Sunday , December 22 2024
enhindiurdu

ہندوستانی مسلمان‘ الیکشن اور اکابرین

سچ تو مگر کہنے دو ! ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز

ہندوستان میں جب بھی الیکشن کا موسم آتا ہے‘ مسلمانوں کو بے وزن کرنے والی سیاسی جماعتیں انہیں اہمیت دینے اور لبھاکر ان کی تائید حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ اس کے لئے وہ مسلم جماعتوں و تنظیموں کے سربراہوں اور مشہور مساجد کے ائمہ، آستانوں کے سجادگان کے علاوہ نام نہاد دانشوروں کا استحصال کرتی ہیں۔ ان کے ذہن میں یہ بات ہے کہ یہ حضرات مسلمانوں کے ترجمان ہیں۔ حالانکہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں کی اکثریت چاہے ان کا تعلق کسی بھی مسلک اور عقیدہ سے ہو‘ اکابرین کا احترام ضرور کرتی ہے مگر ان کی نصیحتوں کو سنی اَن سنی کردیتے ہیں۔ ورنہ منبروں سے ہونے والے مواعظ میں سادگی سے شادی، فضول خرچی، نوجوانوں کو بے راہ روی سے بچنے کی تلقین پر عمل ہوتا۔ ان کی نصیحتوں میں وہ تاثیر ہوتی تو اسلامی شعائر کے نام پر ہونے والی فرسودہ رسومات کبھی کی ترک کردی جاتیں۔ کسی بھی خاتون کو قبر یا آستانے پر جانے کا حکم نہیں ہے‘ اور خود اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کا فتویٰ ہے کہ قبر پر جانے والی عورتوں پر فرشتے لعنت بھیجتے ہیں۔ اور یہ تمام مسالک کا متفقہ عقیدہ ہے۔ اس کے باوجود جب کوئی سلیبریٹی خاتون کسی آستانے پر حاضری دینے جاتی ہیں تو اس کے سجادگان اپنے اکابرین کی تعلیمات کو فراموش کرتے ہوئے اپنی ذاتی تشہیر کے لئے ان سلیبریٹیز کو نہ صرف آستانوں کے اندر تک داخل ہونے کی اجازت دیتے ہیں بلکہ انہیں تبرکات بھی پیش کرتے ہیں اور ان کے ساتھ تصویر کشی پر فخر کرتے ہیں۔
الیکشن کے موسم کے دوران یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ رنگ برنگے جبے اور دستار پہنے نام نہاد اکابرین مختلف سیاسی جماعتوں کے دربار میں حاضری دیتے ہیں اور ارباب اقتدار یا اس کی تمنا رکھنے والے مطمئن ہوجاتے ہیں کہ انہوں نے تمام مسلمانوں کی تائید حاصل کرلی۔ علمائے کرام، ائمہ عظام اور اکابرین ہمارے لئے قابل احترام ہیں۔ یہ انبیاء کے وارث ہیں۔ ان کی صحبت راہ نجات ہے۔ سوال یہ ہے کہ کس قسم کے اکابرین کی صحبت یا ان کی پیروی کی جائے۔ جب کبھی علماء کا ذکر آتا ہے تو علمائے حق اور علمائے سوء کی تخصیص بھی ہوتی ہے۔ علمائے حق کون ہیں‘ علمائے سوء کون ہیں یہ ہم جیسے کم علم کیا جانیں۔ جو بھی ہم نے پڑھا، جو بھی اپنے بزرگوں سے سنا وہی بیان کرتے ہیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا کہ خلق کو دو چیزوں نے ہلاک کیا۔ ایک خواہشات نفسانی کی پیروی اور دوسری اپنی تعریف و توصیف کی خواہش۔ اس کی آفت سے وہ شخص ہی نجات پاسکے گا جو نام اور شہرت کا طالب نہ ہو۔ اور گمنامی پر قناعت کرے۔ اللہ رب العزت کا ارشاد ہے ”ہم آخرت کی سعادت ان کو دیں گے جو دنیا کی بزرگی اور مرتبہ نہ ڈھونڈے اور نہ فساد برپا کرے“۔ حضور پاک کا ارشاد ہے: کچھ لوگ دین حاصل کریں گے کہ بادشاہوں کا قرب حاصل ہوگا، دنیا کمائیں گے مگر اپنا دین بچاکر رکھیں گے‘ مگر ایسا ممکن نہ ہوسکے گا (ابن ماجہ)۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہاکہ علماء سے فتنے اُس وقت نازل ہوں گے جب فہم دین، دین کے لئے اور علم‘ عمل کے لئے حاصل نہیں کیا جائے گا۔ اور نیک عمل کے ذریعہ دنیا تلاش کی جائے گی(حوالہ محدث جنوری1975ء، مضمون سید نذیر حسین)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک شخص نے شر سے متعلق دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”مجھ سے شر کے بارے میں نہیں‘ خیر کے بارے میں پوچھو۔ شر میں بدترین شر علمائے سوء کا شر ہے۔ تمام بھلائیوں میں اعلیٰ درجہ کی بھلائی علماء کا خیر ہے“۔ ہمارے اکابرین نے ہر دور میں ارباب اقتدار سے خود کو دور رکھا۔ حالانکہ حکمران طبقہ ہمیشہ اِن علماء اور اکابرین کو استعمال کرنا چاہتا تھا۔ مگر یہ اکابرین اور علمائے حق تھے‘ جنہوں نے کبھی بھی بادشاہِ وقت کی ہر غلط بات، اقدام کے خلاف آواز اٹھائی۔ جب خلیفہ منصور نے جبری طلاق پر حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کی تائید حاصل کرنی چاہی تو آپ نے اُسے ٹھکرا دیا۔ جس پر امام وقت حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کو منصور کے حکم سے ستر(70) کوڑے مارے گئے۔ ہمارے چاروں ائمہ کرام حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ، حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ، حضرت امام احمد حنبل رحمۃ اللہ علیہ ان سب کو اپنے اپنے دور کے حکمرانوں کے عتاب کا شکار ہونا پڑا۔ انہوں نے حق کے لئے ہر تکلیف سہی مگر حق کا پرچم سربلند رکھا۔
حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ نے خلیفہ مقتضی الامراللہ کو اس وقت چیالنج کیا جب اس نے قاضی ابن المزحم الظالم کو جج مقرر کیا تھا۔ پیرانِ پیر رحمۃ اللہ علیہ نے خلیفہ سے سوال کیا کہ تم نے ایک ظالم کو منصف کے منصب پر بٹھایا اللہ کو کیا جواب دوگے؟ خلیفہ کانپ اٹھا اور اس نے فوراً قاض ی کو برخواست کیا۔ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ سرکاری دربار کے علماء و مشائخ سے فرماتے تھے ”اے علم و عمل میں خیانت کرنے والو! تم کو ان سے کیا نسبت‘ اے اللہ اور اس کے رسول کے دشمنو! اے بندگانِ خدا کے ڈاکوؤ! اے عالمو! اے زاہدو! بادشاہ اور سلاطین کے لئے کب تک منافق بنے رہوگے“۔ پھر ان کے خلاف آپ اللہ سے دعا کرتے یاالٰہی! اِن منافقوں کی شوکت توڑ دے، ان کو ذلیل فرما، زمین کو ان سے پاک کردے یا ان کی اصلاح فرما۔
حضرت مجدد الف ثانی حضرت شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ نے شہنشاہِ جہانگیر کے ظلم اور اس کی سختیوں کو جھیلا مگر راہِ حق پر ان کے قدم کبھی ڈگمگائے نہیں۔ آپ نے شہنشاہِ جہانگیر کو تعظیمی سجدہ نہیں کیا۔ جب بادشاہ نے وجہ پوچھی تو آپ نے کہا سجدہ اللہ کے علاوہ کسی اور کے لئے جائز نہیں ہے‘ یہ اللہ کا حق ہے جو اس کے کسی بندے کو نہیں دیا جاسکتا۔ شہنشاہ جہانگیر نے بہت کوششی کہ حضرت مجدد الف ثانی کو اپنے سامنے جھکایا جائے مگر یہ ممکن نہ ہوسکا۔ جس پر انہیں گوالیار کے قلعہ میں نظربند کیا گیا۔ جہاں اللہ کے فضل و کرم سے ان کی تبلیغ کی بدولت کئی غیر مسلم مشرف بہ اسلام ہوئے۔ آپ کی حق پسندی سے جہانگیر کو اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ افسوس کہ ہمارے درمیان ایسے نمائشی حضرات ہیں‘ جو سرعام مریدین سے تعظیمی سجدے کرواتے ہیں۔ تمام اولیائے کرام نے اپنے مریدین کو یہی نصیحت کی کہ وہ ارباب اقتدار اور امراء کی صحبت سے دور رہیں‘ کیوں کہ یہ ہلاکت ہے۔
یہ تو ہمارے اسلاف کی تاریخ ہے جو ان کے خون سے لکھی گئی ہے۔ اگر ہم ہندوستان میں انگریزوں کے دور کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو ہمیں پتہ چلے گاکہ انگریزوں نے ہندوستان میں اپنے قدم جمانے کے لئے اپنی حکومت کو مستحکم کرنے کے لئے یہ ضروری سمجھا کہ سب سے پہلے مسلمانوں کو ان کی مذہبی شعائر سے دور کیا جائے۔ چنانچہ انہوں نے دینی مدارس کو بند کروایا۔ خواتین کے پردہ پر پابندی لگائی (آج بھی یہی ہورہا ہے)۔ علمائے وقت بھلا یہ کب برداشت کرسکتے تھے‘ علامہ فضل حق خیرآبادی نے انگریزوں کے خلاف جہاد کی فرضیت کا فتویٰ جاری کیا۔ ہزاروں علمائے کرام اپنے دین اور مذہبی شعائر کے تحفظ کے لئے ہر قدم کی قربانی دینے کے لئے تیار ہوگئے۔ اور پھر 1857ء کی تاریخ لکھنے والا انگریز مؤرخ ہنری کوٹن لکھتا ہے ”1864ء سے 1867ء تک 14ہزار علماء کو پھانسی دی گئی۔ مجموعی طور پر پانچ لاکھ مسلمانوں کو پھانسی یا موت کی سزا دی گئی۔ علماء کے جسموں کو تانبے سے داغا جاتا۔ سوروں کی کھال میں بند کرکے دہکتے تنوروں میں ڈال دیا جاتا۔ دہلی سے پشاور تک ایسا کوئی درخت نہیں تھا جس پر ایک یا دو عالم دین کو نہ لٹکایا گیا ہو۔ لاہور کی جامع مسجد میں ہر روز 80علماء کو پھانسی دی گئی۔ اُس دور میں بھی ایمان فروش، ضمیر فروش، مخبر موجود تھے جو مجاہدین سے متعلق انگریزوں کو معلومات فراہم کرتے۔ ان کی گرفتاری ہوتی۔ مولوی کفایت علی کی قربانیوں کو کون فراموش کرسکتا ہے۔ ان کے جسم پر گرم استری پھیری جاتی‘ زخموں پر نمک چھڑکا جاتا۔ آخرکار مرادآباد کی چوک پر پھانسی دے دی گئی۔ عنایت اللہ کاکوری کو کالاپانی بھیجا گیا۔ احمداللہ شاہ مدراسی جب شاہ جہاں پور آئے تو راجہ بلدیو سنگھ نے انگریزوں کے آلہ کار کے طور پر کام کیا اور آپ کا سر قلم کیا (حوالہ محمد تحسین رضا نوری کا مضمون)۔
وہ اکابرین جنہوں نے انگریزوں کے خلاف جہاد کیا۔ اور ہندوستانی مسلمانوں کے وقار کو برقرار رکھا ان میں مولانا شاہ ولی اللہ دہلوی، مولانا شاہ عبدالعزیز دہلوی، مولانا شاہ رفیع الدین عبدالقادر دہلوی، سید احمد شہید رائے بریلوی، سید اسماعیل شہید رحمۃ اللہ علیہ، شاہ اسحاق دہلوی، امداداللہ مہاجر مکی، شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی، مولانا حسرت موہانی اور جانے کتنے گمنام اکابرین نے قربانیاں دیں۔ اس دور میں انگریزوں کے تلوے چاٹنے والے بھی موجود تھے۔ جنہیں سرکاری خطابات اور انعامات و اکرام سے نوازا گیا۔ تاریخ میں علمائے حق ہمیشہ زندہ رہیں گے اور درباری نام نہاد علماء اور اکابرین کو کوئی یاد بھی نہیں رکھے گا۔
