Saturday , November 23 2024
enhindiurdu

22جنوری کے بعد…!

سچ تو مگر کہنے دو ! ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز

22جنوری کے بعد…!
جو ہونا تھا ہوگیا۔ وہ اپنے مقصد میں کامیاب رہے۔ اس کا سیاسی فائدہ ہو یا نہ ہو۔ ہندوستان کی تاریخ اور اس کا کردار تو بدل کر رکھدیا۔ سادھو سنتوں اور اپوزیشن قائدین نے مخالفت تو کی مگر اس حقیقت سے کیسے انکار کیا جاسکے گا کہ 22/ جنوری کو اگر ایودھیا کا ”ایونٹ“ آر ایس ایس۔بی جے پی کاایونٹ ہوبھی گیا تو کیا ہوا اس تاریخ کو ہر سیاسی جماعت چاہے وہ حکمراں ہو اپوزیشن ہو، اس کے قائدین کسی نہ کسی مندر میں پوجا کرنے کے لئے مجبور تھے۔ اس طرح 22/ جنوری کو ہندوستان کے تمام ہندوؤں کو ایک ہی وقت میں ”پوجا“ کرنی پڑی۔ مانے یا نہ مانیں یہ مودی کی بہت بڑی کامیابی ہے۔ 22/ جنوری کو احساس ہوا کہ ہم اپنے ملک میں کس قدر تنہا بلکہ اجنبی ہیں۔ جنہوں نے بھلے ہی کبھی بابری مسجد کی شہادت کی مذمت یا مخالفت کی ہوگی، وہ 22/ جنوری کو مطمئن اور مسرور نظر آرہا تھا۔ نیشنل ٹی وی چیانلس کو توہم گودی میڈیا کہہ کر اپنی بھڑاس نکال لیتے اور خود کو تسلی یا دھوکہ دے لیتے تھے، مگر وہ یوٹیوب چیانلس جو نیشنل میڈیا کے خلاف تھے جو سیکولرازم کی دہائی دے دے کر ہماری تائید او رہمدردی حاصل کرتے رہے، وہ بھی اس دن خوشی سے پھولے نہیں سمارہے تھے۔ اگرچہ کہ ان کے بلیٹن مخالف مودی ضرور تھے مگر اس کا بھی ایک مقصد تھا، زیادہ سے زیادہ ویوز اور زیادہ سے زیادہ سبسکرائبرس حاصل کرسکیں۔ 23/ جنوری کے غیر اردو اخبارات نے جس طرح سے جشن منایا اس سے اندازہ ہوا کہ ہماری اہمیت اور وقعت کیا ہے۔
سادھو سنت، شنکر آچاریہ مخالفت کرتے رہے، مودی کو جو کرنا تھا انہو ں نے کیا۔ ان کا قد واقعی بہت بلند ہوا۔ ہندواکثریتی طبقہ کیلئے چاہے وہ اعلیٰ ذات کا ہو یا کسی اور طبقہ سے اس کا تعلق ہو اس کے لئے وہ ایک ”اوتار“ بن گئے۔ ان کے مخالفین بھی یہ کہنے کیلئے مجبور ہوگئے کہ اگر مودی نہ ہوتے تو مندر کی تعمیر ممکن نہ تھی۔ ان کی بدولت ہندوؤں کاحوصلہ بڑھا ہے اور اس کا ثبوت بھی مل گیا۔ ممبئی میرا روڈ، دہلی کے بعض علاقوں میں ہندوتوا کے کارکن پولیس کی موجودگی میں مسلم علاقوں میں غنڈہ گردی کرتے رہے، راہگیروں کو روک کر مارا پیٹا گیا، مشرکانہ نعرے لگانے کے لئے مجبور کیا گیا۔ رہی سہی کسر مہاراشٹرا حکومت نے پوری کردی، یکطرفہ کارروائی کرتے ہوئے اس نے مسلم گھروں پر بلڈوزر چلادیئے۔ اور یہ سلسلہ ختم ہونے والا نہیں ہے۔ بلڈوزر کارروائی کے لئے عدالت نے حکومت اترپردیش کی سرزنش کی تھی اور اس کا اطلاق ہندوستان کی ہر ریاست پر ہوتا ہے، مگر اب عدالت سے قانون سے ڈرنے والا کون ہے۔ قانون کی دیوی کی آنکھوں پر پہلے ہی سے پٹی بندی تھی، اب اس کے ہاتھ بھی باندھ دیئے گئے ہیں۔ قانون تو ہاتھ باندھے کھڑا ہے، اسلئے کہ اسے انصاف کی عدالت سے ایوان پارلیمان میں جانا ہے
