اردوگلبن سے قبل جدہ کی ادبی تاریخ میں حلقہ ارباب ذوق جدہ جس کا قیام خاکسار کے ساتھ دیگر ساتھیوں نے1979 میں کیا اور جب حلقہ فعال نہ رہا تو اردو گلبن جدہ کی بنیاد رکھی گئی اور جدہ کی ادبی فضاوں میں اردو کی عطربیزیاں ہوتی رہیں اگر چہ کے ہمارے مشاعرے اور ادبی اجلاس بہت بڑے پیمانے پر نہیں ہوتے تھے، پھر ایک زمانہ آیا جن دنوں جدہ
میں بڑے مشاعرے متواتر ہونے لگے ایک مشاعرہ ہندوستانی سفارت خانہ یا قونصلیٹ کی جانب سے ہوا کرتا تھا تو دوسرا مشاعرہ خاک طیبہ کا انتظامیہ منعقد کرواتا پھر بزم اتحاد بھی میدان میں اتر گئی تو کچھ مشاعرے ان کے کھاتے میں بھی لکھے گئے ، یہ سارے مشاعرے سال میں ایک دفعہ ہوا کرتے تھے گویا دو یا کبھی تین مشاعرے ہوجاتے تھے جس میں وطن عزیز سے دس تا بارہ شعراء وشاعرات بلاے جاتے۔ پھر یوں ہوا کہ سرکاری مشاعرے سرکاری افسران کی عدم دلچسپی کا شکار ہوے ، تو خاک طیبہ کی بدلتی انتظامی کمیٹیوں نے اس کی ضرورت نہ سمجھی آخر میں شروع ہونے والے بزم اتحاد کے مشاعرے بھی رفتہ رفتہ کم ہوے اور پھر منظر سے غیب ہوگئے۔
اردو گلبن جدہ بڑے مشاعرے کروانے والی سماجی انجمنوں سے مختلف خالص ادبی تنظیم رہی ہے۔ اردوگلبن جو ہمیشہ اپنی قومی ترجیحات کو پیش نظر رکھتی ہے اسکی موجودہ فعال کمیٹی نے عزم کیا کہ ہم قومی یکجہتی کے فروغ اور تشہیر کے لئے جشن آزادی منائیں گے ۔
خدا خدا کرکے جشن آزادی منانے کے لئے انڈین انٹرنیشنل اسکول گرلز سیکشن کا آڈیٹوریم دستیاب ہوا۔
اس کا آغاز ساری تیاریوں کے بعد ہوں ہوا کہ شاندار اسٹیج ترنگے کے رنگوں سے سجایا گیا ۔آغاز کرتے ہوے
اسلم افغانی کی آواز نے سب کو اسٹیج کی طرف متوجہ کیا جہاں مائک پر اکر وہ اعلان کر رہےتھے حاضرین محفل اداب وتسلیمات
مشاعرہ کچھ ہی دیر میں شروع ہونےجارہاہے آپ اپنی نشستوں پر تشریف رکھیں ۔
مہمانوں کے استقبال کے لیے صدر اردو گلبن اور نائب صدرکو اسٹیج پر دعوت دی گئی اور ایک کے بعد دیگرے مہماننوں نے شہ نشین کو رونق بخشی اس کے صدر اردو گلبن نے خطبہ استقبالیہ پیش کیا۔ پھر مہمان خصوصی جناب عزیز الرب نے اپنے خیالات کا اظہار کیا ، انکے بعد جناب عبدالقدیر حسن صدیقی، اور قونصل خانے سے تشریف لاے امام مہدی حسین ہیڈ آف چانسری نے مخاطب کیامہمانوں کی خدمت میں گلدستے پیش کئے گئے اور عبدالسلام عبدالقادر کی قرات کے بعد رسول صل اللہ علیہ وسلم پر مدینہ سے تشریف لاے نعت کے شاعر نے ہدیہ نعت پیش کیا۔اس رسم کے بعد،
اسلم افغانی جنرل سیکرٹری اردوگلبن نے مہمان شعرا اور پھر میزبان شعراءکو دعوت دی ان سب کی خدمت میں گلدستے پیش کئے گئے ناصربرنی نائب صدر اردوگلبن و ناظم مشاعرہ کو اسٹیج پر بلایاگیااور آخر میں بالآخر صدر مشاعرہ و صدر اردوگلبن کو شہ نشین پر آنے کی دعوت دی گئی اس کے بعد اردوگلبن کے علامتی شعر
