یہ سسپنس 25/جنوری کو ختم ہوگیا جب ریاستی گورنر نے اپنے کوٹے سے ایڈیٹر سیاست عامر علی خاں کو ایم ایل سی نامزد کیا جو کابینہ کی توسیع کے موقع پر مسلم وزیر کی حیثیت سے شامل کئے جاسکتے ہیں۔ان کے ساتھ پروفیسر کوڈنڈا رام کو بھی ایم ایل سی نامزد کیا گیا ہے جنہوں نے تلنگانہ تحریک کو کامیاب بنانے میں اہم رول ادا کیا تھا۔ تاہم کے سی آر نے ان کی خدمات کا خاطر خواہ صلہ دینے کے بجائے انہیں مکمل طور پر نظر انداز کردیا تھا۔ عامر علی خاں کی زیر ادارت روزنامہ سیاست نے حالیہ اسمبلی انتخابات میں کانگریس کی بھرپور تائید کی تھی‘ اس کے علاوہ عامر علی خاں نے ریاست گیر دورہ کرتے ہوئے مسلمانوں کے سیاسی اور تعلیمی شعور کو بیدار کرنے میں اہم رول ادا کیا ہے۔ وہ ایم بی اے ہیں‘ اور انہوں نے جرنلزم میں بھی گریجویشن کیا ہے۔
جناب عامر علی خاں نے جناب محبوب حسین جگر مرحوم کی نگرانی میں اپنے صحافتی کیریئر کی شروعات کی تھی۔
جناب عابد علی خاں مرحوم کے پوترے اور جناب زاہد علی خاں کے اکلوتے فرزند عامر علی خاں نے بہت کم عمری میں اپنے آپ کو ملک کے مسلم دانشوروں کی صف میں شامل کیا ہے۔ انہوں نے جناب زاہد علی خاں کی زیر سرپرستی ادارہ سیاست کو نئی بلندیوں تک پہنچایا ہے۔
جناب عامر علی خاں کے ایم ایل سی نامزد ہونے پر صحافتی برادری نے خیر مقدم کیا ہے اور انہیں مبارکباد دینے والوں کا تانتا بندھا ہوا ہے۔ بعض کانگریسی کارکنوں نے ادارہ سیاست پر مرفع کے ساتھ جشن منایا۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ایم ایل سی کیلئے کئی مسلم امیدوار تھے‘ مختلف موقعوں پر مختلف نام گشت کررہے تھے جس کی وجہ سے سسپنس پیدا ہوگیا تھا جناب ظفر جاوید، مولانا خسرو پاشاہ، جناب شجاعت علی صوفی کے نام بھی ایم ایل سی کے لئے زیر غور تھے۔انہیں اب توقع ہے کہ اقلیتوں سے متعلق مختلف کارپوریشنوں کے چیرمین کے عہدوں پر نامزد کیا جائے گا۔