سچ تو مگر کہنے دو ! ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز
فرقہ پرست طاقتوں کے ذہنوں میں وقفہ وقفہ سے کیڑے کلبلاتے رہتے ہیں جس کی وجہ سے وہ مسلمانوں سے چھیڑ خوانی کرتے ہیں۔ انہیں مشتعل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور کبھی ان کے زخموں کو کریدکر تکلیف پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ کیوں کہ یہی کی ذہنی آسودگی اور ان کی بقاء کا ذریعہ ہے۔ مسلمانوں کو گالی دیئے بغیر انہیں چین اور نقصان پہنچائے بغیر‘ انہیں سکون اور ان کی برادری میں مقام نہیں ملتا۔ ابھی حال ہی میں کشمیر فائلز فلم بناکر ویویک اگنی ہوتری نے ایک خاص طبقے کو خوش کرنے کی کوشش کی۔ وزیر اعظم سے لے کر ہر چھوٹے کارکن نے اس کے لئے پروپگنڈہ کیا۔ شاہ رخ خاں نے اپنی فلم ’جوان‘ کے ایک منظر سے سب کے کئے کرائے پر پانی پھیر دیا۔ تلنگانہ میں الیکشن ہونے والے ہیں۔ پھر سے کیڑے کلبلائے تو فلم ’رضاکار‘ بنادیا جس کا ٹریلر ریلیز کیا گیا جو کافی بھیانک ہے اور اس سے لگتا ہے کہ رضاکار واقعی ظالم رہے ہوں گے۔ اور واقعی انہوں نے ہندوؤں پر ظلم و تشدد کے پہاڑ ڈھائے ہوں گے۔ ہم مسلمانوں کی یہ بدقسمتی ہے کہ پولیس ایکشن سے پہلے اور بعد کے حالات پر جس قسم کی حقائق پر مبنی کتابیں آنی چاہئے تھیں‘ اس کی کمی محسوس ہوتی ہے۔ بعض کتابیں لکھی گئیں‘ ان میں سے بیشتر دستیاب نہیں ہیں۔ ہماری نسل پولیس ایکشن کے بہت بعد کی ہے۔ اپنے بزرگوں سے جو اب اس دنیا میں نہیں رہے‘ پولیس ایکشن کے واقعات سنے ہیں۔ اور جو کچھ بھی مواد مستند کتابوں سے ملا‘ اس کی روشنی میں اس حقیقت سے آشنا ہوئے کہ جتنا ظلم مسلمانوں نے سہا اتنا کسی نے نہیں سہا ہے۔
رضاکار‘ ایک غیر منظم عسکری تنظیم جو ایک اسلامی مملکت حیدرآباد کی آزادی اور خودمختاری کی برقراری کے لئے جدوجہد کے لئے تشکیل دی گئی تھی۔ اگرچہ کہ حیدرآباد ملٹری کے بعض عہدیدار انہیں تربیت دیا کرتے تھے مگر یہ تربیت نہ ہونے کے برابر تھی۔ ان کے پاس جو ہتھیار تھے‘ ان سے پرندوں کا شکار تو ممکن تھا۔ ماڈرن ہتھیاروں سے لیس انڈین آرمی کے سپاہیوں سے مقابلہ ناممکن تھا۔ امیر طبقے کے لوگ بھی رضاکاروں میں شامل تھے۔ مگر جس طرح آج کے دور کے امراء اپنے ڈرائنگ روم تک محدود رہتے ہیں‘ تب بھی وہی حال تھا۔ آج جس طرح غریب اور اوسط طبقہ کے نوجوان مذہبی نعروں کے ساتھ میدان میں کود پڑتے ہیں‘ ماضی میں بھی رضاکاروں کا وہی حال تھا جن کا تعلق غریب اور اوسط طبقہ سے تھا۔ کل بھی قیادت خود کو محفوظ اور ان کو میدانِ جنگ کے حوالے کیا کرتی تھی۔ آج بھی حالات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ پولیس ایکشن کے واقعات کے چشم دید گواہ ایم اے عزیز انجینئر مرحوم اپنی کتاب ”پولیس ایکشن“ میں لکھتے ہیں کہ اصل رضاکار جذباتی تھے جو اپنی حماقتوں کی وجہ سے نقصان اٹھاتے۔ جبکہ حیدرآباد اسٹیٹ کانگریس کے ارکان اور حیدرآباد مکتی سنگرام کے ہندو کارکن بھی رات کے اوقات میں رضاکاروں کا بھیس بدل کر ہر قسم کی لوٹ مار کرتے‘ خواتین کی بے حرمتی کرتے اور اس کا الزام رضاکاروں پر لگاتے۔
