Wednesday , May 1 2024
enhindiurdu

کڑوے سوال۔سچ کی سزا

ہر گزرتا ہوا لمحہ تاریخ بن جاتا ہے۔ اپنی طویل صحافتی کےرےئر کے دوران جو جو اہم واقعات پیش آئے کبھی ےاد آتے ہےں تو عجےب سالگتا ہے۔ ایک دور وہ بھی تھا جب پریس کانفرنس میں ےا کسی اہم پروگرام میں بڑی سے بڑی ہستیوں سے بے باکی سے سوال کرنے میںمزہ آتا تھا۔ جن سے سوال کےا جاتا وہ کبھی ناراض بھی ہوجاتے۔ سوال کو ٹال بھی جاتے اور ان کے حواری سوال کرنے والے کو خاموش کروانا چاہتے۔
غلام نبی آزاد کا عہد اور
1990 کی دہائی میں اردو تعلےمی کمےٹی اور آندھراپردیش اردو اکےڈےمی کے صدر جلیل پاشاہ نے ملے پلی میں ایک پروگرام کیا تھا جس میں غالباً مرکزی اور رےاستی حکومت کی جانب سے کافی تعداد میں کمپیوٹرس اردو اکےڈےمی ےا اردو تعلےمی کمےٹی کو عطےہ میں دےئے گئے تھے۔ اس پروگرام میں غلام نبی آزاد مہمان خصوصی تھے۔ وہ اس وقت مرکزی وزےر پارلےمانی امور تھے۔ شہ نشین پر کرکٹر محمد اظہرالدین کے علاوہ اور کئی اہم شخصےات بھی موجود تھیں۔ ےہ وہ دور تھا جب بابری مسجد شہید نہیں ہوئی تھی‘ مگر اندےشے بہت تھے۔ غلام نبی آزاد اس تقرےب میں تقریر کرنے والے ہی تھے کہ میں نے ایک کاغذ پر چند سوالات لکھ کر ان تک پہنچادےا۔ غلام نبی آزاد نے غور سے ان سوالات کو پڑھا اور اپنی تقریر شروع کرنے سے پہلے انہوں نے مےرا بھیجا ہوا کاغذ دکھاکر مجمع سے کہا کہ رہنمائے دکن کے فاضل حسین پرویز نے چند سوالات کئے ہےں‘ ان کا پہلا سوال ہے کہ اگر بابری مسجد خداناخواستہ شہےد ہوجاتی ہے تو ایک مسلم وزےر کی حیثیت سے آپ کےا کرےںگے؟ غلام نبی آزاد نے کہا کہ اس سوال کا جواب ےہ ہے کہ قےامت آسکتی ہے‘ بابری مسجد شہید نہیں ہوسکتی۔ میں پارلےمانی امور کا وزےر ہوں سروں کو گننے اور اِدھر سے اُدھر کرنے کی مہارت ہے۔ بہرحال انہوں نے مےرے تمام سوالات کے جوابات دےئے۔ جلیل پاشاہ کے جلسہ کا موضوع ہی بدل گےا تھا۔ جس پر پاشاہ مرحوم مجھ سے ناراض ہوئے۔ اس تقریب میں جناب ایم اے ماجد بھی سےاست کے نمائندہ کے طور پر شرےک تھے۔ کچھ مہینوں بعد بابری مسجد شہید ہوگئی۔ غلام نبی آزاد اپنی وزارت پر برقرار رہے۔ کوئی دو برس بعد 1994ءمیں کولکتہ میں مغربی بنگال اسمبلی کے اسپیکر جناب کلیم الدین شمس کی جانب سے منعقدہ کل ہند اقلیتی کانفرنس میں غلام نبی آزاد سے ملاقات ہوئی۔ میں نے انہیں حےدرآباد میں کئے گئے سوالات اور ان کا دےا گےا جواب ےاد دلاےا۔ آزاد صاحب کافی دےر تک مجھے غور سے دےکھتے رہے۔ اور کوئی جواب دےئے بغےر آگے بڑھ گئے۔ کولکتہ کی اس کانفرنس میں ڈاکٹر فاروق عبداللہ، شاہد صدیقی، مےم افضل، بشےرالدین بابو خان، امان اللہ خان ایم ایل اے، احمد سعےد ملےح آبادی، سےف الدین سوز، کے ایم عارف الدین، اخبار مشرق کے ایڈیٹر وسےم الحق بھی موجود تھے۔ آزاد صاحب سے کئی ملاقاتیں ہوئیں۔ ڈاکٹر وی آر کے مےڈیکل کالج کی افتتاحی تقریب میں ان سے کافی دےر تک بات چےت ہوئی۔ ابھی چند دن پہلے جابر پٹیل کی افطار پارٹی میں بھی وہ تشریف لائے تھے‘ سےاستدان ہےں۔ جب چاہے پارٹی بدل سکتے ہےں۔ اور اپنے الفاظ کو جو چاہے معنی دے سکتے ہےں۔
الکبےر تنازعہ اور بلیک مےلر سادھو سنت
الکبےر کا تنازعہ جانے کتنے لوگوں کو ےاد ہوگا۔ ےہ ماڈرن سلاٹر ہاﺅز جےسے ہی حےدرآباد کے قریب قائم ہوا اس کے خلاف ہندﺅں انتہا پسند تنظیموں نے زبردست احتجاج شروع کیا تھا۔ حالانکہ اس کے اصل مالک تو غےر مسلم ہی تھے۔ ایک پارٹنر مسلمان ہےں۔ دھرنا، بھوک ہڑتال، رےالیاں، اخباری بےانات کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری تھا۔ پریس کلب بشےرباغ میں الکبےر کے خلاف ایک پریس کانفرنس ہورہی تھی۔ جسے کوئی شمالی ہند کے ےوگی خطاب کررہے تھے۔ پریس کانفرنس میں بےشتر صحافی غےر مسلم تھے اور وہ اس ےوگی کے پیر چھورہے تھے۔ اور اےسا لگ رہا تھا کہ وہ کوئی پریس کانفرنس میں نہیں بلکہ کسی دھرم سنسد میں شرکت کے لئے آئے ہےں۔ دورانِ پریس کانفرنس اچانک میں نے اس ےوگی سے جس کا نام ےاد نہیں‘ سوال کیا کہ سنا ہے کہ الکبےر کی مخالفت سے باز رہنے کے لئے 50لاکھ روپئے کا آپ لوگوں نے مطالبہ کیا ہے۔ سوال کیا تھا‘ اےسا لگا کہ پریس کلب میں بجلی گرگئی ہو۔ ےوگی جی کے الفاظ ان کے حلق میں پھنسنے لگے۔ آنکھوں میں آنسو آگئے۔ روہانسی آوازا میں کہا 50کروڑ بھی دےئے جائےں تو ہم مخالفت نہیں چھوڑےںگے۔ ہمارے دشمنوں نے ہمیں بدنام کرنے کے لئے ےہ الزام لگاےا ہے۔ کئی غےر مسلم صحافی مجھے دشمن کی نظر سے دےکھنے لگے۔ ےوگی کے ساتھ ایک نوجوان تھا اس نے پوچھا کس پیپر سے آپ کا تعلق ہے؟ میں نے رہنمائے دکن کا نام لیا۔ جس پر کچھ دےر تک سرگوشےاں ہوتی رہیں۔ آثار تو بتارہے تھے کہ پریس کانفرنس کے فوری بعد ہماری تاج پوشی ممکن ہے۔کیوں کہ کانفرنس میں موجود سبھی صحافی ہمیں اچھی نظر سے نہیں دےکھ رہے تھے۔ وہ دور موبائل فون کا نہیں تھا‘ ورنہ ہم موبائل کان کو لگاکر کسی بہانے سے باہر نکل جاتے۔ قسمت اچھی تھی‘ کہ ایک جانے پہچانے چہرے والے سےنئر صحافی نے مےرے کاندھے پر ہاتھ رکھا اور اپنے ساتھ چلنے کےلئے کہا۔ پریس کلب کی سیڑھیوں تک لاکر اس نے کہا بےٹا! بہتر ےہ ہے کہ آپ ےہاں سے چلے جائےں۔ ورنہ ےہ لوگ خطرناک ہےں۔ آپ کو نقصان پہنچاسکتے ہےں۔ اور ہم بھی کوئی فلمی ہیرو تھے نہیں‘ شرافت سے آفس واپس چلے گئے۔ دوسرے دن اخبارات میں پریس کانفرنس کے بارے میں ےہ خبر چھپی کہ الکبےر کے شرپسندوں نے پریس کانفرنس کو متاثر کرنے کی کوشش کی۔
