Thursday , May 2 2024
enhindiurdu

غزہ اپنی تباہی معاف نہیں کرے گا

محمد اعظم شاہد

غزہ اپنی تباہی معاف نہیں کرے گا
ایک سو دس دن بعد بھی غزہ پر صیہونی اسرائیل کے فضائی اور زمینی حملے جاری ہیں۔ جنگ زدہ غزہ میں حماس سے انتقام لینے کی آڑ میں بے قصور نہتے فلسطینیوں پر اسرائیل نے اپنی بربریت سے مستقل طور پر تباہ ہی مچارکھی ہے۔ اسرائیل اور حماس کے درمیان سابقہ جنگوں کے موازنہ میں یہ وحشتناک جنگ انتہائی تباہ کن ثابت ہوسکتا ہے۔ فلسطینیوں کی نسل کشی سے اسرائیل کے ہاتھ رنگے ہوئے ہیں۔ تادم تحریر 25ہزار سے زائد فلسطینی غزہ میں شہید ہوچکے ہیں جن میں سولہ ہزار خواتین اور بچے شامل ہیں۔ رپورٹس کے مطابق دس ہزار بچے یتیم ہوچکے ہیں اور تین ہزار سے زائد خواتین بیوہ ہوچکی ہیں۔ اسرائیل حملوں میں آغاز ہوا تھا۔ 65ہزار ٹن بم غزہ پر اسرائیل نے داغے ہیں۔ 23لاکھ فلسطینی باشندے غزہ پٹی کے تنگ چار سو اسکوائر کلومیٹر کے علاقے میں بے کسی کے ماحول میں جنگ بندی کے منتظر ہیں۔ اسرائیل کی بربریت اور جنگ اب بھی جاری ہے۔ اور تین سو سے زیادہ اسرائیلی حملوں میں زخمی ہوتے رہے ہیں۔ فوت ہونے والوں کی تدفین اور زخمیوں کا علاج یہ دونوں سنگین مسئلے بنے ہوئے ہیں۔ ہیبت ناک جنگ سے متاثرہ غزہ میں دس لاکھ سے زیادہ فلسینی اپنے مکانوں اور زمین سے محروم ہوکر محفوظ علاقوں میں پناہ گزین ہیں۔ اِن میں خواتین اور بچوں کے حالات بہت مایوس کن ہیں۔ آدھے سے زیادہ موجودہ آبادی غزہ میں بھوک اور پیاس سے بے حال ہے۔ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیوگتریس نے انسانی تقاضوں کے تحت فوری جنگ بندی کا اسرائیل سے مطالبہ کیا ہے اور حماس سے کہا گیا ہے کہ تمام یرغمال اسرائیلی شہیدیوں کو رہا کردیں۔ مگر دونوں فریقین نے عالمی ادارے کے مطالبہ کو ان سنا کردیا ہے۔ غزہ میں تباہ کاریاں اور اسرائیل کا جنگ بندی سے انکار نے امن کے خواہاں افراد اور اداروں کو مسلسل بے چینی سے روبرو کیا ہوا ہے
اسرائیل کی بربریت اور حملوں کی مذمت پوری دنیا میں ہوتی رہی۔ مگر اسرائیل کا دوغلہ موقف کہ غزہ پر حملے اور جنگ محض اپنے (اسرائیل کے) دفاع کیلئے ناگزیر کاروائی ہے۔ اسرائیلی ظلم و ستم اور مظلوم فلسطینی عوام کی زبوں حالی پر پڑوسی عرب ممالک اور دیگر مسلم ممالک کی مصلحت پسندی اور پُراسرار خاموشی افسوسناک ہے۔ امریکہ کی تانا شاہی کے اثر میں یہ سب ممالک خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ برطانیہ اور امریکہ کی تائید ہی سے اسرائیل کا فلسطین پر قبضہ ہوا تھا۔ یہ دونوں ممالک جاری جنگ میں بھی اسرائیل کی مسلسل حمایت میں لگے ہیں۔ گویا یہ مغربی ممالک کی نام نہاد انسانیت نوازی اور جمہوری اقدار کی بقاء کیلئے دکھاوے کی کاوشوں کا بھی کھلا مذاق ہے