حیدرآباد ملٹری کے کمانڈر جنرل عیدروس کے علاوہ نظام کے قابل اعتماد سمجھے جانے والے امراء جن میں کئی نوازجنگ، کئی یارجنگ شامل تھے‘ یہ نظام کے میر جعفر میر صادق تھے۔ جنہوں نے خفیہ معاہدہ کرکے ہتھیار بھی ڈالے، خود کو بچالیا اور پھر کانگریسی بن کر سیاسی عہدے بھی حاصل کئے۔ اور اگر کوئی حالات کا شکار ہوا تو وہ رضاکار تھایا عام مسلمان۔ غیر مسلم کو اگر کسی مسلمان سے دشمنی نکالنی ہوتی تو وہ پولیس میں جاکر شکایت کرتا یا راست انہیں لاکر شریف معصوم مسلمانوں کو رضاکار بتاتا اور وہ بے چارے گرفتار کرلئے جاتے۔ ان پر ظلم ڈھایا جاتا بلکہ گولی کا نشانہ بھی بنائے جاتے۔
بیسویں صدی کے پہلے 25برس بڑے پُرآشوب تھے‘ ساری دنیا میں انقلابات آرہے تھے۔ 1917ء میں روس میں ژار حکومت کا خاتمہ ہوا۔ ترکی میں خلافت عثمانیہ کا دور ختم ہوا۔ کمیونسٹ دنیا کے ہر خطے میں اپنی حکومت تشکیل دینے کے خواہاں تھے۔ جرمنی کے ڈکٹیٹر ہٹلر سے ہندوستان کی ہندو تنظیمیں متاثر تھیں۔ آر ایس ایس نے ہٹلر ہی کے نظریے کو اختیار کیا۔ ہندوستان کو ہندو راشٹریہ بنانے کی تحریک شروع کی اس کیلئے ضروری تھا کہ مسلمانوں اور دوسری مذہبی اقلیتوں کے خلاف تحریک چلائی جائے۔ مدن موہن مالویا نے ہندو مہاسبھا کو مستحکم کیا اور پھر جب ہندوستان آزاد ہوا تو دوسری آزاد ریاستوں کو ہندوستان میں ضم کرنے کی مہم شروع کی گئی۔ حیدرآباد خودمختار مملکت کے طور پر اپنے وجود کو برقرار رکھنے کا خواہاں تھا۔ تاہم حیدرآباد اسٹیٹ کانگریس، کمیونسٹ پارٹی، حیدرآباد مراٹھا، مکتی سنگرام نے نظام حکومت کے خلاف مہم چلائی جسے حکومت ہند کی مدد حاصل تھی۔ چوں کہ نظام کے وفادار اصل غدار تھے‘ اس لئے جو مرحلہ پُرامن طریقے سے ممکن تھا وہ پُرتشدد طریقے سے کیا گیا۔ 13ستمبر سے 18ستمبر تک اور پھر اس کے کئی سال تک ریاست حیدرآباد کے مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ سندر لال کمیٹی رپورٹ میں بھی محفوظ ہے۔ جناب ایم اے عزیز انجینئر مرحوم اپنی کتاب ”پولیس ایکشن“ میں لکھتے ہیں کہ نواب میر عثمان علی خاں نے بہت کوشش کی کہ انڈین یونین اور حیدرآباد کے درمیان کوئی سمجھوتہ ہوجائے تاکہ تعلقات پُرامن طور پر قائم رہے مگر ایسا نہیں ہوسکا۔ آخر کار حکومت ہند نے یکطرفہ فیصلہ کرکے 13ستمبر 1948ء کو دھاوا بول دیا اور اپنی فوجیں ریاست کے اندر داخل کردیں۔ 