نمائش سوسائٹی،عثمانےہ گریجویٹس
اسوسی ایشن اور مسلمان
حےدرآباد کی کل ہند صنعتی نمائش نہ صرف ہندوستان بلکہ ساری دنےا میں مشہور ہے۔ نمائش کے لئے اراضی دےنے والے مسلمان۔ زےادہ سے زےادہ اسٹالس قائم کرنے والے مسلمان مگر سوسائٹی میں مسلم نمائندگی آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ عثمانےہ گریجویٹس اسوسی ایشن میں بھی مسلم نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے۔ آندھراپردیش کے وزےر داخلہ کے جانا ریڈی نمائش سوسائٹی کے صدر تھے اور نمائش کے آغاز سے ایک دن پہلے سالانہ پریس کانفرنس سے مخاطب تھے۔ میں نے اس مسئلہ کو اٹھاےا اور سوسائٹی اور عثمانےہ گریجویٹس اسوسی ایشن میں مسلم نمائندگی کم ہونے کی وجہ معلوم کرنی چاہی۔ اس وقت دوسرے عہدےداروں نے اس سوال کو ٹالنے کی کوشش کی۔ ےہ سوال تےر کی طرح ان کے دل کو لگا۔ خود جانا ریڈی کافی دےر تک اِدھر اُدھر کی باتیں کرکے ےہ سمجھانے کی کوشش کرتے رہے کہ سوسائٹی میں مسلمانوں کے ساتھ کسی قسم کا بھید بھاﺅ نہیں ہے۔ پریس کانفرنس کے بعد قاری نواب اقبال علی خاں مرحوم نے جو خود بھی سوسائٹی کے غالباً واحد ممبر تھے۔ مجھے شاباشی دی اور کہا کہ جب تک سوال نہیں پوچھےںگے من مانی اےسی ہی ہوگی۔ آج بھی سوسائٹی کا کےا حال ہے؟ سب جانتے ہےں۔
24گھنٹے جیل‘ سچ کی سزا
حےدرآبادی مسلمان اپنی مروت کےلئے مشہور ہے۔ انہیں بڑی آسانی سے شکار کےا جاسکتا ہے۔ جب سے ہم نے ہوش سنبھالا ہم نے مسلمانوں بالخصوص این آر آئز کو مختلف بہانوں سے برباد ہوتے ہوئے دےکھا۔ حلال نفع کے نام پر ہر دور میں مختلف کمپنےاں حےدرآبادی مسلمانوں کو لوٹتی رہی ہےں۔ کس کس کا نام لیا جائے۔ 1998ءمیں تو ےہ فےنانس کمپنےاں برساتی مےنڈکوں کی طرح نکل پڑی تھیں۔ ان میں سے ایک کمپنی انوارالعلوم کالج کے سابق لکچرر نے بھی قائم کی تھی۔ہم نے ان کی کمپنی کے خلاف گواہ میں مضامین لکھے اور ان کے دولت کے ساتھ ملک سے فرار ہونے کے اندےشے بھی ظاہر کئے۔ اتفاق کی بات ہے کہ اےک دو مہےنے میں دس بارہ فےنانس کمپنےاں بند ہوگئیں۔ اس کے قائم کرنے والے فرار ہوگئے۔ ایک کمپنی کا منےجر ڈائرکٹر جسے مےرے مضمون کی اشاعت کے بعد انوسٹرس نے فرار ہونے نہیں دےا۔ مےرے اور اخبار کے خلاف ہتک عزت کا دعویٰ کیا اوردو کرو ڑ روپئے کا ہرجانا ادا کرنے کا مطالبہ کیا۔ ےہ مقدمہ لگ بھگ 8برس چلتے رہا۔ اگست2008ءمیں ہم امرےکہ گئے ہوئے تھے اور اس دوران عدالتی پیشی تھی۔ کسی وجہ سے ہمارے وکیل بھی عدالت میں حاضر نہ ہوسکے جس کا مجھے علم نہیں تھا۔ ایک مہینہ بعد ہم امرےکہ سے واپس ہوئے تو اچانک دفتر پر سادہ لباس میں پولیس جوان آئے اور ساتھ چلنے کے لئے کہا۔ وجہ بتائی کہ ہمارے خلاف ناقابل ضمانت وارنٹ ہے۔ کیوں کہ ہم پیشی پر حاضر عدالت نہیں ہوئے تھے۔ اتفاق سے 16رمضان تھا اور آج ےہ تحریر قلم بند کررہا ہوں تو 16رمضان ہے۔ مےرچوک پولیس اسٹیشن میں مجھے دو گھنٹے بٹھاےا گیا۔ وہاں سے نامپلی کورٹ اس طرح لے جاےا گےا کہ عدالت کا وقت ختم ہونے کے لئے چند منٹ رہ گئے تھے۔ اور اس سے پہلے کہ ہمارا وکیل پہنچ پاتا جج نے ہمیں رےمانڈ کردےا تھا۔
ےہ اچانک سانحہ تھا جس کے لئے ذہنی طور پر تےار نہیں تھے مگر راضی برضا ضرور تھے۔ چنچل گوڑہ جیل میں داخل ہوئے۔ رجسٹر میں ہمارے بارے میں تفصےلات درج کرنے والے نے تعلےمی قابلیت پوچھی جب ہم نے بتاےا پی ایچ ڈی تو اس نے افسوس ظاہر کیا۔ بہرحال چنچلگوڑہ جیل میں پہلے دن اے بلاک میں تمام قےدےوں کو رکھا جاتا ہے۔ ہمےں اپنا بستر دےا گیا جو ایک کمبل اور تکےہ پر مشتمل تھا۔ہم دل ہی دل میں اپنے آپ پر جانے کیوں ہنستے رہے۔ اے بلاک پہنچے تو وہاں کا وارڈن ےا ذمہ دار ایگزیکٹیو ا نجےنئر تھے اور اپنی بیوی کے قتل کے جرم میں جیل میں تھے۔ کچھ دن بعد ہم اے بلاک سے نکلے تو ہمیں بتاےا گیا کہ بی بلاک میں مسلم قےدےوں کے لئے افطار کا انتظام کےا جاتا ہے۔ایک جگہ مسلم قےدی وضو کررہے تھے۔ مجھے دےکھ کر ایک نوجوان نے پوری تجوید کے ساتھ سلام کیا۔ میں نے اپنا تعارف کرواےاتو ان صاحب نے کہا آپ ایڈیٹر ہےں‘ تب تو مجھے جانتے ہوںگے۔ میں نے کہا جی میں نہیں جانتا۔ تو انہوں نے بڑے فخرےہ انداز میں کہا بندے کو ”ماروتی نعیم“ کہتے ہےں۔ےہ نام سنا ہوا تھا‘ غالباً سدی عنبربازار میں شانتی فائر ورکس میں آتشزنی کے واقعہ میں ےہ نام سنا اور اخبار میں پڑھا تھا۔ (وےسے چند برس بعد نعیم کا قتل کردےا گیا۔)
