آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے انتخابات اور منظورہ قراردادیں
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بور ڈ کے اجلاس عام منعقدہ جامعہ اسلامیہ بنجاری، تحصیل مہو، اندور (مدھیہ پردیش) میں اراکین بور ڈ نے اتفاق رائے سے بور ڈ کے پانچویں صدر کی حیثیت سے مشہور عالم دین حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب کا انتخاب کیا۔
مولانا کے نام کی تجویز مشہور عالم دین اور دارالعلوم دیوبند (وقف) کے مہتمم حضرت مولانا محمد سفیان قاسمی صاحب نے پیش کی اور بورڈ کی تاریخ میں پہلی بار کیرالہ سے کشمیر اور آسام سے گجرات تک ملک کے کونے کونے سے اجلاس میں شامل 58 اہم دینی و ملی شخصیات نے پورے جوش و خروش کے ساتھ اس تجویز کی بھرپور تائید کی، بعد ازاں تمام موجود اراکین نے ہاتھ اٹھا کر اس تجویز کی تائید کی۔ اس اجلاس کی صدارت بور ڈ کی ایک اہم بزرگ دینی شخصیت مولانا مفتی احمد دیولا صاحب نے کی۔ واضح رہے درمیانی مدت میں بور ڈ کی صدارت کا مسئلہ بور ڈ کے چوتھے صدر حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی کی اچانک رحلت سے پیدا ہوا تھا۔
بعد ازاں نو منتخب صدر بورڈ نے بور ڈ کی ورکنگ کمیٹی (عاملہ)سے مشورہ کے بعد دیگر خالی جگہوں پر نامزد گیاں کیں۔ مولانا خالد سیف اللہ رحمانی مد ظلہ کے صدر منتخب ہوجانے کے بعد جنرل سکریٹری کی خالی جگہ پر بور ڈ کے سکریٹری حضرت مولانا محمد فضل الرحیم مجددی صاحب کو جنرل سکریٹری نامزد کیا گیا۔ بورڈ کے دو نائب صدور کی جگہوں پر بالترتیب امیر جماعت اسلامی جناب سید سعادت اللہ حسینی صاحب اور گلبرگہ شریف کی درگاہ کے سجادہ نشین ڈاکٹر سید شاہ خسرو حسینی صاحب کو نامزد کیا گیا۔ بعد ازاں بور ڈ کی مشترکہ و متفقہ حیثیت کو پیش نظر رکھتے ہوئے تین نئے سکریٹریز امارت شرعیہ بہار، اڑیسہ و جھارکھنڈ کے امیر شریعت مولانا سید احمد ولی فیصل رحمانی صاحب، ندوۃ العلماء کے ناظم مولانا سید بلال عبدالحی حسنی ندوی صاحب اور بریلوی مسلک کے نوجوان قائد مولانا ڈاکٹر یٰسین علی عثمانی بدایونی صاحب کو نامزد کئے گئے۔ اس کے بعد صدر بورڈ نے بابری مسجد کمیٹی کے سابق کنوینر ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس کو بور ڈ کا ترجمان اور مشہور چارٹرڈ اکاؤنٹینٹ جناب کمال فاروقی کو ان کا معاون مقرر کیا۔ بعد ازاز نومنتخب صدر نے اپنے مختصر خطاب میں کہا کہ اس نازک دور جب کہ چاروں طرف سے قانون شریعت اور ملت پر یلغار ہورہی ہے آپ حضرات نے میرے ناتواں کاندھوں پر یہ ذمہ داری ڈال دی ہے، مجھ سے قبل اس اہم منصب پر ملت کی انتہائی معتبر و نامور شخصیات فائز رہی ہیں۔ دعا فرمایئے کہ اللہ تعالیٰ مجھے اس ذمہ داری سے حسن و خوبی کے ساتھ عہدہ برآں ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔
آخر میں صدر مجلس مولانا مفتی احمد دیولا صاحب کی بعد دعا پر میٹنگ اختتام پذیر ہوئی۔
