوم بنگالیوں کا6 بلین امریکی ڈالر تھا وہ د ھوکے دہی کے ذریعے ہضم کرلیا گیا۔ہندوستان میں حال میں ہوئے تمام اسکامس میں یہ اسکام سب سے بڑا تھا۔ اس کے خلاف ممتابنرجی ‘ کانگریس ‘ کمیونسٹ پارٹی نے کئی بیانات دیئے تھے۔ چونکہ انتہا پسند ہندوتوا پارٹیوں کی سرپرستی حاصل ہے۔دوسرے تمام لوگوں کو اس اسکام میں شریک تھے گرفتار کئے گئے لیکن Sudipto Sen کو گرفتار کرنے کی کسی کو ہمت نہیں ہوئی‘ سوشل میڈیا سے اس کی تصاویر اور تفصیلات اس نے خود ہٹالی۔
اس کا ڈائریکٹر Vipul Amrut Lal Shah جس کا تعلق گجرات سے ہے۔ اس کا تعلق کبھی فلم انڈسٹری سے نہیں رہا۔ ڈرامہ لکھا کرتا تھا اس نے دو چھوٹی فلمیں کسی زمانے میں بنائی تھیں ‘ ایک کہا جاتا ہے کہ 1990 میں اس نے گجراتی زبان میں Dariya-Chhoru ٹی وی شو بناتا ہے۔ وہ Optimystix Entertainment کا منیجنگ ڈائریکٹر ہے۔
کیرالا اسٹوری بنانے کےلئے ان دو مختلف ریاستوں کے استخصاص کو کس نے قریب کیا اور ایک تیسری ریاست کے مسلمان لڑکیوں پر فلم بنانے کی ترغیب دی ‘ ایک بنگالی اور ایک گجراتی شخص کو اچانک کیرالا کے نوجوان مسلم خواتین پر فلم بنانے کےلئے کس نے ترغیب دی ‘ یہ بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔یہ ایک عجیب ستم ظریفی ہے کہ بلا وجہہ جھوٹی کہانی گھڑ کر مسلمان سوسائٹی کو مختلف ریاستوں میں منصوبہ بند طور پر ہراساں کیا جارہا ہے۔
کیا فلم میکرس کے پاس اتنی صحیح اطلاع ہے کہ مذکورہ نو مسلم خواتین جہاد کےلئے کیرالا سے لیجائے گئے تھے۔اس کی تمام اطلاعات ملک کی صیانتی وخفیہ ایجنسیوں کے پاس ہے۔جہاد کے نام پر عالمی طاقتوں کے دہشت گرد تنظیموں کا بڑا نٹ ورک خود بین الاقوامی ملیشیا اور درجنوں گروپس و Mercenary سرگرم ہیں۔ اسلامی جہاد ‘ داعش اور ISIS کا لیبل لگا کر ممالک کے ممالک تباہ کئے جاچکے ہیں۔ درجنوں کتابیں مغربی نامور مصنفین کی اس عنوان سے شائع ہوچکی ہیں مسلمانانِ ہند یا کیرالا کے مسلمانوں کا اس طرح بے بنیاد جہادی‘ دہشت گردانہ سرگرمیوں سے کوئی تعلق نہیں Synthetic Terrorism کہلاتا ہے۔ ایسی ایسی تفصیلات سامنے آچکی ہیں کہ پڑھنے والا دم بخود ہوجائے‘ کیا مسلمانانِ ہند اتنے گئے گزرے شہ بن چکے ہیں کہ جو چاہے ہمارے عزت ‘ غیرت ‘ ناموس کے ساتھ طرح طرح سے کھلواڑ کریں اور ہماری معصوم صاحبہ عفت حشمت والی بہنوں اور بیٹیوں کا سر عام فکشن کے نام پر استہزا کیا جائے۔Vipul Amrut Lal Shah وہ ہی بکواس کر رہا ہے جو اکثر آر ایس ایس و بی جے پی کے قائدین کرتے ہیں تا کہ ہندوو¿ں کے لغو استدلال ہے کہ ہم نے ہمارے پاس ستی جیسی رسم تھی وہ ختم کردی۔ مسلمان عورتوں کی بھلائی کےلئے ہم نے فلم بنائی ہے۔ مسلمان عورتوں کو بھی اسلام کے نام پر جو پھانسا جارہا ہے ہمیں چاہیئے کہ ان کو بچایا جائے وغیرہ‘ ان باتوں میں کوئی صداقت نہیں!!۔چیف منسٹر کیرالا نے سخت مخالفت کی اور ششی تھرر نے کہا کہ مبالغہ آرائی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔10 کروڑ مسلم خواتین جن کی جتنی عزت کی جائے کم ہے وہ ہمت و جذبے و ولولہ کے ساتھ اپنے اختیارات ‘ مقام اعلیٰ تہذیب و تمدن ‘ معیار و وقار کے ساتھ اس ملک میں دوسرے ہم وطن عورتوں کے مقابلے میں اچھی قابل رشک زندگی گزارتے ہیں۔