ہم نے خوشبو کے بند کھول دئے
اب ہوا تیری ذمہ داری ہے
پڑھ کراسلم افغانی نے اسٹیج ناظم مشاعرہ کے حوالے کیا۔
ناصر برنی ایک کہنہ مشق شاعر ہی نہیں ایک خوبصورت طرز کے ناظم مشاعرہ بھی ہیں۔ ابتدائی کلمات کے بعد تواتر کے ساتھ میزبان اور مہمان شعراء کو دعوت سخن دیتے ہوے ناظم مشاعرہ نے بہت خوبصورت اشعار بھی پیش کئے۔شعراء نےبھی قومی یکجہتی اور آزادی کے ضمن میں اپنے قیمتی اشعار سناے
نمونہ کلام پیش خدمت ہے۔
مہتاب قدر:صدراردو گلبن نےوطن کو خراج عقیدت پیش کیا
اس باغ کی محبت چمٹی ہوئی ہے جاں سے
“میر عرب کو آئی ٹھنڈی ہوا جہاں سے”
گلہاے رنگ وبو سے مہکا ہوا چمن ہے۔
تہذیب کی زمیں پر سب رنگ کہکشاں سے
مہمان شاعر مجاہد سید: مجاہد سید نے جو حالیہ دنوں میں لکھنو سے اپنے صاحبزادے کی عیادت کے لئے تشریف لاے تھے یاد رہے کہ مجاہد سید چند برس پہلے تک جدہ میں مقیم رہے، ہماری دعوت پر مشاعرے میں شرکت فرمائی اور شعر پڑھنے سے قبل شرکاء محفل کو مخاطب کیا اور فرمایا کہ سن 1987 میں اسی آڈیٹوریم میں مہتاب قدر نے مشاعرہ منعقد کیا تھا جس میں مجھے بھی شرکت کا موقع ملا ،آج پھر اسی آڈیٹوریم میں مہتاب قدر کے اس مشاعرے میں شرکت کررہا ہوں۔ ان دونوں مشاعروں کے درمیان انہوں نے بےشمار مشاعرے منعقد کئے اس لئے جدہ والو یاد رکھنا آپ کے درمیان یہ “باباے مشاعرہ” مہتاب قدر ہیں انکی قدر کریں۔
مجاہد سید صاحب کے اس بیان پر پورا منظر عود کر ذہن میں آگیا یہ اس وقت کی بات ہے جب تلمیذ احمد کونسل جنرل تھے اور شیخ مولی اسکول کے پرنسپال۔ انکے شعرملاحظہ کیجئے۔
سرِ دریا جو لشکر بولتا ہے
بہت بڑھ کر ستمگر بولتا ہے
اسے ہارا ہوا مانیں تو کیسے
ابھی نیزے پہ وہ سر بولتا ہے
کچھ چھوڑ دے ہم خاک نشیناں کے لیے بھی
اک موجِ نوا چاہیے امکاں کے لیے بھی
کچھ کم نہ مصیبت تھا بکھرنے سے بچانا
خاکسترِ جاں، سوختہ ساماں کے لیے بھی
مصروف رکھا کارِ جنوں نے ہمیں ایسا
فرصت تھی کہاں درد کے درماں کے لیے بھی
ناصر برنی ناظم مشاعرہ:
اے میرے ہم نواو اک سر میں سر ملاو
جمہوریت پہ اپنی خوشیوں کے گیت گاو
پوچھے جو کوئی تم سے تم کون ہو اے لوگو
ہندو ہوں میں ہوں مسلم یا سکھ ہوں یوں نہ بولو
ہم مادر وطن کے بیٹے ہیں بھائی ہیں سب
ہندی ہیں ہم وطن ہے ہندوستاں ہمارا
سید وحید القادری عارف:
سر زمینِ ہند ائے جنّت نشاں تجھ کو سلام
سر بلندی کا تری کیا ہوبیاں تجھ کو سلام
تجھ سے آئی عشق کی خوشبو مرے سرکار کو
اِس سے بڑھ کر کیا ہو تیری عزّ و شاں تجھ کو سلام
اولیاء اللہ ہیں آسودہ تیری گود میں
جن کے باعث تو ہے رشکِ آسماں تجھ کو سلام
ڈاکٹر پرنس مفتی ضیا:
رنگ برنگی تہذیبوں سے رب نے جسے سنوارا ہے
اس دنیا مے واحد ایسا ہندوستان ہمارا ہے
رام کی دھرتی ،کرشن کی دھرتی دھرتی نانک گوتم کی
