سمیع اللہ ملک(لندن)
ہمیں معاشی بربادی کے دہانے پر کون لے کر آیا؟ یہ آج اور آنے والے کل کے مورخ کا سب سے بڑا سوال ہوگا، ہماری اس بربادی کے 5بڑے کھلاڑی ہیں، اس کھیل کا پہلا کھلاڑی امریکاہے، امریکہ کی خارجہ پالیسی خانہ جنگی پر مبنی ہے، امریکا آج تک جس ملک میں گیا اس میں خانہ جنگی،قتل و غارت گری اور فساد پھیلا اور وہ ملک کبھی دوبارہ معمول کی پٹڑی پر نہ آسکا، آپ زیادہ دور نہ جائیے آپ1950ء کو دیکھ لیجئے،1950ء میں امریکاکوریا میں داخل ہوا، کوریا میں خانہ جنگی ہوئی اور اس خانہ جنگی کے نتیجے میں کوریا شمالی اور جنوبی دو حصوں میں تقسیم ہوگیا اور آج تک وہاں امن قائم نہیں ہوسکا,بالآخرشمالی کوریاکواپنی عوام کاپیٹ کاٹ کرایٹمی دوڑمیں شامل ہوناپڑااورمیزائل ٹیکنالوجی کاسہارالیکرامریکاکوچیلنج کرکے اسی کی زبان میں سمجھاناپڑا ۔امریکا1954ء میں گوئٹے مالا گیا،وہاں خانہ جنگی ہوئی اور پورا ملک تباہ ہوگیا۔وہ 1958ء میں انڈونیشیاء 1959 ء میں کیوبا،1961ء میں ویت نام،1964ء میں کانگو،1965ء میں پیرو، 1969ء میں کمبوڈیا،1971ء میں پاکستان،1973ء میں لاؤس،1980ء میں ایل سلواڈور،1981ء میں نکارا گوا،1983ء میں گرینیڈا،1984ء میں لبنان،1986ء میں لیبیا، 1989میں پانامہ،1998ء میں سوڈان اور1999ء میں یوگو سلاویہ گیا اور ان تمام ممالک میں خانہ جنگی ہوئی اور اس خانہ جنگی میں لاکھوں،کروڑوں لوگ مارے گئے اور اس کے بعد ان ممالک میں دوبارہ امن قائم نہ ہو سکا۔
امریکاکی اس خارجہ پالیسی کے تازہ ترین شکار افغانستان اور عراق ہیں۔امریکیوں نے1980ء میں افغانستان کی سیاست میں قدم رکھا تھا آج اس واقعے کو38برس گزر چکے ہیں اور ان38برسوں میں افغانستان کے شہریوں نے امن کی ایک رات نہیں گزاری،آج افغانستان کے شہری امریکااورنیٹو افواج کے ہاتھوں قتل ہو رہے ہیں اور امریکا اس قتل و غارت گری کو اپنی کامیابی قرار دے رہا ہے۔عراق نے 1980ء میں امریکیوں پر دوستی کے دروازے کھولے تھے، یہ دروازے کھلتے ہی عراق ایران جنگ شروع ہوئی اور اس جنگ میں 6لاکھ ایرانی اور عراقی مارے گئے۔1990ء میں امریکا نے عراق پر پہلا حملہ کیا، دوسرا 2003ء میں ہوا اور آج عراق بری طرح خانہ جنگی کا شکار ہے،عراق میں اب تک 17لاکھ شہری اس جنگ کارزق بن چکے ہیں۔
امریکا کی یہ مہربانیاں صرف یہیں تک محدود نہیں ہیں بلکہ ارجنٹائن ہو، ہیٹی ہو، چلی ہو، ہوائی ہو یا پانامہ ہو، فلپائن ہو،سپین، پورٹوریکو، سامو آ، کو لمبیا، ہونڈراس،ڈومینکن ری پبلک ،بولیویا، برازیل ، کوسٹاریکا، فاک لینڈ، جمیکا، الجیریا، مصر،ایران،اسرائیل، اردن، کویت مراکش، شام،تیونس یمن،انگولا، برونڈی، ایتھوپیا، گھانا، کنی بساؤ، کینیا، لائبیریا، مڈغا سکر، موز مبیق،نائیجریا، روانڈا، ساؤتھ افریقہ، یوگنڈا،زائرے، زیمبیا، زمبابوے،یونان،ہنگری، رومانیہ، ترکی ہو یا نیپال دنیا کے جس ملک میں امریکیوں نے قدم رکھا اسے خانہ جنگی کا تحفہ ملا اور یہ تحفہ اس وقت تک ملتا رہا جب تک وہ دوستی کے اس شکنجے سے آزادانہ ہوگیا، دنیا کے نقشے پر اس وقت بھی 15ممالک بدترین خانہ جنگی کے شکار ممالک میں امریکی نظر آتے ہیں لہٰذا اگر دنیا کے ان تمام ممالک نے امریکی دوستی کا تاوان ادا کیا تھا تو ہم بھی اس وقت تک سکون نہیں پاسکیں گے جب تک ہم اپنا حصہ وصول نہیں کرلیتے اور یہ حقیقت ہے ہم اس انجام کے دروازے پر کھڑے ہیں۔
