Monday , April 29 2024
enhindiurdu

خدارا مسجدوں سے سحری کے اعلانات بند کیجئے

ڈاکٹر محمد واسع ظفر
استاذ و سابق صدرشعبہ تعلیم‘ پٹنہ یونیورسٹی، پٹنہ

رمضان المبارک کی آمد آمد ہے۔ اس مبارک مہینے میں جہاں بہت سی نیکیوں کا چلن و رواج ہے وہیں کچھ غلط رسموں نے بھی اپنا مقام بنایا ہوا ہے۔ ان ہی میں سے ایک مسجدوں سے ہونے والے سحری کے اعلانات بھی ہیں۔ یہ اعلانات عام طور پر ختم سحر یا صبح صادق کے وقت سے 45 منٹ یا ایک گھنٹہ قبل شروع ہو جاتے ہیں، پھر دس سے پندرہ منٹ کے وقفے پر ان کا اعادہ کیا جاتا ہے۔ پہلے اعلان میں تو یہ بتایا جاتا ہے کہ سحری کھانے کا وقت ہوچکا ہے، آپ لوگ نیند سے بیدار ہوکر سحری کھالیں۔ اس کے بعد کے ہر اعلان میں یہ بتایا جاتا ہے کہ اب سحری کا وقت کتنا منٹ باقی رہ گیا ہے اور آخری اعلان میں سحری کے وقت کے اختتام کی خبر سنائی جاتی ہے۔ اس طرح پون یا ایک گھنٹہ کے وقفے میں چار سے پانچ اعلانات تو ہوہی جاتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ مسجد کمیٹی اور مؤذن نے محلہ کے سارے افراد کو سحری کھلانے کا ٹھیکہ لے رکھا ہے۔ مسجد کمیٹی کے ممبران، ائمہ مساجد اور مؤذنین اس بات پر کبھی غور نہیں کرتے کہ ان اعلانات کی ضرورت کیا ہے اور ان سے لوگوں کو کس قسم کی تکلیفیں برداشت کرنا پڑ رہی ہیں؟
سحری کے لئے لوگوں کو جگانے کی ابتداء اس دور میں ہوئی تھی جب گھڑی گھنٹے بہت عام نہیں ہوئے تھے اور اشتہارات کا بھی بہت رواج نہیں تھا۔ ان دنوں مسجدوں میں لاؤڈ اسپیکر کا استعمال بھی بہت عام نہیں ہوا تھا۔ اس دور میں لوگوں کو جگانے کے لئے بعض مقامات پر کچھ مخصوص افراد انفرادی طور پر تو بعض مقامات پر قافلے کی شکل میں گھوم گھوم کر جگنے کی صدا لگایا کرتے تھے۔ بعض مقامات پر پٹاخوں کے دھماکے بھی کئے جاتے تھے تو بعض جگہوں پر سائرن بجانے کا بھی رواج تھا۔ گرچہ یہ باتیں بھی شریعت کے مزاج کے خلاف تھیں لیکن گھڑی گھنٹوں کے عام نہیں ہونے کی وجہ سے ان کا کسی حد تک جواز بنتا تھا لیکن آج کے دور میں جب کہ ہر گھر میں گھڑی گھنٹے اور ہر ہاتھ میں اسمارٹ فون موجود ہے جس میں انگلیوں کے ایک اشارے پر ختم سحری، افطار اور نمازوں کے اوقات وغیرہ معلوم کئے جاسکتے ہیں اور حسب ضرورت اَلارم بھی لگایا جاسکتا ہے یا کسی کو رِنگ کرکے جگانے کے لئے بھی کہا جاسکتا ہے، مسجدوں سے ان اعلانات کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی۔ یہ ایک فضول رسم ہے جسے ڈھویا جارہا ہے۔ یہ عوام کو پنگو بنانے کے مترادف ہے۔ ہاں انفرادی طور پر اگر کوئی شخص کسی کو جگانے کے لئے بول دے تو اسے جگا دینا یقیناً درست ہوگا لیکن محلوں میں لاؤڈ اسپیکر پر اعلان کرنا جس سے سارے لوگ بیک وقت متاثر ہوں قطعاً درست نہیں!
