Sunday , December 22 2024
enhindiurdu

اُف… وہ انٹرویوز!

ڈاکٹر سیدفاضل حسسیں پرویز
صحافت اور انٹرویوز ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ بعض انٹرویوز نے کبھی شخصیات تو کبھی اداروں کو، کبھی افراد کو تو کبھی جماعتوں کو آسمان کی بلندیوں تک پہنچایا تو کبھی زمین پر لاپٹخا۔ انٹرویو لینا بلاشبہ ایک آرٹ ہے۔ انٹرویو لینے والے اور دینے والے دونوں کی صلاحیتوں کا اس میں اظہار ہوتا ہے۔ بعض انٹرویوز کسی کی امیج کو بہتر بنانے کیلئے ہوتے ہیں تو بعض شبیہ کو بگاڑنے کے لئے ہوتے ہیں۔ اور کچھ انٹرویوز اسپانسرڈ بھی ہوتے ہیں۔ اور حالیہ عرصہ کے دوران اسپانسرڈ انٹرویوز کا کلچر پروان چڑھا ہے۔ اپنے چالیس سالہ صحافتی زندگی میں بے شمار انٹرویوز لینے کا موقع ملا۔ صدر جمہوریہ، وزیر اعظم، چیف منسٹرس سے لے کر جسم فروشوں اور گداگروں سے تک انٹرویوز لئے۔ قانون کے رکھوالوں سے ملاقاتیں کیں تو وہیں قانون شکن عناصر کے بھی انٹرویو لئے اور اُن مظلوم، بے بس افراد کے انٹرویوز لئے تاکہ خود بھی جان سکیں اور دنیا کو بتاسکیں کہ اگر انہوں نے جیل کے سلاخوں کے پیچھے زندگی کے قیمتی ماہ و سال گزاریں ہیں تو ان کا قصور کیا تھا؟ اکثر تو بے قصور نکلے۔ یہاں چند انٹرویوز کا ذکر کرنا مناسب ہوگا:
مولانا نصیرالدین:
مولانا نصیرالدین مرحوم سے کون واقف نہیں۔ کبھی یہ جماعت اسلامی سکندرآباد حلقہ کے امیر ہوا کرتے تھے۔ میں نے اپنے کیریئر میں ان کے جیسا سیدھے سادھا اصول پسند، حق گو، بے باک انسان نہیں دیکھا۔ ان کی ہر بات سیدھے دل میں اُترتی تھی۔ ہندوستانی مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف وہ آواز اٹھاتے رہے۔ بابری مسجد کی شہادت ہو یا کوئی اور دلآزار واقعہ‘ مولانا نصیرالدین نے منافقت یا مصلحت پسندی سے کام نہیں لیا۔ 2000ء میں گواہ کے لئے ان کا ایک تہلکہ خیز انٹرویو لیا گیا جس میں انہوں نے بابری مسجد کی تعمیر نو سے متعلق کہا تھا کہ ایک کروڑ ہاتھ تعمیر نو میں حصہ لینے کے لئے تیار ہے۔ اس انٹرویو کی اشاعت کے بعد جماعت اسلامی سے ان کا تعلق ختم کردیا گیا۔ نصیرالدین صاحب نے نہ تو جماعت سے کوئی شکوہ کیا نہ ہی گواہ سے کوئی شکایت۔ وہ اپنے مقصد کی تکمیل میں مصروف رہے۔ وہ گرفتار کئے گئے۔ گجرات کی جیل میں کافی عرصہ رہے۔ وہاں انہوں نے قرآن مجید حفظ کرنا شروع کیا اور تقریباً 17پارے حفظ کئے۔ ان کے اخلاق و کردار سے تمام قیدی اور جیل کے عہدیدار متاثر تھے۔ حتیٰ کہ جیل کے احاطہ میں رہنے والی گلہریاں تک ان سے محبت کرتی تھیں۔ جیل میں وہ کام کرتے تھے اس کا معاوضہ ملتا تھا۔ اس سے وہ روز مونگ پھلی خریدکر نماز عصر کے بعد گلہریوں کو کھلایا کرتے تھے اور گلہریوں کو بھی اس کی عادت ہوگئی تھی۔ وہ عصر کے وقت سے اس مخصوص مقام پر پہلے ہی سے اکٹھا ہوجایا کرتی تھیں۔ اپنی رہائی کے بعد بھی مولانا نصیرالدین نے اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں۔ وہ مسلسل صبرآزما دور سے گزرتے رہے۔ ایک جوان بیٹا جیل میں اور ایک جوان بیٹے کی موت نے یقینی طور پر انہیں اندر سے کھوکھلا کردیا ہوگا مگر اس مردمومن کے پائے استقلال میں کبھی جنبش نہیں آئی۔ ان کے اعلیٰ کردار کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا تھا کہ اگر وہ اپنی کار میں کہیں جارہے ہوں تو راستے میں کوئی رکشاراں بھاری بوجھ کے ساتھ رکشا کھینچتا جارہا ہوتا تو اپنی کار سڑک کے کنارے پارک کرتے اور سڑک کا چڑھاؤ ختم ہونے تک رکشا کو دھکا دیتے۔ ان سے تین چار انٹرویوز لئے جو یادگار ہیں۔
مولانا عبدالقوی:
مدرسہ اشرف العلوم خواجہ باغ، سعیدآباد کے بانی ناظم مولانا عبدالقوی کا شمار ممتاز علماء و اکابرین میں ہوتا ہے۔ انہیں ایک مقدمہ میں جس میں وہ باعزت بَری ہوئے کافی عرصہ تک جیل میں رکھا گیا تھا۔ ان کی رہائی کے فوری بعد گواہ کے لئے خصوصی انٹرویو لیا گیا۔ جس میں مولانا عبدالقوی نے جیل کے شب و روز اور ان کی اپنی دینی، علمی اور دعوتی سرگرمیوں سے متعلق تفصیل سے بتایا۔ جیل میں ہزاروں صفحات پر مشتمل کتابوں کا مطالعہ بھی کیا اور بے شمار مضامین بھی لکھے۔ اللہ والوں کی زندگی کیسی گزرتی ہے چاہے وہ اپنے گھر میں ہوں، ادارے میں یا پھر جیل کی کوٹھری میں۔ صبر اور شکر ان کی پہچان اور ان کی عظمت کی علامت ہے۔ مولانا عبدالقوی کا یہ انٹرویو عزم و ہمت کی عکاسی کرتا ہے۔ اس انٹرویو کو شمالی ہند کے کئی اخبارات نے نقل کیا۔
حجۃ الاسلام مولانا رضا آغا کا متنازعہ انٹرویو
2005ء میں گواہ کے شیعہ سنی اتحاد نمبر کے لئے جو یوم عاشورہ کے موقع پر شائع کیا گیا تھا‘ ممتاز شیعہ عالم حجۃ الاسلام مولانا رضا آغا کا انٹرویو لیا گیا تھا جس میں کئی ایسے سوال کئے گئے تھے جو اکثر سنی مسلمانوں کے ذہنوں میں ابھرتے رہتے ہیں۔ جیسے تبرا کیا ہے؟ کیا شیعہ مسلمانوں کے پاس چالیس پاروں کا قرآن ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔ حجۃ الاسلام نے بہت ہی فراخ دلی کے ساتھ بہت ہی سلجھے ہوئے انداز میں تمام سوالات کے جواب دیئے تھے۔ اکثریت نے اسے سراہا تاہم بعض گوشوں سے تنقید بھی ہوئی۔ جس پر مولانا رضا آغا کو گواہ ہی کے ذریعہ اپنی موقف کی وضاحت کرنی پڑی۔ گواہ کا یہ شمارہ اردو صحافت کی تاریخ میں اپنی نوعیت کی منفرد دستاویز ہے۔ جس میں 12امام، تعزیے کی تاریخ اور تعریف، حیدرآباد کے مشہور عَلم (تعزیے) کے تاریخی پس منظر، عاشور خانوں کی تفصیلات ذاکرین، نوحہ خواں، مرثیہ خواں، ماتمی گروہوں کی تفصیلات پیش کی گئیں تھیں۔ یوم عاشورہ کے موقع پر ہزاروں کی تعداد میں شیعہ برادری نے یہ شمارہ خریدا۔
