Thursday , November 21 2024
enhindiurdu

میرے درد کی تجھے کیا خبر!

فیاض کی اچانک موت نے جانے کیوں مجھے جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ اس کے کئی وجوہات ہیں۔ ایک تو یہ کہ اس کا بچپن ہمارے سامنے گزرا۔ یہ 8سال کا رہا ہوگا جب رہنمائے دکن میں نوکری شروع کی۔ چھوٹے موٹے کام کرتے کرتے اس نے کمپیوٹر کیلی گرافی سیکھ لی۔ پیج میکنگ سے واقفیت حاصل کی۔ پہلے اردو خبروں کی نوک پلک سنوارنا شروع کیا پھر کوشش کرکے ہلکی پھلکی انگریزی خبروں کا ترجمہ بھی کرنے لگا تھا۔ ایک وقت ایسا بھی آیا جب وہ پوری آزادی کے ساتھ رہنمائے دکن کے ایک دو صفحات کی کمپیوٹر کیلی گرافی اور ایڈیٹنگ کا قابل بن گیا۔ اس کی جدوجہد مثالی تھی۔ بلکہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ جس طرح احمد کمال اشرف نے کم عمری سے جدوجہد کرکے اپنا مقام پیدا کیا تھا‘ فیاض آہستہ آہستہ ویسا ہی اپنا مقام پیدا کرنے لگا تھا۔ ایسی ہی تمام بڑی ہستیاں جن کا اخباروں سے تعلق رہا کرتا ہے وہ فیاض کے چہرہ شناس ہوچکے تھے۔پھر اس نے اپنے طور پر اڈورٹائزنگ ایجنسی شروع کی۔ اس کے انتقال کے بعد پتہ چلا کہ مشتہرین نے اُسے کافی نقصان پہنچایا۔ اس نے بعض پیاماتِ شادی کے ادارے کے مالکین بھی شامل ہیں۔ انہوں نے اشتہارات تو چھپوا لئے مگر پیسے نہیں دیئے۔ فیاض سے قریب رہنے والوں کا کہنا ہے کہ مالی پریشانیوں اور ضعیف والدہ کی علالت کی وجہ سے وہ ذہنی طور پر پریشان تھا اور بڑی حدتک نفسیاتی مریض بن چکا تھا۔ شاید یہی ذہنی پریشانی بس حادثہ میں اس کی ہلاکت کا سبب بنا۔ جو بھی ہو‘ نوجوان کی موت پر افسوس تو ہوتا ہی ہے۔ افسوس اس بات کا بھی ہے کہ اکثر اخبارات میں کام کرنے والے چاہے وہ کمپیوٹر آپریٹر ہوں یا سب ایڈیٹرس‘ اڈورٹائزنگ بھی شروع کردیتے ہیں۔ یقینا اس سے فائدہ بھی ہے مگر گزشتہ25برس سے ہم اڈورٹائزنگ ایجنسی چلارہے ہیں۔ اِن پچیس برسوں میں ہم نے کتنے نشیب و فراز دیکھے، کتنے نقصانات برداشت کئے۔ کیسے کیسے سفید پوش حضرات نے ہمیں لوٹا، ٹھگا، ہم اگر ان کے بارے میں یہاں لکھیں تو شاید ہی کوئی یقین کرے۔ اڈورٹائزنگ ایجنسی چلانا کوئی آسان کام نہیں۔ اکثر ایک حرف کی غلطی کی وجہ سے کئی کئی ہزار کا نقصان برداشت کرنا پڑتا ہے۔ اور کریڈٹ کے نام پر جو ذہنی اذیت اور مالی نقصان برداشت کرنا پڑتا اُسے بیان نہیں کیا جاسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ پچیس برس کے دوران کئی بڑی اڈورٹائزنگ ایجنسیاں بند ہوگئیں۔ کووڈ کے دوران تو حالات اور بھی خطرناک تھے۔ اس دوران بھی کئی ادارے ختم ہوگئے۔ بہرحال فیاض جیسے بے شمار ہمارے درمیان موجود ہیں۔ انہوں نے اس میدان میں قدم رکھا۔ ابتداء میں انہیں فائدہ ہی فائدہ دکھائی دیتا ہے مگر مشتہرین کا جب اعتماد حاصل ہوجاتا ہے وہیں سے ان کی جانب سے دھوکہ بازی کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ فیاض جیسے غریب نوجوان کی واجب الادا رقم اگر کوئی مشتہر بے ایمانی سے ادا نہ کرے تو نہ تو وہ کروڑپتی بن سکے گا مگر کسی خاندان کی آہیں اور بددعائیں ان کا پیچھا نہیں چھوڑیں گی۔


