Thursday , November 14 2024
enhindiurdu

سوریہ نمسکار آخر کیوں۔؟

سرفراز بزمی
ہندو مذہبی روایات کے مطابق سوریہ سپتمی کے دن سورج دیوتا کی پرستش کی جاتی ہے اس کی پرستش کا ایک خاص طریقہ سوریہ نمسکار ہے۔
راجستھان میں نئی صوبائی حکومت وجود پذیر ہونے کے بعد سے کئی متنازع احکام صادر کئے گئے ہیں‘ ان میں سے سوریہ نمسکار کو تمام طلبہ اور اساتذہ کے لئے لازمی قرار دینا بھی ہے۔
رقبے کے اعتبار سے ہندوستان کا سب سے بڑا صوبہ راجستھان اپنی مذہبی رواداری کے لئے معروف رہا ہے قدیم راجپوتانہ کی جیپور ریاست کا راج گھرانہ ہو یا جودھپور کا مسلمانوں کے لئے ان کی وسیع القلبی معروف رہی ہے تاریخی اعتبار سے بھی راجستھان کے راجپوت راجاوں کا مسلمانوں سے خاص تعلق رہا ہے مغلوں کے فوجی قائدین میں آمیر (موجودہ جیپور) کے راجہ مان سنگھ کا نام بہت مشہور ہے جب نیا جیپور تعمیر کیا گیا تو راجہ نے اس کی ذمہ داری بھی اپنے بھروسے مند سردار مرزا اسماعیل کے سپرد کی جن کے نام سے جیپور کی سب سے معروف سڑک ایم آئی روڈ(مرزا اسماعیل روڈ) آج بھی موجود ہے
جئے پور ایک قلعہ بند شہر ہے۔ شہر پناہ کے اندر جن ہنرمند قوموں کو جگہ دی گئی تھی اس میں بڑی تعداد مسلمانوں کی ہے گولہ اندازان، چابک سواران، خراطیان، ندافان، بسایطیان، پنی گران، مہاوتان، سلاوٹان یہ تمام محلے آج بھی پرکوٹے کے اندر مسلمانوں کی پہچان ہیں۔
1947میں جب کہ میوات اور ہریانہ میں مسلمانوں کو اجاڑا جارہاتھا جیپور ریاست فرقہ وارانہ کشیدگی سے محفوظ رہی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ دو بھاجپائی وزیر اعلی بھیرو سنگھ شیخاوت اور وسندھرا راجے کے وقت میں بھی مسلمانوں کے مذہبی معاملات میں مداخلت کی ہمت نہیں ہوئی مگر اس بار صوبائی انتخابات میں فتح کے بعد وزراء اور سرکار کے جو تیور ہیں وہ تشویش ناک بھی ہیں اور تکلیف دہ بھی۔
انتخابی نتائج کے اعلان کے ساتھ ہی ایک ممبر اسمبلی کا جس نے ابھی حلف بھی نہیں لیا تھا مسلم محلوں میں پہونچ کر گوشت کی دکانوں کو بزور بند کروانے کی کوشش کرنا، اس کے بعد پشتینی گوشت فروشوں کیلئے بھی لائسنس لازمی کردیا جانا کھلے میں گوشت یا گوشت سے بنی خوردنی اشیاء فروخت پر پابندی لگانے کی بات کرنا، سڑک کنارے ٹھیلوں پر گوشت سے بنی اشیاء خوردونوش اور انڈے جیسی چیزیں بیچنے کے لئے بھی لائسنس کی بات کرنا اور لائسنس بنانا عملا ایک ناممکن طویل عمل بنادیا جانا سب اسی کے مظاہر ہیں –
ایک مسلم اکثریتی علاقے کے سرکاری گرلس اسکول میں مسلم طالبات سے ایک ممبر اسمبلی کے ذریعہ جے شری رام اور سرسوتی ماتا کے جیکارے لگوانا اور پھر حجاب میں آنے والی بچیوں کو ایم ایل اے کے ذریعے حجاب میں نہ آنے کا حکم دیا جانا اور اس کام کے لئے پرنسپل کو پابند کرنا‘ یہ سب کسی بڑی تبدیلی کا مظہر ضرورمعلوم ہورہا ہے۔
مسلم سرکاری ملازمین کو نماز جمعہ کے لئے ایک گھنٹے کی رخصت کا بیسیوں برس قبل سے چلا آرہا حکم منسوخ کرنے کی بات ایک وزیر کے ذریعے کی جارہی ہے۔ مسلم اقلیت کے سامنے اس وقت ایک عجیب کیفیت پیدا ہوگئی جب محکمہئ تعلیم کے وزیر کی جانب سے سوریہ سپتمی کے دن سرکاری اور غیر سرکاری تعلیمی اداروں کے تمام طلبہ اور اساتذہ کے لئے سوریہ نمسکار کو لازمی قرار دے دیا گیا اس حکم کی تعمیل نہ کرنے والے طلبہ اور اساتذہ کے خلاف تادیبی کاروائی کی بات بھی کہی گئی ہے۔ ہندو مذہبی روایات کے مطابق سوریہ سپتمی کے دن سورج دیوتا کی پرستش کی جاتی ہے اس عبادت کا خاص طریقہ سوریہ نمسکار ہے جو یوگا کے آسنوں (مختلف ہیئتوں)میں سے ایک ہے۔