سمجھنا چاہئے کہ یہ وقت گہری نیند کا ہوتا ہے اور ہر شخص اپنی ضروریات کے پیش نظر سونے جاگنے کا اپنا معمول رکھتا ہے۔ لہٰذا سب کو ایک مخصوص وقت پر جگنے کے لئے مجبور کرنا کیسے درست ہو سکتا ہے؟ محلوں میں بہت سے غیر مسلم افراد بھی رہتے ہیں جنہیں روزوں سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا، نیز مسلمانوں میں بہت سے لوگ انتہائی ضعیف اور بیمار ہوتے ہیں جو روزہ نہیں رکھتے اور بہت سے بچے جو روزے کے مکلف بھی نہیں ہوتے سب کی نیند خراب ہوتی ہے۔ ان کے علاوہ جو لوگ پہلے سے جگ کر نماز تہجد، تلاوت قرآن یا تسبیحات و اذکار میں مشغول ہوتے ہیں ان کی یکسوئی میں اس باربار کے اعلانات سے زبردست خلل واقع ہوتا ہے، جن کی رہائش مسجد کے قریب ہے، انہیں ان پریشانیوں کا سب سے زیادہ سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لیکن مسجد کمیٹی کے ذمہ داران کو یہ باتیں بالکل سمجھ میں نہیں آرہی ہیں اور انہیں لوگوں کی تکالیف کا قطعاً اندازہ نہیں ہے۔ اس عمل سے دراصل ہم اس بات کا مظاہرہ کر رہے ہوتے ہیں کہ ہمارے اندر تمدنی شعور (Civic Sense) نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔
جاننا چاہئے کہ سحری کھانا یقینا سنت ہے، برکت و فضیلت کا بھی باعث ہے لیکن روزے کے لئے لازمی شرط نہیں ہے یعنی اگر کوئی شخص وقت پر بیدار نہیں ہونے کی وجہ سے یا کسی اور سبب سے سحری نہ کھا سکے اور کچھ کھائے پئے بغیر ہی روزہ رکھ لے جو کہ ایسی صورتحال میں کرنا بھی چاہئے کیوں کہ یہی عزیمت کا پہلو ہے، تو اس کے روزے پر کوئی فرق نہیں پڑے گا، وہ روزہ پوری طرح قابل قبول ہوگا اگر دوسری ضروری پابندیوں کا لحاظ رکھا گیا ہو۔ یہی نہیں، اگر کوئی شخص جان بوجھ کر سحری ترک کر دے تو بھی وہ گنہ گار نہیں ہوگا کیوں کہ سحری کھانا روزے دار کے لئے کوئی فرض یا واجب نہیں ہے بلکہ فقہاء نے اس کے مستحب ہونے پر ہی اجماع نقل کیا ہے جو کہ ایک گھونٹ پانی پی لینے سے بھی متحقق ہوجاتا ہے لیکن ہم لوگوں نے اس کو اتنا بڑا مسئلہ بنا رکھا ہے جیسے اگر کسی کی سحری چھوٹ گئی تو مانو قیامت ہی برپا ہوگئی۔
سحری کھانے سے دراصل دو باتیں مقصود ہیں؛ ایک تو یہ کہ اس سے روزہ دار کو قوت و نشاط حاصل ہو اور روزہ کو نباہنا اس کے لئے آسان ہوجائے اور دوسرے یہ کہ اہل کتاب کے روزوں سے فرق پیدا ہوجائے کیوں کہ وہ لوگ روزوں کے لئے سحری نہیں کھایا کرتے۔ نبی کریم ا کا ارشاد ہے: ”فَصل مَا بَینَ صِیَامِنَا وَ صِیَامِ اَھلِ الکِتَابِ، اَکلُ السَّحَر“ یعنی ہمارے اور اہل کتا ب کے روزوں میں فرق سحری کھانے کا ہے۔ (صحیح مسلم، رقم الحدیث ۲۵۵۰)۔ اور آپ ا نے یہ بھی ارشاد فرمایا: ”تَسَحَّرْوا، فَاِنَّ فِی السُّحُورِ بَرَکَۃً“ سحری کھایا کرو کیوں کہ سحری کھانے میں برکت ہے۔ (صحیح مسلم، رقم الحدیث ۲۵۴۹)۔
اس لئے ان مقاصد کے حصول کے پیش نظر سحری کھانے کا اہتمام ضرور کرنا چاہئے لیکن یہ ہر اس شخص کی ذاتی ذمہ داری ہے جو روزے کا مکلف ہے اور جسے اس فرض کی حسن ادائیگی کی فکر ہے کہ وہ اپنے سحری کی خود فکر کرے۔ اس کے لئے مسجدوں سے باربار اعلانات کا ہونا نہایت تکلیف دہ ہے۔ مسجدیں ویسے بھی اعلانات کے لئے وجود میں نہیں لائی گئیں بلکہ نماز اور ذکر و تلاوت کے لئے وجود میں لائی گئی ہیں لیکن ہم لوگوں نے ان کو مختلف قسم کے اعلانات کا مرکز بنا ڈالا ہے جس سے ان کے تقدس پر ضرب لگ رہی ہے مگر اس پر غور کرنے کو کوئی تیار نہیں ہے۔ احقر نے اس موضوع پر ایک مضمون بعنوان ”مساجد میں اعلانات کی کثرت: ایک لمحہ فکریہ“ حال ہی میں رقم کیا تھا اور اس نقطہ پر لوگوں کی توجہ مبذول کرائی تھی جو مختلف اخبارات میں اور ویب سائٹس پر شائع بھی ہوا، اسے ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔
