سچ تو مگر کہنے دو ! ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز
اسرائیلی فوج پوری شدت سے انتقامی کاروائی کررہی ہے۔ اُسے یہ ثابت کرنا ہے‘ دنیا کو دکھانا ہے کہ حماس کے اچانک حملے سے اسے جو نقصان ہوا اس سے اس کی طاقت متاثر نہیں ہوئی ہے۔ اور وہ نتن یاہو کے الفاظ کو عملی جامہ پہنانا چاہتی ہے کہ غزہ کی وہ حالت کردی جائے گی کہ وہ کبھی اپنی اصلی حالت میں واپس نہیں آسکے گا۔ فلسطینیوں کے لئے اپنی تباہی، غارت گری، شیرخوار بچوں کی شہادت، نوجوان ہلاکتیں، کوئی نئی بات نہیں۔ وہاں کے کمسن بچے گلی ڈنڈا، کرکٹ نہیں کھیلتے بلکہ شہیدوں کے جنازہ اٹھانے کا کھیل کھیلتے ہیں۔ بچوں کی پیدائش کے ساتھ ماں باپ یہ امید بھی رکھتے ہیں کہ ارض وطن کے لئے قبلہ اول کی بازیابی کے لئے یہ بچے کبھی بھی اسرائیلی درندگی کا شکار ہوسکتے ہیں۔ اب بھی ایسا ہی ہوا ہے اور ہورہا ہے۔ دونوں جانب سے نقصان ہوا۔ ہلاکتیں ہوئیں‘ مگر دنیا کی نظر میں حماس دہشت گرد اور اسرائیل فی الحال مظلوم ہے۔ تعجب اور افسوس اس بات کا ہے کہ روس اور یوکرین کی حالیہ جنگ کے دوران جس بدبخت یوکرینی صدر کی حمایت میں دنیا اس لئے کھڑی ہوگئی تھی کہ کمزور ہونے کے باوجود اس نے طاقتور سے مقابلہ کیا تھا مگر اس صدر نے دنیا سے اپیل کی کہ وہ اسرائیل کا ساتھ دیں اور حماس کو کیفر کردار تک پہنچائیں۔ جو بائیڈن جسے امریکی مسلمانوں اور سیکولر عوام نے اس لئے صدارتی انتخابات میں کامیاب کروایا تھا کہ اس نے مسلمانوں کی حمایت کا اعلان کیا تھا۔ مگر پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا“۔ اس مخبوط الحواس صدر نے جو اپنی یادداشت سے آہستہ آہستہ محروم ہوتا جارہا ہے کہا ہے کہ اسرائیل کی انتقامی کاروائی جائز ہے۔ اُسے اور مغربی ممالک کو سینکڑوں شیرخوار بچوں کی نعشیں نظر نہیں آتیں۔ ایسے بھی یہ پتھر دل ہیں ’جنہوں نے دہشت گردی کے صفایا کے نام پر عراق، افغانستان اور دوسرے عرب ممالک میں مسلمانوں کا قتل عام کیا۔ مسلم ممالک کے قدرتی وسائل پر قبضہ کے لئے سیکوریٹی فراہم کرنے کے نام پر اپنے فوجی اڈے قائم کئے۔ اور وہاں کی دولت اپنے قبضہ میں کرلی۔ دوسرے ممالک کے حکمرانوں کو کٹھ پتلی بناکر رکھ دیا۔ امریکی صدر چاہے وہ کسی بھی پارٹی سے کیوں نہ تعلق رکھتے ہوں چاہے وہ سینئر، جونیئر ہو، یا کلنٹن یا خود کو بارک حسین کہلانے والا اوباما ہو یا نیم پاگل ٹرمپ یا پھر اپنی زندگی کے آخری مرحلے میں دا خل جوبائیڈن۔ یہ سبھی مسلم دشمن رہے ہیں۔ بوسنیا، چیچنیا سے لے کر فلسطین تک ان کی درندگی اور غارت گری کے طویل داستان ہیں جو تاریخ کا حصہ ہے مگر اس حصہ پر تاریک سائے ہیں۔