ہم نے سب کے ساتھ افطار کیا اور ےہ زندگی کی سب سے طویل رات تھی۔ سحر کا کوئی انتظام نہیں تھا۔ مےرے ساتھ کچھ او رمسلم نوجوان تھے جو آپسی مارپیٹ کی وجہ سے جیل بھیجے گئے تھے۔ ہم نے پانی سے افطار کیا۔ اللہ تعالیٰ سے گڑگڑاکر دعا کی گناہوں کی معافی مانگی۔ اور پھر صبح ہوگئی۔ چھ ساڑھے چھ بجے سے قےدیوں کی گنتی ہوتی۔ جےلر نئے قےدےوں سے چند سوالات کرتے اور قانونی امداد کی بھی پیشکش کرتے۔ مےڈیکل چےک اَپ بھی کرواےاگےا۔ جیل میں رہنے کا ےہ پہلا موقع تھا۔ اور میںاس موقع کو ضائع کرنا نہیں چاہا۔ میں نے جہاں جہاں موقع ملاجیل کا جائزہ لیا۔ ےہ جیل 1879ءمیں قائم ہوئی تھی۔ اور اس میں ایک ہزار قےدیوں کی گنجائش ہے۔ اندر کا ماحول بڑا پُرسکون نظر آےا۔ حالانکہ جو برسوں سے ےہاں رہ رہے ہےں ان کے لئے ےقےنا ہر لمحہ ایک صدی ہے۔ مےڈیکل چےک اَپ کے دوران کئی اور قےدیوں سے ملاقات ہوئی۔ ان میں سے ایک کا نام غالباً معراج تھا۔ جس کا دعویٰ تھا کہ سنجے دت نے جس مانےاتا نامی لڑکی سے شادی کی وہ اس کی بیوی تھی۔ اس نے ثبوت کے طور پر کچھ اخبار کے تراشے بتائے جو اس نے جانے کےسے جیل میں اکٹھے کئے ہوںگے۔ ایک اور نوجوان سے ملاقات ہوئی جسے شہر میں ایک مقام پر قیمتی زےورات لوٹنے کے الزام میں گرفتار کےا گیا تھا۔ ان سب نے ایڈیٹر ہونے کی وجہ سے ہماری بہت عزت کی اور ہمارے بلاک کے واڈرن نے سے کہہ دےا کہ ایڈیٹر صاحب سے کوئی کام نہیں لےنا۔ واڈرن نے کہا ےہ صرف اپنی جگہ کچھ دےر کھڑے رہے تو کافی ہے۔ بہرحال شام 4بجے ہمیں اطلاع ملی کہ ہماری ضمانت منظور ہوگئی ہے۔ ہم نے اللہ کا شکر ادا کیا۔ اطلاع 4بجے ملی اور جیل سے باہر آنے تک رات کے 8بج گئے۔ اس نازک وقت میں مرحوم محمد رفےق اور شکیل مرزا نے کافی بھاگ دوڑ کی۔ انوارالعلوم کے بدمعاش لکچررنے بڑی کوشش کی کہ میری گرفتاری کی خبر کو اخبارات میں شائع کرواےا جائے اس کے لئے اس نے تقرےباً پچاس ہزار روپئے خرچ کئے۔
مگر میں احسان مند ہوں تمام اردو اخبارات اور انگریزی اخبارات کے مالکےن اور اسٹاف کا بالخصوص جناب ظہےرالدین علی خاں منےجنگ ایڈیٹر سےاست اور جناب عزیز احمد جوائنٹ ایڈیٹر اعتمادکا کہ انہوں نے مےرے خلاف کسی قسم کی نےوز نہ چھاپنے کی اپنے اسٹاف کو ہدایت دی تھی۔ لگ بھگ13برس گزر گئے‘ مگر ان کا احسان ہمیشہ ےاد رہے گا۔ بہرحال 24گھنٹے میں ہم باہر آچکے تھے۔ اللہ کا فضل رہا کہ سب کی ہمدردی ہمارے ساتھ رہی اور اس کے لئے میں جتنا بھی شکر ادا کروں کم ہے۔ (جاری)

About Gawah News Desk

Check Also

ہوا ہے گو تند و تیز لیکن چراغ اپنا جلارہا ہے

سچ تو مگر کہنے دو! ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز آل انڈیا مسلم پرسنل لاء …

میرے درد کی تجھے کیا خبر!

فیاض کی اچانک موت نے جانے کیوں مجھے جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ اس کے کئی …

Leave a Reply