اسلامی شریعت کا مزاج یہ ہے کہ فرائض و واجبات کو علی الاعلان اور اجتماعیت کے ساتھ ادا کیا جائے اور نوافل و مستحبات کو انفرادی طور پر ادا کیا جائے۔ نوافل و مستحبات میں اعلان و اظہار کو پسند نہیں کیا گیا۔ نیز عبادات کی ادائیگی میں اس بات کا بھی خیال رکھا گیا ہے کہ حتی الامکان دوسروں کو تکلیف نہ ہو۔ اسی وجہ سے نماز میں قرآن کریم کی تلاوت میں متوسط آواز اختیار کرنے کا حکم دیا گیا۔ ارشاد ربانی ہے: ”تم اپنی نماز نہ بہت اونچی آواز سے پڑھو اور نہ بہت پست آواز سے بلکہ ان دونوں کے درمیان (معتدل) راستہ اختیار کرو۔ (الاسراء:۰۱۱)۔
صحیح بخاری کی روایت کے مطابق اس حکم کے صادر ہونے کی علت یہ تھی کہ مکہ مکرمہ میں جب رسول اللہ ا بلند آواز سے نمازوں میں قرأت فرماتے تو مشرکین کو گراں گزرتا تھا اور وہ قرآن، آپ ا، جبریل علیہ السلام اور اللہ رب العزت کو برا بھلا کہتے تھے۔ اس لئے آپ ا سے کہا گیا کہ اتنی بلند آواز سے قرأت نہ کریں کہ مشرکین تک آواز پہنچے اور اتنی آہستہ بھی نہ کریں کہ آپﷺ کے ساتھی بھی نہ سن سکیں بلکہ ان کے درمیان کا راستہ اختیار کریں۔ (صحیح بخاری، رقم الحدیث ۰۹۴۷)۔
یہاں غور کرنے کی بات یہ ہے کہ آج ہندوستان کے مسلمان کیا نبی کریم ا اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کی مکی زندگی جیسے حالات سے نہیں گزر رہے ہیں؟ اور کیا اپنے اس غیر ضروری عمل سے ہم اسلام اور اسلامی اعمال کے تئیں لوگوں کے اندر نفرت نہیں پیدا کر رہے ہوتے ہیں؟ پھر کیا جب کوئی ان اعلانات کو بند کروانے کے لئے کسی دن کیس مقدمہ کرے گا تب جاکر ہی ہماری آنکھیں کھلیں گی؟ اور یہاں تو معاملہ صرف غیروں کا ہی نہیں مسلمانوں کو بھی تکلیف پہنچانے کا ہے جس سے سختی سے روکا گیا ہے۔
یاد رہے کہ کسی مسلمان کو تکلیف و اذیت میں مبتلا کرنا حرام ہے اور علماء نے اسے گناہ کبیرہ میں شمار کیا ہے۔ گویا مسجد کمیٹی کے افراد ایک مستحب کے اہتمام کے چکر میں گناہ کبیرہ کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ اسی طرح کسی کی عبادت اور ذکر میں خلل ڈالنا بھی ایک شیطانی فعل ہے۔ اللہ کے رسول ا نے تو قرآن مجید کی تلاوت بھی بہ آواز بلند کرنے سے منع فرمایا ہے بالخصوص رات میں اگر وہ دوسروں کی عبادت میں خلل کا موجب ہو۔ تو پھر یہ سحری کے بار بار لاؤڈ اسپیکروں پر کئے جارہے اعلانات کیسے درست ہوسکتے ہیں؟
اس لئے مسجد کمیٹیوں کے ذمے داران، ائمہ کرام اور مؤذنین حضرات سے گزارش ہے کہ وہ ان باتوں پر غور کریں، اس تعلق سے اپنے مقتدیوں کی بھی ذہن سازی کریں اور خدارا مسجدوں سے سحری سے متعلق ہونے والے اعلانات کو بند کریں۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو دین کی صحیح سمجھ عنایت کرے اور اس پر عمل کی بھی توفیق بخشے۔
آمین! وما علینا الا البلاغ!

About Gawah News Desk

Check Also

زکوٰۃ کے اصل مستحق کون؟

مدارس میں فیس کا نظام قائم کیجیے،نادار طلبہ کی فیس زکوٰۃ سے اداکیجیےعبدالغفار صدیقی-9897565066 زکوٰۃ …

گھر سے دور رہنے والوں کا رمضان-اہل خیر سے ایک گزارش

جب میں نے ای ٹی وی بھارت میں اپنی پہلی ملازمت شروع کی تھی، تو …

Leave a Reply