نوجوت سنگھ سدھو‘ عمران خاں کی وزیر اعظم کی حیثیت سے حلف برداری تقریب میں پاکستانی آرمی چیف سے گلے کیا ملے ایک ہنگامہ سا کھڑا ہوگیا۔ ان کے خلاف بیان بازی، نعرے بازی، تصاویر کو نذر آتش کرنے کے واقعات پیش آئے۔ حتیٰ کہ انہیں دیش دروہی کے تک خطابوں سے نواز دیا گیا۔الکٹرانک میڈیا کو کیرالا کے سیلاب کے علاوہ بھی کچھ بولنے بتانے کا موقع مل گیا۔مگر وہ ایک ایسے شخص کو تنقید کا نشانہ بنارہے ہیں‘ جو مقابلہ کرنے کی ہمت رکھتا ہے۔ اور اس نے دو ٹوک لہجہ میں کہہ دیا کہ رائی کا پربت بنایا جارہا ہے‘ ٹیلی ویژن چیانلس ٹی آر پی بڑھانے کے لئے اس قسم کی باتیں کہہ رہے ہیں۔نوجوت سنگھ سدھو کو باقاعدہ عمران خان کی جانب سے دعوت بھیجا گیا۔
دونوں کرکٹ کے میدان کے ساتھی ہیں۔ اور سدھو نے بڑی ہمت کے ساتھ پاکستان کا سفر کیا۔ تقریب میں شرکت کی اور پاکستان انہیں انتہائی قدر و منزلت کے ساتھ ان کے ساتھ پیش آیا۔ انہیں اولین صف میں بٹھایا گیا۔ اور رسمی ملاقات کے دوران بقول سدھو پاکستان کے آرمی چیف نے ان سے کہا کہ وہ ایک ایسے جنرل ہیں‘ جو کرکٹر بننا چاہتے تھے۔ اسی بات پر وہ دونوں رسمی طور پر ایک دوسرے سے بغل گیر ہوئے۔کپل دیو، شتروگھن سنہا، یشونت سنہا اور بعض اچھے ذہن کے لوگوں نے سدھو کی مدافعت کی۔ کیوں کہ سدھو نے کوئی جرم نہیں کیا وہ ہندوستان کی طرف سے امن، محبت کے سفیر کے طور پر گئے۔ اور ہمسایہ ملک نے ان کی بڑی قدر دانی کی۔ اور سدھو کے الفاظ میں وہ جتنا پیار ہندوستان سے لے کر گئے اس سے سو گنا زیادہ عزت اور پیار لے کر پاکستان سے واپس ہوئے ہیں۔
عجیب بات ہے کہ وزیر اعظم مسٹر نریندر مودی اچانک لاہور پہنچ گئے تھے۔ اور نواز شریف کی سالگرہ میں شرکت کی تو یہی میڈیا تھا جس نے مودی کی برتھ ڈے پالیسی کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے ان کی دور اندیشی کی ستائش کی تھی۔ وہی میڈیا سدھو پر تنقید کررہاہے۔ سدھو کے لئے بس ایک بات تشویش ناک ہے کہ اس کی اپنی پارٹی کے کیپٹن امریندر نے بھی تنقید کی۔یہ تو اچھا ہوا کہ پاکستانی آرمی چیف سے گلے ملنے والے نوجوت سنگھ سدھو تھے اگر ان کی بجائے محمد اظہرالدین یا کوئی اور اقلیتی طبقہ سے تعلق رکھنے والے کرکٹر یا سیاستدان یا دانشور ہوتا تو اسے آئی اے ایس آئی کا ایجنٹ قرار دیا جاتا۔ ایک طرف دونوں ممالک کے سربراہ چاہتے ہیں کہ پڑوسی ملکوں کے درمیان تعلقات بہتر ہوں‘ مگر میڈیا چاہتا ہے کہ تعلقات ہمیشہ خراب رہیں تاکہ وہ اپنی ٹی آر پی بڑھانے کیلئے اپنے ناظرین کو قارئین کو ڈراتے دھمکاتے رہے۔یہ وقت دونوں ممالک کیلئے دوستانہ تعلقات کو بہتر بنانے کا ہے۔
جنگ سے اگر کسی کا فائدہ ہوا ہے تو وہ ہتھیار بناکر بیچنے والے کو جو حالات کچھ ایسے پیدا کرتے ہیں کہ نہ چاہتے ہوئے بھی ایک دوسرے کیخلاف نفرت انگیز، اشتعال انگیز، بیانات دےئے جاتے رہے۔ میڈیا آگ پر پٹرول ڈال رہا ہے۔ ایسے میڈیا کی بائیکاٹ کی ضرورت ہے۔