Thursday , May 2 2024
enhindiurdu

بھلا نا چاہےں بھلا نہ پائےں

صحافت میں رپورٹنگ کی سب سے زےادہ اہمیت ہوتی ہے۔ رپورٹر چاہے وہ کسی اخبار کا ہو ےا کسی ٹی وی چےانل کا۔ اگر آنکھوں دےکھا حال بےان کرے اور دکھائے تو اس کا اثر ہی کچھ اور ہوتا ہے۔ حالےہ عرصہ تک پرنٹ مےڈےا میں رپورٹرس پوری ذمہ داری، فرض شناسی کے ساتھ خدمات انجام دےا کرتے تھے۔ اب بھی بعض اخبارات اور چےانلس ےہ ذمہ داری نبھارہے ہےں مگر ٹیبل نےوز سنی سنائی باتوں پر خبر بنانے کا رجحان بڑھ گیا ہے۔ حالانکہ سنی سنائی بات دوسروں تک پہنچانا خود جھوٹا ہونے کی نشانی ہے۔ مگر نئی نسل کے اکثر رپورٹرس فون پر مختلف ذرائع سے خبر حاصل کرکے اپنے اپنے انداز میں پیش کرتے ہےں۔ اور کئی بات انہیں شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اردو اخبارات کے وسائل محدود ہوتے ہےں۔ اس لئے وہ ہر علاقہ میں اپنا رپورٹر مقرر نہیں کرسکتے۔ ےوں تو اردو اخبارات کے سےنکڑوں نمائندے مل جائےںگے۔ دےہی علاقوں میں خدمات انجام دےنے والے کے لئے کئی چےالنجس ہےں۔ زبان کا مسئلہ، امتےاز، وسائل کی کمی اور مقامی اداروں، جماعتوں کی جانب سے عدم تعاون جس کی وجہ سے دےہی علاقوں کے نمائندے کبھی احساس کمتری کا شکار ہوتے ہےں تو کبھی اپنے آپ کو منوانے کے لئے انہیں معےار اور صحافتی اقدار سے سمجھوتا بھی کرنا پڑتا ہے۔ اردو اخبارات کے مالکین کی جانب سے شاےد ہی دےہی نمائندوں کو معاوضہ دےا جاتا ہو۔ انہیں اکریڈیٹیشن کی سہولت کی فراہم کرکے بھی احسان جتاےا جاتا ہے۔ شہر میں کام کرنے والوں کے ساتھ بھی اَن گنت مسائل ہےں۔ اکثر ےہ تنقید ہوتی ہے کہ اردو اخبارات کی رپورٹنگ معےاری نہیں ہوتی۔ گرگٹ کی دوڑ باڑھ تک‘ اردو اخبارات کے نمائندوں کی سرگرمےاں اقلیتی اداروں تک محدود۔ مالکین کے منظورِ نظر نمائندوں کو کارپوریٹ سےکٹر اور سرکاری محکموں کے لئے وقف کےا جاتا ہے۔ تحقےقاتی صحافت کی گنجائش اس لئے نہیں ہوتی کہ اردو اخبارات اور دوسری صحافتی اداروں کے مالکین کسی قسم کا جوکھم اختےار کرنے کےلئے تےار نہیں۔ دوسری زبان کے اخبارات اور چےانلس کے رپورٹرس کو انتظامےہ کی پشت پناہی حاصل رہتی ہے جس کی وجہ سے وہ ارباب اقتدار سے بھی ٹکرانے کی صلاحیت رکھتے ہےں۔ان کے رپورٹرس کو اےمرجنسی میں کسی بھی مقام کے لئے سفر کرنے کی سہولت بھی ہوتی ہے۔ ان کے اکاﺅنٹس میں ان کی ضرورےات کی تکمیل کے لئے انتظامےہ کی جانب سے رقم بھی منتقل ہوجاتی ہے۔ ےہی وجہ ہے کہ دوسری زبانوں میں بھی پرنٹ اور الکٹرانک مےڈےا کی رپورٹنگ اثرانگریز ہواکرتی ہے۔ رپورٹر معاشی فکر سے آزاد رہتا ہے۔