22/ جنوری کے بعد الیکشن 2024کے لئے زیادہ وقت نہیں ہے، مودی کی قیادت میں بی جے پی کی ہیٹ ٹرک ممکن ہے۔ اور اس کے بعد ڈاکٹر امبیڈ کر کا مرتب کیا گیا دستور ہند بھی تبدیل ہوجائے گا اور یہ تو پیشن گوئی کی جاچکی ہے کہ اس کے بعد کا سیاسی نظام کچھ اس طرح سے تشکیل دیا جائے گا، جہاں کسی اور دوسری سیاسی جماعت کے پنپنے کی گنجائش نہ ہوگی، خیر یہ سب قیاس آرائیاں ہیں، مستقبل میں کیا ہوگا، یہ تو سوائے خداکے اور کوئی نہیں جانتا، صرف حالات کی روشنی میں مستقبل کے اندیشوں اور امکانات پر اظہار خیال کیا جاسکتا ہے۔
6/ ڈسمبر 1992سے 22/ جنوری 2024 تک 32سال کے عرصہ میں ہندوقوم منظم، مستحکم، طاقتور اور متحد ہوئی۔ مسلمان ان 32برسوں میں بکھرتا گیا، کمزور ہوتا گیا۔ آزمائشی حالات سے اس نے سبق لینے کی بجائے خود کو حالات کے دھارے پر چھوڑ دیا۔ ملک اور بیرون ملک مسلمانوں کی تباہی اور بربادی کے واقعات اور ان کی کلپنگ اس کیلئے وقت گزاری کے مشغلہ سے زیادہ او رکچھ نہیں رہی، یہی وجہ ہیکہ 22/ جنوری کے ایونٹ کو بھی ہم دکھی یا بے حس دل کے ساتھ ٹیلی ویژن اسکرین پر دیکھتے رہے۔ شنکر آچاریاؤں اور دوسرے قائدین کی تنقید پرخوش ہوتے رہے کہ چلو وہ آپس میں منتشر ہورہے ہیں۔ ہم اس بات پر مطمئن اور مسرور تھے کہ جس نے رتھ یاترا کی اس ملک کے ماحول کو مکدر کیا، فسادات کروائے، 6/ ڈسمبر کا سانحہ جس کی وجہ بنا اور 22/ جنوری کے لئے راہ ہموار ہوئی، وہ خود اس ایونٹ میں شریک نہ ہوسکا۔
95برس کی عمر میں وہ کرتا بھی تو کیا کرتا۔ اسے تو اس وقت ہی سزا مل چکی تھی جب وزیر اعظم بننے کا خواب بکھر گیا تھا۔ ایک وہ ہی کیا، وہ دو ”وِش کنیائیں“ جو مسلمانوں کے خلاف ہمیشہ زہر اگلتی رہتیں، جنہوں نے ”ایک دھکا اور دو… بابری مسجد توڑ دو“ کا نعرہ لگاکر کارسیوکوں کو تاریخی مسجد کو شہید کرنے کیلئے اکسایا، ان کا حوصلہ بڑھایا، وہ بھی تو اتنے اہم تاریخ ساز ایونٹ میں نظر انداز کردی گئیں۔ وہ تمام بڑے لیڈرس جو وزیر اعظم بننے کا خواب دیکھتے رہے، وہ بھی تو 22/ جنوری کو ایودھیا کے حدود میں نظرنہ آئے بلکہ انہیں اپنے اپنے حلقوں تک محدود رکھا گیا، وہ حسرت بھری نگاہوں سے ٹیلی ویژن پر کارروائی دیکھتے رہے۔
بہرحال! ایودھیا ہی نہیں پورا ہندوستان ایک مخصوص رنگ میں رنگ گیا۔ کرکٹرس، فلمی اداکار، صنعتکار، تاجر اور عام ہندوؤں نے مندر کی تعمیر کے لئے جس فراخدلی سے عطیات دیئے اس کی تفصیلات جان کر حیرت ہوتی ہے، ہمارے پاس اہل خیر حضرات کی کمی نہیں، مگر کیا وہ اس قدر فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ کرتے بھی ہونگے، اس کا ہمیں علم نہیں ہوگا۔
