Thursday , November 21 2024
enhindiurdu

شاہین اردو (حصہ اول)

مرتب : مصطفی علی سروری
(اسوسی ایٹ پروفیسر شعبہ ترسیل عامہ و صحافت مانو)
مبصر : ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی
(پرنسپل گورنمنٹ ڈگری کالج ظہیر آباد)

ہندوستان میں اردو سے اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے جو یونیورسٹیاں قائم ہیں ان میں حیدرآباد دکن میں واقع مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی اب عالمی شناخت بنا چکی ہے۔ اس یونیورسٹی کے شعبہ ترسیل عامہ و صحافت سے وابستہ اسوسی ایٹ پروفیسر جناب مصطفی علی سروری صاحب ایک مثالی استاد ہیں۔ جو نہ صرف اپنے شعبہ میں طلباء کو صحافت پڑھاتے ہیں بلکہ خود صحافت سے وابستگی کا ثبوت دیتے ہوئے ہر اتوار روزنامہ سیاست اور منصف میں اہم سماجی موضوعات پر کالم لکھتے ہیں۔ ان کے کالم قومی و بین الاقوامی سطح پر مقبول ہیں۔
مصطفی علی سروری صاحب کی صحافت اور دیگر موضوعات پر لکھی گئی اور مرتبہ اب تک ایک درجن سے زائد کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ حال ہی میں انہوں نے کووڈ دور میں تعلیم کے مسائل پر ایک مرتبہ کتاب شائع کی تھی۔ جس میں انہوں نے عالمی وبا کووڈ کے دوران طلباء کی تعلیم متاثر ہونے پر ملک بھر سے مانو کے مختلف طالب علموں سے تاثراتی مضامین لکھوا کر کتابی شکل میں شائع کیے تھے۔ ان کی تازہ تصنیف ”شاہین اردو(حصہ اول“سال2023نوبل انفوٹیک حیدرآباد کے زیر اہتمام نئی دہلی سے شائع ہوئی ہے۔کتاب کے پیش لفظ میں اس کتاب کے تعارف اور اغراض و مقاصد بیان کرتے ہوئے مصطفی علی سروری لکھتے ہیں کہ”گزشتہ بارہ تیرہ برسوں کے دوران مولانا آزاد نشینل اردو یونیورسٹی کا اور شعبہ ترسیل عامہ و صحافت کا تعارف کروانے طلبہ برادری میں شعور بیداری کے لیے پروگرام منعقد کرنے کے دوران عوام الناس اور خاص کر طلبہ برادری نے میری ہر اس تحریر اور تقریر میں دلچسپی کا اظہار کیا جس میں میں نے مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے فارغین کی کامیابیوں کا ذکر کیا اس پس منظر میں مجھے یہ ایک بہترین طریقہ لگا جس میں ہم مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے فارغین کی کامیابیوں پر مبنی تجربات اور تحریروں کو جمع کروں۔۔انجمن طلبائے قدیم مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی المونی اسوسی ایشن نے ڈین المونی آفس کے ساتھ مل کر ایک سمینار منعقد کیا جو دسمبر2021ء میں سی پی ڈی یو ایم ٹی آڈیٹوریم میں منعقد کیا گیا۔انجمن طلبائے قدیم کے سالانہ اجلاس کے ساتھ ساتھ سمینار کے انعقاد کا مقصد مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے فارغین کی جدوجہد اور کامیابی کو ضبط تحریر میں لانا تھا۔ آج شاہین اردو کے نام سے کتابی شکل میں جو مواد آپ حضرات پڑھ رہے ہیں بنیادی طور پر اسی سمینار میں پڑھے گئے مقالوں کا حاصل ہے“(ص۹۔۸) اپنے پیش لفظ کے آخر میں سروری صاحب نے اس امید کا اظہار کیا کہ اردو میں فاصلاتی اور روایتی طرز پر تعلیم فراہم کرنے کے لیے1998ء میں پارلیمنٹ کے ایک ایکٹ کے تحت قائم کردہ اردو یونیورسٹی سے استفادے کے لیے آنے والے طلباء کی رہبری کے لیے یہ کتاب موثر ثابت ہوگی اور اردو زبان کا فروغ ممکن ہوگا۔