اجلاس کے آغاز میں سابق جنرل سکریٹری مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے مرحومین بورڈ وملت کی تعزیت اور ان کے حق میں دعائے مغفرت کی۔
اجلاس کے ابتداء ہی میں اڑیسہ میں ہوئے بدترین ٹرین حادثہ پر اظہار افسوس کرتے ہوئے درج ذیل تعزیتی تجویز منظور کی گئی۔
”آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کا یہ اجلاس اڑیسہ کے شہر بالاسور میں ہوئے ہولناک ٹرین حادثہ میں 280 مسافروں کے جان بحق ہوجانے اور تقریباً 900 افراد کے شدید طور پر زخمی ہوجانے پر انتہائی رنج و غم کا اظہار کرتا ہے۔ یہ حادثہ ہندوستانی ٹرین حادثوں کی تاریخ کا سب سے بڑا اور بھیانک حادثہ ہے۔ یہ اجلاس مہلوکین کے اعزہ و اقارب سے اظہار تعزیت کرتے ہوئے زخمیوں کی جلد از جلد شفایابی کے لئے دعاگو ہے“۔
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے اجلاس عام میں درج ذیل تجاویز منظور کی گئیں
1۔ یہ اجلاس محسوس کرتا ہے کہ ملک میں نفرت کا زہر پھیلایا جا رہا ہے اور اس کو سیاسی لڑائی کا ہتھیار بنایا جا رہا ہے، یہ اس ملک کے لئے سخت نقصان دہ ہے۔ جنگ آزادی کے مجاہدین، دستور کے مرتین اور ملک کے اولین معماروں نے اس ملک کے لئے جو راستہ اختیار کیا تھا، یہ اس کے بالکل بر خلاف ہے۔ یہاں صدیوں سے مختلف مذاہب، قبائل، زبانوں اور تہذیبوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے ملک کی خدمت کی ہے اور اس کو آگے بڑھانے میں یکساں کردار ادا کیا ہے، اگر یہ ہم آہنگی اور بھائی چارہ ختم ہوگیا تو ملک کا اتحاد پارہ پارہ ہو جائے گا۔ اس لئے یہ اجلاس حکومت سے، محب وطن شہریوں سے، مذہبی قائدین اور دانشوروں سے، قانون دانوں، سیاسی رہنماؤں اور صحافیوں سے دردمندانہ اپیل کرتا ہے کہ وہ نفرت کی اس آگ کو پوری قوت کے ساتھ بجھانے کی کوشش کریں ورنہ یہ آگ آتش فشاں بن جائے گی، اور ملک کی تہذیب، اس کی نیک نامی اس کی ترقی اور اس کی اخلاقی وجاہت سب کو جلا کر خاک کر دے گی۔
2۔ قانون انسانی سماج کو مہذب بناتا ہے، ظالموں کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کرتا ہے، مظلوموں کو انصاف فراہم کرتا ہے، اور اس کے لئے حصول انصاف کی امید ہوتا ہے، لاقانونیت سماج کو انارکی میں مبتلا کر دیتی ہے؛ اس لئے حکومت ہو یا عوام، اکثریت ہو یا اقلیت، برسراقتدار گروہ ہو یا اپوزیشن، سرمایہ دار ہو یاغریب و مزدور، سب کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ قانون کو اپنے ہاتھ میں نہ لیں۔ لیکن اس وقت بدقسمتی سے ملک میں لاقانویت کا ماحول بن رہا ہے، ماب لنچنگ ہو رہی ہے، ملزم پر کیس ثابت ہونے سے پہلے اس کو سزا دینے کا رجحان بڑھ رہا ہے، جو مکانات دسیوں سال سے بنے ہوئے ہیں، جو حکومت اور انتظامیہ کی نظروں کے سامنے بنے اور جن سے قانونی واجبات بھی وصول کئے جاتے رہے، ان کو بلڈوزر کے ذریعہ لمحوں میں زمیں بوس کر دیا جاتا ہے۔ احتجاج کا دستوری حق استعمال کرنے والے اور پْر امن طور پر اپنا موقف پیش کرنے والوں کو سنگین دفعات کے تحت گرفتار کر لیا جاتا ہے اور جرم ثابت کئے بغیر مدتوں ان کو جیل میں رکھا جاتا ہے، یہ سب لاقانونیت کی بدترین شکلیں ہیں۔ لاقانونیت عوام کی طرف سے ہو یا حکومت کی طرف سے بہرحال قابل مذمت ہے، اس کو روکنا حکومت کا اور تمام باشندگان ملک کا فریضہ ہے۔
