ڈاکٹر سیّد احمد قادری
لوک سبھا کا انتخاب جیسے جیسے قریب آ رہا ہے ویسے ویسے ملک کے حکمراں اپنی ممکنہ ناکامیوں کو یقینی کامیابی میں بدلنے کی ہر ممکن کوشش میں مصروف ہیں۔ہمارے حکمراں اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ اپنے پانچ جوڑ پانچ سالہ دور اقتدار میں ملک کی غربت مٹانے، بے روزگاری ختم کرنے، مہنگائی کم کرنے،پینے کا صاف پانی مہیا کرانے، طبّی سہولیات فراہم کرانے، لوگوں کے سروں پر چھت وغیرہ جیسی بنیادی سہولیات دینے میں ناکام رہے ہیں۔ بڑھتی غربت اور بھوک مری سے نڈھال ایسے ملک کی کُل آبادی کی آدھی آبادی کوبقیہ آدھی آبادی کے دئے گئے ٹیکس کے پیسوں سے پانچ کیلو مفت راشن دے کر ان کی غربت اور ان کے ضمیر کا بھی مذاق اڑایا جا رہا ہے۔ اس بات کی کوشش نہیں کی گئی کہ انھیں روزگار مہیا کراجاتا،جس سے وہ اپنی غربت سے باہر نکل پاتے اور مفت کے اناج سے اپنی بھوک مٹانے کی شرمندگی سے بچ جاتے۔ ملک میں غربت اوربھوک مری کا عالم یہ ہے کہ جس وقت نریندر مودی کی حکومت قائم ہوئی تھی یعنی 2014 ء میں عالمی سطح پر 125 ممالک کے مقابلے بھارت جہاں 55ویں مقام پر تھا، وہیں آج وہ 111 ویں پائدان پر پہنچ کر پوری دنیا میں شرمسار ہو رہا ہے۔ ملک میں بے روزگاری کا المیہ یہ ہے کہ مودی حکومت میں 25 ہزار سے زائد نوجوانوں نے بے روزگاری سے تنگ آکر خود کو ہلاک کر لیا ہے۔سچ تو یہ ہے موجودہ حکومت نے اپنی گزشتہ دس سالہ دور حکومت میں مختلف ریاستوں میں توڑ جوڑ کر اپنی حکومت قائم کرنے، اپنے بہت ہی خاص صنعت کاروں کو فائدہ پہنچانے نیز اپنا ووٹ بینک بڑھانے کے لئے مذہبی منافرت پھیلانے اور ملک کی شاندار گنگا جمنی تہذیب و اقدارکو دانستہ مٹانے میں مصروف رہی ہیں اور اپنی ناکامیوں کو چھپانے کے لئے جھوٹی پبلی سٹی میں اربوں روپئے پانی کی طرح بہایا ہے۔ جس کی وجہ کر آج ملک کے اوپر 1,31,100 ملین ڈالر کے قرض میں ڈوب چکا ہے۔اتنے بڑے قرض کی ادائیگی کے لئے ملک کے عوام پر کتنا ٹیکس کا بوجھ ڈالا جائے گا،اس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
اب جبکہ پارلیمانی انتخاب کا اعلان ہونے ہی والا ہے ایسے میں پورے ملک میں نفرت اور دہشت کا ماحول پوری شدت کے ساتھ تیار کیا جا رہاہے۔ گزرے چند ماہ کے منظر نامے پر ہم ایک نظر ڈالیں تو ہم دیکھیں گے کہ بس ہندو مسلمان کے درمیان خلیج،رام مندر کا ڈنکا پیٹنے،جگہ جگہ مساجد، مدارس، مقبروں، درگاہوں، خانقاہوں، قبرستانوں کا انہدام یا مندر کے نام قبضہ کئے جانے، مسلمانوں کو ذلیل و رسوا کئے جانے، ان کے تشخص کو ختم کئے جانے، ان کی مذہبی آزادی کو سلب کئے جانے،مسلمانوں کی معیشت کو تباہ و برباد کئے جانے،شہریت ترمیمی قانون کا خوف دکھانے وغیرہ جیسی ہر ممکن کوششیں دیکھنے کو مل رہی ہیں۔جن کے سہارے ہی چند ماہ میں ہونے والے لوک سبھا انتخاب میں کامیاب ہونا کا ہدف ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس پورے دس سالہ دور حکومت میں مودی حکومت نے ایک بھی کام نہیں کیا ہے جو ملک و قوم کی فلاح و بہبود کے لئے کیا گیا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ 17 ویں پارلیمنٹ کے آخری سیشن میں وزیر اعظم مودی اپنے گزشتہ ایام کا ذکر یا حصولیابی سے گریز کرتے ہوئے ’ریفورم، پرفورم، ٹرانسفورم‘ کہہ کر آگے بڑھ گئے۔ وہیں ان کے انفارمیشن ا ور براڈکاسٹنگ وزیر انوراگ گپتا پارلیمنٹ کے آخری دن ’نمو۔ہیٹرک‘سے آویزاں زعفرانی شرٹ میں پریس والوں کے گزشتہ پانچ سال کی حصولیابی کے سوال پر تین حصولیابیاں، کشمیر سے 370 کا خاتمہ، طلاق ثلاثہ پر پابندی اور رام مندر کی تعمیر وافتتاح کے آگے کسی حصولیابی کا ذکر نہیں کر سکے۔کاش کہ جھوٹ ہی سہی کچھ تو دیگر حصولیابی نکالتے۔لیکن ان کی نگاہ میں یہی چند مثالیں ’’مودی نے جو وعدہ کیا وہ پوراکیا“ملک کی ترقی کا پیمانہ ٹھرا۔ ملک میں بڑھتی بے روزگاری اور ترقی کے لئے بڑھتی مسدود راہوں سے ناامید ہو کر ان کے دور حکومت میں اب تک بارہ لاکھ سے زائد لوگ اپنے ملک سے ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے ہیں اورادھر امت شاہ ملک کے مسلمانوں کو خوف زدہ کرنے اور مسلم دشمنوں کو خوش کرنے اور اپنے ووٹ بینک کے لئے شہریت ترمیمی قانون CAA کا راگ الاپ رہے ہیں۔ انتخاب سے قبل ملک کی یکجہتی اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو تار تار کرنے والی شخصیات لال کرشن اڈوانی اور نرسمہا راؤ کو ’بھارت رتن‘ سے نوازے جانے کا اعلان کرتے ہوئے اس بات کا بھی اشارہ دے دیا ہے اس حکومت میں کس نظریہ اور اصول پر چلنے والوں کی اہمیت ہے۔ ہم اس تلخ حقیقت سے انکار نہیں کر سکتے ہیں لال کرشن اڈوانی اور وزیر اعظم وقت نرسمہا راؤ وغیرہ کی کوششوں سے ہی بابری مسجدکا انہدام ممکن ہوااور رام مندر کا وجود سامنے آیا۔اس رام مندر کی تعمیر اور افتتاح میں انتخاب کے پیش نظر جو جلد بازی کی گئی اور پورے ملک کو جس طرح’رام مئے‘ کیا گیا اور’پران پرتشھٹا‘ کا مظاہرہ پورے اشتعال کے ساتھ ملک میں کیا گیا۔اس سے یہ تو اندازہ ہو ہی گیا کہ رام مندر کی تعمیر کے پیچھے مذہی تقدس کے بجائے سیاسی مفاد شامل ہے۔ اس حکومت کو ایسا لگتا ہے کہ رام مندر ہی اگلے انتخاب کی نیّا پار کرائے گی۔اپنی اس خوشی کا اظہار کرتے ہوئے وزیر اعظم یہ کہتے سنے گئے کہ پانچ سؤ سال بعد رام کے ساتھ انصاف ہواہے۔بابری مسجد کے ملبہ پر تعمیر اس رام مندر کی ’کامیابی‘ نے پورے ملک کے لوگوں میں مذہبی جوش وجنون بھرنے کی کوشش کی جا رہی ہے،لوگوں کے مذہبی جذبات سے کھیلا جارہا ہے اور ایسا محسوس ہوا کہ جس طرح بابری مسجد کے انہدام نے بی جے پی کو برسر اقتدار کرایا ہے۔اسی طرز پر پورے ملک کی بہت ساری مساجد اور مدارس وغیرہ کی مسماری اور قبضہ کرنے کا سلسلہ چل رہا ہے۔ اس بڑھتے سلسلہ میں حکومت اور عدلیہ سارے قوانین کو کنارے رکھ کر پیش پیش ہے۔ اتر پردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ ہوں یا رام مندر ٹرسٹ کے خازن گووند دیوگری مہاراج وغیرہ،ان کا کہنا ہے کہ ایودھیا کے بعد اگر گیانواپی اور کرشن جنم بھومی مندر ہمیں مسلم بھائی چارے سے دے دیں تو ہم دیگر مندروں کی طرف دیکھیں گے بھی نہیں۔مہاراج نے تو یہاں تک کہا ہے کہ غیر ملکی حملوں میں 3500 ہندو مندر توڑے گئے۔ ہمارے اوپر یہ سب سے بڑا داغ ہے۔ بابری مسجد کے انہدام کے بعد اور رام مندر کی آدھی ادھوری تعمیر کے افتتاح کے بعد پورے ملک میں مسلمانوں کی عبادت گاہوں پر حملہ اورقبضہ کئے جانے کی کوششوں میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ دہلی کی 450 سال پرانی شاہی سنہری مسجد کو نقشہ سے ہی مٹانے کا معاملہ سامنے آیا ہے اسی طرح انسداد تجاوزات کے نام پر ہلدوانی کے مدرسہ اور مریم مسجد کو مسمار کر دیاگیا، جس کے نتیجے میں مسلمانوں میں غم وغصہ کا اظہاربالکل فطری تھا۔اس پرپولیس کی بربریت سے پانچ اشخاص ہلاک اور تین لوگ شدید طور پر زخمی ہوئے ہیں۔حالات کو بے قابو دیکھ کر وہاں کرفیو بھی لگایا گیا اور اندھا دھند فائرنگ اور مسلمانوں کی گرفتاریاں کی گئیں۔ ہلدوانی کے اس سانحہ پر جمعیتہ علمأ ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے اپنے رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک میں انتظامیہ کا احتجاج کرنے والوں کے لئے دو پیمانے ہیں اور مذہب کی بنیاد پر تفریق افسوسناک ہے۔ ملک کے طول و عرض میں مساجد، مدارس، درگاہوں، خانقاہوں، قبرستانوں کو متنازعہ بنا کر ان کے انہدام اور قبضہ کئے جا نے کی کوشش شدت اختیار کرتی جا رہی ہے۔گزشتہ 2 / فروری کو جمعہ کے روز دہلی کے مہرولی علاقہ کی 600سال قبل کی قدیم اخونجی مسجد اور مدرسہ بحر العلوم کو جس وقت لوگ فجر کی نماز ادا کرنے جا رہے تھے تجاوزات کے نام پر صرف دس منٹ کی نوٹس پر بلڈوزر سے منہدم کر دیا گیا۔ مدرسہ کے بچے اس کڑاکے کی ٹھنڈک میں بے گھر کر دئے گئے۔ ہندوستان کی راجدھانی دہلی میں G-20 کے اجلاس کے موقعہ پر متعدد مساجد انسداد تجاوزات کے نام پر منہدم ہوئیں۔بنارس کی گیان واپی مسجد کو اپنی سبکدوشی سے قبل جج نے مسجد میں پوجا پاٹھ کی اجازت دی وہ صاف اشارہ ہے کہ ان مساجد کو اگلے انتخابات میں کامیابی کا زینہ بنانے کی کوشش ہوگی۔گزشتہ چند ماہ میں مساجد، مدارس اور خانقاہوں وغیرہ کو ختم کرنے کی، آئین و قانون کو طاق پر رکھ کر جس طرح کوششیں کی رہی ہیں ان کی تفصیل لکھی جائے تو یہ پورا صفحہ پُر ہو جائے گا۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ایسی عبادگاہوں کے متنازعہ مدعوں کے پیش نظر ہی آزادی کے وقت یہ طئے کیا گیا تھا کہ 15 اگست1947 ء سے قبل تک جن مذاہب کے بھی ماننے والوں کی جو عبادت گاہیں جس حال میں بھی ہیں وہ ان ہی کی رہینگی، سوائے بابری مسجد کے۔ اس لئے کہ اس مسجد کا تنازعہ اس وقت تک حل نہیں ہوا تھا اور معاملہ عدالت میں تھا۔ عام طور پر اس وقت لوگوں نے اس بات پر رضا مندی ظاہر کی تھی۔ لیکن جب بابری مسجد کا تنازعہ زور پکڑنے لگا اور اس مسجد کے نام پر فرقہ واریت اور منافرت کی فضا میں اضافہ ہونے لگاتب، کانگریس حکومت کو محسوس ہوا کہ ایسے تنازعات کو ہمیشہ کے لئے ختم کیا جانا ضروری ہے۔ اسی خیال سے 11/ جولائی 1991 ء کو ورشپ ایکٹ لایا گیا جو 19 / جولائی کے گزٹ میں شامل بھی ہے۔اس وقت وہی نرسمہا راؤ ملک کے وزیر اعظم تھے، جن کی حکمرانی میں یہ قانون لایا گیا اور نافذ العمل ہوا اور یہ بھی حقیقت ہے کہ نہ صرف ان کے دور اقتدار میں بلکہ ان کی خاموش رضامندی پر ہی بابری مسجد کا 6/ دسمبر 1992ء کو انہدام ہوا۔