ہندوستان نے سینہ ٹھونک کر کہا ہے کہ وہ اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہے۔ موجودہ حکومت سے اور کیا امید رکھی جاسکتی ہے‘ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے خون کی ہولی بھی کھیلی اور اسی خون سے اپنے کامیابی کی تاریخ لکھی۔ انہوں نے اپنے ہی گرو کے الفاظ کو فراموش کردیا۔ اٹل بہاری واجپائی کی وہ تاریخ ساز تقریر جس میں انہوں نے گاندھی جی اور پنڈت نہرو کی طرح دوٹوک لہجہ میں کہا کہ جس طرح ہندوستان ہندوستانیوں کا ہے اسی طرح فلسطین‘ فلسطینیوں کا ہے۔ اور فلسطین پر قبضہ کرنے والے اسرائیلیوں کو علاقہ چھوڑ دینا چاہئے۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ ہندو انتہا پسند تنظیمیں سوشیل میڈیا پر ٹرینڈ چلارہی ہے کہ ہم اسرائیل کے ساتھ ہیں۔ بعض تو وزیر اعظم مودی سے اجازت طلب کی کہ وہ اسرائیل جاکر حماس سے مقابلہ کرنا چاہتے ہیں۔ ان ہندو انتہا پسند تنظیموں کے بانکڑے جوانوں میں واقعی اتنا دم ہے تو انہیں چاہئے کہ وہ ہندوستان کے ان علاقوں میں جاکر چینی فوج سے مقابلہ کریں‘ جنہوں نے کئی ہزار کیلو میٹر کے ہندوستانی علاقوں پر قبضہ کر رکھا ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر انہیں اسرائیل سے اتنی ہمدردی کیوں ہے۔ اس لئے کہ اسرائیل کا مقابلہ کفن بردوش فلسطینیوں سے ہے‘ جو مسلمان ہیں۔ حماس نے اچانک یلغار ایک ایسے وقت کی جب بعض مسلم ممالک سے اسرائیل کے تعلقات استوار ہونے لگے تھے۔ سعودی عرب ان میں شامل تھے۔ شکر ہے کہ محمد بن سلمان نے فلسطینیوں کی حمایت کا اعلان کیا۔ جس سے مغربی دنیا اور اسرائیل کو زبردست دھکا لگا ہے۔ وہیں فلسطینیوں کے حوصلے بلند ہوگئے ہیں۔ لبنان شام، قطر نے ہمیشہ فلسطینی کاز کی حمایت کی ہے۔ اب بھی وہ ساتھ ہیں۔ البتہ یو اے ای نے اسرائیل کے ساتھ یگانگت کا اظہار کیا ہے۔ جیسے ہی حماس نے 5000 میزائل سے اسرائیل پر حملہ کیا وہاں قیامت صغریٰ برپا ہوگئی۔ دنیا ششدر رہ گئی کہ کس طرح سے دنیا کے سب سے خطرناک اور چالاک خفیہ ایجنسیاں سی آئی اے اور موساعد کو ان حملوں کو کانوں کان خبر کیوں کر نہ ہوئی۔ شاید اس لئے کہ حماس نے اپنی حکمت عملی تبدیل کی۔ وہ زمین سے بحری راستے سے اور آسمان سے یلغار کرتے رہے۔ میزائل کا پتہ چلانے والے اسرائیلی آئرم ڈوم جسے اربوں ڈالر کی لاگت سے نصب کیا گیا جو چارکلومیٹر سے 70کلو میٹر تک کے فاصلے سے اپنی جانب آنے والے میزائل کا پتہ چلالیتے ہیں پوری طرح سے ناکام ہوئے۔ ایک اطلاع کے مطابق حماس کا ایک راکٹ روکنے یا اُسے ناکارہ کرنے کے لئے اسرائیل کو 40ہزار ڈالر کا خرچ آتا ہے۔ اب کس قدر نقصان ہوا ہے اس کا حساب و کتاب ہورہا ہے۔ اسرائیل نے 11/اکتوبر کو جوابی کاروائی میں حماس کے 450 ٹھکانوں کو نشانہ بنایا۔ حماس کے فوجی سربراہ محمد الضیف کے والد بھی اس حادثہ میں جاں بحق ہوئے۔ مگر الضیف جو فلسطین کے رفیوجی کیمپ میں ہی پیدا ہوئے‘ اپنی ذاتی صدمہ کو سہتے ہوئے محاذ پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ اس طرح اسرائیل نے غزہ اسلامک یونیورسٹی پر بھی حملہ کیا ہے۔ یہ یونیورسٹی حماس کے ٹریننگ کیمپ کے طور پر بھی مشہور ہے۔ اِدھر حوثیوں نے بھی امریکہ کو میزائلی حملے کی وارننگ دی ہے جبکہ لبنان نے اسرائیل کے فوجی کیمپ پر حملہ کیا ہے۔ اور حماس نے اسرائیل کو خبردار کیا ہے کہ اگر اس نے حملے نہ روکیں تو یرغمال ہر اسرائیلی قیدی کو ہلاک کردیا جائے گا۔ حملوں میں برطانیہ اور امریکہ کے کئی شہری ہلا ک ہوئے ہیں۔ اس کے باوجود امریکہ ایوان کے ریپبلکن نمائندے ایلیس اسٹیفنک نے اسرائیل کے حملوں کو اس کی جارحیت اور فلسطینیوں پر ڈھائے جانے مظالم کو ناقابل معافی جرم قرار دیا ہے۔ ہارورڈ یونیورسٹی کی 34طلبہ تنظیموں کے علاوہ پندرہ DEANS سپریم کورٹ کے 9ججس نے اسرائیل کی مذمت کی ہے۔