3۔ ملک کے دستور نے ہر شہری کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کی آزادی دی گئی ہے، یہ اس کا بنیادی حق ہے، اس میں پرسنل لا بھی شامل ہے۔ یہ اجلاس حکومت سے اپیل کرتا ہے کہ وہ تمام شہریوں کی مذہبی آزادی کا احترام کرے، پرسنل لا کے ذیل میں مختلف گروہوں کے جو تشخصات ہیں، ان کو ختم کر کے یونیفارم سول کوڈ کا نفاذ ایک غیر دستوری بات ہوگی، یہ اتنے متنوع اور مختلف مذاہب اور تہذیب کے حامل ملک کے لئے نہ موزوں ہے اور نہ ہی مفید، اگر اس کو پارلیمنٹ میں اکثریت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے زبردستی نافذ کرنے کی کوشش کی گئی تو اس سے ملک کا اتحاد متأثر ہوگا، ملک کی ترقی میں رکاوٹ پیدا ہوگی اور اس سے کوئی فائدہ بھی نہیں ہوگا۔ اس لئے بورڈ کا یہ اجلاس جو مسلمانوں کے تمام مکاتب فکر کے نمائندوں پر مشتمل ہے، حکومت سے اپیل کرتا ہے کہ وہ اس ارادہ سے باز آجائے اور ملک کے حقیقی مسائل پر توجہ کرے۔
4- عبادت گاہوں سے متعلق 1991ء کا قانون خود پارلیمنٹ کا منظور شدہ کردہ قانون ہے، اس کو قائم رکھنا حکومت کا فریضہ ہے، اور اسی میں ملک کا مفاد بھی ہے؛ ورنہ پورے ملک میں مختلف مذہبی گروہوں کے درمیان ایک نہ ختم ہونے والی لڑائی شروع ہو جائے گی، جو ملک کی بہت بڑی بدبختی ہوگی۔ اس وقت گیان واپی مسجد اور متھرا کی عید گاہ سے متعلق نچلی عدالتوں اور ہائی کورٹ کے جو متواتر فیصلے آرہے ہیں اس نے مسلمانوں میں تشویش پیدا کردی ہے۔ 1991 ایکٹ کی موجودگی کے باوجود قدیم مسجدوں پر یلغار شروع ہوچکی ہے۔ بور ڈ کا یہ اجلاس یہ واضح کردینا ضروری سمجھتا ہے کہ مساجد اللہ کا گھر ہے، اسلام کا یہ مسلمہ اصول ہے ناجائز طریقہ سے حاصل کی گئی زمین پر مسجد تعمیر نہیں کی جاسکتی، اس لئے یہ الزام انتہائی بے بنیاد اور لچر ہے کہ بعض مساجد کسی دوسرے کی عبادت گاہ پر تعمیر کی گئی۔ بابتی مدجد پر سپریم کورٹ کے فیصلے نے اس حقیقت پر مہر لگادی ہے۔ لہٰذا بور ڈ کا یہ اجلاس حکومت سے پرزور مطالبہ کرتا ہے کہ وہ 1991 ایکٹ کو سختی سے نافذ کرے، اسی میں ملک کی بھلائی اور خیر خواہی ہے۔
5۔ ملک کی جمہوریت کو پرکھنے کا اصل پیمانہ یہ ہے کہ ملک کی اقلیتیں کتنی محفوظ و مامون ہیں۔ ان کے حقوق کو کتنا تحفظ حاصل ہے، افسوس کہ مسلمان تو یہاں فرقہ پرست عناصر کی چیرہ دستیون کا شکار ہوتے رہے ہیں اور اس سلسلہ میں حکومت کی اَن دیکھی بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ لیکن اب ملک کی دوسری اقلیتیں بھی اس سے محفوظ نہیں ہیں، جس کی بدترین مثال اس وقت منی پور میں عیسائی اقلیت کی جان ومال پر حملے اور ان کی عبادت گاہوں کو نذر آتش کرنے کا واقعہ ہے۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ شرپسندوں کے خلاف سخت قدم اٹھائے، ملک کی سیکولر قدروں کی حفاظت کرے اور عالمی سطح پر بھارت کے چہرے کو داغ دار ہونے سے بچائے۔
