سچ تو مگر کہنے دو ! ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز
ابوظہبی میں ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی نے 14/فروری کو مندر کا افتتاح کیا جسے بعض ہندوستانی ٹی وی چیانلس نے 2024ء کے 24دنوں میں دوسرا چمتکار قرار دیا۔ یعنی 22جنوری کو ایودھیا میں مندر کا افتتاح ہوا اور اب ابوظہبی میں ایودھیا مندر ہی کی طرز پر 27ایکر اراضی پر سات سو کروڑ کی لاگت سے ایک ایسی مندر کا افتتاح ہوا جو 1400 ستونوں پر مشتمل ہے اور جس کی بلندی 108فیٹ ہے۔ ابوریخا کے مقام پر جو دوبئی اور ابوظہبی کے درمیان میں واقع ہے‘ اس مندر میں سات دیوتاؤں کی مورتیاں اور ایک ایمفی تھیٹر ہے جس میں گنگا جمنا سرسوتی کے سنگم کی جھلک نظر آتی ہے۔ سناتھن دھرم کے 8 اقدار کی نمائندگی کرنے والی 8مورتیاں باب الداخلہ پر لگائی گئی ہیں۔ وہیں اس کی تعمیر میں وہی ٹیکنالوجی استعمال کی گئی جو ایودھیا کی مندر میں استعمال کی گئی ہے۔ 10گرام سے 6ٹن تک کے وزنی پتھروں کو جوڑ کر یہ مندر کو تعمیر کیا گیا ہے۔ اس کے افتتاح پر ساری دنیا کے ہندو مسرور اور کم از کم برصغیر کے مسلمان حیران ضرور ہیں۔ ویسے حیرانی یا تعجب کی کوئی بات اس لئے نہیں ہے کہ جب ارض مقدس سعودی عرب میں کیاسینو، سنیما گھر، شراب خانے کھل سکتے ہیں‘ تو متحدہ عرب امارات میں کوئی مندر تعمیر ہوتا ہے تو کیا فرق پڑتا ہے۔ ویسے بھی متحدہ عرب امارات عیش پسند امیروں کی سب سے پسندیدہ تفریح گاہ بن چکا ہے۔
عجیب اتفاق ہے کہ وزیر اعظم کا دورہ متحدہ عرب امارات اور قطر ایسے وقت ہواہے جب ہندوستان کے اندرونی حالات ٹھیک نہیں ہیں۔ ہلدوانی میں بدترین مسلم کش فسادات، مسلم گھروں پر بلڈوزر چلانے کے واقعات کے بعد 300 سے زائد مسلم خاندانوں کی ہلدوانی سے بے سر و سامانی کی حالت میں ہجرت ہوئی ہے تو دوسری طرف کسانوں کا احتجاج جاری ہے۔
سوشیل میڈیا پر ابوظہبی کی مندر پر مختلف ردعمل کا اظہار ہورہا ہے کہ ہندوستان میں مساجد شہید کی جارہی ہے اور ایک عرب ملک میں مندر کا افتتاح ہورہا ہے۔ ایودھیا میں رام مندر کے افتتاح گیان واپی مسجد کے تہہ خانے میں پوجا پاٹ کی اجازت، قطر میں جاسوسی کے الزام میں 8ہندوستانی کی سزائے موت سے معافی اور رہائی اور اب ابوظہبی کے مندر کے افتتاح نے یقینی طور پر نریندر مودی کو ہندوؤں کا سب سے بڑا اور طاقتور لیڈر ثابت کیا ہے۔ اور الیکشن 2024ء میں ان کے لئے کامیابی کی راہیں آسان ہوتی جارہی ہے۔ یوں تو متحدہ عرب امارات میں اس مندرکا منصوبہ 1997ء میں بوچاسنواسی اکشر پرشوتم سوامی نارائن سنستھا نے تیار کرلیا تھا۔ مودی مقدر کے سکندر ہیں کہ پورا کریڈٹ انہیں مل گیا۔ 27 ایکر اراضی متحدہ عرب امارات حکومت نے عطیہ میں دی ہے۔ یقینا اس کی قیمت آج کئی ملین ڈالرس میں ہوگی۔ اسے ہند۔ یو اے ای دوستی کا مندر کہا جارہا ہے۔اس دوستی کا مثبت اثر ہندوستانی مسلمانوں پر کیا ہوگا یہ آنے والا وقت بتائے گا۔ سوشیل میڈیا پر مودی، یوگی اور دوسرے ہندو قائدین کو مشورہ دیا جارہا ہے کہ وہ ایک مسلم دیش کے جذبہئ خیر سگالی کا احترام کرے اور ہندوستانی مسلمانوں کے ساتھ اپنے رویے اور سلوک کو بہتر بنائے۔