اس دھرتی مے بسی ہے خوشبو مذہب کے ہر موسم کی
ڈاکٹر رضوان مہذبی:
ہر ایک ادا آج بھی کیا خوب لگے ہے
لاکھوں میں اک اب بھی مرا محبوب لگے ہے
اوروں کے لئے کیسے سمجھ لیتے ہو احسن
وہ بات جو خود بھی تمہیں معیوب لگے
جناب ارشد قدوائی:
حدیث دل بعنوان غزل تحریر کرتے ہیں
عیاں دل پہ بنی احساس کی تصویر کرتے ہیں
جو دولت کی بناء پر زندگی تعمیر کرتے ہیں
جہاں میں اپنی بربادی کی وہ تدبیر کرتے ہیں
سنا ہے حسن اخلاقی دلوں کی جیت ہوتی ہے
مگر وہ تو نگاہوں سے ہی دل تسخیر کرتے ہیں
ڈاکٹر قمر سرور مہمان شاعرہ: مشاعرے کی بہت کامیاب شاعرہ جس کو بہت داد وتحدین سے نوازا گیا
اک نظر میں تجھ کو نظر دیکھ لیا
جیسے کسی پیاسے نے سمندر دیکھ لیا
گھومتی رہتی ہے تو اپنی شرطوں پر
دنیا ہم نے تیرا چکر دیکھ لیا
غزل کے بانکپن کو تلخ افسانوں میں کیوں رکھا
مجھے اپنا بنا کر تم نے بیگانوں میں کیوں رکھا
کوئی انجام ہو اپنا جسارت کرکے دیکھیں گے
محبت کرنے والوں سے محبت کرکے دیکھیں گے
نیحا پرکاش:
نیحا نے اپنے وطن اور ترنگے سے محبت کا یوں اظہار کیا ،
جو کوئی رنگ میں پہنوں
وہ کسریا بن جاتا ہے
کیوں کہ میرے من مندر میں
بس یہ ترنگا لہراتے۔
نیحا کچھ بھی لکھنا اہے
بھارت کاذکر آجانا ہے
چاند دیوبندی مہمان شاعر: نے شعرپڑھنے شروع کئے تو محفل کو چار چاند لگ گئے
گلے ملتے ہیں سجدوں میں دعا سے بات کرتے ہیں
سنا ہے رات کے آنسو خدا سے بات کرتے ہیں
یہ عادت ہے، تعلق ہے ہنر ہے یا کرشمہ ہے
بدن کے زخم اب میرے دوا سے بات کرتے ہیں
کوئی آنکھوں کو اچھا لگ گیا ہے
تواب جینے کا چسکا لگا گیا ہے
پڑھاہے اس قدر دنیا کا چہرہ
مرے چہرے پہ چشمہ لگا گیا ہے
چاند نے گنگا جمنی تہذیب کے اظہار کے لئے ہندی قوافی پر مشتمل غزل سناکر دل موہ لیاہے
اگر اردو روایات میں “میان اف دی میاچ ” کی گنجائش ہوتی تو یہ کہا جاسکتا تھا کہ چاند دیوبندی اس مشاعرے کا میان آف دی میاچ تھا۔
چانددیوبندی نے دوباہ اکر راج ویر راز کاکلام پیش کیاجو کسی مجبوری سے تشریف نہ لا سکے۔
کہیں خاموش آنکھوں کا اشارا مار دیتا ہے۔
کہیں دیپک کہیں پر گھپ اندھیرا ماردیتا ہے،
کہیں ایسا بھی ہوتا ہے سمندر کی پناہوں میں
بھنور میں کچھ نہیں ہوتا کنارا ماردیتا ہے
شجاع الدین مدیح :
ناز قسمت پہ کرکے بیٹھے ہیں
در پہ خیر البشر کے بیٹھے ہیں
وہ جو روضے میں ہے پسِ پردہ
ہمیں دیوانہ کرکے بیٹھے ہیں
اب یہاں سے کہیں نہ ہو پرواز
ہم پروں کو کتر کے بیٹھے ہیں
احمد باشا مدراس :
لوٹ آنے کے ارادے سے نکل پڑا تھا میں
زندگی کی دوڑ نے پلٹنے نہیں دیا
امرینہ قیصر :
امرینہ میرے نام پہ مرتے ہیں کتنے لوگ
زندہ ہوں میں تو یہ مری قسمت کی بات ہے
آخر میں کنوینر اور جوائنٹ سیکرٹری ڈاکٹر قدرت نواز کے شکریہ پر یہ یادگار محفل آئندہ کے انعقاد تک کے لئے ملتوی کردی گئی۔