Sunday , December 22 2024
enhindiurdu

رام نومی پر تصادم سپریم کورٹ کی ناراضگی

ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

رام نومی کے موقع پر اس سال بھی چھ ریاستوں سے فرقہ وارانہ تصادم کی خبر آئی ہے۔ رام نومی آٹھ دن ورت رکھنے کے بعد منائی جاتی ہے۔ ورت صبر، برداشت اور تربیت کا نام ہے۔ ورت رکھنے والے سے جھگڑا اور تصادم کی امید نہیں کی جا سکتی۔ یہ تہوار تو پہلے بھی منایا جاتا رہا ہے۔ لیکن پچھلے کچھ عرصہ سے یہ تنازعہ کی علامت بن گیا ہے۔ سیاست کے ذریعہ پروان چڑھائی گئی اکثریت کی بالادستی یا ایک طبقہ کو سبق سکھانے کی سوچ اس کی بڑی وجہ ہے۔ سیاستدانوں کی پشت پناہی سے غیر سماجی عناصر اس کے ساتھ جڑ گئے۔ جو مذہبی تڑکے اور سیاسی حوصلہ افزائی سے بے قابو جاتے ہیں۔ رام نومی پر ہونے والا تصادم اسی کا نتیجہ ہے۔ اس موقع پر نکلنے والی شوبھا یاترا میں تلوار، بندوق، پسٹل، لاٹھی ڈنڈے پولس کی موجودگی میں لہرائے جاتے ہیں۔ جان بوجھ کر جلوس مسلم علاقوں سے گزارا جاتا ہے۔ جہاں اشتعال انگیز نعرے لگائے جاتے ہیں۔ اگر راستہ میں مسجد آجائے، نماز ہو رہی ہو تو وہاں ڈی جے کی آواز تیز کر دی جاتی ہے۔ آواز کم کرنے یا لاوڈسپیکر بند کرنے کو کہنے بھر سے تنازعہ شروع ہو جاتا ہے۔ مسجد پر پتھر پھیکے جاتے ہیں۔ توڑ پھوڑ کرنے یا بھگوا جھنڈا لگانے کی کوشش کی جاتی ہے۔
بہار کے ساسارام اور نالندہ میں 31 مارچ جمعہ کے دن رام نومی جلوس کے دوران ہوئی فرقہ وارانہ کشیدگی کے بعد دفعہ 144 لگا کر انٹرنیٹ خدمات بند کر دی گئیں۔ وہاں شوبھا یاترا پر اچانک پتھراو¿ ہوا جس کے بعد کئی راونڈ فائرنگ ہوئی۔ کئی دوکانوں کو آگ کے حوالے کر دیا گیا۔ کئی گھروں اور گاڑیوں پر بھی حملہ ہوا ہے۔ پولس اہلکاروں اور مقامی لوگوں کے زخمی ہونے کی خبر ہے۔ اس کی ویڈیو سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہے۔ نالندہ کے بہار شریف میں دو فرقوں کے بیچ جھگڑے میں حفاظتی کارکنوں سمیت 24 سے زیادہ لوگ زخمی ہو گئے۔ گگنڈیوان اور بھارو موڑ کے بیچ بھیڑ نے ایک درجن سے زیادہ گاڑیوں کو آگ کے حوالے کر دیا۔ یہاں تقریباً سو سال پرانے مدرسہ عزیزیہ میں بھیڑ نے توڑ پھوڑ کے بعد اس کی لائبریری میں آگ لگا دی۔ جس میں انتہائی اہم عربی، فارسی کتب کے علاوہ تاریخی اہمیت کے حامل قدیم مخطوطے بھی جل کر راکھ ہو گئے۔ چن چن کر دوکانوں اور مکانوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ اس سے تشدد کے منصوبہ بند ہونے کا احساس ہوتا ہے۔ مسلم ممالک کی تنظیم او آئی سی نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے حکومت ہند سے کاروائی کی مانگ کی ہے۔
گجرات کے بڑودا شہر کے دو علاقوں فتح پورہ اور کمبھار واڑہ میں پتھراو¿ ہوا۔ وہاں 24 لوگوں کو حراست میں لیا گیا۔ مغربی بنگال کے ہاوڑا کے شیوپور اور ہگلی میں رامنومی کے جلوس میں شامل بھیڑ نے جم کر ہنگامہ کیا۔ یاترا میں پتھراو¿ ہوا بھیڑ کو قابو کرنے کے لئے پولس نے لاٹھی چارج کیا اور آنسو گیس کے گولے چھوڑے۔ تصادم میں کئی لوگوں کے زخمی ہونے کی خبر ہے۔ ممتا بنرجی نے کہا کہ بی جے پی مغربی بنگال میں فسادات کرانا چاہتی ہے۔ رامنومی کا جلوس اپنا راستہ بدل کر مسلم علاقے میں گیا جبکہ انہوں نے منع کیا تھا۔ ٹی ایم سی نے جلوس کا ایک ویڈیو جاری کیا ہے جس میں گاڑی پر سوار ایک لڑکا ہاتھ میں پسٹل لئے ہوئے ہے۔ ممتا بنرجی نے کہا کہ مسلمانوں کا روزہ چل رہا ہے۔ وہ روزے میں کوئی غلط کام نہیں کر سکتے۔ انہوں نے پورے واقع کی سی آئی ڈی جانچ کا حکم دیا ہے۔ ابھی تک 41 لوگوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔
مہاراشٹر اورنگا باد کے سنبھاجی نگر میں دو فرقوں کے درمیان جھڑپ ہوئی۔ اس کے بعد 500 لوگوں نے پولس پر حملہ کر دیا۔ مہاراشٹر کے ہی کدار پور اور ملاڈ کے مالوانی میں بھی تصادم ہوا ہے۔ یہاں 20 لوگوں کو حراست میں لیا گیا ہے۔ جل گاو¿ں کے پالدھی میں تیز آواز میں گانے بجانے پر تنازعہ ہوا۔ جلوس مسجد کے سامنے سے گزر رہا تھا۔ جہاں نماز ادا کی جا رہی تھی۔ اس تصادم میں 4 کے زخمی اور 45 کو گرفتار کئے جانے کی خبر ہے۔ مہاراشٹر میں ایک ناتھ شندے کی حکومت آنے کے بعد سے ہی فرقہ وارانہ ماحول بنانے کی کوشش ہو رہی ہے۔ کرناٹک کے ہاسن میں بھی مسجد کے پاس سے جلوس کے گزرنے کے دوران تشدد ہوا۔ یہاں پولس نے نو لوگوں کو گرفتار کیا ہے۔ سال گزشتہ بھی رمضان کے دوران ہی ملک کے کئی حصوں میں اس طرح کے واقعات رونما ہوئے تھے۔ سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کے تہوار یا عبادات کے ایام میں تشدد کیوں ہوتا ہے؟ ہندو¿وں کے مذہبی جلوس میں مسلم علاقے سے گزرتے وقت اشتعال انگیز نعرے کیوں لگائے جاتے ہیں؟ پہلے عبادت گاہوں کا احترام کیا جاتا تھا اب مسجد کے قریب ہندوو¿ں کی یاترا میں کچھ زیادہ جوش دکھائی دیتا ہے؟ مسجد پر بھگوا جھنڈا لگانے پر بھیڑ کو کون اکساتا ہے؟ ڈی جے بجانے پر پابندی لگانے کی بات ہوتی رہی ہے لیکن اس پر عمل کیوں نہیں ہوتا؟ جلوس میں شامل بھیڑ کو آگ لگانے والا سامان اور پتھر کون مہیا کرتا ہے؟ یاترا میں شامل لوگ اسی شہر کے ہوتے ہیں یا باہر سے بلائے جاتے ہیں۔
مذہب تو امن کی تعلیم دیتا ہے مگر اس کے فرقہ وارانہ استعمال کی وجہ سے ہی سپریم کورٹ کو کہنا پڑا کہ جس وقت سیاست اور مذہب کو الگ کر دیا جائے گا یہ سب ختم ہو جائے گا۔ آگ اگلتی زبانوں اور بیانوں پر روک نہیں لگائی گئی تو حالات قابو سے باہر ہو جائیں گے۔ گزشتہ چند سالوں میں ملک پر تشدد و نفرتی بیانوں کا سیلاب دیکھ رہا ہے۔ جو ملک اور سماج کو توڑنے پر آمادہ ہے۔ سپریم کورٹ میں جسٹس کے ایم جوزف اور بی وی ناگ رتنا کی بینچ نے یہ باتیں ہیٹ اسپیچ کے خلاف شاہین عبداللہ کی عرضی پر سماعت کے دوران کہیں۔ جس میں درخواست کی گئی ہے کہ عدالت کی ہدایات کے باوجود مہاراشٹر حکومت ہندو تنظیموں کے نفرتی بیانوں پر لگام لگانے میں ناکام رہی ہے۔ اس کے خلاف توہین عدالت کی کاروائی کی جائے۔ شاہین عبداللہ کے وکیل نظام الدین پاشا نے عدالت سے کہا کہ مہاراشٹر پولس کو ایک ہندو تنظیم کے خلاف کارروائی کرنے کی ہدایت دی گئی تھی لیکن اس کے باوجود کوئی کاروائی نہیں ہوئی۔ یہ (ہندو رکشک گروپ) گزشتہ چار ماہ میں پچاس سے زیادہ ریلیاں کر چکی ہے۔ واضح رہے کہ تلنگانہ سے بی جے پی کے ایم ایل اے ٹی راجہ سنگھ گلی گلی جاکر مسلمانوں کے خلاف بھڑکانے والے بیان دے رہا ہے جس کا صرف ایک مقصد ہے کہ سماج میں فساد بھڑک جائے۔ جبکہ ٹی راجہ سنگھ خود ضمانت پر ہے۔ اس کی بیان بازی ضمانت کی شرائط کے خلاف ہیں۔ جو لوگ یاترا نکال رہے ہیں ان کے وکیل نے کہا کہ ہمیں جلوس نکالنے کی اجازت ہونی چاہئے۔ جس پر جسٹس جوزف نے جواب دیا کہ جلوس نکالنے کا حق ہے لیکن کیا ایسی ریلی کے ذریعہ آپ کو ملک کا قانون توڑنے کی اجازت دی جا سکتی ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ عدالت نے اس معاملہ میں پہلی مرتبہ ناراضگی دکھائی ہو۔ اس سے قبل جسٹس جوزف اور رشی کیش رائے کی بینچ نے دہلی، یوپی اور اتراکھنڈ پولس کو نوٹس جاری کرتے ہوئے پوچھا تھا کہ ہیٹ اسپیچ میں شامل لوگوں کے خلاف کیا کاروائی کی گئی۔ ایسے بیانات کے لئے ذمہ داروں پر فوری سخت کاروائی کریں۔ نہیں تو توہین عدالت کی کاروائی کے لئے تیار رہیں۔ اس وقت کپل سبل نے عدالت سے مسلمانوں کو ڈرانے دھمکانے کے چلن کو فوری روکنے کی درخواست کی تھی۔ انہوں نے ممبر پارلیمنٹ پرویش ورما کے مسلمانوں کے اقتصادی بائیکاٹ اور اسی پروگرام میں گلا کاٹنے والے بیان کا حوالہ دیا تھا۔ جس کے جواب میں سپریم کورٹ نے ان معاملوں میں مداخلت کو اپنی ذمہ داری بتاتے ہوئے نیوز چینلوں کو پھٹکار لگائی تھی۔ عدالت نے نفرت کو روکنے کیلئے اینکر کو ذمہ دار بتایا تھا۔ جسٹس جورف اور ناگ رتنا کی بینچ نے اسی سال نفرتی بیانوں کو گندگی بتاتے ہوئے کہا تھا کہ یہ شیطان کی شکل اختیار کرے گی۔ عدالت نے کہا کہ کیا ریاستی سرکاریں نامرد یا معزور ہو گئی ہیں۔ اگر یہ سب کچھ ہو رہا ہے تو ہمیں اسٹیٹ کی ضرورت کیا ہے۔ جسٹس جوزف نے کہا کہ یہ 21 صدی ہے۔ ہمیں ایک سیکولر، برداشت کرنے والا سماج ہونا چاہئے لیکن آج نفرت کا ماحول ہے۔ سماجی تانا بانا بکھرا جا رہا ہے۔ ہم نے ایشور کو کتنا چھوٹا کر دیا ہے کہ اس کے نام پر تنازعہ ہو رہا ہے۔
سماجی پولرائزیشن میں سیاسی جیت و اقتدار حاصل کرنے کا کامیاب نسخہ ڈھونڈ لینے والی بی جے پی کی یہ صاف طور پر دین مانی جا سکتی ہے۔ نریندرمودی کی سربراہی میں 2014 اور اس کے بعد بنی حکومت نے نفرتی بیانوں کو خوب بڑھاوا دیا ہے۔ پارٹی میں فرقہ وارانہ و سماجی تقسیم کا ایک اثرانداز نظام تیار کیا گیا ہے۔جسے وزراءو بڑے لیڈران چلاتے ہیں۔ مرکزی وزیر انوراگ ٹھاکر اور ایم پی پرویش ورما کی نفرت انگیز تقاریر کو کون بھول سکتا ہے جس میں انہوں نے ایک طبقہ کے لوگوں کو گولی مارنے کی بات کہی تھی۔ فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور سماجی ہم آہنگی کے خواہشمند شہری ہوں یا قانون کی حکمرانی پر یقین رکھنے والے عوام، انہیں اس وقت مایوسی ہوتی ہے جب عدالت ایسے لوگوں کو یہ کہہ کر بری کر دیتی ہے کہ ‘مسکراہٹ کے ساتھ کیا گیا جرم جرم نہیں ہے’۔ اسی طرح مذہبی پارلیمنٹ کے ذریعے ایک مخصوص طبقے کی نسل کشی کا مطالبہ کرنے والے یا تو پکڑے نہیں جاتے یا جلد ہی ضمانت پر رہا ہو جاتے ہیں۔ نفرت اور تشدد کو نئے سرے سے پھیلانے کے لیے۔ اقتدار میں رہنے والی جماعتیں ایسی تیزابی باتیں کہنے والوں کو ‘فرنج عناصر’ کہہ کر جان چھڑا لیتی ہیں۔ ملک کی آزادی میں کردار ادا کرنے والوں کے خلاف بھی نفرت پھیلائی جاتی ہے اور معاشرہ اسے بے بسی سے دیکھتا رہتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا بی جے پی نفرت وتشدد کی قیمت پر اقتدار میں بنی رہے گی یا پھر سپریم کورٹ کے تبصرہ کو سنجیدگی سے لے کر نفرتی بیانوں کے خلاف ٹھوس قدم اٹھائے گی۔

About Gawah News Desk

Leave a Reply