محمود خان، میسور
جہاں جہاں بی جے پی کی سرکاریں ہیں وہاں بجرنگ دل اور ہندو پریشد کے اراکین مسلمانوں پر ظلم و زیادتی کر رہے ہیں ۔کوئی بھی مذہبی جلوس نکالتے ہیں تو مقررہ راستہ بدل کر مسلمانوں کے علاقوں میں آ جاتے ہیں، لاٹھیوں اور تلواروں اور پتھروں سے لیس رہتے ہیں اور مسلمانوں کے خلاف نعرے لگاتے رہتے ہیں اور مسجدوں کے پاس کھڑے ہو کر مسجدوں کی توڑ پھوڑ کرتے ہیں اور وہاں موجود مسلمانوں پر حملے کرتے ہیں۔ حالانکہ وہاں پولیس ہوتی ہے مگر اکثر اوقات وہ خاموش تماشائی بنے رہتے ہیں۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ مسلمانوں نے کیا خطا کر دی جس کے سبب یہ لوگ ان کے خلاف ہیں۔ کہتے یہ ہیں کہ وہ ہندتوا کے علمبردار ہیں مگر جاننے والے جانتے ہیں کہ وہ ہندوازم کے خلاف کر رہے ہیں۔ اگر ان سے پوچھا جائے کہ ہندوازم کا صرف نعرے بازی کرنا، دوسرے بے ْصوروں کے ساتھ مارا ماری کرنا اور ان کے گھر، دوکان اور مسجدیں جلا دینا ہندوازم ہے تو معلوم ہو تا ہے کہ وہ ہندوازم کی الف بے تے بھی نہیں جانتے۔ جئے سری رام اور جئے سری کرشن کے نعرے تو لگاتے ہیں مگر نہ وہ رام کے کردار کو جانتے ہیں اور نہ ہی کرشن کے۔ بس ان کا نام لے کر ان کے کردار کو بدنام کر تے ہیں۔ تعجب اس بات پر ہوتا ہے کہ کچھ ہندو پنڈت بھی انہیں یہ نہیں سمجھاتے کہ شری رام اور کرشن امن و امان کے علمبردار تھے اور وہ کسی بے قصور کے ساتھ جنگ کرنے کے قائل نہیں تھے ہندوں کی اکثریت یہ نہیں جانتی کے ہندوں کی مذہبی کتاب ویداس اور اپانیشد ہیں اور ان کا سمجھ کر پڑھنا ہر ہندو کے لئے فرض ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ ان کی اکثریت یہ نہیں جانتے۔ بس نعرے بازی اور من چاہی میں لگ جاتے ہیں اور اسی کو ہندوازم سمجھ بیٹھتے ہیں۔ در اصل یہ شر پسند ہندوازم کو دنیا بھر میں بدنام کرتے ہیں مگر نہیں جانتے۔ مسلمان اگر اپنے بچاو کے لئے مدافعت کرتے ہیں تو انہیں دہشت گرد اور ملک کے دشمن کا خطاب دے دیا جاتا ہے۔ یہ تمام شرپسندی صرف دو فیصد لوگ کرتے ہیں مگر ہمارا گودی میڈیا اسے سرخیوں میں بتاتا ہے اور دن کے چوبیس گھنٹے دکھاتا رہتا ہے۔ زیادہ تر مسلمانوں کے رد عمل اور مدافعانہ کو ششوں کو ایسا بتا تا ہے جیسے انہوں نے ہی اس جھگڑے کی پہل کی ہو۔ دیکھنے والے بھی اسی کو سچ سمجھ لیتے ہیں۔ اس رد عمل کی سزا مسلمانوں کو یہ ملتی ہے کی بی جے پی حکومتیں انہیں کے کھروں کو بلڈوزروں سے توڑ دیتے ہیں۔ لوگ ایک گھر بنانے کے لئے زندگی بھر کوشش کرتے ہیں مگر ان کے گھر ہر کسی بہانے سے چند منٹوں میں توڑ دیئے جاتے ہیں۔ جو رنج و غم ان کا ہوتا ہے اسے بیان کرنے کے لئے الفاظ نہیں ملتے۔ فرقہ پراستوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ جہاں تم اقتدار میں ہو وہاں تم بلڈوزروں کا استعمال کرکے معصوموں کے مکان توڑتے ہو اور انہیں در بدر کی ٹھوکریں کھانے چھوڑ دیتے ہو تو اللہ دوسری جگہوں پر طوفان، سیلاب اور بارش کے ذریعہ تمہارے گھروں کو مسمار کر رہا ہے اور تمہیں بے یار و مددگار چھوڑ رہا ہے۔ اگر تم اس حقیقت کو سمجھ جاؤ تو تمہارے لئے بہتر ہے۔ ان شر پسندوں کو بتا نا ہے کہ تم بلدوزروں سے توڑتے رہو ہم بناتے رہیں گے اور مظلوموں کو بساتے رہیں گے۔ جب بھی کوئی ظالم ظلم کر نے لگتا ہے تو مظلوموں کو چاہیے کہ ان کا اس وقت تک مقابلہ کریں جب تک پولیس نہیں آ جاتی۔ایک بات جو ہر امن پسند فرد کو یاد رکھنا ہے کہ جب تک فرقہ پرست اقتدار میں رہتے ہیں ہمیشہ ایسا ہی ہوتا رہے گا۔ اگر اس سے بچنا ہے تو ہر سیکولر ذہن رکھنے والے کو متحد ہونا ہے اور ان فرقہ پرستوں کو شکست دینا ہے۔ جو بھی کرنا ہے وہ الیکشنوں کے ذریع کرنا ہے اور اس کے لئے ہر ایک کو تمام فروعی مسلوں کو چھوڑ کر متحد ہونا ہے۔ آج جو مشکلیں شمالی ہندوستان کے لوگ اٹھا رہے ہیں یہ سب انہیں کی کرتوت کاپھل ہے وہ اگر مسلکی جھگڑے چھوڑ کر متحد ہوتے تو سب مل کر گٹھ بندھن کے امیدوار کو ووٹ دیتے اور کبھی ووٹوں کو بکھرنے نہ دیتے اس تمام مصیبت کے لئے میں شمالی ہندوستان کے مذہبی حضرات کو ذمہ دار سمجھتا ہوں کیونکہ انہوں نے کبھی مسلمانوں کو سب کچھ بھلا کر متحد کرنے کی کوشش نہیں کی خود برباد ہورہے ہیں اور بدنام بھی ہورہے ہیں۔ جناب ارشد مدنی اور جناب محمود مدنی صاحب مسلمانوں کو متحد ہو نے کے مشورے تو دے رہے ہیں مگر صرف یہ دونوں متحد نہیں ہو رہے ہیں۔ اب بتائیے کی ان کے باتوں کا اثر دوسروں پر کیا پڑے گا۔ جو خود متحد نہیں ہوتے وہ دوسروں کو کیاسبق دینگے۔ شاید مار پر مار کھانا ہی ان کی قسمت میں لکھا ہے۔ بہتر ہے اگر عمر رسیدہ حضرات عہدے چھوڑ کر مشاورتی رول مین آجائیں اور نوجوانوں کو کام کرنے کا موقع دیں۔شمالی ہندوستان میں یوں تو بہت اعلی تعلیم یافتہ حضروت موجود ہیں مگر ان کی اکثریت عملی طور پر بے اثر اور نا قابل ہیں۔ مانا کہ وہ بلڈوزر چلا رہے ہیں مگر کیا ہمارے مالدار حضرات اپنی فضول خرچی چھوڑ کر جمعیت العلماء ہند کے زیر سایہ نئے گھروں کو تعمیر کر کے ان بے گھر مسلمانوں کو دے نہیں سکتے۔ ضرور دے سکتے ہیں۔ اب یہ رونا دھونا بندھ کرنا چاہئے اور حالات کا مقابلہ کرنا چاہیے۔ اگر غور سے دیکھیں تو یہ شر پسند نہ ہندوازم کے علمبردار ہیں اور نہ ہی مسلمانوں کے دشمن ہیں۔ ان کا ظلم و ستم نہ ہندوازم کو بڑھاوا دینے کے لئے ہے اور نہ ہی اس کی حفاظت کے لئے ہے۔ یہ تو صرف سیاسی اقتدار میں رہنے کے لئے کھیلا جانے والا کھیل ہے۔ ہم ہی بیوقوف ہیں جو ان کے جال میں پھنس رہے ہیں۔بی جے پی میں بھی اچھے اور سمجھدار لوگ ہیں جو جانتے ہیں کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ کر رہے ہیں وہ غلط ہے۔ ہمیں اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ اب بی جے پی ہمیشہ کے لئے ایک مضبوط سیاسی پارٹی کے طور پر رہے گی اور وہ اقتدار میں رہے یا نہ رہے اپنی کوشش کرتی رہے گی۔ اس لئے ضروری ہے کہ ان کے ساتھ ہمیں بات چیت جاری رکھنا چاہیے۔ انجام جو ہو تا ہے سو ہونے دیں مگر کوشش تو جاری رہنا چاہیے۔ہریانہ میں 50پنچایتوں نے مسلم تاجروں کا با ئکاٹ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ایسا کرناٹکا میں بھی ہوا تھا اور ہمیں ہر دن ڈر لگا رہتا تھا کون کب کوئی شوشہ مسلمانوں کے خلاف چھوڑ دے گا۔ مگر اللہ کا فضل ہوا کی حکومت کے بدلتے ہی سب کچھ ٹھنڈا ہو گیا اور ہم آج پرسکون زندگی گذار رہے ہیں۔ ا بجرنگ دل اور ہندو پریشد اور دیگر شر پسند اب خاموش ہو گئے ہیں کیونکہ حکومت نے انہیں صاف کہہ دیا ہے کہ اگر انہوں نے نفرت پھیلانے کی کوشش کی تو ان کے خلاف ایکشن لیا جائے گا۔یسا اگر بدلاؤ دوسری ریاستوں میں بھی ہوگیا تو وہاں بھی مسلمانوں کو پر سکون زندگی نصیب ہو جائے گی۔ مگر اس کیلئے متحد ہو کر ہی کوشش کرنا ہو گا۔ اس ضمن میں ہمارے دانشور، مساجد کی کمیٹیاں اور ریٹائرڈ افسر بہت اہم رول ادا کر سکتے ہیں اور عوام کی ذہین سازی کر سکتے ہیں۔ بیچارے علماء کو مذہب سنبھالنے دیجیے اور تم دنیا سنبھالو (ہر شخص کی سوچ اس کے مشاہدے اور تجربے کی بنیاد پر ہوتی ہے۔ ضروری نہیں کہ ہر کوئی میرے مشورے سے متفق ہوں)۔