6۔ اوقاف دینی وانسانی مقاصد کے لئے مسلمانوں کی جانب سے دی جانے والی املاک ہیں، جن کو شرعاََ وقانوناً اُن کے مقررہ مقاصد ہی پر خرچ کرنا ضروری ہے۔ حکومت یا عوام کی طرف سے وقف کی جائیداد پر قابض ہو جانا یہ کھلے طور پر غصب ہے، خواہ یہ کسی مسلمان کی طرف سے ہو یا غیر مسلم کی طرف سے، ملک کے کسی شہری کی طرف سے ہو یا حکومت کی طرف سے، بہر حال یہ ایک غیر قانونی عمل ہے۔ اس لئے بورڈ اوقاف کے سلسلہ میں حکومت کے بعض نمائندوں کی طرف سے جاری کئے جانے والے ان بیانات پر انتہائی تشویش کا اظہار کرتا ہے، جس میں مسلمانوں کو ان کے اوقاف سے محروم کرنے کے جذبہ کا اظہار ہوتا ہے اور حکومت سے اپیل کرتا ہے کہ وہ ایسے کسی بھی قدم سے باز رہے نیز مسلمانوں کو متوجہ کرتا ہے کہ وہ اپنے اوقاف کی حفاظت کے لئے مقامی طور پر بھرپور کوشش کریں، افتادہ اراضی کی احاطہ بندی کرائیں، اوقاف کو ان کے مقررہ مقاصد نیز جہاں ضرورت ہے، وہاں ملت کے نونہالوں کے تعلیمی مقاصد کے لئے استعمال کریں۔
7۔ مدارس ایسے تعلیمی ادارے ہیں، جہاں دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ اخلاقی اقدار کی تعلیم بھی دی جاتی ہے اور پڑھنے والوں کو بتایا جاتا ہے کہ وہ انسانوں سے محبت اور مخلوق کی خدمت کرنے والے افراد ہیں۔ یہ ادارے آزادی کے بعد ہی سے قائم ہیں، یہ بالکل اسی طرح ہیں جیسے سنسکرت کی تعلیم کے لئے پاٹھ شالے قائم کئے گئے تھے اور جو اب بھی موجود ہیں۔ مگر افسوس کہ ملک کے مشرقی علاقوں میں مدارس کو بند کرنے اور ان کی املاک کو تباہ کرنے کی حکومتی سطح سے کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ سرکاری دہشت گردی کی بدترین شکل ہے۔ اسی طرح بلا کسی تحقیق اور خود حکومت کے ریکارڈ کے بر خلاف مدارس کو دہشت گردی سے جوڑا جا رہا ہے۔ بور ڈ اس طرز عمل کی سخت الفاظ میں مذمت کرتا ہے۔
8۔بورڈ کا یہ اجلاس مسلمانوں کو متوجہ کرتا ہے کہ مسلمان ہونے کا مطلب اپنے آپ کو مکمل طور پراللہ کے حوالہ کردینا ہے۔ اس لئے بحیثیت مسلمان ہم سب کا فریضہ ہے کہ ہم شریعت کے قانون پر عمل کریں، عورتوں کے ساتھ انصاف، بزرگوں کے ساتھ حسن سلوک، شادی بیان میں فضول خرچی سے پرہیز اور سادگی کا لحاظ رکھیں، اپنے معاملات کو اپنے قاضیوں، مذہبی رہنماؤں کے سامنے رکھ کر اپنے تنازعات حل کریں، شریعت نے جن باتوں کو حرام اور گناہ قرار دیا ہے، ان سے بچیں، چاہے قانون میں اس کی ممانعت نہ ہو، جیسے: نشہ، نکاح کے بغیر مردو عورت کا جسمانی تعلق، سود، ہم جنسی، شوہر یا بیوی سے بے جا طریقہ پر پیسہ وصول کرنا، طلاق کے بعد بھی بیوی کو اپنے ساتھ رہنے پر مجبور کرنا، یہ ساری باتیں کسی مسلمان کو زیب نہیں دیتیں اور نہ ہی ملک کا قانون ہمیں اس پر مجبور کرتا ہے، چاہے قانون کسی خلاف شریعت بات کی اجازت دیتا ہو اور اس میں کسی شخص کا کتنا ہی فائدہ کیوں نہ ہو لیکن ایک مسلمان کے لئے ایسا کرنا ہرگز بھی جائز نہیں ہے۔