17ستمبر تک قبضہ ہوگیا اور حکومت حیدرآباد کا 224سالہ دور ختم ہوگیا۔ہندوستانی فوج کا کہیں مقابلہ یا مزاحمت نہیں ہوئی۔ شہر حیدرآباد میں کسی قسم کا نقصان نہیں ہوا۔ اطراف اکناف کے علاقے،اضلاع اور تعلقہ جات میں مسلمانوں پر قیامت ڈھائی گئی۔ فوج اور پولیس کی سرپرستی میں لوٹ مار ہوئی۔ افتخار احمد رضوی مرحوم جو کمیونسٹ لیڈر تھے اور پھر مکتی سنگرام کے مجاہد آزادی رہے ان کے مطابق کوئی تین لاکھ مسلمان مارے گئے۔ ناندیڑ، پربھنی، عثمان آبادجیسے علاقوں میں مسلمانوں کو جو کرب ناک حالات سے گزرنا پڑا اسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ خواتین کی بے حرمتی، مسلمانوں کا قتل عام، جائیدادوں کی لوٹ مار، املاک پر زبردستی قبضے، روزگار سے بے دخلی کے واقعات تاریخ کی کتابوں میں محفوظ ہیں۔ تجارت پیشہ مسلمانوں کی دوکان یا کاروبار لوٹنے سے نہیں بچ سکے۔ پولیس سے زیادہ ملٹری کے جوان زیادہ تر گورکھے تھے وہ سب سے زیادہ تکلیف پہنچاتے۔ دولت مند افراد سے وہ پیسہ وصول کرتے۔ اور بدنام ر ضاکاروں کو کیا گیا جو اس قدراحمق تھے کہ اپنے قائدین کے کہنے پر نعرہئ تکبیر بلند کے انڈین ملٹری کے ٹینکوں کے سامنے لیٹ گئے تاکہ جام شہادت نوش کرسکے اور قائدین اپنی جگہ محفوظ تھے۔ خود ایم اے عزیز انجینئر کے والد کی کرشماتی طور پر جان بچ گئی انہیں ان کی مسلم حلیے کی بناء پر رضاکار قرار دے کر ریلوے اسٹیشن کے احاطہ میں ایک قطار میں کھڑا کیا گیا۔ یکے بعد دیگر ان رضاکاروں کو گولی ماری جارہی تھی۔ کسی نے انجینئر صاحب کے والد کو پہچانا اور سفارش کرکے انہیں بچالیا گیا تھا۔ مکتی سنگرام اور حیدرآباد اسٹیٹ کارکنوں کے لئے جئے ہند ایک کوڈ ورڈ تھا۔ جس علاقہ پر حملہ کرنا ہوتا وہ اس علاقہ کا جئے ہند کیا کرتے تھے۔
ناندیڑ کے شیوڑی باجی راؤ علاقہ میں مسلمانوں کے تمام مکانات لوٹ لئے گئے۔ خواتین کی کئی دنوں تک بے حرمتی کی گئی۔ قصبہ دھارور ضلع بیڑ میں 14/اکتوبر 1948ء 10ذی الحج 1364ء یعنی عیدالضحیٰ کے دن 33مسلمانوں ان کے ہاتھ پاؤں بان دھ کریہ کہہ کر ذبح کیا گیاکہ تم گائے بکرے کی قربانی کرتے ہوئے ہم تمہاری قربانی دیں گے۔ سلیمان نامی قصاب کی پہلے جلد چھیلی گئی پھر اس کا گلہ کاٹا گیا۔ گلبرگہ کے ممتاز صحافی عزیزاللہ سرمست ایڈیٹر بہمنی نیوز نے پولیس ایکشن سے متعلق اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ پولیس ایکشن کے دوران مسلمانوں کا سب سے زیادہ نقصان قتل عام مراٹھواڑہ، عثمان آباد، لاتور، بیڑ، کلیان، یادگیر ضلع کے شاہ پور، شولاپور، سگر، گوگی، گرمٹکال، گلبرگہ ضلع کے اَلند، افضل پور، جیورگی اور گلبرگہ شہر میں ہوا۔ عثمان آباد کی وہ گھاٹیاں آج بھی موجود ہیں‘ جہاں لاتعداد مسلمانوں کو قطار میں ٹھہراکر انہیں گولیوں سے بھون دیا گیا۔ شوریٰ پور کے مسلمانوں کو ہاتھ رسیوں سے باندھ کر جانوروں کی طرح ہانکتے ہوئے پہاڑ کے دامن میں لایا گیا جہاں بیک وقت تلواروں سے ان کی گردنیں اڑا دی گئیں۔ شاہ پور کا قدیم بس اسٹینڈ ا ور تعلقہ پنچایت کا کامپلکس آج جہاں موجود ہے‘ وہ میدان مسلمانوں کی قتل گاہ بن گیا تھا۔ بیدر اور اس کے تعلقہ جات اور قصبہ جات میں مسلمانوں کا قتل عام اس قدر ہوا کہ صرف زمین سرخ نہیں ہوئی بلکہ مانجرا ندی میں مسلمانوں کا خون اور پانی ایک ہوکر بہنے لگے۔ ندی نالوں میں مسلمانوں کی نعشیں بہتی رہیں۔
پنڈت نہرو نے جب پولیس ایکشن کے بعد کے حالات کا جائزہ لینے کیلئے پنڈت سندرلال کو ان اضلاع کا دورہ کرنے کے لئے بھیجا تو اس تین رکنی کمیشن نے اپنی رپورٹ میں لکھاتھا کہ ”میں نے بولیوں کو خواتین کی نعشوں سے بھرا پایا“۔ ضلع بیدر اور یادگیر کے ندی نالوں میں انسانوں کا خون اور پانی ایک ہوکر کئی دنوں تک بہتا رہا۔ ہر جگہ بدحال بیوائیں، یتیم بچے، اور اجڑی ہوئی بستیاں نظر آئیں۔ ہر طرف نعشیں ہی نعشیں نظر آئیں۔ پنڈت سندر لال نے پنڈت نہرو کو لکھا کہ کیا تم نے مجھے نعشوں کا شمار کرنے کے لئے بھیجا تھا؟
اخبار ”رعیت“ کے ایڈیٹر نرسنگھ راؤ نے لکھا تھا کہ رضاکاروں نے اتنا ظلم نہیں کیا جتنا 15دن میں فوج اور مکتی سنگرام کے کارکنوں نے مسلمانوں پر کیا ہے۔
یہ تو پولیس ایکشن کے دور کی بات ہے اس کے بعد کئی برس تک مسلمان سر اٹھاکر چل نہیں سکتے تھے۔ سرکاری ملازمتیں چلی گئیں۔ اور نظام کے دربار کے وہ حرام خور، وہ یار جنگ، نوازجنگ گاندھی ٹوپیاں پہن کر ہندوستان کے وفادار اور مجاہدین آزادی کہلائے۔ پولیس ایکشن میں مسلمانوں نے جو کھویا آج تک وہ اسے دوبارہ پانہیں سکے۔ اگر اپنے پیروں پر دوبارہ کھڑا ہونے کی کوشش کی بھی ہے تو انہی وقفہ وقفہ سے ہراساں و پریشان کیا جاتا رہا ہے۔
فلم رضاکار میں ظاہر ہے نظام کو ڈکٹیٹر بتایا ہوگا۔ حیدرآباد میں ہندو اکثریت میں رہے مسلم حاکم نے امن و امان، مذہبی رواداری کی مثال قائم کی۔ کشمیر میں 90 فیصد سے زائدمسلم آبادی اور ہندو راجا ہری سنگھ نے ان پر جو مظالم ڈھائے، ان کا جو قتل عام کیا وہ تاریخ کا وہ حصہ ہے جس پر کوئی روشنی نہیں ڈالتا۔ کاش کوئی مرد کا بچہ حقیقت پر مبنی فلم بنائے اور دنیا کو سچائی دکھائے۔
کم از کم اتنا تو بتائے کہ رضاکاروں نے اگر ظلم کیا بھی تو کسی رضاکار نے بابو بجرنگی کی طرح تین سالہ بچی کو پتھر پر پٹخ کر قتل نہیں کیا ہوگا! 21رضاکاروں نے مل کر کسی غیر مسلم خاتون کا بلقیس بانو کی طرح حشر نہیں کیا ہوگا! نہ ہی ماب لنچنگ کی ہوگی۔