نسلی امتیازات Apartheid کا جنوبی افریقہ نے جس طرح خاتمہ کیا وہ اپنے آپ میں ایک تاریخ ہے۔ فلسطین پر اسرائیل کی اجارہ داری اور ان کی سرزمین پر قبضہ کی کڑی مذمت کرتے فلسطینیوں کے حقوق کے تحفظ کی آواز بلند کرنے والے جنوبی افریقہ نے اقوام متحدہ کے قانونی ادارے ICJ عالمی عدالت برائے انصاف نے اسرائیل کے خلاف غزہ میں مچی نسل کشی کے خلاف دو ہفتے قبل مقدمہ دائر کیا تھا۔ جنوبی افریقہ کی نمائندگی کرے والے وکلاء نے مدلل طور پر اسرائیل کی جانب سے غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کی مذموم تباہیوں کا پانچ ابواب میں تجزیہ پیش کیا۔ فلطسینیوں کی نسل کشی کے ذمہ داری اسرائیل کے پانچ اہم جرائم پر عالمی عدالت سے عبوری جنگ بندی اور پھر بہ عجلت ممکنہ مکمل فیصلہ سنانے کی درخواست کی ہے۔
فلسطینیوں کی نسل کشی Genocide کے لئے اسرائیل کے ظالمانہ حرکتوں کا انکشاف کرتے ہوئے عالمی عدالت میں جنوبی افریقہ نے ان امور پر توجہ مبذول کروائی ہے۔ (1)فلسطینیوں کا قتل عام (2)جسمانی و نفسیاتی مظالم بربریت (3)نقل مکانی کیلئے مجبور کرنا اور ضروری اشیاء کی فراہمی پر پابندی لگانا (4)غزہ میں طبی سہولیات کو تباہ کرنا (5)بچوں کی ولادت کو طبی سہولیات کی عدم دستیابی سے مشکلات پیدا کرنا اور علاج کی سہولتوں سے محروم کیا جانا۔
اِن واضح وجوہات کے باعث اسرائیل‘ فلسطینیوں کی نسل کشی کا مجرم ہے۔ جنوبی افریقہ کے دائر مقدمہ کو بے وقعت کرنے اسرائیل کے نمائندہ وکلاء نے اپنی بے شرمی اور بے حسی کا جارحانہ مظاہرہ کرتے ہوئے بتایا کہ حماس کی جانب سے یہودیوں کی نسل کشی کے جواب میں انکے (اسرائیل کے) حملے ان کے تحفظ اور دفاع کا مظاہرہ ہیں۔ وہ (اسرائیل) نسل کشی کا کسی بھی طرح کا ارادہ نہیں رکھتے ہیں اور ان کی کوششیں ممکنہ حد تک عام شہریوں کو نقصان سے بچانا ہے‘ اپنے کہنے اور کرنے میں نمایاں فرق ظاہر کرنے والے اسرائیل نے جنگ کی نئی تباہ کاریوں میں اپنے لئے سیاہ تاریخ مرتب کرلی ہے۔ عالمی عدالت کا فیصلہ ضابطے کے مطابق تاخیر ہی سے سنایا جاتا ہے مگر امید کی جارہی ہے کہ اگلے ماہ فروری میں عبوری جنگ بندی کے لئے یہ اسرائیل کو پابند کار بنائے گی۔ ویسے انصاف میں تاخیر ایک طرح سے انصاف سے مرحومی بھی ہے۔ غزہ کے حالات اور اسرائیلی جنگی حملوں کی تفصیلات اور خبریں اب اخبارات میں اندرونی صفحات تک محدود ہوکر رہ گئیں۔ ٹیلی ویژن چیانلس میں سوائے ”الجزیرہ“ کے کسی بھی چیانل میں کووریج پر توجہ ہی نہیں ہے۔ غزہ میں ایک سو دس دن سے جاری اسرائیل کے حملوں کے باعث حالات تشویش ناک رخ اختیار کررہے ہیں۔ پینے کے صاف پانی اور غذا کی تباہی، علاج کی مشکلات نے غزہ میں دائرہئ حیات تنگ کردیا ہے۔ بھوک اور قحط سالی کے آثار نمایاں ہورہے ہیں۔ لگتا ہے کہ غزہ اپنی تباہی کبھی معاف نہیں کر پائے گا۔

About Gawah News Desk

Check Also

اسرائیل کی اسپتال پر بمباری،سیکڑوں فلسطینی شہید،دنیا بھرمیں مذمت،بائیڈن سے عرب سربراہوں کی میٹنگ منسوخ

غزہ کی وزارت صحت نے بتایا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے الاہلی عرب ہسپتال …

فلسطین تجھے سلام

اے فلسطین! تری خاک کے ذروں کو سلامتیرے جلتے ہوئے زخموں کی شعاعوں کو سلامتیرے …

Leave a Reply