مصطفی علی سروری صاحب نے اس کتاب”شاہین اردو(حصہ اول) میں جن طلبائے قدیم کے تاثراتی مضامین شامل کیے ہیں ان میں محمد اعجاز الدین احمد عاجز اردو آفیسر حکومت تلنگانہ‘ مرزا غنی بیگ سب ایڈیٹر نیوز18‘ ڈاکٹر تبریز حسین تاج‘ ڈاکٹر محمد عبدالعلیم گیسٹ فیکلٹی نظامت فاصلاتی تعلیم مانو‘ ظہور حسین بٹ‘ سید عبدالقیوم جونیر لیکچرر‘ میر فراست علی خان جدہ سعودی عرب‘ ڈاکٹر روبینہ اسٹنٹ پروفیسر تعلیم و تربیت مانو‘عبدالرحمٰن پاشا حیدرآباد‘ ہاشمی شعیب قمر الدین سپرنٹنڈنٹ ایگزیکٹیو آفیسر مہاراشٹرا اردو ساہتیہ اکیڈیمی منترالیہ ممبئی‘ محمد عبدالودود ریسرچ اسکالر‘ ذیشان سارہ اسٹنٹ پروفیسر اسلامک اسٹڈیز مانو‘محمد کیف‘ ابرار احمد جموں‘ سید محسن عثمانی دہلی‘ محمد خواجہ مجتہد الدین اسکول اسسٹنٹ سدی پیٹ‘ ڈاکٹر ابو مظہر خالد صدیقی ڈائرکٹر جودہ انفوٹیک پرائیوٹ لمیٹیڈ‘ ڈاکٹر شرافت حسین کو فاؤنڈر اینڈ ڈائرکٹر ٹچ دبئی‘ مندوزی محفوظ علی خان سینیر پروسیس اسوسی ایٹ انفوسیس‘عارض امتیاز‘ سید انوار اللہ حسینی ڈیٹا سائنس انجینیرایپل‘ افسر بیگم گورنمنٹ ٹیچر‘ اسد نقوی پراجیکٹ انجینر ویپرو‘ عبدالقادر ٹیم مینیجر امیزان انڈیا‘ خالد باقلیح‘ثمر آفرین‘ شاہد بابا‘ اظہر النساء گورنمنٹ ٹیچر حیدرآباد‘ محمد وکیل احمد‘ ڈاکٹر مزمل احمد بابااور شجاع الدین نظام الدین چھبر بن شامل ہیں۔ مانو سے فارغ ان طلباء کے بیشتر نام اب ہمارے سماجی حلقوں میں شہرت حاصل کر رہے ہیں۔ کسی بھی یونیورسٹی خاص طور سے اردو یونیورسٹی کی کامیابی کا ایک پیمانہ یہ بھی ہے کہ دیکھا جائے کہ اس یونیورسٹی کے فارغین حصول تعلیم کے بعد اپنی عملی زندگی میں کس قدر کامیاب ہیں۔ شاہین اردو کتاب میں اپنی کامیابیوں کے تذکرے کے ساتھ جو اسکالر شامل ہوئے ہیں ان کے مضامین کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ اس یونیورسٹی نے نہ صرف انہیں روزگار سے جڑنے کی صلاحیت فراہم کی ہے بلکہ جس زبان میں انہوں نے یونیورسٹی سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی ہے اس میں اظہار خیال کی صلاحیت بھی دی ہے۔ تلنگانہ میں حکومت کی جانب سے اردو مترجمین کے تقررات عمل میں لائے گئے تھے۔ اس ملازمت پر منتخب ہونے والے محمد اعجاز الدین احمداپنے مضمون ”اردو ذریعہ تعلیم ہماری کامیابی کا راز“ میں اردو کے تعلق سے لکھتے ہیں ”اردو وہ زنجیر ہے جو بلا لحاظ مذہب وملت سب کو باندھ لیتی ہے۔یہ وہ زلف ہے جس کے اسیر صرف میر و غالب ہی نہیں بلکہ چکبست و دیاشنکر بھی رہے ہیں۔اردو عہدہ نہ دے دولت نہ دے لیکن زندگی دیتی ہے“۔ (ص ۸۱) اعجاز الدین احمد نے اردو کے حوالے سے بڑی بات کی ہے کہ اردو تہذیب و زندگی دیتی ہے جینے کا سلیقہ سکھاتی ہے۔اس کتاب میں شامل مشمولات اور ان کے لکھنے والوں کے عہدوں سے پتہ چلتا ہے کہ زیادہ تر فارغین مانو پیشہ تدریس سے یا تو خود اردو یونیورسٹی سے وابستہ ہوگئے یا سرکاری اسکولوں یا کالجوں میں منتخب ہوئے۔کچھ میڈیا گھرانوں سے جڑ گئے تو کچھ ملک و بیرون ملک آئی ٹی اور دیگر شعبوں میں ملازم ہوئے اور جب انہیں تاثرات پیش کرنے کے لیے کہا گیا تو لکھنے کے قابل بھی رہے۔ اس کتاب میں مضامین لکھنے والوں نے اردو ذریعے تعلیم اور مانو میں تعلیم کو اپنے لیے باعث فخر قرار دیا ہے جو یونیورسٹی میں آنے والے طالب علموں کے لیے رہبری کا باعث ہوگا۔اردو یونیورسٹی کے شعبہ صحافت سے فارغ اور عملی صحافت میں کارہائے نمایاں انجام دینے والوں میں مرزا غنی بیگ اور رحمٰن پاشا کے نام اہم ہیں۔نیوز 18سے وابستہ مرزا غنی بیگ نے اپنے مضمون”اردو نے ہی مجھے ترقی و شہرت عطا کی ہے“ میں اپنے صحافتی سفر اور اردو سے وابستگی کو تفصیلی طور پر پیش کیا ہے۔ مرزا غنی بیگ کی زندگی کے حالات اردو صحافت کو اپنا پیشہ اختیار کرنے والے نئے صحافیوں کے لیے مشعل راہ ثابت ہوں گے۔مرزا غنی بیگ نے لکھا کہ انہوں نے فاضل حسین پرویز کی زیر ادارت گواہ‘راشٹریہ سہارا‘ ای ٹی وی اردو کے بعد نیوز 18ڈاٹ کام پر ملازمت کی ہے۔ اپنی موجودہ ذمہ داری کے بارے میں لکھتے ہیں کہ”نیوز 18ڈاٹ کام پر خدمات انجام دینے کے دوران مجھے اس بات کا اعتراف ہوتا ہے کہ کسی بھی اردو پورٹل پر کام کرتے ہوئے ہمیں نہ صرف اپنی ویب سائٹ بلکہ اس بات کا بھی خیال رکھنا ہوتا ہے کہ کونسی خبر کونسے پلاٹ فارم سے قاری کو اپنی ویبس سائٹ پر لاسکتی ہے۔ اب میں نیوز18اردو کی ڈیجیٹل ٹیم کی قیادت کر رہا ہوں ساتھ ہی ساتھ2020سے میں نے انگریز میں لکھنا شروع کیا۔۔ پہلے میں نے اردو کے ساتھ ساتھ تلگو زبان میں مہارت حاصل کی ہے بعد میں میں نے انگریزی زبان سیکھی اور اب ہندی زبان سیکھ رہا ہوں“ (ص۹۲) مرزا غنی بیگ اردو یونیورسٹی سے فارغ ایک محنتی اور مثالی صحافی ہیں۔ ان کے احوال پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اردو صحافیوں کو دیگر زبانوں پر بھی عبور رکھنا کتنا ضروری ہے اور اپنے قلم سے کس طرح ہم اپنے موافق حالات بنا سکتے ہیں۔ڈاکٹر تبریز حسین نارائن پیٹ محبوب نگر سے تعلق رکھنے والے اردو کے ایک فعال صحافی ہیں جو ان دنوں صحافتی حلقوں میں شہرت حاصل کر رہے ہیں۔ اردو ذریعے تعلیم کے تعلق سے اپنے خیالات پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں ”مادری زبان میں تعلیم حاصل کرنے سے سمجھنے مین انتہائی آسانی ہوتی ہے۔ اور یہی کامیابی کی اصل کلید ہے۔ لیکن عصر حاضر میں اپنے آپ کو منوانے کے لیے یہ کافی نہیں ہے اردو زبان کے ساتھ دیگر زبانوں پر عبور حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔کیوں کہ ہمیں اپنے آپ کو زمانے کی اشد ضرورت بنانے کے لیے ایسا کرنا ضروری ہے۔ اردو زبان سے تعلیم حاصل کرنے والے طلبا اس لیے زیادہ کامیاب ہوتے ہیں کیوں کہ ان کے اندر سلیقہ اور طریقہ ہوتا ہے“(ص ۴۳) تبریز حسین نے لکھا کہ وہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سے وابستہ ہیں اور منصف میں کالم لکھ رہے ہیں۔سری نگر کشمیر کے ظہور حسین بٹ”میں اور میری یونیورسٹی“ عنوان سے اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کتاب شاہین اردو میں لکھتے ہیں کہ”اردو یونیورسٹی کے کیمپس اور شعبہ ترسیل عامہ و صحافت نے میرے اندر یہ تحریک پیدا کردی کہ مجھے اردو میں بھی لکھنا چاہیے میں نے کشمیر سے شائع ہونے والے معروف روزنامہ ’کشمیر عظمی“ کیلئے فورٹ نائٹلی کالم لکھنا شروع کیا۔ میرے کالم منصف‘سیاست‘انقلاب اور راشٹریہ سہارا جیسے موقر روزناموں میں شائع ہوتے رہے۔ میرے اندر اردو میں لکھنے کا ولولہ اور تخلیقی صلاحتیں پیدا کرنے کیلئے اس یونیورسٹی کے شعبہ ترسیل عامہ و صحافت کے اساتذہ کا ایک ناقابل فراموش کردار ہے“۔ ظہور حسین بٹ نے یو این آئی میں بھی کام کیا۔عبدالرحٰمن پاشا مانو کے شعبہ ترسیل عامہ وصحافت سے فارغ ہونے والے ایک اور با صلاحیت صحافی ہیں ان دنوں وہ ای ٹی وی نیوز 18میں کام کرنے کے بعد فری لانس صحافی کے طور پر مختلف تہذیبی و ثقافتی پروگراموں کی رپورٹنگ کر رہے ہیں۔نوجوان ہیں اردو زبان پر عبور ہے اور انٹرویو صحافت میں سوالات کرنے کی مہارت رکھتے ہیں۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ اردو یونیورسٹی کی تعلیم نے ان کے جوہر نکھارے اورترقی کی راہیں ہموار کیں۔

About Gawah News Desk

Leave a Reply