رہنمائے دکن میں تنخواہیں ہمیشہ سے کم رہیں۔کام بھی تنخواہ کے مطابق کےا جاتا تھا۔ ہم جےسے نئے نووارد صحافیوں کو جستجو اور شوق تھا۔ ادارہ کی جانب سے اگر کچھ نہ بھی دےا جاتا تو اپنے طور پر ہم بعض اہم واقعات کی رپورٹنگ کی اجازت لے لےتے۔ چند واقعات کے ےہاں ذکر کا مقصد ”اپنے منہ مےاں مٹھو“ بننا نہیں ہے بس نوجوانی کے جنون کی حالت کو بےان کرنا ہے۔ فائدہ تو کبھی نہیں ہوا۔ کبھی کبھار نقصان بھی اٹھانا پڑا مگر اس کا کوئی افسوس نہیں ہے۔ کیوں کہ ےہ واقعات آج مےری ےادوں کا انمول اثاثہ ہےں۔ 1980ءکے اواخر ےا 1990 کا ابتدائی دور ہوگا‘ جب ہر گنےش جلوس کے موقع پر شاہ علی بنڈہ کے قریب بڑ کے جھاڑ کے پاس سے پتھراﺅ کی شکایت ہوتی اور پھر فساد شروع ہوجاتاتھا۔ اےسے ہی ایک جلوس کے واقعہ پر پولیس نے مکہ مسجد کے اندر بھی فائرنگ کی تھی۔ اس وقت نہ تو سوشےل مےڈےا تھا نہ ہی الکٹرانک مےڈےا۔ لہٰذا مسجد کے اندر فائرنگ کی پولیس کی جانب سے تردید کردی گئی۔ ہم اپنے ساتھ علیم الدین فوٹو گرافر کو لے کر پہنچے۔ مکہ مسجد کے اندر کافی لوگ جمع تھے۔ ہمیں دےکھ کر وہ اپنی اپنی بات کہنے لگے۔ ایک مصلی نے ہمیں مسجد میں مکبر (باجماعت نماز میں امام کا مقام) کے پاس گولی لگنے کے نشان کو دکھاےا۔ پتھر سے ٹکراکر گولی پلٹ گئی تھی اور غالباً پولیس نے ےا پھر کسی مصلی نے اس کارتوس کو اٹھالیا ہوگا۔ معمولی سا نشان بہرحال وہاں موجود تھا۔ علیم فوٹو گرافر نے اس مقام کی فوٹو لی اور ہم نے گولی لگنے کے نشان کے اطراف اسکیچ پین سے دائرہ بناےا۔ پھر اس کا فلم بناکر اخبار میں اس کےپشن کے ساتھ شائع کیا کہ ”ےہی وہ مقام ہے جہاں پولیس فائرنگ کے نتےجہ میں گولی لگی“ چوں کہ مسجد کے اتنے اندرونی حصہ میں فائرنگ انتہائی سنگین واقعہ تھا۔ مگر ثبوت کے ساتھ اخبار میں چھپنے سے باقاعدہ انکوائری کمےٹی بٹھائی گئی۔ اس کی رپورٹ کےا تھی وہ تو ےاد نہیں‘ البتہ فوٹو گرافر علیم اسٹائل پر آندھراپردیش انفارمیشن ڈپارٹمنٹ نے ایک سال کے لئے پابندی عائد کردی تھی۔ رہنمائے دکن کو بھی باقاعدہ کمشنر پولیس کی جانب سے نوٹس جاری کی گئی تھی جو بعد میں واپس لے لی گئی۔ اس وقت کے بعض سےنئر کرائم رپورٹرس نے ہمیں بتاےا تھا کہ پولیس کی نظر میں ہم بھی ہےں‘ کسی بھی بہانے سے کاروائی ہوسکتی ہے۔ اللہ کے فضل و کرم سے اےسا کچھ نہیں ہوا۔
محمد اظہرالدین سے قربتےں اور فاصلے
محمد اظہرالدین پر مےری کتاب ”کرکٹ کا شہزادہ“ نے مجھے ہندوستان بھر میں ایک اسپورٹس جرنلسٹ کی حیثیت سے پہچان دی۔ ایک دور تھا جب ہم بہت زےادہ ان کے قریب تھے۔ مگر بعض واقعات اےسے پیش آئے جب ہم اپنے قلم پر قابو نہ رکھ سکے اور نہ ہی اپنے تعلقات کی خاطر اپنے پیشہ سے سمجھوتہ کرسکے۔ جس کی وجہ سے ہماری قربتیں فاصلوں میں بدلتی گئیں۔ اکتوبر 1995ءمیں اظہرالدین نے REEBOK شوز کے ساتھ اگریمنٹ کےا تھا اور ایک شو روم کے افتتاح کے موقع پر انہوں نے جوتے پر دستخط کئے تھے۔ بنےادی طور پر وہ مذہبی انسان ہےں۔ ےہ دستخط غالباً انہوں نے بے خےالی ےا مروت میں کردےئے ہونگے۔ تاہم میں نے رہنمائے دکن میں اس پر شدید تنقید کی کہ جوتے پر ایک مقدس نام کے دستخط کئے گئے۔ اس نےوز کے چھپنے کے بعد مختلف گوشوں سے بھی تنقید ہوئی۔ اور انگلش اخبارات نے اسے صفحہ اول کی خبر بنادےا۔ اتفاق سے اظہرالدین مدراس میں تھے جہاں ٹسٹ مےاچ ہونے والا تھا۔ ہمارے دوست علاءالدین ذکی اُن دنوں مدراس ہی میں تھے۔ میں نے ان سے رابطہ قائم کرکے کہا کہ وہ اظہر سے ہوٹل میں ملاقات کرے اور ان کا ردعمل معلوم کرے۔ علاءالدین ذکی اُس ہوٹل پہنچے جہاں پوری ٹیم تھی۔ انہوں نے اظہر کے کمرہ کے دروازہ پر دستک دی۔ اظہر نے دروازہ کھولا جےسے ہی انہیں معلوم ہوا کہ وہ مےرے کہنے پر وہاں آئے ہےں تو انہوں نے غصہ سے دروازہ بند کردےا۔ ذکی ابھی شش و پنج میں تھے کہ کےا کرےں کےا نہ کرےں۔ اظہر نے دوبارہ دروازہ کھولا اور انہیں اندر بلاےا اور مےرا غصہ ان پر نکالا۔ ذکی کے مطابق اظہر نے کہا ”فاضل اےسا کےسے لکھ دےتے کہ ہم مقدس نام کی توہین کئے‘ پھر انہوں نے اپنے لےٹر ہیڈ پر انگریزی میں اظہار معذرت کےا کہ اگر کسی کو ان کے جوتے پر دستخط کرنے کے عمل سے ٹھیس پہنچی ہو تو وہ معذرت خواہ ہےں۔“ ےہ دستخط شدہ بےان رہنمائے دکن اور نئی دنےا میں شائع ہوا۔ کوئی ڈیڑھ دو سال تک اظہرالدین نے ہمیں دےکھنا تک گوارا نہیں کیا۔ پھر حالات معمول پر آتے گئے۔ غالباً اسی کے بعد سے محمد اظہرالدین نے اپنے آٹوگراف میں پورے نام کی جگہ صرف AZZU لکھنا شروع کیا تھا۔ کئی اور اےسے واقعات اظہرالدین کے ساتھ پیش آئے جب ہم نے اظہرالدین کے متعلق سخت الفاظ کا استعمال کیا۔ ےہی وجہ ہے کہ بہت قریب آکر بہت دور چلے گئے۔ اظہرالدین سے اب بھی تعلقات ہےں‘ ایک دور اچھا بھی گزرا۔ اب وہ دور تو واپس آنے والا نہیں۔ اکثر کا ےہ خےال ہے کہ اگر ہم اظہرالدین کے زےادہ قریب ہوجاتے تو شاےد اور بھی ترقی کرتے۔ ا للہ تعالیٰ کو جو منظور ہوتا ہے وہی ہوتا ہے۔ اور مجھے اس بات پر کوئی افسوس نہیں کہ سچ لکھنے سے مجھے نقصان ہوا۔ بقول شاعر:
بعد حق کی جو کرتا ہے دےوانہ ےہاں
بے تکلف اسے سولی پر چڑھادےتے ہےں لوگ
اُف وہ ہولناک ماحول‘ دہشت ناک مناظر
2016ءمیں چھوٹی بہن پروین شہر کے ایک آئی سی ےو میں شریک تھیں۔ ان کے ساتھ راتوں میں دےکھ بھال کے لئے میں ہی رہتا تھا۔ ہمارے ساتھی مجاہد محی الدین بھی ہاسپٹل ہی میں رہا کرتے تھے۔ آئی سی ےو میں ساتھ رہنے کی اجازت نہیں تھی مگر میں نے خصوصی اجازت لے لی تھی۔ ہاسپٹل کے دن اور رات میںزےادہ فرق محسوس نہیں ہوتا تھا۔ خاص طور پر آئی سی ےو میں جہاں مرےضوں کے چہرے آکسیجن ماسک کے پےچھے چھپے ہوتے اور بےشتر مریض وےنٹی لیٹرس کے سہارے سانس لے رہے ہوتے۔ ان میں سے کتنے زندہ ہےں ےا کتنے زندگی کی جنگ ہار چکے ہےں‘ پتہ نہیں چلتا۔ دےکھتے ہی دےکھتے کسی ایک بےڈ سے ایک مرےض مےت بن جاتا ہے۔ اور وقتی طور پر جو خوف طاری ہوتا ہے وہ کم بھی نہیں ہوتا۔ اس بےڈ پر دوسرا مرےض آجاتا ہے۔ اس کے پڑوس والے میں سے ایک اور مرےض کو آخری سفر کےلئے لے جانے کی تےاری کی جاتی ہے۔ مےری بہن پروین اگرچہ کہ بات چیت کرنے کے موقف میں نہیں تھیں‘ مگر وہ تمام مناظر کو دےکھ رہی تھیں۔ جےسے جےسے رات شروع ہوتی ہے وےسے وےسے ماحول پُراسرار اور ہولناک ہوتا جاتا ہے۔ جھپکی لگ جائے اور پھر آنکھ کھل جائے اپنے قریب سفےد لباس میں کسی کو دےکھ کر ملک الموت کا تصور آتا ہے جب اوسان بحال ہوجائے تو پتہ چلتا کہ ےہ سفےد لباس میں نرس ہے۔ اس ماحول میں‘ میں نے کاغذ اور قلم کا ساتھ نہیں چھوڑا بلکہ ”سچ تو مگر کہنے دو“ کا پیش لفظ آئی سی ےو میں بےٹھ کر لکھا۔ کیوں کہ اس سے زےادہ حقیقت پسندانہ ماحول کہیں اور نہیں مل سکتا تھا۔ زندگی اور موت کی کشمکش آس اور ےاس کے درمےان سانس لےتے ہوئے مرےضوں اور ان سے زےادہ ذہنی اذیت سہتے ہوئے ان کے عزیز و اقارب کے درمےان بےٹھ کر لکھنے کا تجربہ ہی کچھ اور تھا اور ےہاں سچ کے سوا کچھ اور نہیں لکھا جاسکتا۔اور اسی آئی سی ےو میں پروین نے اپنی زندگی ہار دی۔
ےااللہ! ےہ دن رات پھر نہ آئے:
جولائی 2020ءکے وہ شب و روز جب کووڈ کی آڑ میں موت رقصاں تھی۔ہر گھر سے کوئی نہ کوئی فرد کم ہونے لگا تھا۔ میں اور شہباز دونوں ہی کووڈ سے متاثر ہوکر اپنے بچوں کی مرضی کے خلاف گاندھی ہاسپٹل میں شرےک تھے۔ گاندھی ہاسپٹل میں اس وقت ایک طرف کووڈ کے علاج کا مرکز تھا تو دوسری طرف ےہ مردہ گھر بھی بن چکا تھا۔ ڈاکٹر خضر حسین جنےدی نے ساتویں منزل پر ہمارے لئے ایک paying room کا ا نتظام کرواےاتھا۔ پورے فلور پر صرف ہم باپ بےٹے ہی تھے۔ باقی تمام رومس میں مردے پڑے ہوئے تھے۔ جنہیں ان کے رشتہ دار اس لئے لے جانے کے لئے تےار نہیں تھے کہ کہیں وہ خود بھی کووڈ کا شکار نہ ہوجائے۔ےہ ایک اےسا وقت تھا اُسے الفاظ میں کےسے بےان کےا جاسکتاہے۔ دن میں بھی گاندھی ہاسپٹل کا ےہ بلاک وےران ہوتا اور مغرب کے بعد سے تو بھوت بنگلہ بن گیا تھا۔ وقفہ وقفہ سے نرسس چکر لگاکر ٹمپریچر اور آکسیجن لیول چیک کرتیں۔مجھے اپنے بےٹے کی فکر اور بےٹے کو اس کے معصوم بچوں کی فکر ہم دونوں ایک دوسرے سے ایک طرح سے منہ چھپائے ہوئے تھے۔ اس کا چہرہ دےوار کی طرف مےرا چہرہ دوسری دےوار کی طرف۔ وحشت پر قابو پانے کےلئے میں نے لکھنے کے لئے قلم اٹھاےا۔ پوری روداد منظرکشی کے ساتھ لکھ ڈالی۔ جسے پڑھ کر جناب اسد مرزا (دہلی) نے فون پر کہا ”ارے ےار! کم از کم ہاسپٹل کے بےڈ سے تو نہ لکھا کرو“ مگر جس ماحول میں رہ کر قلم اٹھاےا جاتا ہے وہ سچ اُگلتا ہے۔ اور کرونا کے دوران کوئی چھ مضامین میں نے لکھے۔ پڑھنے والوں کا تاثر ہے کہ ےہ تحریرےں خون دل اور آنسوﺅں میں ڈبوکر لکھی گئی ہےں۔ کووڈ اور لاک ڈاﺅن کے دوران جن صحافیوں نے اپنی جان ہتھےلی پر رکھ کر ےا جان قربان کرکے دنےا کو حقائق سے واقف کرواےا‘ ان صحافیوں کو مےرا سلام، ان صحافیوں کی قربانیوں کی بدولت ہی دنےا کو پتہ چلا تھا کہ کووڈ کے مارے لاک ڈاﺅن سے ہارے عام آدمی کی کےا حالت تھی! (جاری)

About Gawah News Desk

Check Also

ہوا ہے گو تند و تیز لیکن چراغ اپنا جلارہا ہے

سچ تو مگر کہنے دو! ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز آل انڈیا مسلم پرسنل لاء …

میرے درد کی تجھے کیا خبر!

فیاض کی اچانک موت نے جانے کیوں مجھے جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ اس کے کئی …

Leave a Reply