امریکا جب بھی کسی ملک میں جاتا ہے تو وہ اس ملک کی دفاعی امداد میں اضافہ کردیتا ہے جس کے بعد اس ملک کی فوج سیاست میں حصہ دار بن جاتی ہے اور اس کے بعد اس ملک میں ڈکٹیٹروں کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے اور یہ سلسلہ اس وقت جاری رہتا ہے جب تک ملک خانہ جنگی کا شکارنہیں ہوجاتا اورہم اس سلسلے کی آخری کڑی کوچھوکرواپس لوٹ چکے ہیں۔اس کھیل کے تیسرے کھلاڑی ہمارے مفاد پرست سیاستدان ہیں،ہم لوگوں کو بدقسمتی سے آج تک کوئی بے لوث اور کھری قیادت نہیں ملی، ہمارے سیاستدانوں نے ہر دور میں اقتدار کے لئے سمجھوتہ کیا،مسلم لیگیں اور پیٹر یا ٹیں بنائیں اور ہمارے سیاستدانوں نے ہمیشہ ڈکٹیٹروں کے ہاتھوں پر بیعت کی۔ یہ لوگ اسمبلی کے ایک ٹکٹ یا ایک جھنڈے کے لئے اپناایمان ،اپنا ضمیر،اپنا احساس اور اپنی عزت بیچتے رہے،افسوس صد افسوس خرید و فروخت کی اس منڈی میں اس وقت بھی ہمارے سیاستدان اپنی قبر کی اینٹوں کا سودا کر رہے ہیں اور ان کی پوری کوشش ہے مرنے سے پہلے اپنی قبر پر جھنڈا لگا لیں۔
کھیل کے چوتھے کھلاڑی اس ملک کے سرکاری ملازم ہیں، صدافسوس! نائب قاصد سے لیکرسیکرٹری تک اس ملک کا ہر سرکاری ملازم بزدلی اور مفاد کی کوکھ سے پیدا ہوا اور وہ زندگی کی آخری سانس تک مصلحت کی چھاتیوں سے دودھ پیتا رہا، افسوس ماسوائے چندافرادکے ،ہمارے سرکاری ملازموں نے ہر دور میں طوائفوں اور ڈیلروں کا کردار ادا کیا،یہ ہمیشہ کرائے کے قاتل ثابت ہوئے اور یہ لوگ71برس تک مفاد پرست حکمرانوں کے پوتڑوں پر عرق گلاب چھڑکتے رہے یہاں تک کہ گلاب بھی ختم ہوگیا او ر عرق بھی، آج جب ہماری عدلیہ نے انگڑائی لی ہے اورپہلی مرتبہ اس ملک میں عدلیہ نے عوامی امنگوں کوکچھ سہارابخشاہے تو اس وقت بھی افسوس ہماری بیورو کریسی کا ایمان نہیں جاگا، وہ آج بھی سچے اور جھوٹے اور کھرے اور کھوٹے میں تمیز نہیں کرسکی، آج ہمارے دفتروں میں 80لاکھ سے زائدسرکاری ملازم ہیں، ان میں 22ویں اور21ویں گریڈ کے 522/ افسر ہیں لیکن ان افسروں میں ایک بھی ایساسامنے نہیں آیاکہ جس نے حکمرانوں کے غلط فیصلوں کوماننے سے انکارکرتے ہوئے عدلیہ کادروازہ کھٹکھٹایاہو۔
ہمارے سرکاری ملازم وہ اہل کوفہ ہیں جو حضرت امام حسینؓ کی شہادت پر ماتم تو کرلیتے ہیں لیکن انہیں پانی کا ایک پیالہ نہیں دیتے اور اس کھیل کے آخری کھلاڑی ہمارے وہ کروڑوں عوام ہیں، اللہ تعالیٰ نے اس عوام کو شعور ور آزادی کی نعمت سے نوازا تھا لیکن افسوس انہوں نے آج تک جانوروں کی زندگی گزار دی ۔ان لوگو ں سے تو وہ گائے اور بھینس اچھی تھی جو دم سے اپنی کمر پر بیٹھی مکھی تو اڑا لیتی تھی یہ لوگ تو اتنا بھی نہیں کرسکتے۔اس ملک کی بدقسمتی دیکھئے ہمارے عوام کے سامنے ملک ٹوٹا اور جس شخص نے جب چاہا اور جو چاہا اس ملک کے ساتھ کیا لیکن ہمارے عوام نے اف تک نہ کی ۔
تبدیلی کانعرہ لگانے والے درپردہ پیپلزپارٹی سے نورا کشتی کرکے عوام کی نگاہوں میں دھول جھونک ر ہے ہیں۔ بدبختو خطرات ہمارے سرپرمنڈلارہے ہیں، ہم خانہ جنگی سے دو انچ دور بیٹھے ہیں اور تم ریموٹ کنٹرول سے کھیل رہے ہو۔