خود ایک اسرائیلی رکن پارلیمنٹ نے یہ اعتراف کیا ہے کہ اسرائیل کے مسلسل مظالم، جارحیت، مسجد اقصیٰ پر حملوں کا یہ ردعمل ہے‘ جو حماس نے میزائیلی حملوں سے دکھایا ہے۔ حماس یعنی حرکت المقاومہ الاسلامیہ یا Islamic Resistance Force ہے جو 1987ء میں قائم کی گئی۔ اس نے 2006ء کے الیکشن میں الفتح یاPLO کو شکست دے کر غزہ پٹی پر کنٹرول حاصل کیا ہے۔ البتہ غزہ پٹی، مغربی کنارہ اور غزہ شہر میں حماس اور فتح دونوں کا کنٹرول بتایا جاتا ہے۔ الفتح 1959ء میں فلسطینی تارکین وطن نے قائم کی تھی جس کے بانیوں میں یاسر عرفات شامل ہیں۔ اسی الفتح سے وہ فلسطین کے صدر تک بن گئے۔ حماس PLO کی سیکولر پالیسی دو ملکی نظریہ کے خلاف رہی۔ اس کے بانیوں میں اسماعیل ہانیا، احمد یسین، عبدالعزیز اور حسن یوسف شامل ہیں۔ حماس مسلح جدوجہد پر یقین رکھتی ہے۔ ایک زمانہ میں PLO بھی گوریلا لڑائی لڑتی تھی۔ مگر یاسر عرفات نے وقت کے ساتھ ساتھ اپنے آپ کو بدل لیا اور پھر ان کی زندگی میں صحیٰ جیسی یہودن بیوی بن کر آگئی تو ان کی پالیسی بھی تبدیل ہوگئی اور جب یاسر عرفات کا انتقال ہوا تو 350بلین ڈالرس کی رقم صحیٰ کے پاس تھے اور یہ رقم اس نے یمن کے صدر علی عبداللہ صالح کے چھوٹے بھائی کے عشق میں اڑا دی۔ اس طرح مظلوم فلسطینی عوام کیلئے دنیا بھر سے برسوں سے اکٹھا ہونے والی امدادی رقم بے دردی سے ایرے غیرے نتھو خیرے کے حوالے ہوگئی
حماس اور اسرائیل کی اس لڑائی میں کئی ممالک شامل ہوگئے ہیں۔ جس سے مشرق وسطیٰ کی سیاست میں تبدیلی آئے گی۔ یقینا فلسطین کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچا ہے مگر اسرائیل کو جو نقصان حماس نے پہنچایا ہے وہ تاریخ ساز ہے۔ یہ تنگ آمد تو بجنگ آمد والی بات ہے۔ دنیا میں جہاں جہاں مسلمانو ں پر ظلم ہورہا ہے وہاں پر اس امکان کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ حماس کی کاروائی کا ان پر اثر ہوگا اور اپنے خلاف ظلم ڈھانے والوں کو بھی اسی طرح سے پسپا کریں گے۔ ایسے بھی اس وقت اسلام دشمن عناصر پر خوف کا ماحول طاری ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ مسلمان بہادر قوم ہے جن کی پیدائش کے ساتھ ہی یہ ذہن نشین کرادیا جاتا ہے کہ موت برحق ہے۔ اس لئے وہ موت سے ڈرتے نہیں‘ اس کی سب سے بڑی کمزوری جس نے انہیں بے وزن کردیا وہ اتحاد کی کمی ہے۔ جس دن یہ متحد ہوجائیں گے ایک بار پھر ساری دنیا کے لئے ناقابل تسخیر ہوجائیں گے۔ جس طرح مٹھی بھر مسلمانوں نے دنیا کی تاریخ بدلی یہی تاریخ ایک بار پھردہرانے کا وقت آرہا ہے۔ اس کا اسلام دشمن طاقتوں کو یقین ہے اسی لئے مسلمانوں کو کچلنے انہیں کمزور کرنے کی ہر قسم کا حربہ استعمال کررہے ہیں۔