موبائل انسانی ایجاد کا عظیم شاہکار ہے، یہ معاون و مددگار ہے، دلدار ہے، رازدار ہے، امانتدار ہے، رسوخ دار ہے، شاندار ہے، طابع دار ہے، تہ دار ہے، طرح دار ہے، جان دار ہے اور آج انسانی زندگی کا اسی پر دارومدار ہے۔ دوسری جانب یہ جی کا جنجال ہے، نیرنج جمال ہے،نیرنگ خیال ہے، وقت کا پامال ہے، مکڑی کا جال ہے، دال پر دال ہے، ملال ہی ملال ہے۔ یہ ناک کا بال ہے، جان کا وبال ہے۔
بھلا ہو سوشل میڈیا کا جس نے ہر فرد کو رپورٹر اور فوٹو گرافر بنا دیا ہے۔ سوشل میڈیا میں واٹس اپ یونیورسٹی تو دن دوگنی رات چوگنی ترقی کررہی ہے۔ یہاں سر درد سے لیکر سرطان تک کا علاج دستیاب ہے۔ بنی نوع اقسام کے تیل یہاں مل جائیں گے ، تیل دیکھو تیل کی دھار دیکھو۔ مالش خود بھی کرسکتے ہیں اور دوسروں سے کرا بھی سکتے ہیں۔ آپ مانگیں یا نہ مانگیں یہاں بن مانگے کا اجالا خوب ملتا ہے، مشورے ملتے رہیں گے ،نسخے آتے رہیں گے، وسوسے پیدا کئے جاتے رہیں گے، صحیفے نازل ہوتے رہیں گے۔
پتہ نہیں واٹس اپ گروپ سے آپکو سابقہ پڑا ہے یا نہیں۔ اگر آپ واٹس اپ استعمال کر رہے ہوں تو پھر کوئی ایسا نہیں جو گروپ گروپ نہ کھیلتا ہو۔ اس کھیل میں لطف ہی لطف ہے کیونکہ کچھ کرنا تو نہیں ہے ، بس انگلی ہی کرنی ہے اور انگلی کرنے میں جو مزہ ہے ،وہ مزہ اور کہاں۔ دوستوں اور بہی خواہوں کی کرم فرماءکا نتیجہ ہے کہ میں تو کم سے کم پچیس – تیس گروپس کا ممبر تو ضرور ہوں۔اس پر طرہ یہ کہ کچھ گروپس کا ایڈمن بھی بنا دیا گیا ہوں۔ واٹس اپ گروپس کءطرح کے رواج میں ہیں جیسے ادبی، تعلیمی،سماجی، فلاحی، دفتری، کاروباری، سیاسی، اخباری، بیکاری، شکاری ،استواری، تفریحی ، خریداری، مذہبی ،ثقافتی ، چمچہ گیری وغیرہ۔ ہر گروپ کا اپنا ایک خاص مقصد ہے مگر نتیجہ یکساں ہے۔ کتنا بھی بار گزرے ایک ہی طرح کے پیغامات، ایک ہی طرح کے ویڈیوز دیکھنے کو مل جاتے ہیں۔ اردو کے نام پر بےشمار گروپ مل جائیں گے ، اس سے اردو کا کتنا بھلا ہورہا ہے اس کا اندازہ تو مشکل ہے لیکن اردو کچھ لوگوں کا بھلا ضرور کررہی ہے۔ ایسے موقع پر مجھے خورشید افسر بسرانی کا یہ سخت گیر شعر یاد آجاتا ہے
اب اردو کیا ہے ایک کوٹھے کی طوائف ہے
مزہ ہر اک لیتا ہے محبت کون کرتا ہے
ایک گروپ بنایا گیا اردو کانفرنس کے انعقاد کی غرض سے۔ اس گروپ کو دیکھیں تو وہاں اساتذہ کی تقرری کے عمل اور تاریخ شاہی پر بحث چل رہی ہے۔ اتنا تو قابل برداشت ہے مگر وہاں آپکو خودنماءو خود ستانی بھی جھیلنا پڑے گا، کچھ افراد اپنی قابلیت کا لوہا منوانے کےلئے جدوجہد کررہے ہیں ۔ کانفرنس یہاں ہی شروع ہوگءہے۔ گروپ کا مقصد ہی فوت ہو کر رہ گیا ہے۔ ایک ہمارے دوست کو جب جوش چڑھا تو راتوں رات انہوں نے ایک ادبی گروپ کی داغ بیل ڈالی اور مجھے خوشخبری دی کہ آپکو بھی ایڈمن بنا دیا ہے، سوچیں یہاں کتنی جلدی ترقی مل جاتی ہے۔ واٹس اپ گروپس پر یہ آسانی بھی موجود ہے کہ آپ کے پیغامات ایک ساتھ ایک ہی وقت میں کئی لوگوں تک پہنچ سکتے ہیں مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ مرغ و ماہی اور بریانی اڑانے کی تصویر و ویڈیو گروپ میں شیئر کریں تاکہ دوسروں کے حواس خمسہ پھڑک اٹھیں۔ اب تو واٹس اپ گمراہ کرنے اور بلیک میلنگ کرنے کا ذریعہ بھی بن گیا ہے۔ کئی لیڈران و صاحبان اس چکر میں اپنا وقار گنوا چکے ہیں۔ آج کوئی بھی محفوظ نہیں ہے، ہر بشر کو ہر بشر سے خطرہ ہے۔ ہر جانب کیمرے کی آنکھوں کی زد میں ہم جی رہے ہیں۔