سرکاری حکمنامے کے مطابق 15فروری کو صبح اسکول پرئیر کا آغاز سوریہ نمسکار سے کرنے اور اس کی تفصیلات مع تصاویر اعلی افسران کو ارسال کرنے کے احکامات حکومت کی طرف سے دیئے گئے ہیں اس پورے عمل کی نگرانی کے لئے ایڈمنسٹریشن کی جانب سے آبزرور متعین کئے گئے ہیں۔ اس عمل میں کسی قسم کی رکاوٹ نہ آئے اس کے لئے محکمہئ پولیس نے خصوصی احکام جاری کئے ہیں۔
یہ سب اہتمام کیا روٹین کا عمل ہے یا کسی خصوصی ایجنڈے کے نفاذ کا آغاز یہ تو آنے والا وقت بتائے گا لیکن ان تمام غیر معمولی احکامات اور سختی سے ان کے نفاذ کی کوششوں سے راجستھان کا مسلمان تشویش میں مبتلا ضرور ہوا ہے۔
راجستھان میں مسلمانوں کی آبادی کا تناسب تقریبا 12فیصد بتایا جاتا ہے کء بڑے شہروں اور علاقوں میں ان کا تناسب 40۔ فیصد سے بھی زیادہ ہے۔ مگر سرکاری ملازمتوں میں یہ تناسب ان کی آبادی کے تناسب سے بہت کم ہے۔ خوش آئند پہلو یہ ہیکہ مسلمانوں میں تعلیم کا رجحان پچھلے کچھ سالوں میں کافی بڑھا ہے اور تعلیم نسواں میں بھی کافی اضافہ دیکھا جارہا ہے۔ مگر اس اضافے پر حکومت کے ان احکامات کا منفی اثر پڑنا لازمی ہے۔
مسلم طلبہ کو دیجانے والی اکثر پریمیٹرک اسکالر شپس مرکزی اور صوبائی سرکاروں کی طرف سے موقوف کردی گئیں ہیں۔ سرکاری اسکولوں میں اردو زبان کی تدریس کے لئے معلمین کی متعین سیٹس بھی مختلف بہانوں سے کم کرنے کی تیاری کی جارہی ہے۔ مگر ان سب کے باوجود مسلمانوں کا حوصلہ کم نہیں ہوا ہے وہ ہمت حوصلے اور دانشمندی کے ساتھ ان تمام حالات کا مقابلہ کر رہے ہیں۔
راجستھان میں سب سے اچھی بات یہ ہے کہ یہاں ملی معاملات میں تمام جماعتیں ایک ساتھ رہتی ہیں راجستھان مسلم فورم کے نام سے تمام جماعتوں کا ایک مشترکہ پلیٹ فارم کء برسوں سے متحرک ہے جو اس طرح کے معاملات میں آگے بڑھ کر ملت کی رہنمائی کرتا ہے یہاں جماعت اسلامی ہند آل انڈیا ملی کونسل جمعےۃ العلماء ہند اور دیگر جماعتیں جماعتی پہچان کے بغیر مشترکہ پلیٹ فارم سے ملی معاملات میں ایکٹو ہوجاتی ہیں۔ اللہ اس اتحاد کو سلامت رکھے
سوریہ نمسکار کے حکمنامے کے خلاف راجستھان مسلم فورم کی جانب سے رٹ داخل کی گئی ہے اس پر 12 اور 14فروری کو سماعت بھی ہوئی مگر فاضل جج نے بغیر کوئی مضبوط بنیاد بتائے سماعت کو دو ہفتے کے لیے ملتوی کردیا۔ ممکن ہے یہ فیصلہ 15 فروری کے سوریہ نمسکار پروگرام کو ملحوظ رکھتے ہوئے کیا گیا ہو۔
خیال رہے اس سے قبل بھی 2020میں یوگا کے سرکاری حکم کے خلاف مسلم فورم نے عدالت کی پناہ لی تھی جس میں سرکار نے عدالت کی ڈبل بینچ کے سامنے یوگا کے اختیاری کردیئے جانے کی وضاحت دی تھی یہ وضاحت بھی عدالت کے سامنے پیش کی گئی
جو بھی ہو ہندوستان کے روایتی طور سے اس پرامن صوبے میں مسلمانوں کے خلاف ہورہی یہ حرکتیں اس صوبے کی تہذیبی روایات کے انہدام کی تیاری ہے۔ مگر ایسا بھی نہیں ہے کہ عوام حکومت کے اس اقدام کو سراہ رہی ہو۔ رام مندر افتتاح کے بعد بنائے گئے اس ہیجان انگیز مذہبی ماحول میں بھی کئی انصاف پسند غیر مسلم اس طرح کی حرکتوں کے خلاف ہیں اور ببانگ دہل ان کی مخالفت کررہے ہیں۔ ان میں انسانی حقوق کی تنظیموں کے ساتھ ساتھ پرامن بقائے باہمی کی حامی شخصیات بھی ہیں۔
ان تمام حالات کے باوجود صوبے کے مسلمان حتمی فیصلہ کئے ہوئے ہیں کہ ہم اپنے عقیدے اور تہذیب کے معاملے میں کوئی سمجھوتہ نہیں کرینگے اسی وجہ سے 15فروری کے دن مسلم طلبہ کی بڑی اکثریت نے مسلم تنظیموں کی اپیل پر اسکول کا بائیکاٹ کیا۔

About Gawah News Desk

Check Also

اتراکھنڈمیں تاجروں کی تنظیم نے مسلمانوں کی ملکیت والی دکانوں کا رجسٹریشن منسوخ کردیا

اتراکھنڈ کے دھرچولا قصبے میں ایک تاجر تنظیم نے 91 دکانوں کارجسٹریشن منسوخ کر دیا، …

دو نابالغ بھائیوں کاقاتل ملزم واقعہ کے صرف دو گھنٹے بعد ہی انکاؤنٹر میں ہلاک

اتر پردیش کے بداویوں ضلع میں دو کمسن بھائیوں کے قتل اور پھر مبینہ پولیس …

Leave a Reply