مسٹرمودی نے یو اے ای میں اپنی تقریر کے دوران کہا کہ وہ یہاں آکر گھر جیسا محسوس کرتے ہیں۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ہندوستانی مسلمان اپنے وطن میں اپنے گھروں اور جان و مال کی سلامتی کے لئے بے فکر ہوسکیں کیوں کہ مختلف بہانوں سے مسلم عبادت گاہوں، مدارس کو نشانہ بنایا جارہا ہے اور ذہنی طور پر غیر متوازن حکمرانوں کی جانب سے مسلم گھروں پر بلڈوزر چلائے جارہے ہیں جس سے موجودہ اورنئی نسل خوف زدہ ہیں۔
جہاں تک ایک مسلم ملک میں مندر کی تعمیر کا تعلق ہے‘ ہندوستان کی آبادی اور عرب ممالک کے لئے ایک اہم مارکٹ ہونے کی وجہ سے اس کی اہمیت ہے۔ سفارتی تعلقات کی بنیاد پر رواداری کے جذبوں کو فروغ دینے کے لئے یقینی طور پر اقدام کیا گیا ہوگا۔ ویسے بھی جب ہندوستان میں مسلمانوں نے حکومت کی تھی‘ تب سینکڑوں منادر، گردوارے اور گرجاگھروں کے لئے زمینات بھی دیں ان کے لئے مالی امداد بھی فراہم کی۔ احمد شاہ ابدالی، اکبر، جہانگیر، شاہجہاں کے دور میں بے شمار منادر تعمیر ہوئیں۔
اورنگ زیب کو تنگ نظر ہندو اور انگریز مؤرخین نے ہندو دشمن حکمراں کے طور پر پیش کیا اور اس پر مندروں کو ڈھاکر مساجد تعمیر کرنے کا الزام لگایا۔ حالانکہ اورنگ زیب نے اَن گنت مندروں کو جاگیرات عطا کی۔ پجاریوں کو وظیفے مقرر کئے۔ہندوستانی مؤرخ پردیپ کشوروانی کے مطابق اَریل (الہ آباد) میں انہوں نے سومیشور مہادیو مندر کے لئے غیر معمولی گرانٹ دی تھی۔ کشور وانی کے مطابق گوہاٹی میں مسلم حکمرانوں نے جین مندر بھی تعمیر کروایا تھا۔
کشمیر کے حکمران زین العابدین جو ایک سنسکرت اسکالر تھے‘ جنہوں نے ”اوپنیشد“ کا فارسی میں ترجمہ کیا تھا۔ کئی مندر تعمیر کروائے۔
بنگال میں سلطان نذیر شاہ اور سلطان حسین شاہ نے مہابھارت اور بھگوت پوران کے بنگالی میں ترجمے کروانے میں اہم رول ادا کیا تھا۔
حیدرآباد کے نظام کے دور میں مسجدوں سے زیادہ منادر تعمیر ہوئے اور ان کے لئے جاگیرات اور فنڈس مختص کئے گئے۔ اودھ کے نواب صفدرجنگ نے نہ صرف ایودھیا میں کئی منادر تعمیر کروائے بلکہ خستہ مندروں کی تعمیر نو بھی کروائی ان کے جانشین شجاع الدولہ نے بھی 20ہیکٹرس اراضی ہنومان گڑھی کے لئے عطیہ کی تھی اور چترکوٹ، وارانسی، اُجین، الہ آباد کی مندروں میں موجود دستاویزات کے مطابق مسلم حکمرانوں نے عطیات اور جاگیرات سے نوازا تھا۔