9۔ بورڈ عام مسلمانوں سے اپیل کرتا ہے کہ وہ نکاح کے لئے بورڈ کے مرتب کئے ہوئے نکاح نامہ کا استعمال کریں، جس میں زوجین کے حقوق کی طرف توجہ دلائی گئی ہے اور جس میں عاقدین کے لئے اس بات کی گنجائش رکھی گئی ہے کہ وہ اپنے باہمی نزاعات کو حل کرنے کے لئے دارالقضاء یا محکمہئ شرعیہ کو ثالث بنائیں۔ اگر سماج اس نکاح نامہ سے فائدہ اٹھائے اور اس میں شامل ثالثی پر عاقدین دستخط کر دیں تو اس سے بڑا فائدہ ہوگا، طلاق کے واقعات کم ہوں گے، عورتوں کے حقوق کی حفاظت ہوگی، اگر ان کے درمیان کوئی نزاع پیدا ہوجائے تو آسانی کے ساتھ کم خرچ میں ان کے اختلافات حل ہو سکیں گے۔ بورڈ کی جانب سے آسان اور مسنون نکاح مہم جاری ہے اور بحمد للہ اس کے بہت اہم اور مفید اثرات سامنے آرہے ہیں۔ بورڈ کا یہ اجلاس مسلمانان ہند سے گزارش کرتا ہے کہ وہ اس مہم میں بھرپور حصہ لیں۔ یہ وقت کا ایک اہم تقاضہ ہے اور ہمارا شرعی و اخلاقی فریضہ بھی۔
10۔ مذہب اور عقیدہ کا تعلق انسان کے یقین اور ضمیر سے ہے، کسی مذہب کو اختیار کرنے کا حق ایک فطری حق ہے، اسی بنا پر ہمارے دستور میں اس حق کو تسلیم کیا گیا ہے اور ہر شخص کو کسی مذہب کو اختیار کرنے یا اس کی تبلیغ کی آزادی دی گئی ہے؛ البتہ اس کے لئے زور زبردستی اور مالی تحریص ایک نامناسب بات ہے؛ لیکن حالیہ برسوں میں ملک کی مختلف ریاستوں میں ایسے قوانین لائے گئے اور مزید ریاستوں میں لانے کی کوشش کی جا رہی ہے، ان کا مقصد ملک کے شہریوں کو سرے سے اس اہم حق سے محروم کرنا ہے، یہ بات کسی بھی طرح قابل قبول نہیں ہے، حکومت کی ذمہ داری ہے کہ جو لوگ اپنی مرضی سے ایک مذہب کو چھوڑ کر دوسرا مذہب اختیار کرنا چاہتے ہیں یا پْر امن طریقہ پر قانون کے دائرہ میں رہتے ہوئے اپنے مذہب کی تبلیغ کرتے ہیں، ان کے لئے کوئی رکاوٹ نہ پیدا کی جائے۔
11۔مسلم پرسنل بورذ کا یہ اجلاس ہم جنسوں کے مابین شادی کو قانونی جواز دئے جانے کی ہر کوشش کی سختی سے مخالفت کرتاہے اور اسے ملک و انسانیت کے لئے انتہائی مضر، مہلک اور نقصان دہ سمجھتا ہے۔ ہمیں افسوس ہے کہ مغربی ممالک میں ہم جنسی کی شادی اور LGBT کی جو بے حیا اور فحش تحریک چل پڑی ہے اس اثرات اب ہمارے ملک پر بھی پڑنے لگے ہیں حالانکہ اس تحریک نے ان ممالک کے خاندانی نظام میں شدید بحران پیدا کردیا ہے۔
ہمارا ملک ایک مذہبی ملک ہے اور ہر مذہب نے ان غیر فطری اور غیر اخلاقی تعلقات کی سختی سے مخالفت کی ہے۔ اس مسئلہ پر اسلام کا نقطہ نظر بہت صاف اور واضح ہے۔ اسلام اسے غیر فطری، غیر اخلاقی اور حرام سمجھتا ہے نیز اسے افزائش نسل کے فطری عمل کا مخالف اور خاندانی نظام کو متزلزل کرنے والا فعل سمجھتا ہے۔ بور ڈ ملک کے تمام مذہبی رہنماؤں، سماجی مصلحین، سماجی کارکنوں، دانشوروں اور سیاسی رہنماؤں کو آواز دیتا ہے کہ وہ اس رجحان کی سختی سے مخالفت کریں اور اسے قانونی جواز حاصل نہ ہونے دیں۔
Check Also
بلڈوزر سیاست: کس میں کتنا ہے دَم
محمود خان، میسور جہاں جہاں بی جے پی کی سرکاریں ہیں وہاں بجرنگ دل اور …