محمد شہاب الدین (بہار کا ڈان):
محمد شہاب الدین سیوان سے منتخب ایم پی تھے مگر اپنے دور کے خطرناک ترین ڈان سمجھے جاتے تھے۔ عوام جتنا ان سے محبت کرتی تھی‘ سیاست دان اور فرقہ پرست عناصر اُتنا ہی ان سے خوف کھاتے تھے۔ 2001ء میں دہلی میں ان سے بہت ہی تفصیل سے انٹرویو لیا تھا۔ اس وقت فوٹوگرافر علیم الدین بھی ہمارے ساتھ تھے۔ شہاب الدین نے بہت ہی بے باکی کیساتھ بتایا تھا کہ کس طرح انہوں نے فرقہ پرستوں میں خوف و دہشت پیدا کیا تھا۔ وہ اسکور برابر کرنے کے قائل تھے۔ جس وقت ہم نے انٹرویو لیا تھا وہ ایم پی تھے۔ ان کے ساتھ ایک اور رکن پارلیمنٹ محمد داؤد بھی تھے۔ شہاب الدین بعد میں مختلف مقدمات میں گرفتار کئے گئے اور جیل ہی میں انکی موت واقع ہوئی۔ اب بھی بہار کے عوام انہیں یاد کرتے ہیں۔ ان کے سیاسی کیریئر کے دوران انہیں استعمال کرنیوالے نامور سیاست دانوں کی سازشوں وجہ سے وہ عوام میں مقبول ترین سیاست دان سے ملک کے بدنام ترین مجرم کے طور پر جانے گئے۔
شہید غلام یزدانی کے والدین کا انٹرویو
غلام یزدانی وہ نوجوان جسے ٹاسک فورس آفس نے دھماکہ میں ملوث ہونے کے الزام میں گرفتار کیا تھا اور پھر انہیں انکاؤنٹر میں شہید کردیا گیا۔ ان کے میت دہلی سے حیدرآباد لائی گئی تھی۔ مگر حیات نگر کے بعض مقامی مسلمانوں نے انتہا پسندوں کو خوش کرنے اور خود کو دیش بھکت ثابت کرنے کے لئے مقامی قبرستان میں تدفین کی مخالفت کی تھی۔ ان کے والدین کو گھر خالی کرنے پر مجبور کیا گیا۔ غلام یزدانی کے والد غلام مصطفےٰ اور ان کی اہلیہ فاطمہ النساء بیگم و فرزند غلام ربانی کے ساتھ مئی 2008ء کو گواہ کے دفتر بیچلر بلڈنگ میں آئے اور انہوں نے تفصیلی انٹرویو دیا۔ انٹرویو لیتے وقت ہمارا دل رورہا تھا، ہاتھ کانپ رہے تھے‘ کیوں کہ شہید غلام یزدانی پر جس طرح ٹارچر کیا گیا تھا وہ بیان نہیں کیا جاسکتا۔ کئی دن تک انہیں بھوکا رکھا گیا۔ ہاتھ پر گرم سلاخ سے داغنے کے نشان، پورے جسم پر گولیوں کے تیرہ نشان ایک گولی کھوپڑی پر بھی چلائی گئی تھی۔ ہڈیوں کے جوڑوں پر ڈرل مشین کا استعمال کیا گیا تھا۔ بیرسٹر اسدالدین اویسی نے اپنے ساتھ دہلی سے میت کو حیدرآباد لایا تھا۔ غلام یزدانی کے بھائی غلام ربانی پر بھی بے تحاشہ ٹارچر کیا گیا۔ اس انٹرویو نے پولیس کے چہرے سے نقاب ہٹایا تھا۔غلام ربانی کی خواہش تھی کہ وہ آئی پی ایس یا آئی اے ایس بنے مگر پولیس کے رویے اور بے گناہوں کے ساتھ ان کے ظالمانہ رول کو دیکھنے اور سہنے کے بعد انہوں نے یہ ارادہ ترک کردیا۔ جانے ایسے کتنے نوجوان ہیں جنہیں ناکردہ گناہوں کی سزا دی گئی جن کی زندگی کو جھوٹے الزامات کے تحت برباد کردیا گیا۔
