سچ تو مگر کہنے دو! ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز
آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کی تاسیس کے 50ویں برس‘ صدر کی حیثیت سے ممتاز عالم دین، فقیہ العصر مترجم اور مفسر قرآن مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کا بلامقابلہ انتخاب فال نیک ہے‘ایک ایسے وقت جبکہ ہندوستانی مسلمان کئی مسائل سے دوچار ہیں۔ اس باوقار ادارہ کے منصب جلیلہ پر مولانا رحمانی کا انتخاب اس لحاظ سے منصفانہ ہے کہ یہ ایک غیر سیاسی شخصیت ہیں‘ اپنے علمی، ملی اور دینی خدمات کے لئے عالم اسلام میں قدر و منزلت اور احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔ اگرچہ کہ ان کے انتخاب پر سوشیل میڈیا پر واٹس اَپ یونیورسٹی کے فارغ التحصیل اور فیس بک یونیورسٹی کے پوسٹ گریجویٹس نے بڑی تنقید کی ہے۔ کسی کو اس بات پر اعتراض ہے کہ مسلم پرسنل لاء بورڈ پر بھی خاندانی تسلط کا سلسلہ جاری ہے۔ ان کا اشارہ غالباً حضرت مولانا مجاہد الاسلام قاسمیؒ کی طرف ہے جو مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کے چچا تھے۔ کسی کو شکایت ہے کہ مسلم پرسنل لاء بورڈ پر شمالی ہند کے مسلمانوں کا ایک بار پھر قبضہ ہوگیا ہے۔ جنوبی ہند کو نظر انداز کیا گیا۔ کسی نے ان کے مسلک پر انگشت نمائی کی۔ کسی کو اس بات کی فکر ہے کہ آخر بہار سے تعلق رکھنے والے ایک عالم دین نے حیدرآباد میں کس طرح سے ایک غیر معمولی معیار کی درسگاہ یا جامعہ (المعہدالعالی الاسلامی) قائم کرلی۔ کسی کو ان کے بینک بیالنس کی فکر ہونے لگی۔ بہرحال! ان تنقیدی ریمارکس سے ان عاقدین کی کم علمی، نااہلی کا اندازہ ہوجاتا ہے اور ان کے الفاظ چیخ چیخ کر ان کے حاسد ہونے کی گواہی دے رہے ہیں۔ مسلم پرسنل لاء بورڈ کی کارکردگی پر بھی نکتہ چینی کرتے ہوئے اس کے وقار کو متاثر کرنے کی بھی کوششیں کی جارہی ہیں۔ جانے یہ کون لوگ ہوتے ہیں‘ انہیں اس بات کا بھی احساس نہیں ہوتا کہ مسلم پرسنل لاء بورڈ بہرحال ہندوستانی مسلمانوں کے بیشتر مسائل کی یکسوئی کرے یا نہ کرے‘ ارباب اقتدار کے سامنے ڈٹ کر کھڑا تو ہوجاتا ہے۔ ارباب اقتدار کی فرعونیت کی وجہ سے بعض محاذوں پر خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی مگر مسلمانِ ہند کی ذہن سازی‘ ان کے شعور کی بیداری مسلم پرسنل لاء بورڈ کے رول کو نظر انداز یا فراموش نہیں کیا جاسکتا۔
گزشتہ پچاس برس کے دوران مسلم پرسنل لاء بورڈ کی صدارت پر ایسے جید علماء و اکابر فائز رہے جن کے اخلاص، علمی لیاقت، ملت کے لئے تڑپ اور عالم اسلام میں ان کی قدر و منزلت پر کسی کو نہ تو اعتراض ہوسکتا ہے نہ کسی قسم کا شک و شبہ۔ کیوں کہ ان ہستیوں نے دین اسلام اور ملت اسلامیہ کے لئے اپنے آپ کو وقف کردیا تھا۔ مولانا خالد سیف اللہ رحمانی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہیں۔ جنہیں صلاحیت، قابلیت، علمیت، فراست و بصیرت ورثے میں ملی ہے۔ انہوں نے ایک ایسے گھرانے میں آنکھ کھولی جہاں کا ہر فرد اسلام کا سچا سپاہی رہا۔ ان کی پرورش اُن خواتین کی آغوش میں ہوئی جن کے بارے میں یہ یقین کے ساتھ کہا جاتا رہا کہ ان خواتین اپنے بچوں کی ایسی تربیت وذہن سازی کی کہ وہ آگے چل کر اپنی قوم کے رہنما بن سکیں۔ ایسے اساتذہ کرام کے آگے انہوں زانوئے ادب تہہ کیا جواپنے وقت کے مجاہد بھی تھے اور غازی بھی۔ جنہوں نے کفر و الحاد اور انگریز سامراجیت کے تسلط، ان کی اسلام دشمنی کے ماحول میں چراغ دین اسلام کو روشن رکھا۔ اور ایسے معاصرین کا ساتھ ملا جو اپنی اپنی جگہ اپنی منفرد پہچان کے حامل ہیں۔ مولانا خالد سیف اللہ رحمانی بلاشبہ شمالی ہند سے تعلق رکھتے ہیں۔ مگر حیدرآباد کو انہوں نے اپنا وطن ثانی بنایا جبکہ وہ نہ صرف ہندوستان بلکہ عالم اسلام کا اپنے آپ کو شہری کہہ سکتے ہیں۔ کیوں کہ کئی عرب ممالک ان کی خدمات سے مستفید ہورہے ہیں۔
نوجوانی سے ہی انہوں نے اسلامی فکر و تحقیق پر اپنی صلاحیتوں کو استعمال کیا اور اپنی تحریری صلاحیتوں سے غیر معمولی خدمات انجام دیں۔ چاہے وہ قرآنیات سے متعلق ہو یا حدیثیات سے متعلق۔ فقیہات کے موضوع پر ہو یا فکری موضوعات پر۔ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم ہو یا منکران ختم نبوت کے خلاف قلمی جہاد۔ ہر نگارش قلم ایک دستاویزی حیثیت کی حامل ہے۔اسلام اور جدید فکری مسائل، چھ جلدوں میں جدید فقہی مسائل اور پانچ جلدوں پر مشتمل قاموس الفقہ (انسائیکلوپیڈیا) مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کی اصل پہچان ہے جبکہ دو جلدوں میں آسان تفسیر قرآن مجید، آسان اصول تفسیر اور تصنیف پیغمبر عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ملک و بیرون ملک کے علماء، اکابر کی اولین صف میں آپ کو شامل کرلیا۔ حیدرآباد اور ممبئی کے اخبارات میں آپ کا ہفتہ وار کالم ”شمع فروزاں“ ساری دنیا کے اردو اخبارات میں نقل کیا جاتا ہے اور ملت کی رہنمائی کا ایک ذریعہ ہے۔
یہ اتفاق ہے کہ 1973ء میں مسلم پرسنل لاء بورڈ کا قیام مولانا طیب قاسمی اور مولانا منت اللہ رحمانی نے اس وقت کے جید علماء، مشائخ،اکابرین اور مختلف شعبہ حیات سے تعلق رکھنے والے درمندانِ ملت کو لے کر حیدرآباد ہی میں تشکیل دیا تھا۔ اور اب بورڈ کی گولڈن جوبلی سال میں پانچویں صدر کی حیثیت سے مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کا انتخاب حیدرآباد ہی سے ہوا ہے اگرچہ کہ حیدرآباد ان کا وطن ثانی ہے۔ جس طرح مغلوں نے ہندوستان کو اپنا وطن بناکر خوبصورت عمارتوں سے اس کے حسن اور خوبصورتی میں چار چاند لگایا۔ اُسی طرح مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے جب حیدرآباد کو اپنا وطن ثانی بنایا تویہاں کی کئی درسگاہوں جیسے دارالعلوم حیدرآباد، دارالعلوم سبیل السلام کے لئے خدمات انجام دی اور پھر خود المعہد العالی الاسلامی حیدرآباد قائم کرکے اُسے معیار اور وقار کے اس مقام تک پہنچایا جس پر رشک کیا جاسکتا ہے۔ جہاں زیر تعلیم طلبہ کا اردو، عربی اور انگریزی میں عبور ان کی لیاقت پر ناز کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے اپنے نوجوان فرزند مفتی عمر عابدین کی بھی اسی انداز میں تربیت کی کہ وہ نوجوانی ہی میں ملک گیر سطح پر اپنے منفرد پہچان کے حامل بن چکے ہیں۔ جبکہ ان کے دوسرے فرزند مولانا ظفر عابدین ندوی اسلامی بینکنگ کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ اور ڈپٹی ڈائرکٹر ابوظہبی اسلامک بینک شریعہ بورڈ کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔
مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ایک نئے دور کا مولانا رحمانی کی قیادت میں آغاز ہوسکتا ہے کیوں کہ مولانا رحمانی ہندوستانی مسلمانوں کے تمام مسائل سے بھی واقف ہیں اور اس کا حل بھی اپنی تقریر اور تحریر کے ذریعہ پیش کرچکے ہیں چاہے وہ قضأت کے معاملات ہوں یا فقہی مسائل۔ سیاسی رکاوٹیں ہوں یا متذبذب مسلمانوں کے حالات‘ ان سب پر ان کی گہری نظر ہے۔ بہت کم ایسے علمائے کرام ہیں جن کی قدیم اور جدید مسائل، رجحانات پر نظر ہوتی ہے۔ اگرچہ کہ بعض گوشوں سے تنقید بھی ہوتی ہے مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ ہر مسلک سے وابستہ مسلمانوں کی اکثریت انہیں پسند کرتی ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ علم کے بحر بیکراں ہونے کے باوجود سادگی، انکساری، شگفتہ مزاجی سب کو ساتھ لے کر چلنے کی عادت رہی ہے۔ شاید علم نافع نے ہی انہیں منکسر المزاج بنایا ورنہ ہم اکثر ایسے چھچھورے حضرات کو دیکھتے ہیں جو مذہبی لبادہ اوڑھ کر خود کو محفلوں میں نمایاں کرنے کے لئے کوشاں رہتے ہیں۔ جس طرح ان کی تحریر عام فہم، سلیس، رواں ہوتی ہے اسی طرح ان کی تقریر بھی دھیمے لہجہ میں سادہ اور پرکار ہونے کی وجہ سے دل پر اثر کرتی ہے۔ مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کے مسلم پرسنل لاء بورڈ کی صدارت پر انتخاب پر سبھی مسرور اور مطمئن ہیں۔ حیدرآبادیوں کی اکثریت بھی اس لئے خوش ہیں کہ انہوں نے مولانا رحمانی کو کبھی غیر حیدرآبادی نہیں سمجھا اور جنوبی ہند کو نظر انداز کئے جانے کی شکایت ہے‘ انہیں ذرا تاریخ کے اوراق الٹ کر دیکھنے کی ضرورت ہے کہ جنوبی ہند بالخصوص حیدرآباد سے بانی جامعہ نظامیہ حضرت انواراللہ فاروقی فضیلت جنگ رحمۃ اللہ علیہ کے علاوہ اور ایسی کتنی شخصیات کا ہم نام لے سکتے ہیں جن کے بارے میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ واقعی ان کی خدمات رہی ہیں۔ یقینا ماضی قریب میں مولانا بادشاہ حسینی، مولانا حسام الدین فاضلؒ، مولانا حمیدالدین عاقل حسامیؒ کے نام لئے جاسکتے ہیں‘ جو اپنے اپنے دور میں کافی مقبول رہے اور ان کی خدمات غیر معمولی رہی مگر ملک گیر سطح پر شاید ہی انہیں خدمات کا موقع ملا ہو۔ ڈاکٹر حمیداللہؒ نے یقینی طور پر بے مثال ناقابل فراموش خدمات انجام دی ہیں مگر فرانس میں۔ حیدرآباد یا جنوبی ہند میں شمالی ہند سے ہی علماء اور اکابرین کو آصفجاہی حکمرانوں نے دعوت دے کر یہاں علمی، ادبی خدمات کے لئے اعلیٰ عہدوں پر فائز کیا۔ اگر حیدرآباد کے علماء و اکابراپنی صلاحیتوں کو پہنچانتے اور اپنے آپ کو منواتے تو شاید دوسری ریاستوں سے علماء و اکابرین کو یہاں آنے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ حیدرآباد کی سرزمین میں پیوند خاک بیشتر بزرگان دین کا تعلق بھی حیدرآباد سے نہیں ہے۔ ویسے بھی ساری دنیا کے مسلمان ایک ہیں۔ چاہے وہ جنوب کے ہوں یا شمال کے ہو۔ جب ہم منی پور، آسام، دہلی، گجرات کے مسلمانوں پر ہونے والے مظالم پر تڑپتے ہیں تو پھر اِن ریاستوں سے تعلق رکھنے والے ہمارے اپنے علماء اور اکابرین کی ترقی اور ان کے اعلیٰ عہدوں پر فائز ہونے پر خوش کیوں نہیں ہوتے۔ تنقید اور خاص طور پر مسلکی بنیادوں پر گھٹیا الفاظ استعمال کرنے والوں کو یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہئے کہ عالم دین چاہے وہ کسی بھی مسلک سے تعلق کیوں نہ رکھتے ہوں وہ انبیاء کا وارث ہیں۔ اللہ رب العزت کے محبوب بندے ہیں۔ انہیں جو بھی مقام اور مرتبہ ملتا ہے وہ اللہ رب العزت ہی عطا کرتا ہے۔ اس کی شان میں گستاخی دراصل دین سے دوری، اخلاقی گراوٹ کا نتیجہ ہے
مولانا خالد سیف اللہ رحمانی اُن قابل قدر ہستیوں میں سے ایک ہیں جن کے لئے مولانا ابوالحسن علی ندویؒ، مولانا رابع حسن ندویؒ، ڈاکٹر وہبہ زحیلی (دمشق یونیورسٹی)، حضرت مولانا مفتی ظریف الدین مفتاحی، شیخ الحدیث مفتی سعید احمد پالمپوری، مولانا عاقل، مفتی اشرف علی سعودی باقوی، مولانا سید محمد ولی رحمانیؒ، مولانا جلال الدین انصر عمریؒ، مولانا محمد انظرشاہ کاشمیری، مولانا مفتی محمد تقی عثمانی، پروفیسر محسن عثمان ندوی، مولانا کلیم صدیقی، مولانا مفتی صادق محی الدین کے بشمول سینکڑوں عالم اسلام کی ہستیوں نے کلماتِ تحسین رقم کئے ہیں۔ بلکہ مولانا مفتی صادق محی الدین نے اپنے ایک مضمون ”عہدساز شخصیت“ میں یہ شعر ان کی نظر کیا ہے۔
ہوا ہے تند و تیز لیکن چراغ اپنا جلارہا ہے
وہ مرد درویش جس کو حق نے دیئے ہیں انداز خسروانہ
اسی طرح عہد حاضر کے ا یک عالم دین اور انسانیت نواز خدمات کے لئے مشہور مولانا غیاث احمد رشادی نے مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کے علمی تبحر‘ خدمات اور ان کی انکساری کو ان اشعار کے ذریعہ خراج تحسین پیش کیا ہے۔
ہزار طاقت ہو سو دلیلیں ہوں پھر بھی لہجے میں عاجزی ہے
ادب کی لذت، دعاء کی خوشبو بساکے رکھنا کمال یہ ہے
کسی کی رہ سے خدا کی خاطر اٹھاکے کانٹے، ہٹاکے پتھر
پھر اس کے آگے نگاہ اپنی جھکاکے رکھنا کمال یہ ہے
گواہ اور اس کے قارئین مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کو مبارکباد پیش کرتے ہیں اور اس بورڈ میں ہر مسلک اور مکتب فکر سے تعلق رکھنے والوں کی نمائندگی کے لئے خراج تحسین ادا کرتے ہیں۔