Sunday , December 22 2024
enhindiurdu

پارلیمنٹ پر حملہ‘ 370 پر فیصلہ‘ نیا ایودھیااور…

سچ تو مگر کہنے دو ! ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز

پارلیمنٹ پر حملہ‘ 370 پر فیصلہ‘ نیا ایودھیااور…
13/دسمبر 2023ء… ہندوستانی پارلیمنٹ کی نئی عمارت میں دوران اجلاس ویزیٹر گیلیری سے دو نوجوان ہال میں کودتے ہیں اور زرد رنگ کا دھواں پستول سے چھوڑتے ہیں اور نعرے لگاتے ہیں۔ اور گرفتاری سے بچنے کے لئے بنچوں پر اُچھل کود کرتے ہیں۔ ارکان پارلیمان ان پر قابو پالیتے ہیں۔ پارلیمنٹ کی نئی عمارت کے باہر 45سالہ نیلم اور 25سالہ انمول کو گرفتار کیا جاتا ہے جو اُسی طرح پستول سے زرد دھواں چھوڑتے ہیں اور نعرے لگاتے ہیں۔ پارلیمنٹ کے اندر اور باہر اور ساتھ ہی سارے ہندوستان میں بلکہ دنیا میں ایک ہنگامہ سا برپا ہوجاتا ہے کہ لگ بھگ ایک ہزار کروڑ کی لاگت سے تعمیر کی جانے والی پارلیمنٹ کی نئی عمارت میں سیکوریٹی کے اس قدر ناقص انتظامات کیوں کر کئے جاتے ہیں کہ 4-tier سیکوریٹی کے باوجود بڑی آسانی سے نوجوان ایوان پارلیمان میں داخل ہوجاتے ہیں۔ حالانکہ جسے بھی پارلیمنٹ کے اندر ویزیٹر گیلری میں داخل ہونا ہوتا ہے اُسے تین مرتبہ باڈی اسکیانر سے گزرنا ہوتا ہے۔ آدھار کارڈ، آئیڈنٹی ٹی کارڈ کے علاوہ کسی ایم پی کا سفارشی مکتوب بتانا ہوتا ہے۔ کانگریس کے قائد ششی تھرور نے بہ بانگ دہل کہا ہے کہ سیکوریٹی حصار توڑکر ایوان میں اسموک بم استعمال کرنے والے یہ افراد حکمران جماعت کے ایک ایم پی کے لائے ہوئے ہیں۔ دوسری طرف حکمران جماعت کی جانب سے اس واقعہ کو غیر اہم ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ حالانکہ یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے۔
یہ واقعہ 13دسمبر کو ایسے وقت پیش آیا جب پارلیمنٹ کی پرانی عمارت میں دہشت گرد حملے کی 22ویں برسی منائی جارہی تھی۔ کچھ ہی دیر پہلے اعلیٰ سطحی قائدین نے 13/دسمبر 2001ء کے حملے میں ہلاک ہونے والے سیکوریٹی فورس کے شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کیا تھا۔ خالصتان تحریک کے لیڈر گرپتونت سنگھ پنون نے حال ہی میں یہ دھمکی دی تھی کہ وہ 13دسمبر کے موقع پر پارلیمنٹ پر حملہ کرے گا۔ جس کے بعد کہا جاتا ہے کہ سیکوریٹی میں اضافہ کیا گیا تھا اس کے باوجود یہ واقعہ پیش آیا جو ا فسوسناک بھی ہے اور نئی پارلیمنٹ کی سیکوریٹی کے ذمہ دار دہلی پولیس آئی ٹی بی پی اور سی آر پی ایف کی کارکردگی پر ایک سوالیہ نشان ہے۔ سیکوریٹی کی خلاف ورزی کرنے والے اور اسموک بم استعمال کرنیوالے 4افراد کو گرفتار کیا گیا ہے جبکہ اس واقعہ میں مزید دو افراد کے ملوث ہونے کی اطلاع ہے۔ جن کا ٹھکانہ ہریانہ کا گرگام ہے۔ اس واقعہ کی اہمیت کو کم کرنے والوں کا کہنا ہے کہ 13دسمبر 2001ء کا واقعہ زیادہ سنگین تھا کیوں کہ اُس وقت مسلح دہشت گردوں نے حملہ کیا تھا اور ان کی فائرنگ میں ہلاکتیں واقع ہوئی تھیں