Vipul Amrut Lal Shah اور سوڈپنوسن کو پہلے ہماری عام ہندوستانی عورت کی حالت زار پر پلٹ کر نظر ڈالنا چاہیئے ‘ اس پر اصلاحی تنظیمیں بنانا چاہیئے۔ World Female Index میں ہندوستان ، کینیا اور صومالیہ سے بھی نیچے گرچکا ہے۔ 143 نمبر تک پہنچ چکا ہے۔ حاملہ عورتوں کی اموات میں 127 رینک تک پہنچ چکا ہے۔جہیز کی اموات میں Dowry Death میں 110 درجے تک گرچکا ہے ‘ بھوک اور فاقہ سے ہزاروں عورتیں موت و زیست کے عالم میں ہے۔ ہیومن رائٹس جہد کا اور سپریم کورٹ کی مشہور وکیل ورندا گورو جنھوں نے کیرالا اسٹوری کےخلاف سپریم کورٹ میں مرافعہ داخل کیا تھا۔ اس ملک میں گائیوں ‘ بندروں اور حیوانوں کی بقا کی اہمیت ہے لیکن نوجوان عورتوں کے تحفظ ‘ بقا اور ترقی کےلئے کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ملک میں90 منٹ میں ایک ریپ ہوتا ہے۔انھوں نے ہندوستان میں عورتوں کی حالت زار پر ایک شارٹ فلم Rape Capital بنائی تھی جو دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔
کرناٹک میں 2023 کے اسمبلی انتخابات جاری ہیں عین اسے موقع پر سندیپ شرما اور ریشمی شرما کی فلم ٹیپو سلطان انٹرنٹ پر جو گذشتہ سال فبروری میں ریلیز کی گئی تھی ‘ پھر سے اس کی زور و شور سے مارکٹنگ کی جارہی ہے اس میں ٹیپو سلطان شہید جنہوں نے استعماری افواج کےخلاف تین جنگیں لڑیں تھیں اور ایک عادل ‘ مضبوط انتظامیہ اور ترقی پسند سپہ سالار اور حکمران تھے انگریزوں کے خلاف لڑتے ہوئے 4 مئی 1799 کو شہید ہونے تک کامیاب حکمرانی کی۔
فلم کے ذریعہ مکمل طور پر جھوٹا پروپگنڈہ کرتے ہوئے ٹیپو کو ایک ظالم ‘ جابر ‘ وحشی حکمران بتلایا جارہا ہے۔ 800مندر ‘ 27 چرچس کے علاوہ چالیس لاکھ ہندوو¿ں کو زبردستی مسلمان بنانے اور ایک لاکھ سے زیادہ ہندوو¿ں کو غلام بنا کر میسور کی سلطنت میں رکھا گیا تھا وغیرہ کا الزام لگایا جارہا ہے۔ تاریخ کی کتابوں میں کہیں اس طرح کی باتیں نہیں ملتیں اور نہ ہی برٹش مورخین نے ٹیپو کے سلسلہ میں کسی قسم کی برائی اپنے ریکارڈ میں نہیں لکھی۔ ایک جانب کشمیر فائیلس ‘ ٹیپو اور پھر کیرالا اسٹوری یہ انتہا پسند ذہینت کو غیر مسلموں میں عام کرنے کےلئے بدترین کوشش کی جارہی ہے۔ اس میں سب سے بڑا مسئلہ جو ہندوستان کے درپیش ہے وہ یہ ہے کہ ایک سیکولر ذہن رکھنے والے ‘ الحاد پرست ‘ عیسائی ‘ بدھسٹ ‘ کمیونسٹ ‘ سکھ ‘ مسلمانوں کے سلسلہ میں کیا خیالات رکھیں گے۔ ایک مرتبہ ذہن زہرآب ہوجائے تو پھر کس طرح سے ان کے ذہن اور نگاہ کو دوبارہ صاف ستھرا بنایا جائے۔
ہماری ملی قائدین اور مذہبی پیشواو¿ں کی بھی بہت بڑی تساہلی شامل ہے۔ ہمیشہ یہ کہہ کر عام اُمت المسلمین کو خاموش بٹھا رہے کہ حکمت کا تقاضہ ہے خاموش رہیں۔ خاموش رہتے رہتے صورتحال اتنی خراب ہوچکی ہے کہ اب کسی قائد ‘ رہنما اور مولانا میں اتنی ہمت نہیں ہےکہ ان خطرناک فلموں کےخلاف آواز بلند کریں۔ جمہوری ملک میں اپنے حقوق و تحفظ کےلئے جب آواز نہیں اٹھا سکتے ہیں اور امت کے خواتین و لڑکیوں کو دوسروں کے رحم و کرم پر ایسے ہی چھوڑدیں تو بہتر ہے کہ گمنامی کی زندگی گزاریں ‘ العنبانہ و دجانہ کا شکار افراد ہمارے لیڈر اور قائد نہیں بن سکتے۔

About Gawah News Desk

Check Also

Congress To Interact with Muslims and Christians Leaders On Socio-Economic Problems

Party to Release Minority Declaration after Dussehra Hyderabad, October 14: The Congress party will release …

دنیا بھر کے مسلمان جمعہ 13/اکتوبر کو ”یوم طوفان اقصیٰ“ کا اہتمام کریں گے۔ نماز …

Leave a Reply