لیڈی ڈان فرح خان:
لیڈی ڈان فرح سے کون واقف نہیں۔ حیدرآباد کی تاریخ میں یہ واحد خاتون ہیں جو لیڈی ڈان کے طور پر مشہور ہوئیں۔ ایک گھریلو خاتون جرائم کی دنیا میں کیسے داخل ہوئی۔ یہ جاننا ہم بھی چاہتے تھے اور اپنے قارئین کو اس سے واقف کروانا چاہتے تھے۔ چنانچہ فرح خان سے بیچلر بلڈنگ معظم جاہی مارکٹ میں طویل انٹرویو لیا گیا۔ جب یہ انٹرویو شائع ہوا تو فرح خان کے لئے عوام میں ہمدردی کے جذبات پیدا ہوئے۔ پہلی بار یہ حقیقت معلوم ہوئی کہ کس طرح پولیس نے اس خاتون پر ٹارچر کیا۔ کس طرح سے ذہنی اور جسمانی اذیت دی گئی تھی جس نے ان میں باغیانہ خیالات پیدا کئے۔ یہ انٹرویو بھی چند یادگار انٹرویو میں شامل ہے۔ جو شمالی ہند کے کئی اخبارات میں ڈائجسٹ کیا گیا تھا۔فرح خان کے 2007میں لئے گئے اس انٹرویو کا ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں:
”مجھ ایک مہینے کی حاملہ کو پولیس نے بہادرپورہ پولیس اسٹیشن میں موسل کسا۔ دو دو کانسٹبل مجھ پر بیٹھ جاتے.. تھرڈ ڈگری استعمال کرتے… ہر طرح سے اذیت پہنچاتے… ایک عورت کے ساتھ پولیس کا ظالمانہ سلوک کا جو تجربہ مجھے ہوااس کی تلخیوں کو مرتے دم تک بھلانہیں سکتی۔ ایک مہینے تک غیر قانونی طور پر مجھے پولیس اسٹیشن میں رکھا گیا‘ ان کے جبر وتشدد کی وجہ سے میرا حمل ساقط ہوگیا.. میری حالت دیکھ کر میرے والد کو ہارٹ ایٹیک ہوا‘ میرے جو اں سال بھائی نے دلبرداشتہ ہوکر خودکشی کرلی… میری جگہ کوئی اور ہوتی تو شاید وہ بھی جان دے دیتی… مگر میں نے حالات کا مقابلہ کرنے، ظالم کا پنجہ مروڑنے، بچی ہوئی زندگی شان کے ساتھ اور سر اٹھاکر گزارنے کی قسم کھائی… اس طرح ایک کمزور عورت دلیرخطرناک اور میڈیا کی خطاب یافتہ ”ڈان“ بن گئی۔ مجھے اس مقام تک پہنچانے کے ذمہ دار قانون کے محافظین ہیں“۔
فرح خان اب ایک این جی او کے ذریعہ خدمات انجام دے رہی ہیں۔ وہ ایک اچھے گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں۔ باصلاحیت اور ایک اچھی گلوکارہ ہیں۔ (جاری)

About Gawah News Desk

Check Also

ہوا ہے گو تند و تیز لیکن چراغ اپنا جلارہا ہے

سچ تو مگر کہنے دو! ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز آل انڈیا مسلم پرسنل لاء …

میرے درد کی تجھے کیا خبر!

فیاض کی اچانک موت نے جانے کیوں مجھے جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ اس کے کئی …

Leave a Reply