یاد ہوگا کہ 13/دسمبر 2001ء کو پارلیمنٹ کی قدیم عمارت میں خواتین ریزرویشن بل پر ہنگامہ ہورہا تھا اور 11بجے دن کاروائی ملتوی کردی گئی تھی۔ اس وقت کے وزیر اعظم واجپائی اور وزیر داخلہ اڈوانی تھے۔ نائب صدر کرشن کانت گیٹ نمبر 12سے باہر نکلنے و الے تھے کہ اُسی گیٹ سے سفید امباسیڈر کار میں پانچ دہشت گرد جو ہتھیاروں سے لیس تھے داخل ہوئے اور ان کی کار نائب صدر کی کار سے ٹکراگئی جس سے یہ دہشت گرد گھبراگئے اور انہوں نے اندھادھند فائرنگ شروع کردی۔ ایک دہشت گرد گیٹ نمبر ایک سے داخل ہونے کی کوشش کررہا تھا مگر سیکوریٹی فورس نے اسے گولی ماردی۔ جس سے دہشت گرد کے پاس جو بم تھا وہ بھی پھٹ پڑا۔ پانچوں دہشت گرد مارے گئے اور 9سیکوریٹی اہل کار شہید ہوئے۔ اس سنگین واردات کے لئے لشکر طیبہ اور دوسری پاکستانی دہشت گرد تنظیموں کو ذمہ دار قرار دیا گیا تھا اور اس کے ماسٹر مائنڈ افضل گرو ان کی اہلیہ افشاں گرو ایک ٹیچر ایس آر گیلانی اور شوکت حسین قرار دیئے گئے تھے۔ گیلانی اور افشاں کو ثبوت نہ ملنے کی وجہ سے بَری کردیا گیا مگر افضل گرو کو9فروری 2013ء کو تہاڑ جیل میں پھانسی دے دی گئی۔ افضل گرو کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ قصور وار نہیں تھا۔ خود تہاڑ جیل کے جیلر سنیل گپتا نے افضل گرو کی تعریف کی اور اس سے متعلق تفصیلات بتاتے ہوئے وہ رو پڑے تھے۔بہرحال! اس واقعہ کو 22برس گزر گئے۔ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان کشیدگی آج بھی برقرار ہے۔ اور اب حملے کے تازہ واقعہ نے اس واقعہ کا رخ موڑ دیا ہے۔ شکر ہے کہ حملہ آوروں میں کوئی اقلیتی طبقہ کا نہیں ہے ورنہ ملک کی فرقہ وارانہ فضا مکدر ہوجاتی ہے۔
یہ عجیب بات ہے کہ چند اہم واقعات گزشتہ 10-15 دن کے دوران پیش آئے ہیں۔ بی جے پی نے راجستھان، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں آسانی سے اپنی حکومت تشکیل دی۔ مسٹر مودی ایک بار پھر ہیرو بن کر ابھرے۔ اگلی بار مودی سرکار کانعرہ پھر گونجنے لگا۔ تین ریاستوں میں شاندار کامیابی کے فوری بعد کشمیر میں دفعہ 370 کی برخواستگی سے متعلق سپریم کورٹ کا فیصلہ آگیا۔ حکومت کے موقف کی تائید کی گئی۔ حالانکہ روزنامہ ہندو (12دسمبر2023) کی ایڈیٹوریل میں اس فیصلے پر تنقید بھی کی اور اس فیصلے میں کئی جھول بھی بتائے۔ ایڈیٹوریل
Ominous, anti federal
The supreme Court’s J&K verdict has imperilled the rights of States
یعنی سپریم کورٹ کے فیصلے سے ریاست کے حقوق کو خطرہ لاحق ہے۔ اس کے علاوہ یہ بھی یاد دلایاگیا کہ فیصلہ صادر کرتے وقت جموں و کشمیر میں دفعہ 370 کے نفاذ کی تاریخی پس منظر کو نظرانداز کیا گیا۔ بہرحال! مرکزی حکومت کا دعویٰ ہے کہ دفعہ 370کی برخواستگی کے بعد سے ریاست میں امن و امان برقرار ہے۔ اور خود ہندو نے اپنے 12دسمبر کے شمارہ میں اپنے نمائندے عاشق پیرزادہ کی سپریم کورٹ کے فیصلے پر ریاست جموں و کشمیر کے عوامی ردعمل سے متعلق خبر کے ساتھ سری نگر کے لال چوک کی جو تصویر شائع کی وہ حقیقت کو بیان کرتی ہے۔ لال چوک جیسے مصروف ترین مرکزی علاقہ سنسان ہے اور کوئی ایک شخص کبوتروں کو دانہ ڈال رہا ہے۔ یہ حقیقت اور فسانہ کا فرق ہے۔ جہاں قدم قدم پر سیکوریٹی فورس کے جوان ہتھیار لئے موجود ہوں‘ وہاں امن و امان ہے یا خاموشی کا راج۔ یہ بس مقامی عوام ہی جانتے ہیں۔ کئی قومی قائدین کو نظربند کیا جاچکا ہے۔ سپریم کوٹ نے یہ بھی احکام جاری کئے کہ دسمبر 2024ء کے اختتام تک جموں و کشمیر میں انتخابات کروائے جائیں۔ مرکزی حکومت کا دعویٰ ہے کہ ہندوستان کی تمام ریاستوں اور تمام علاقوں میں یکسانیت و یکجہتی کیلئے دفعہ 370 برخواست کیا گیا