لیکن کوئی بھی اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ بلکہ جہاں موقع ملا مسجد، آستانوں کو کسی نہ کسی مندر کی جگہ قرار دے کر اُسے شہید کرنے کے منصوبے بنائے جاتے ہیں۔ اگر مسلمانوں کی رواداری سے واقف ہونا ہے تو بشمبر ناتھ پانڈے کی کتاب ”اور مندر بول اٹھے“ ضرور پڑھ لینی چاہئے جس میں انہوں نے تاریخی حوالوں کے ساتھ مسلم حکمرانوں کے ذریعہ تعمیر کرائے گئے مندروں، گردواروں اور گرجاگھروں کی تفصیلات بیان کی ہیں۔
یو اے ای کے بعد دوسرے عرب ممالک میں بھی یہ سلسلہ شروع ہوگا اور کسے معلوم کہ کہاں کہاں باقاعدہ مندر موجود ہیں۔
جناح سے بھی مقبول لیڈر عمران خان
انور مقصود پاکستان کے بزرگ مگر ممتاز ترین طنز و مزاح نگار اور تھیٹر اور ٹیلی ویژن آرٹسٹ ہیں۔ معین اختر کے ساتھ ان کا ”لوز ٹاک“ پروگرام بے حد مشہور رہا۔ ہر ایک ایپیسوڈ میں پاکستانی معاشرہ پر بھرپور طنزکیا جاتا۔ اب بھی یہ یوٹیوب پر دیکھا جاسکتا ہے۔ حال ہی میں انہوں نے پاکستان کے مختلف شہروں میں ہونے والے لٹریری فیسٹول میں اپنی تقاریر اور اپنے مضامین سے ایک طرف پاکستانیوں کو قہقہے لگانے پر مجبور کیا تو دوسری طرف سنجیدگی سے اپنا محاسبہ کرنے پر بھی مجبور کیا۔ 86سالہ انور مقصود نے اپنی تقریر میں پاکستانی عوام سے معافی مانگی کہ وہ 70برس سے جھوٹ لکھتے رہے۔وہ جھوٹ یہ تھا کہ ”پاکستان ایک اسلامی ملک ہے‘ یہاں اسلامی نظام ہے‘ یہ تیزی سے ترقی کرنے والا ملک ہے‘ یہاں جمہوریت باقی ہے“۔ انہوں نے پھر کہا کہ پاکستان میں جو مہاجر تھے کہیں اور چلے گئے۔ سندھی تھے کہیں اور چلے گئے۔ صرف پاکستان میں فوج رہ گئی ہے۔جسے انہوں نے مشورہ دیا کہ وہ پرانے پاکستان کوملک ریاض کو بیچ دیں۔
واضح رہے کہ ملک ریاض پاکستان کے امیر ترین شہری ہیں‘ جنہوں نے بحریہ ٹاؤن بسایا۔ انور مقصود عمران خان کے سب سے بڑے مداح ہیں اور شریف خاندان کے سب سے بڑے ناقد جن پر تنقید کرتے ہوئے کہتے ”وہ لوگ جنہوں نے سردی گرمی صرف کھڑکیوں سے دیکھی ہو‘ اور بھوک صرف کتابوں میں پڑھی ہو وہ عام آدمی کی قیادت نہیں کرسکتے۔ انور مقصودنے لکھا اور کہا ہے کہ عمران خان قائد اعظم محمد علی جناح سے بھی زیادہ بڑی لڑائی لڑرہا ہے۔ کیوں کہ انگریز بے غیرت نہیں تھے۔ یعنی ان کا اشارہ شریف خاندان کی بے غیرتی کی طرف تھا۔
پاکستان کے الیکشن میں جو کچھ ہوا وہ تاریخ کا سب سے بدترین سیاہ باب ہے۔ عمران خان جیل میں رہ کر بھی اکثریتی موقف حاصل کرنے میں کامیاب رہے اور ان کے مخالفین جنہیں فوج کی سرپرستی اور پشت پناہی حاصل ہے‘ کمزور موقف کے باوجود بھی حکومت بنالیں گے۔ یہ پاکستان کے کروڑوں عوام کے ساتھ دھوکہ اور فریب ہے۔ اور اس کا خمیازہ پاکستانی فوج کو بھی بھگتنا پڑے گا اور جو مسند اقتدار پر بیٹھیں گے انہیں ہر روز نئے مسائل سے دوچار ہونا پڑے گا۔
