4/مئی ہندوستان کے پہلے شہید اعظم ٹیپوسلطان کی 225ویں برسی ہے۔ ٹیپوسلطان جس کے نام کے ساتھ ہی ایک بہادر، حوصلہ مند، عظیم شہسوار، تلوارچلانے کے ماہر حکمران کا تصور اُبھرتا ہے۔ جن کی زندگی مثالی تھی۔ جنہوں نے انگریزوں کے خلاف جہاد کیا۔ اور اپنی آخری سانس تک مقابلہ کیا۔ 4/مئی 1799ء میں جب انہیں گولی لگی اور یہ شہید ہوگئے‘ تب انگریزوں نے اطمینان کی سانس لی اور کہا کہ آج سے ہندوستان ہمارا ہوگیا۔
ٹیپوسلطان کے آباء و اجداد کا تعلق مکہ معظمہ کے ایک معزز قبیلہ قریش سے تھا جو قبیلہ ٹیپوسلطان کی پیدائش سے ایک صدی پہلے ہجرت کرکے دہلی میں آباد ہوگیا تھا۔ ان کے والد نواب حیدر علی بے پناہ صلاحیتوں کے مالک تھے۔ جو Dundigal کے گورنر بنے اور پھر 1762ء میں سلطنت خداداد میسور قائم کرکے اس کے خودمختار حکمران بن گئے۔ 20سال تک حکمرانی کی۔ ٹیپو سلطان کا نام جنوبی ہندوستان کے ایک بزرگ ٹیپومستان کے نام پر رکھا گیا تھا۔ 1782ء میں نواب حیدرعلی کے انتقال کے بعد 1783ء میں ٹیپو سلطان نے کمان سنبھالی۔اور کم عمری ہی میں اپنی صلاحیتوں سے زندگی کے ہر شعبے میں اپنی ریاست کو ترقی یافتہ بنایا۔ فوج کو منظم کیا۔ ہتھیار بنانے کے کارخانے قائم کئے۔ ماڈرن ٹکنالوجی کا استعمال کیا اور ہندوستان میں پہلا راکٹ ان کی نگرانی میں تیار کیا گیا‘ سمندری جہازوں کی تیاری کے مرکز قائم کئے۔ سمندری راستے سے تجارت کو فروغ دیا۔ فرانس کے نیپولین بوناپارٹ کے علاوہ عرب ممالک سے رابطے قائم کئے۔ ان کا دور امن، پیار و محبت کا دور تھا۔ ان کا قول تھا ”گیدڑ کی 100سالہ زندگی سے شیر کی ایک دن کی زندگی بہتر ہے“۔
ٹیپو سلطان مغل بادشاہوں کی طرح عیش و عشرت کا عادی نہیں تھے۔
یہ مشاعروں، محلوں اور ایوانوں کی بجائے جنگی میدانوں اور ہتھیار بنانے کے کارخانوں میں زیادہ نظر آتے تھے۔
مطالعہ کے شوقین تھے۔ عالموں، ادیبوں اور دانشوروں کے قدردان تھے جنہوں نے اردو زبان کو باقاعدہ فروغ دیا اور اردو کا پہلا اخبار نکالا جو فوجی اخبار تھا۔
ٹیپوسلطان پر انگریز مؤرخ لکھتے ہیں کہ 3/مئی 1799ء کو21ہزار انگریز فوجیوں نے سرنگاپٹنم قلعہ کو گھیر لیا اور توپوں سے حملے کرکے اس کی دیوار میں سوراخ کردیا۔اور ایک غدار میرصادق نے اس سوراخ کے قریب تعینات ٹیپو کی فوج کو تنخواہ دینے کے بہانے اندر بلالیا جس سے انگریز فوج قلعہ کے اندر داخل ہوگئے۔
ٹیپوسلطان اگر چاہتے تو اپنی جان بچانے کے لئے بڑی ا ٓسانی سے فرار ہوسکتے تھے مگر کوئی مومن میدان جنگ سے فرار نہیں ہوتا ان کے سینے اور کان میں گولیاں لگیں‘ ماتھے پر زخم آئے۔ ان کی موت کے بعد کافی دیر تک بھی لوگوں کو یقین نہیں تھا کہ شیرمیسور اب زندہ نہیں رہے۔ انگریزوں نے جتنی کتابیں ٹیپو سلطان پر لکھی ان سب میں انہوں نے ٹیپو کی بہادری کا کھلے دل سے اعتراف کیا۔ البتہ انگریزوں کے غلام‘
ان کے تنخواہ یافتہ فرقہ پرست عناصر ٹیپوسلطان کے کارناموں کو فراموش کرتے ہوئے انہیں ہندودشمن قرار دینے کے لئے کوشاں ہیں۔ حالانکہ ٹیپوسلطان کی مذہبی رواداری مثالی رہی۔ ان کا وزیر اعظم پونیاپنڈت تھا جبکہ کرشنا راؤ خزانچی۔
کئی ہندؤں کو انہوں نے اعلیٰ عہدوں پر فائز کیا تھا سینکڑوں مندروں اور مٹھوں کو وہ امداد بھیجتے تھے۔انہوں نے مندر تعمیر بھی کرائے۔ سرنگری کے مٹھ پر جب مراٹھوں نے حملہ کیا‘ اسے لوٹ لیا تو اُسے Rehabilate ٹیپوسلطان نے کیا۔
آج انگریزوں کے غلام ہندوستان کے پہلے مجاہد آزادی کے خلاف تعصب کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ یقینی طور پر کرناٹک کے انتخانات میں ان غلاموں کو وہاں کے عوام سبق سکھائیں گے۔