محمد اعظم شاہد
مرکز میں مودی کی زیرِ قیادت برسرِاقتدار بی جے پی حکومت تیسری مرتبہ اقتدار پر واپس لوٹنے کے مضبوط منصوبے بنانے میں مصروف ہے، گجرات بشمول ملک کی کئی ریاستو ں میں بالخصوص جنوبی ریاستوں میں دھڑا دھڑ ترقیاتی پروجیکٹس کیلئے سنگِ بنیاد رکھا جارہا ہے تو کہیں بڑے بڑے اعلانات ہورہے ہیں۔ ہندوتوا کے پیروکار وزیر اعظم سینہ تان کر کہتے تھکتے نہیں ہیں کہ اپنے الیکشن میانیفیسٹو (انتخابی منشور) میں جو وعدے انہوں نے کئے تھے وہ ہرحا ل میں پورے کررہے ہیں۔ رام مندر کی تعمیر اور افتتاح کے بعد کئی بار یہ اعلان کیا جاتا رہا ہے کہ سی اے اے (شہریت ترمیمی قانون) کا نفاذ لوک سبھا انتخابات سے پہلے کردیا جائے گا۔ آخر کار 11/ مارچ 2024کو مرکزی حکومت نے اس ضمن میں حکم نامہ جاری کردیا۔ سی اے اے قانون سال 2019میں پارلیمان میں منظور ہوا تھا۔ اس قانون کے مہلک اثرات پر ملک بھر مظاہرے ہوئے۔ جانی و مالی نقصان ہوا۔ احتجاج اپنے شباب پر تھا کہ کورونا وباء کی آمد سے مسلسل شب و روز ہونے والے مظاہروں اور مزاحمتی تحریکات پر پابندی لگادی گئی۔ حکومت اکثر یہ کہتی رہی کہ وہ CAAپر فی الحال سنجیدہ نہیں ہے۔ مگر حکومت میں جو بااثر وزراء رہے ہیں انہوں نے کئی بار سی اے اے کے نفاذ کی پیشن گوئی کی تھیں۔ یہ بھی دہرایا جاتا رہا کہ اس مجوزہ قانون سے ملک میں کسی کی شہریت پر آنچ نہیں آئیگی اور نہ ہی شہریت چھینی جائے گی۔ یہ باور کروایا جاتا رہا کہ چند اپوزیشن سیاسی پارٹیاں سی اے اے سے متعلق ہم وطنوں میں غلط فہمیاں پیدا کررہے ہیں۔ مگر شمالی مشرقی ریاستوں میں اس قانون کی آڑ میں اور این آر سی کے حوالے سے جو مقامی باشندوں کو نشانہ بنایا گیا۔ اور جس طرح انہیں ہراساں کیا گیا وہ تو اس قانون کے پس پردہ مقاصد کو ظاہر کرتا رہا۔ جو وقت timingاس قانون کے نفاذ کیلئے چنا گیا ہے وہ واضح طور پر ابھی چند مہینوں میں منعقد ہونے والے عام پارلیمانی (لوک سبھا) انتخابات کے پیش نظر ووٹوں کے بٹوارے polarisationکے خفیہ منصوبے کے تحت کیا گیا ہے۔ سال2019میں منظور شدہ قانون کے نفاذ کے لئے چار سال کچھ نہ کچھ حیلے بہانے تلاشے جاتے رہے۔ اور اب مذہب کے نام پر ہونے والے مذموم سیاست کی آڑ میں قومیت کے نام نہاد جذبات کا استحصال کیا جارہا ہے۔ ہندوراشٹرا قیام کا منصوبہ ہی دراصل ملک کی صدیوں پرانی وراثت کے برخلاف تشویشناک اقدام مانا جاتا رہا ہے۔ اس قانون کے تحت تین پڑوسی ممالک (پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان) کی مذہبی اقلیتوں کو ہندوستان کی شہریت دینے کا منصوبہ بنایا گیا ہے، اس پورے معاملے کو آسان بنانے آن لائن ویب پورٹل بھی لانچ کیا جائے گا۔ ان تین مسلم اکثریتی ممالک سے آنے والے مہاجروں کو اپنا رجسٹریشن کروانا ہوگا جسکے لئے کوئی دستاویزات کی ضرورت نہیں ہوگی۔ بتایا گیا ہیکہ سرکاری تفتیش کے بعد 31/ ڈسمبر2014سے قبل ہندوستان آنے والے چھ اقلیتوں (ہندو، عیسائی، سکھ، جین، بودھ اور پارسی طبقات کو) کو ہندوستانی شہریت دینے کا ا۰۰۰۰۰۰۰۰۰ کیا تھا۔ کہا گیا ہے کہ شہریت دینے کا حتمی فیصلہ مرکزی حکومت کا ہی ہوگا۔ سمجھا جارہا ہے کہ اس قانون کے اطلاق کی آڑ میں بی جے پی حکومت اپنے رائے دہندگان یعنی ووٹرس کا دائرہ vote base وسیع ترکرنے کا ماسٹر پلان رکھتی ہے۔ اگر یہ کامیاب ہوگیا تو جس طرح کے دعوے کئے جارہے ہیں اس کی مناسبت سے بی جے پی اپنی پوزیشن مزید مضبوط و مستحکم کرتے ہوئے اقتدار پر قابض ہوسکتی ہے۔ ویسے جنوبی ہند کی ریاستوں میں بی جے پی اپنا کمل کھلانے کی جان توڑ کوشش کررہی ہے۔ الگ الگ سیاسی پارٹیوں کے نمائندوں کو جوڑتوڑ کی سیاست رچاکر اپنے دائرے میں لینے کی کوششوں میں دن رات محنت میں لگی بی جے پی اپنے آقا آر ایس ایس کی آرزؤں کی تکمیل میں منصوبہ بند طور پر پوری طرح متحرک نظر آرہی ہے۔ سی اے اے کے نام پر ہندوستانی مسلمانوں میں خوف و ہراس کا ماحول گرمایا جاتا رہا۔ مسلمانوں کو شہریت کے نام پر کئی پیچیدگیوں، غلط فہمیاں اور دستاویز کے نام پر بے چینی پھیلائی جاتی رہی، مسلمانوں کو غیر ثابت کرنے کا مذموم ایجنڈا بھی سراٹھائے پھرتا رہا۔ ملک بھر میں اس قانون کی سنگینی کے جواب میں جو ملک گیر مزاحمت کا مظاہرہ کیا گیا اس پر بی جے پی حکومت کو پریشانی تو ہوئی۔ مگر اپنی عیارگی اور موقع پرستی کا ایک اور ثبوت دیتے ہوئے مرکزی حکومت نے الیکشن کے قریب اس قانون کو منظور کرتے ہوئے ایک شوشہ چھوڑا ہے۔ جیسا ہی اس قانون کے نفاذ کا اعلان ہوا آسام، شمالی مشرقی ریاستوں اور بنگال میں تشویش کا اظہار کیا گیا ہے، یوں محسوس ہورہا ہیکہ سال 2019سے تقریباً دو سال جو احتجاج اس قانون کی منظوری پر ہوا تھا اسکا کوئی اثر مودی حکومت پر ہوا ہی نہیں ہے، حالات کی ستم ظریفی دیکھئے اپوزیشن کی آہ و بکا کا بھی کوئی خاطر خواہ اثرہوتا نہیں دکھائی دے رہا ہے۔ ایک طرف بی جے پی 2024کے لوک سبھا انتخابات کی تیاریاں منصوبہ بند طور پر پانچ سال قبل ہی سے کرتی نظر آرہی ہے، لوک سبھا انتخاب سے قبل ہی حلقوں کے انتخابات اور سیٹوں کی تقسیم میں اختلافات دیکھے اور سنے جارہے ہیں۔ لگتا تو یہی ہے کہ بی جے پی اپنے فتوحات اور کارناموں کو گنواتے سی اے اے کا کارڈ بھی الیکشن میں کھیلے گی۔ ہزار مخالفتوں کے باوجود اختلاف رائے کا کسی بھی طرح لحاظ کئے بغیر مودی حکومت آمریت کی سیاست میں سرگرداں ہے۔ یہ صورتحال ملک کی سلامتی اور سالمیت کیلئے تشویش ناک ہے۔
9986831777