عمران خان پاکستانیوں کی اکثریت کے پسندیدہ لیڈر بن کر ابھرے ہیں۔ صد فیصد عوام اس بات پر متفق ہیں کہ عمران خان کم از کم شریف اور زرداری کی طرف بدعنوان اور بے ایمان نہیں ہیں۔ اسے تو برسوں پہلے ہی عزت، دولت، شہرت، بیرونی ممالک کی اعزازی شہریت سب کچھ مل چکی تھی مگر اس نے اپنے ملک کو واقعی اسلامی ملک بنانے کا بیڑہ اٹھایا تھا۔ مغربی طاقتوں کا غلام بننے کے بجائے ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ان سے برابری کا دعویدارتھا جس نے پاکستان کو مدینہ جیسی ویلفیر اسٹیٹ بنانے کا خواب دیکھا تھا۔ جس نے اقوام متحدہ میں مظلوم فلسطینیوں کے لئے آواز اٹھائی اور امریکہ کو افغانستان کے خلاف فوجی اڈہ دینے سے قطعی انکار کیا تھا۔ جس نے نہ صرف اپنی تمام دولت، جائیداد اپنے ملک کے نام کردی تھی بلکہ بیرونی ملک میں مقیم دولت مند پاکستانیوں کی مدد سے اپنے ملک کو عالمی بینک کے قرض کے بوجھ سے آزاد کرنے کی کامیاب کوشش کی تھی۔
شاہ فیصل، صدام حسین، ذوالفقار علی بھٹو کی طرح عمران خان کو راستے سے ہٹایا گیا۔ اس بات کی کامیاب کوشش کی گئی کہ اسے دوبارہ وزیر اعظم نہ بننے دیا جائے۔ کرسی سے اُتارا گیا۔ جیل میں ڈالا گیا۔ تحریک انصاف پارٹی کی انتخابی نشان کو برخواست کیا گیا۔ پارٹی کے قائدین کو مجبور کیا گیا کہ وہ عمران خان سے لاتعلقی اختیار کرے۔ ہزاروں کارکنوں کو گرفتار کیا گیا۔ اس کے باوجود عمران خان نے ہمت نہیں ہاری۔ جیل میں ہر قسم کی ذہنی اور جسمانی اذیت برداشت کی۔ اس کی فولادی عزائم کے آگے پاکستانی فوج اور اسٹابلشٹمنٹ بے بس ہوگئے۔ انتخابی نتائج کے لحاظ سے 180سے زائد نشستوں پر عمران خان کے حمایتی امیدوار کامیاب ہوئے مگر راتوں رات نتیجہ تبدیل کیا گیا۔ بلاول اور شریف گروپ کی حکومت تشکیل دینے کی تیاری ہورہی ہے۔ پاکستان جو معاشی بدحالی کا شکار ہے‘ خانہ جنگی کا شکار ہوگا۔ کیوں کہ بے ایمانی سے حکومت کرنے والے عوام کے درمیان آنہیں سکتے۔ عمران اقتدار میں نہ ہوتے ہوئے بھی دلوں پر راج کرے گا۔ ایک پاکستانی بزرگ شہری نے ٹی وی چیانل سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ”عمران خان کے لئے اب وزیر اعظم کا عہدہ بہت چھوٹا ہے‘ وہ اس مقام پر پہنچ چکا ہے جہاں عہدہ اپنی اہمیت کھودیتا ہے“۔ وہ جناح سے بھی بڑا قائد بن چکا ہے۔اور اس بزر گ کی بات میں بڑی سچائی ہے کیوں کہ محمدعلی جناح یقینا بانی پاکستان ہیں اور اس لحاظ سے ان کی قدر و منزلت ہے۔ عمران خان نے پاکستان کو مغربی طاقتوں کی غلامی سے نجات دلانے اورمعاشی آزادی کے لئے 25سال تو سیاسی میدان میں جدوجہد کی۔ اس سے پہلے ایک کرکٹر کی حیثیت سے بھی وہ اپنے ملک کا ہیرو رہا۔ کچھ لوگ ان کی نجی زندگی پر انگلی اٹھاتے ہیں تو جناب جناح صاحب کی نجی زندگی بھی کچھ بے داغ نہیں تھی۔