ایودھیا، ہندوستان کا مذہبی سیاحتی مرکز بن چکا ہے اور اب جس طرح ہندوستان کا ہر بڑا ادارہ گجرات کے کارپوریٹ گھرانوں کے حوالے ہوچکا ہے ایودھیا بھی کارپوریٹ سیکٹر کے حوالے ہوچکا ہے۔ امیتابھ بچن نے پندرہ کروڑ کا ایک پلاٹ ایودھیا میں خریدکر اس کی بنیاد رکھی، اور 23/ جنوری کو ایک مشہور ہوٹل اینڈ اسپورٹس کی رہے کے ریئل اسٹیٹ پراجکٹ کیلئے وہ اخبارات کے ذریعہ مارکٹنگ کرتے نظر آئے۔
مودی نے جو کہا، اس کا صلہ انہیں مل رہا ہے اور مستقبل میں بھی ملے گا۔ سوال یہ ہیکہ موجودہ حالات جس طرح سے کروٹ لے رہے ہیں، جس طرح مسلمانوں کے لئے زمین تنگ کی جارہی ہے، اگر کل یہ دستوری اعتبار سے ہندوراشٹرا بن جاتا ہے، اور شہریت ترمیمی قانون اور این آر سی پر سختی کے ساتھ عمل آوری شروع ہوجاتی ہے تو اس وقت کے حالات کیلئے کس حد تک تیار ہیں۔
کہیں ایسا تو نہیں کے ترکی اور اسپین کی تاریخ یہاں دہرائی جائے، روس جیسے حالات پیدا کئے جائیں۔ ترکی میں خلافت عثمانیہ کے خاتمہ کے بعد طفلِ ابلیس کمال پاشاہ تھے۔1929میں ترکی کے دستور میں ترمیم کرتے ہوئے ملک کے سرکاری مذہب ”اسلام“ کا لفظ نکال دیا تھا اور سیکولرزم کے نام پر اس نے اسلام دشمن قوانین نافذ کئے۔ ترکی کے مسلمانوں نے سات دہائیاں صبر و استقامت کے ساتھ آزمائش میں گزاریں، اپنے دین پر دل و جان سے قائم رہے، اللہ رب العزت نے ایک بار پھر ترکیہ کو اسلامی جمہویہ بنادیا اسپین میں امیہ خلافت کے زوال کے بعد سولہویں صدی کے وسط سے مسلمانوں کا اخراج ہوا، پہلے دینی مدارس کو نشانہ بنایا گیا، علمائے کرام کی اہانت کی گئی، ان پر مظالم ڈھائے گئے اور پھر پانچ لاکھ مسلمانوں کو اسپین سے ہجرت کے لئے مجبور کیا گیا۔ تین سو برس تک اسپین کی فضائیں آزادی کی صداؤں کے لئے ترستی رہیں۔ 19ویں صدی میں ایک بار پھر اسلام آہستہ آہستہ پھیلتا گیا۔ آج یہاں چار فیصد مسلمان ہیں، وہ ملک جو اسلامی تہذیب کے لئے ساری دنیا میں اپنی پہچان کا حامل تھا، وہاں کی مساجد، گرجا گھروں میں تبدیل ہوگئیں ۰۰۰ روس میں کمیونسٹوں نے اسلام کو مٹانے کی کوشش کی۔ 70برس تک وہ کچلتے رہے اور مسلمان ظلم سہتا رہا مگر اپنے دین کو سینے میں چھپائے رکھا، اپنی نئی نسل کو سینہ بہ سینہ منتقل کرتے رہے۔ روس (سویت یونین) اس طرح بکھرا کے نئی اسلامی ریاستوں کا وجود عمل میں آیا۔
ہندوستان میں بلاشبہ ہماری آبادی36تا 40کروڑ ہے۔ مگر اپنے اصل راستہ سے بھکٹے ہوئے ہیں، آپسی اتحاد نہیں، قیادت ایماندار نہیں، جس کی وجہ سے ہم ہر شعبہ حیات میں کچلے جارہے ہیں۔