جموں و کشمیر سے متعلق سپریم کے اس فیصلے کا جموں و کشمیر کے سوا تمام سیاسی جماعتوں نے خیر مقدم کیا ہے۔ بی جے پی اور اس کی ہم خیال جماعتوں نے مودی حکومت کا کارنامہ قرار دیا۔
اب آیئے ایودھیا کی طرف… جہاں 27/جنوری 2024ء کورامن مندر کا باقاعدہ افتتاح کیا جائے گا۔ اکثریتی طبقہ کی خوشی فطری ہے۔ اقلیتی طبقہ بالخصوص مسلمانوں کو رام مندر کی تعمیر پر کوئی اعتراض نہیں ہے‘ انہیں اس بات پر اعتراض اور افسوس ہے کہ بابری مسجد کے مقام پر یہ تعمیر کئی گئی۔ رام مندر کی تعمیر کا وعدہ کرکے بی جے پی جس کے ارکان کی تعداد پارلیمنٹ میں 40برس پہلے صرف دو تھی‘ اب 290 ممبرس کے ساتھ قطعی اکثریت میں ہے اور راجیہ سبھا میں بھی اس کی تعداد 94ہے۔ جبکہ دوسری جماعتیں اس سے بہت پیچھے ہیں اور آئندہ بھی کوئی آثار نظر نہیں آتے کہ پارلیمنٹ میں آج جو اپوزیشن ہے وہ حکمران جماعت بن سکے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ جیسے جیسے رام مندر کے افتتاح کی تاریخ قریب آتی جارہی ہے ویسے ویسے ہر ایک سیاسی جماعت کی جانب سے اس کا خیر مقدم کیا جارہا ہے۔ ابھی حال ہی میں بی آر ایس سربراہ کے سی آر کی بیٹی کویتا نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ جب ایودھیا کے نئے مندر کو رام کی مورتی رکھی جائے گی تو یہ تمام ہندوؤں کی خوشی کا موقع ہوگا۔ رام مندر کی تعمیر کے لئے ایودھیا کو ہندوستان کا سب سے بہترین الٹرا ماڈرن یا اسمارٹ سٹی بنایا جارہا ہے۔
رام مندر کی تعمیر کے لئے 1986 سے ہی ڈونیشن اکٹھا کئے جانے لگے تھے۔ کئی ارب پتی تاجروں، صنعت کاروں نے تو اس مندر کے لئے سونے کی اینٹیں بھینٹ کی تھیں۔ اور نقوی اُسی دور میں اس وقت منظر عام پر آئے تھے جب انہوں نے ایک لاکھ اینٹوں کا عطیہ دیا تھا۔ یہ وہ دور تھا جب رام مندر کے لئے آر ایس ایس، بجرنگ دل، وشوا ہندو پریشد اور بی جے پی نے عوام میں جنون پیدا کردیا تھا اور اکثریتی طبقہ رام نام کی اینٹیں عطیہ کرنے میں فخر محسوس کرنے لگا تھا۔ اڈوانی کی رام رتھ یاترا، بابری مسجد کی شہادت پھر بابری مسجد سے متعلق کورٹ کا آخری فیصلہ‘ ان سب کے دوران مندر کی تعمیر کا کام جاری رہا۔ اور مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد اس میں تیزی پیدا ہوگئی۔ رامن مندر کی تعمیر کے لئے 18سو کروڑ کا بجٹ مختص کیا گیا۔ رام جنم بھومی تیرتھ کشتریا ٹرسٹ نے تاحال 900کروڑ خرچ کئے اور اس کے پاس ابھی 3ہزار کروڑ روپئے کی رقم محفوظ ہے۔ حکومت نے رام مندر کے لئے بیرونی ممالک سے فنڈ حاصل کرنے کے لئے FCRA لائسنس جاری کردیا ہے۔ جبکہ دی وائر کی ایک رپورٹ کے مطابق حکومت نے 10ہزار سے زائد این جی اوز کی ایف سی آر اے لائسنس منسوخ کردیئے ہیں جن میں مدر ٹریسا ٹرسٹ، آکسفام انڈیا، دہلی یونیورسٹی، آئی آئی ٹی دہلی، جامعہ ملیہ اسلامیہ اور سنٹر پالیسی فار ریسرچ شامل ہیں۔ کئی ایسے این جی اوز کے لائسنس بھی منسوخ کئے گئے ہیں جو خواتین، بچوں اور مستحق افراد کی کفالت کرتے ہیں۔ بابری مسجد سے متعلق سپریم کورٹ کے آخری فیصلے کے بعد آر ایس ایس اور اس کی ہم قبیل تنظیموں نے ندھی سمرپن ابھیان شروع کیا تاکہ مندر کے لئے فنڈز اکٹھا کیا جاسکے۔ مندر بہرحال تکمیل کے قریب ہے۔ جس پر کافی محنت کی گئی۔ ساڑھے تین ہزار افراد نے دن رات کام کیا۔ ٹائمز آف انڈیا کی ایک رپورٹ کے مطابق اس مندر کا ڈیزائن آرکیٹکٹ چندرکانت بھائی سومپورہ نے تیار کیا ہے۔ اس کی تعمیر میں 17ہزار گرانائٹ اسٹونس لگ رہے ہیں اور ہر ایک گرانائٹ کا وزن دو ٹن ہے۔ ابھی تک 21لاکھ کیوبک فیٹ گرانائٹ ماربل اور سینڈ اسٹون استعمال کیا جاچکا ہے۔ آئی آئی ٹی چنائی کے مشورے سے اس کی بنیاد 12میٹر گہری کھودی گئی اور اس میں جو مٹی ڈالی گئی وہ 28دن میں خود بخود پتھر میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ بنیاد میں 47 پرتیں Layers ڈالی گئی ہیں۔ اور آرکیٹکٹ کے مطابق اگلے ایک ہزار سال تک کسی قسم کی تعمیر نو کی ضرورت نہیں ہوگی۔ اگر 6.5 کی شدت کا زلزلہ بھی آتا ہے تو اس کی بنیاد پر کوئی اثر نہیں ہوگا۔ 71ایکر رقبہ پر مندر کامپلکس میں اصل مندر کی عمارت تین ایکر پر ہے۔ اور اس کی بلندی 161فٹ طول 380فٹ اور عرض250فٹ ہے۔ رام کی موتی 51انچس کی ہوگی۔ ماہرین نے کچھ اس انداز سے آئینے عدسے (Lenses) اور آلات نصب کئے ہیں کہ رام نومی کے دن دوپہر ٹھیک 12بجے سورج کی کرنیں رام مورتی کے ماتھے سے ٹکرائیں گی اور اس دن یہ منظر دیکھنے کے لئے لاکھوں افراد مندر میں جمع ہوں گے۔ ایودھیا جو کل تک ایک اونگھتا ہوا شہر تھا اب یہ اسمارٹ سٹی بن گیا ہے۔ اب یہاں ہر روز پچاس ہزار تا ایک لاکھ افراد باہر سے آنے لگے ہیں۔ پورے شہر کو نئے انداز میں تعمیر کیا گیا ہے۔ ایرپورٹ، ریلوے اسٹیشنس سے لے کر سڑکیں اور نئے انداز کی اسٹریٹ لائٹس لگادی گئی ہیں۔ کل تک زمین کی قیمت پانچ سو روپئے اسکوائر فٹ بھی مشکل سے ہوا کرتی تھی اب ڈھائی ہزار روپئے ا سکوائر فٹ ہوچکی ہے۔ ارب پتی، ریئل اسٹیٹ، تاجر اس میں دلچسپی لے رہے ہیں۔ بہرحال! پارلیمنٹ کا حملہ جس کے بعد سیکوریٹی پر سوال، کشمیر سے متعلق عدالتی فیصلہ جس سے مودی حکومت پر بڑھتا ہو اعتماد ا ور پھر رام مندر کی تعمیر، ایودھیا کی تعمیر نو نے مودی کو ایک اوتار کا درجہ دے دیا ہے۔ 2024ء میں پارلیمانی الیکشن ہوں گے‘ ظاہر ہے ان سب کا اثر بی جے پی پر ہوگا۔ اور بی جے پی کو اقتدار سے ہٹانے کا خواب شاید خواب ہی رہ جائے!

About Gawah News Desk

Check Also

نئی نسل کی تباہی کے ذمہ دار کون؟

ماہِ مقدس رمضان المبارک سے متعلق موضوع پر کچھ لکھنے کا ارادہ تھا، مگر علماء …

عدلیہ‘ فوج‘ تعلیم اور میڈیا،بی جے پی کا سایہ

کولکتہ ہائی کورٹ کے جج ابھیجیت گنگوپادھیائے گنگولی نے اپنے عہدہ سے استعفیٰ دیا اور …

Leave a Reply