فیاض کی موت سے اس لئے بھی زیادہ صدمہ ہوا کہ یہ اپنی ضعیف والدہ کا ایک ہی بیٹا تھا جو اس کا سہارا بھی تھا کفیل بھی۔ اس کی موت سے اس کی ماں پر جو بھی گزر رہی ہے اُسے کوئی بیان نہیں کرسکتا۔ میں یہ سوچ کر پریشان ہوں کہ اب اس ضعیف ماں کی دیکھ بھال کون کرے گا؟ کیا اولڈ ایج ہوم میں داخلے کی سکت ہے۔ یہ سوال اس لئے میرے ذہن میں اُبھرا کہ میں خود گزشتہ تین برس سے ایسے ہی آزمائشی دور سے گزر رہا ہوں۔ میری بھی والدہ برین اسٹروک کے بعد فریش ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ میرے کافی ارکان خاندان ہیں۔ مگر میرا یہ احساس اور ذاتی تجربہ ہے والدین کی خدمت، دیکھ بھال اولاد ہی کرسکتی ہے۔ ویسے بھی یہ ان کا فرض اور انہی کا حق ہے۔ حالیہ عرصہ کے دوران مسلم سماج میں بھی مشترکہ خاندان کا رواج ختم ہوگیا۔ ہر کوئی اپنا علیحدہ گھر چاہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ضعیف والدین کی دیکھ بھال بہت بڑا مسئلہ ہے۔ جہاں مجبوری ہے‘ مگر وسائل ہیں تو اولڈ ایج ہوم میں شریک کردیا جاتا ہے اور آج کل اولڈ ایج ہوم کارپوریٹ سیکٹرس بھی چلارہے ہیں۔ این آر آئیز اور ہندوستان میں ہنے والے ورکنگ کلاس والوں کے پاس پیسہ ہے مگر والدین کی دیکھ بھال کے لئے وقت نہیں ہے۔ ان کے لئے اولڈ ایج ہوم یا بیت المعمرین ہی واحد حل ہے۔ اور اولڈ ایج ہوم سرویس سے زیادہ بزنس بن چکا ہے۔ بڑے پیمانہ پر یہاں بھی بے قاعدگیاں، بدعنوانیاں ہوتی ہیں۔ ویڈیو کالس کے ذریعہ اولاد کو والدین سے بات چیت کرادی جاتی ہے مگر والدین کی اصلی حالت انہیں نہیں دکھائی جاتی۔ ہماری طرح بہت ساروں نے اپنے والدین کی دیکھ بھال کے لئے گھروں میں کیئر ٹیکرس کی خدمات حاصل کی ہیں۔ گزشتہ تین برس کے دوران مجھے لیڈی کیئر ٹیکرس کی اہمیت کا اندازہ ہوا۔ واقعی ہی ایک صبر آزما پیشہ بھی ہے۔ اور اگر دیانت داری کے ساتھ ہو تو عبادت بھی۔گھروں میں رشتہ داروں کی جانب سے دیکھ بھال اور کیئر ٹیکرس کی جانب سے دیکھ بھال میں فرق ہوتا ہے۔ رشتہ دار بہت جلد ان کی خدمات سے بیزار ہوجاتے ہیں اور اکثر تو مریضوں کی تکالیف کی نجات سے دعا کرنے لگتے ہیں۔ جبکہ کیئر ٹیکرس ان مریضو ں کی طویل عمری کی تمنا کرتے ہیں کیوں کہ ان کی خدمت ان کے ر وزگار کے ذریعہ ہے۔ویسے بھی حالیہ عرصہ کے دوران خاص طور پر کرونا کے بعد سے مزاج پرسی، عیادت کی روایت ہی ختم ہوگئی ہے۔ کیوں کہ اپنی صحت زندگی کی ہر ایک کو فکر ہے۔ کرونا بحران کے دوران نفسا نفسی کا دور سب نے دیکھا۔