ایک بار ایک صاحب کی بیگم اپنے شوہر سے جھگڑا کر کے گھر سے نکل گئیں۔ شوہر کے دل میں پیار نہیں بلکہ خوف پیدا ہوا کہ ایسا نہ ہو یہ خود تو مرے اور ہمیں پابند سلاسل کرجائے۔ انہوں نے فوراً اپنے واٹس اپ گروپ میں یہ خبر ڈال دی۔پھر کیا تھا بےچارہ موبائل آنسوو¿ں میں ڈوب گیا، مشوروں کا سیلاب رونما ہوگیا، جتنے لوگ اتنی باتیں۔ کوئی کہتا مغرب جاو¿ ، کوءکہتا مشرق ، کوئی کہتا تالاب و کنواں کی جانب دوڑو، کوءکہتا ریل کی پٹری پر بھی نظر رکھو۔ ایک نے تو یہ مشورہ بھی دیا کہ اپنے دوستوں کے گھروں کو بھی جھانک لو۔ یہ الگ بات ہے کہ کوئی بھی اپنی بیگم کے خوف سے دوسرے کی بیگم کی تلاش میں گھر سے باہر نہ نکلا۔ بیگم تو تین دن میں گھر واپس آگئیں مگر یہ خبر آج تک مختلف گروپس میں گردش کررہی ہے اور لوگ اس بہانے ہر خاتون پر اپنی نظریں جمائے رہتے ہیں اور اسکی تصویر سے میلان کرتے رہتے ہیں۔ کچھ لوگ تو واٹس اپ پر اس طرح جھگڑا کرتے ہیں جیسے ساس، بہو جھگڑا کرتی ہیں۔ کچھ لوگ میاں،بیوی کی طرح جھگڑتے ہیںیعنی صبح جھگڑے اور شام میں پھر دوستی کرلیتے ہیں۔ کبھی کبھی تو جھگڑے کی نوعیت کافی خطرناک رنگ اختیار کر لیتی ہے، ایڈمن کو مداخلت کرنا پڑتی ہے۔ اگر بات بن گئی تو ٹھیک ، نہیں تو سمجھدار پتلی گلی سے نکل لیتے ہیں یا پھر ایڈمن خود انہیں باہر کا راستہ دکھاتا ہے۔ اگر بندہ اپنی غلطی پر شرمندہ ہوجاتا ہے یا ایڈمن رحم دل ہے تو پھر کچھ دنوں کے بعد گھر واپسی ہوتی ہے۔ ویسے گھر واپسی سے محتاط رہنے کی ضرورت ہے، کہیں تیاگی نہ بن جائیں، گھر کے نہ گھاٹ کے۔واٹس اپ گروپس ایک اکھاڑہ اور دنگل کی صورت میں بھی سامنے آتے ہیں۔ چند لوگ تو میدان جنگ کی طرح برسر پیکار رہتے ہیں۔ کچھ حضرات تو اپنی غلطی ماننے کو تیار ہی نہیں ہوتے۔ کچھ لوگ تو گروپ چھوڑنے کی دھمکی بھی دیتے ہیں اور چھوڑ بھی دیتے ہیں۔یہ الگ بات ہے کہ بڑے بڑے حادثوںکے بعد بھی آج کے با ضمیرنیتا اپنی کرسی چھوڑ نے کو تیار نہیں ہوتے ہیں۔ آج کے دور میں ایٹمی اسلحہ اور میزائل کی ضرورت ہی نہیں ہے ،واٹس اپ گروپ بنا دیں ،ساری جنگ یہاں ہی لڑ لی جائے گی۔
دوستوں! صبح ہوتے ہی سارے گروپس پر صبح بخیر کے پیغامات ایسے آنے شروع ہوجاتے ہیں جیسے بادشاہ سلامت گوہر لٹا رہے ہوں۔اگر آپ بیس تیس گروپس کے ممبر ہوں تو پھر ان گروپس کے پیغامات دیکھنے ، سمجھنے اور جواب دینے میں ہی آپکا وقت نکل جائے گا اور پھر آپ کسی کام کے نہیں رہ جائیں گے۔
آپ پریشان نہ ہوں ، نہ ہی کسی کی دل شکنی کریں، گروپ میں بنے رہیں مگر گروپ کی جانب آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھیں جیسے سرکاری دفاتر میں لوگ کرسی پر بیٹھے تو ہوتے ہیں لیکن مجسمہ بنے ہوئے۔ جب کبھی طبیعت کریے گروپ گروپ کھیل لیں، اپنی طبیعت بحال کریں یا کسی اور کا دن خراب کریں۔ جب کبھی واٹس اپ کے جعل یا جال میں الجھ جائے تو کلیم عاجز صاحب کا یہ شعر کہتے ہوئے میدان سے باعزت رخصت ہوجائیں :
ہم خاک نشیں تم سخن آراے سر بام
پاس آکے ملو دور سے کیا بات کرو ہو
Check Also
Telangana Family Digital Cards Pilot Project Begins Today: All You Need to Know
The Telangana Government has launched a pilot project for issuing Family Digital Cards (FDC) to …
CM Revanth Reddy Calls for Unity and Secularism at ‘Prophet for the World’ Book Launch
Hyderabad, September 14: Telangana Chief Minister A. Revanth Reddy stressed the need for unity and …