ارباب اقتدار مسلمانوں کو کچل رہے ہیں اور مسلم ممالک سے تعلقات کو بہتر بنانے جارہے ہیں۔ 57مسلم ممالک کی تنظیم اسلامی ممالک بے جان ہے۔ کیونکہ مسلم ممالک آپس میں متحد نہیں ہیں۔ 22/ جنوری کے واقعہ پر مذمت تو کی مگر اس کا اثر کیا ہوگا۔ ابھی اگلے ماہ مودی جی ابوظہبی جائیں گے جہاں ”اہلاً مودی“ پروگرام ہوگا۔ وہ مندر کا افتتاح بھی کریں گے۔ ویسے بھی یمن، عمان، یو اے ای میں منادر ہیں۔ سب سے زیادہ مقدس سمجھے جانے والے ملک سعودی عرب میں تو اب غیر ملکی سفارت کاروں کے لئے شراب خانہ کھولا جارہا ہے۔ سینما گھر کھل چکے ہیں، فلموں کی شوٹنگ ہورہی ہے۔ پاپ سنگرس کے کنسرٹ ہورہے ہیں۔ (انا للہ وانا الیہ راجعون)۔
عرب ممالک کو ہندوستانی مسلمانوں سے کوئی ہمدردی نہیں ہے، انہیں قبلہ اول کے لئے جہاد کرنے والے فلسطینیوں کی پرواہ نہیں ہے تو ہماری فکر کیا ہوگی۔ اس لئے مستقبل میں اگر ہم پر کوئی مصیبت یا آفت اکثریتی طبقہ کی جانب سے حکومت کی سرپرستی اور پشت پناہی میں ٹوٹ پڑتی ہے تو مذمتی بیانات ضرور دیں گے، ایسا کوئی اقدام نہیں کیا جائے گا جس سے ہماری مدد ہوسکے۔
اس لئے ہندوستانی مسلمانوں کو نہ تو اب ابابیلوں کاانتظار کرنا ہے اور نہ ہی فرشتوں کے لشکروں کی آس رکھنا ہے۔ انہیں پہلے تو خواب غفلت سے بیدار ہونا ہوگا۔ اپنے آپ کو حالات سے مقابلے کے لئے تیار کرنا ہوگا۔ اپنا دفاع کرنے کا اہل بننا ہوگا۔ قائدین کی جذباتی تقاریر کی ضرورت نہیں، اپنے آپ کو دفاع کے قابل بنانے کے لئے ان کی رہنمائی کی ضرورت ہے۔ یاد رکھیے اللہ رب العزت کو ایک عام مسلمان کے مقابلے میں قوی مسلمان زیادہ پسند ہے۔ وہ غافل کی مدد نہیں کرے گا دولت مند طبقہ اپنی نسلوں کی حفاظت کے لئے دوسرے ممالک کو منتقل ہورہے ہیں، 36کروڑ مسلمان ہجرت نہیں کرسکتے، انہیں اسی ملک میں رہنا، مرنا، دفن ہونا ہے۔ عزت اور وقار کے ساتھ جینا ہے۔
6/ ڈسمبر کے لئے ہم نے قربانیاں دے۔ اس کے بعد ہمارے بڑوں نے ہمیں قانون کا احترام کرنا سکھایا۔ چنانچہ پہلے ہی سے مسلم ذہنی طور پر تیار تھے کہ عدالت کا یہ فیصلہ ہم قبول کریں گے۔ فیصلہ حسبِ توقع ہمارے خلاف آیا۔ ہم نے قبول کرلیا۔ اپنے ضمیر کو تھپک تھپک کر سلادیا۔ 22/ جنوری کے بعد بھی اگر ضمیر نہیں جاگا، ہم خوابِ غفلت سے بیدار نہ ہوسکے تو پھر۰۰۰۰

About Gawah News Desk

Check Also

نئی نسل کی تباہی کے ذمہ دار کون؟

ماہِ مقدس رمضان المبارک سے متعلق موضوع پر کچھ لکھنے کا ارادہ تھا، مگر علماء …

عدلیہ‘ فوج‘ تعلیم اور میڈیا،بی جے پی کا سایہ

کولکتہ ہائی کورٹ کے جج ابھیجیت گنگوپادھیائے گنگولی نے اپنے عہدہ سے استعفیٰ دیا اور …

Leave a Reply