کرونا ختم ہوا اس کے ساتھ ہی مروت و رواداری، خونی رشتوں کی کشش بھی ختم ہوگئی۔ واٹس اَیپ، ویڈیو کال نے رشتوں میں اور بھی دوریاں پیدا کردی۔بہرحال! فیاض کی موت سے جس طرح اس کی ضعیف والدہ کے اکیلے پن، ان کی بے بسی کا تصور ہولناک ہے اُسی طرح بار بار یہ خیال کچوکے لگانے لگتا ہے۔ اگر یہ سانحہ میرے ساتھ ہو تو میری والدہ کا کیا ہوگا۔ رشتے ناتے وقتی ہوگئے ہیں۔ ہمدردی چند لمحوں کی ہوتی ہے۔ لوگوں کو مرنے والے کو قبرستان پہنچانے کی عجلت اور قبرستان جانے والوں کی وہاں سے جلد سے جلد کسی نہ کسی بہانے سے کھسک جانے کی عجلت ہے۔ بڑی بوڑھیاں کہا کرتی تھیں‘ کہ آج مرے کل دوسرا دن یعنی آج کا غم کل نہیں رہتا۔ اظہار غم کرنے والے بھی آج کل کفایت سے کام لے رہے ہیں۔ آج کے دور میں ہر انسان اپنا بوجھ خود اٹھانا ہوتا ہے۔ اپنا غم خوش سہنا پڑتا ہے۔ اپنے آنسو خود پونچھنے پڑتے ہیں۔


یہ تو خیر ایک ہولناک تصور ہے۔ ہوسکتا ہے میرے ان خیالات سے بہت سارے لوگوں کو تکلیف بھی پہنچے گی مگر کیا کریں‘ جو سچ ہے وہی لکھنا پڑتا ہے۔

جیسا کہ میں نے ضعیف اور بیمار والدین یا خاندان کے دیگر افراد کی دیکھ بھال کے لئے کیئر ٹیکرس کا ذکر کیا ہے۔ یقین مانئے گھریلو کم پڑھی لکھی لڑکیوں اور درمیانی عمر کی خواتین بھی اس کی پروفیشنل ٹریننگ دینے کی ضرورت ہے۔ ہر تیسرے گھر میں ضعیف لوگ موجود ہیں۔ جہاں کیئر ٹیکرس کی ضرورت ہے۔ اگر ٹرینڈ لیڈی کیئرٹیکرس خاتون مریضوں کے لئے اور مردانہ مریضوں کے لئے میل کیئرٹیکرس دستیاب ہوجائیں تو اکثر و بیشتر خاندانوں کے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ کیوں کہ گھر کے کسی فرد پر وہ ذمہ داری نہیں رہے گی وہ صرف ضعیف مریضوں کی مزاج پرسی کرتے اپنا فرض پورا کرسکتے ہیں البتہ‘ کیئرٹیکرس پر نظر رکھنی ضروری ہوتی ہے۔ کیوں کہ جہاں گھر والے لاپرواہی برتتے ہیں تو پھر کیئرٹیکرس بھی مریضوں کی دیکھ بھال میں لاپرواہی کرنے لگتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی تکالیف اور بھی بڑھ جاتی ہیں۔


اکثر مریض ذیابطیس سے متاثر ہوتے ہیں‘ اگر وہ مسلسل بستر پر لیٹے رہے تو ان کے جسم پر زخم یا چھالے پیدا ہوجاتے ہیں۔ اس لئے انہیں مسلسل وقفہ وقفہ سے کروٹ بدلانے اور اسفنچ کے ذریعہ ان کے جسم کی صفائی ضروری ہے۔ غذا چاہے سیال ہو یا ٹھوس دینے کے بعد مریض یا مریضہ کو پانی سے کلی کروانا ضروری ہوتا ہے۔ ورنہ اکثر مریض غذاکو نگلے بغیر منہ میں رکھ لیتے ہیں‘ جس سے بہت زیادہ نقصان ہوسکتا ہے۔ کیئرٹیکرس کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اس کا خصوصی طور پر خیال رکھے۔ کیئرٹیکرس خیال رکھ رہے ہیں یا نہیں‘ اس کی نگرانی گھروالوں کی ذمہ داری ہے۔ کیئرٹیکرس کو اگر یہ احسا س ہوتا رہے کہ ان کے کام کی نگرانی ہورہی ہے تو وہ لاپرواہی نہیں کرتے۔مریض کے لئے سب سے زیادہ ضروری ہے اس کے بستر، اس کے اطراف و اکناف کے ماحول کی صفائی۔ اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ کوئی مچھر یا مکھی مریض تک نہ پہنچنے پائے کیوں کہ یہ بے بس مریض مچھر یا چیونٹی کاٹنے پر نہ تو شکایت کرسکتے ہیں نہ ہی اپنے طور پر مکھی اڑا سکتے ہیں۔ اور یہی ان کے مرض سے زیادہ سب زیادہ تکلیف دہ ہوتی ہے۔اس کے لئے وقفہ وقفہ سے صفائی ضروری ہے۔ ان سب کے لئے باقاعدہ ٹریننگ کی ضرورت ہے۔