یہ بھی حقیقت ہے کہ اس انہدام کو جسٹس گوگوئی نے غلط ٹھرایا تھا اور اپنے 1045 صفحات کے فیصلہ میں 1991ء کے ورشپ ایکٹ کو اچھا بتایا تھا۔ توقع تھی اس بابری مسجد کے سلسلے میں سپریم کورٹ نے جو فیصلہ(انصاف نہیں) کیا تھا اس کے بعد ملک میں عبادت گاہوں کے تنازعات ختم ہو جائینگے۔لیکن افسوس کہ بابری مسجد کے انہدام اور رام مندر کی تعمیر و افتتاح کے بعد تو فرقہ پرستوں کے حوصلے بڑھتے جا رہے ہیں۔ ایسے وقت میں جب کہ 1991 ء کا عبادت گاہوں کا قانون ابھی ختم نہیں ہوا ہے اس کے باوجود ملک کی عدالتیں اس قانون کو نظر انداز کر رہی ہیں اورفرقہ پرستوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے تمام حقائق و شواہد کو درکنار کرتے ہوئے ان کے حق میں فیصلے سنا رہی ہیں۔ایسے ناگفتہ بہ حالات میں حقیقتاََ مسلمانوں کے صبر و تحمل کا امتحان لیا جا رہا ہے۔ ابھی ابھی ممبئی میں مفتی سلمان ازہری کی فلسطین پر ہونے والے ظلم و بربریت کے حوالے سے کی جانے والی تقریر جو قطئی طور پر قابل اعتراض نہیں تھی،کی پاداش میں گرفتار کیا گیا اور پھر جس طرح ہزاروں نوجوانوں نے پر امن احتجاج کیا، پولیس کی لاٹھیاں ڈنڈے کھائے لیکن ڈٹے رہے اور آخر کار حکومت کو سپر ڈالنا پڑی اور مولانا ازہری کو رہا کرنا پڑا۔اگر یہاں کے نوجوان احتجاج نہ کئے ہوتے مولانا ازہری کو بھی عمر خالد، شرجیل امام وغیرہ جیسے دوسرے سیکڑوں بے گناہ نوجوانوں کی طرح جیل کی سلاکھوں میں ڈال دیا جاتا۔ مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے جانبدارانہ رویہ، تفریق اور امتیازی سلوک سے لوگ اب اپنا صبر وتحمل اور قوت برداشت کھوتے جا رہے ہیں۔اسی طرح اگر خاموش تماشائی بنے رہے تو اس کا خمیازہ، غلامی، محرومی، ناانصافیوں اور حق تلفی کے طور پر سامنے آتی رہینگی۔ ہلداوانی سانحہ کی آنچ بریلی میں بھی محسوس کی گئی اور یوگی کا متھرا کاشی مساجد و عید گاہ کے سلسلے میں کئے جانے والے اعلان پر اپنا احتجاج درج کرانے اتحاد ملت کونسل کے سربراہ مولانا توقیر رضا سڑکوں پر نکلے اور صاف لفظوں میں کہا کہ ہم اب کوئی بلڈوزر برداشت نہیں کرینگے جب ہم کچھ نہیں کر سکتے تو ایسی آزادی سے جیل جانا بہتر ہے۔ مولانا توقیر رضا کو گرفتار بھی کیا گیا لیکن بعد میں رہا کر دیا گیا۔ لیکن انھوں نے احتجاج کر حکومت کو ایک پیغام تو دے ہی دیا۔امیر شریعت بہار، جھارکھنڈ اور اڑیسہ مولانا احمد ولی فیصل رحمانی اور خانقاہ منعمیہ میتن گھاٹ کے سجّادہ نشیں مولانا شاہ شمیم الدین منعمی نے بھی موجودہ حالات پر اپنی برہمی کا اظہار کرتے ہوئے مسلم قیادت کی خاموشی پر سوال اٹھائے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسے سنگین اور پُر آشوب دور میں بھی اگر ہمارے علمأ اور دینی قائد اپنے مسلکی اختلافات کو فراموش کر اتحاد و اتفاق کا مظاہرہ نہیں کرینگے تو کب کرینگے۔ اب تو پانی سر سے اونچا ہورہا ہے۔آخراس ملک کے مسلمانوں کو دو نمبر کا شہری کب تک سمجھا جاتا رہے گا اور ہم کب تک خوف و دہشت میں جیتے رہیں گے۔
(مضمون نگار سینئر صحافی اور معروف ادیب ہیں)