آزاد ہندوستان کی تاریخ میں جب جب الیکشن ہوئے تب تب کسی شاہی مسجد کے کسی امام نے آواز بلند کی اور ہندوستانی مسلمانوں کی سوداگری کرلی۔ کبھی کسی آستانے کے سجادہ نے حمایت کا وعدہ کیا اور سرکاری مراعات یا سرکاری اعزازات حاصل کرلئے۔ یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ یہ انتہائی افسوس کی بات ہے کہ وہ علماء اور اکابرین جن کا عام مسلمان ادب و احترام کرتا ہے‘ سیاسی جماعتوں کے قائدین کی چوکھٹ پر نظر آتے ہیں۔ حالانکہ ہمارے اسلاف نے سلاطین وقت کو تک اپنی چوکھٹ پر حاضر ہونے کی اجازت نہیں دی۔ علماء اور اکابرین خود اپنا وقار کھوتے جارہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نہ تو ان کی آواز میں کوئی تاثیر ہے نہ ان کی تقریر کو کوئی سننے والا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ علماء اور اکابر اپنے مقام کو سمجھیں۔ درباروں میں حاضری سے گریزکریں۔ وہ چاہے کسی بھی مسلک کی نمائندگی کیوں نہ کریں‘ وہ اس حقیقت کو جان لیں کہ کسی سیاسی جماعت کی وہ تائید یا مخالفت کرتے ہیں تو یہ ان کا اپنا انفرادی فیصلہ ہے۔ عام مسلمان اُسے قبول نہیں کرسکتا۔
رہی بات الیکشن میں ووٹ دینے کی‘ تو کون کس کے لئے اپنا دستوری حق استعمال کرتا ہے‘ وہی جانتا ہے۔ علماء اور اکابرین سے ادباً گزارش ہے کہ وہ الیکشن جیسے حساس مسئلہ پر اپنی رائے مسلط نہ کرے۔ کیوں کہ اگر مسلمانوں کا اجتماعی فیصلہ ان کے فیصلے کے برعکس نکلے تو انہی کی توہین ہوگی۔ ہم نے علمائے حق کا ذکر کیا کہ انہوں نے کس طرح حق کے لئے قربانیاں دیں‘ آج کے دور کے علماء اور اکابرین طاقتور کی غلطیوں کو جان بوجھ کر نظرانداز کردیتے ہیں۔ کمزور کے خلاف فتوے دیتے ہیں‘ تحریکات بھی چلاتے ہیں مگر جب کوئی صاحب حیثیت مشرکانہ اور غیر اخلاقی حرکات کرتا ہے تو کسی میں اتنی ہمت یا اخلاقی جرأت نہیں کہ اُسے کم ازکم تنہائی میں نصیحت کرے۔ ہوسکتا ہے کہ بعض اِکادُکا علمائے حق اِن کو سمجھاتے بھی ہوں گے مگر اس کا اثر عموماً نظر نہیں آتا۔
ہندوستان کے مختلف ریاستوں میں ہونے والے الیکشن میں علمائے کرام مشائخ اور مسلم دانشور حضرات کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ ہرریاست کی ایوان اسمبلی میں زیادہ سے زیادہ مسلم نمائندے منتخب ہوں۔ چاہے ان کا تعلق کسی بھی جماعت سے کیوں نہ ہو۔اگر ہمارے اکابرین اس معاملے میں جانبداری کا مظاہرہ کرتے ہیں تو یہ قوم کے ساتھ ناانصافی بلکہ انہیں گمراہ کرنے کی کوشش ہوگی۔ ویسے بھی عام مسلمان وہی کرتا ہے جو وہ کرناچاہتا ہے۔ اس وقت ہم روتے ہیں‘ کہ ایوان ِ اسمبلی و پارلیمان میں ہمارے ارکان کی تعداد کم ہوتی جارہی ہے۔ جب ہمارے اکابرین ہی یکطرفہ فیصلہ کرنے لگے تو پھر مسلم نمائندگی کے تناسب میں اضافہ کیسے ہوگا

About Gawah News Desk

Check Also

نئی نسل کی تباہی کے ذمہ دار کون؟

ماہِ مقدس رمضان المبارک سے متعلق موضوع پر کچھ لکھنے کا ارادہ تھا، مگر علماء …

عدلیہ‘ فوج‘ تعلیم اور میڈیا،بی جے پی کا سایہ

کولکتہ ہائی کورٹ کے جج ابھیجیت گنگوپادھیائے گنگولی نے اپنے عہدہ سے استعفیٰ دیا اور …

Leave a Reply