اگر مستند این جی اوز سلم بستیوں یا لوور مڈل کلاس گھرانوں کی لڑکیوں او رخواتین کو اور نوجوان لڑکوں کو کیئرٹیکرس ٹریننگ دیں تو یہ ایک بہت بڑی خدمت ہوگی۔ سینکڑوں گھرانوں سے غربت دور ہوگی۔گزشتہ تین برس کے دوران کیئرٹیکرس کے علاوہ پیرامیڈیکل اسٹاف کی اہمیت کا بھی اندازہ ہوا ہے۔ گزشتہ سال والدہ کو ناک کے ذریعہ سیال غذا دی جارہی تھی۔ مستقل طور پر ناک میں ٹیوب لگائی گئی جسے کئی بار والدہ نے نکال دیا تھا۔ گھر پر آکر ایک ٹیوب لگانے والوں کی کمی محسوس ہوتی ہے۔ ایک مرتبہ کی فیس کم از کم 800 تا 1000 روپئے ہوتی ہے۔اسی طرح فزیو تھراپسٹ کی ضرورت کا شدت سے احساس ہوتا ہے۔ یوں تو فزیوتھراپسٹ کی کمی نہیں ہے‘ مگر خواتین کے لئے لیڈی فزیوتھراپسٹ اور وہ بھی تجربہ کار جو مریضہ کی نفسیات کے مطابق کام کرسکے۔ ورنہ بعض فزیو تھراپسٹ مریضہ کی جسمانی حال کا لحاظ کئے بغیر اس پر طاقت آزماتے ہیں جس سے ان کی تکلیف اور بڑھ جاتی ہے۔ حیدرآباد میں بعض فزیو تھراپی کلینکس کارپوریٹ طرز پر قائم ہیں‘ اور ماشاء اللہ سے کافی کمارہے ہیں۔ جبکہ سینکڑوں ایسے نوجوان لڑکے لڑکیاں ہیں جو فزیو تھراپی کورسس کی سرٹیفکیٹ اور ڈگری رکھتے ہوئے بھی فزیو تھراپی کی اے بی سی سے واقف نہیں ہیں۔ فیس دے کر ڈگری یا سرٹیفکیٹ حاصل کرتے ہیں اور جب انہیں کہیں خدمات انجام دینے کا موقع ملتا ہے تو وہ معیار کی کسوٹی پر نہیں اُترتے۔ اچھا تجربہ کار فزیوتھراپسٹ ہر روز کم از کم پانچ ہزار روپئے کماسکتا ہے‘ کیوں کہ چاہے کوئی بھی مرض کیوں نہ ہو‘ اس کے لئے فزیوتھراپی ضروری ہے۔ فالج کے مریض ہو یا حادثے کے شکار صحت یاب ہونے والے مرد و خواتین ان کے لئے فزیو تھراپی ضروی ہے۔ میری والدہ جیسی ضعیف مریضوں کے لئے جو اپنے طور پر نقل و حرکت نہیں کرسکتے ان کے لئے ہاتھ پاؤں میں خون کی روانی کو بحا ل رکھنے کے لئے، انگلیوں کو اکڑنے سے بچانے کے لئے پابندی سے انہیں ورزش کروانے کی ضرورت ہے۔


بہرحال! بات چل رہی تھی فیاض کے موت کی۔ جانے کن کن موضوعات کا ذکر آگیا۔ میرا اپنا خیال ہے کہ یہ ہر تیسرے گھر کی کہانی بھی ہے اور ضرورت بھی۔

About Gawah News Desk

Check Also

ہوا ہے گو تند و تیز لیکن چراغ اپنا جلارہا ہے

سچ تو مگر کہنے دو! ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز آل انڈیا مسلم پرسنل لاء …

اُف… وہ انٹرویوز!

ڈاکٹر سیدفاضل حسسیں پرویزصحافت اور انٹرویوز ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں۔ تاریخ …

Leave a Reply