سچ تو مگر کہنے دو !
ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز
شاہ رخ خان کی فلم ”جوان“ نے ہندوستان کے سوئے ہوئے معاشرہ کو بیدار کردیا۔ جب سے ہم نے ہوش سنبھالا کبھی بھی کسی بھی فلم کے لئے عوام میں اتنا جوش و خروش نہیں دیکھا۔ یہ ہم نہیں‘ بلکہ ہندوستان کی نامور سیاسی، سماجی اور تفریحی دنیا سے تعلق رکھنے والی شخصیات کہہ رہی ہیں۔ یہ پہلا موقع ہے جب ایک فلم میں دیئے گئے پیغام میں ہر فلم بین کو سوچنے اور اس سے اتفاق کرنے کے لئے مجبور کردیا ہے کہ شاہ رخ خاں نے جن مسائل کو فلم میں پیش کیا وہ صد فی صد درست ہیں اور شاہ رخ خاں کا یہ مشورہ بھی صحیح ہے کہ پانچ سال کے لئے ملک کی باگ ڈور جس کے حوالے کی جارہی ہے اس سے یہ سوال بھی کرنا چاہئے۔
سوال یہ ہے کہ یہ فلم کی سچائی ہے یا شاہ رخ خاں کی غیر معمولی مقبولیت جس نے وقتی طور پر ہی سہی‘ ایک انقلاب برپا کردیا۔ سچائی بھی ہے اور شاہ رخ خاں کی غیر معمولی مقبولیت بھی۔ جس کا اثر فوری ہوا۔ ویسے بھی شاہ رخ خاں کی فلم مائی نیم اِز خان نے بھی نہ صرف ہندوستان کے فرقہ پرستوں بلکہ مغربی دنیا کے نسل پرستوں کو یہ پیغام دیا تھا کہ مسلمان دہشت گرد نہیں ہوتے۔ وہ مذہب، نسل، ذات پات کے خطوط سے بالاتر ہوکر انسانیت کی خدمت کرتا ہے۔ اس فلم کے لئے بھی شدت سے مخالفت ہوئی تھی مگر جیت خان کی ہوئی۔ اس سے پہلے چک دے انڈیا میں بھی شاہ رخ خاں نے یہی پیغام دیا اور ہندوستانی سماج کو یہ احساس دلایا کہ کسی میاچ میں پاکستان کے خلاف ہندوستانی ٹیم کا کوئی مسلم کھلاڑی بہتر مظاہرہ نہ کرسکے تو اس کا مطلب یہی نہیں کہ اپنے ملک کا غدار یا پاکستان کا دوست ہے۔ یاد ہوگا کہ 1982ء میں ایشین گیمس ہند۔پاک فائنل میں ہندوستان کو 7گول سے شکست ہوئی تھی تو اس وقت ہندوستانی گول کیپر نیگی تھے جو مسلمان تھے۔ پورے ٹیم کی کمزور کارکردگی کے لئے نیگی کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا تھا۔ اسی سے متاثر ہوکر چک دے انڈیا بنائی گئی جس میں نیگی گول کیپر کے بجائے فارورڈ کھلاڑی کبیر خاں (شاہ رخ خاں) کو پیش کیا گیا تھا۔ جو پنالٹی شاٹ کو گول میں بدلنے میں ناکام ہوجاتا ہے۔ پاکستانی ٹیم کامیاب ہوتی ہے اور رسمی طور پر ہندوستانی کھلاڑی یعنی کبیر خاں سے ایک پاکستانی کھلاڑی مصافحہ کرتا ہے تو پریس فوٹو گرافر (آج کی گودی میڈیا کی طرح) تصویر کھینچ کراخبار میں چھاپ دیتا ہے۔ اور ”غدار“ خطاب کے ساتھ کبیر خاں اپنے علاقے سے کہیں دور چلا جاتا ہے۔ اور جب واپس آتا ہے تو ہندوستانی ویمنس ہاکی ٹیم کو ورلڈ چمپئن بناکر اس کے کوچ کی حیثیت سے… کل تک جنہوں نے اُسے غدار کہا تھا وہی اس کی جھلک دیکھنے کے لئے بے چین نظر آتے ہیں۔
بہرحال! چک دے انڈیا، مائی نیم اِز خان کے بعد فلم جوان نے جس طرح سے سماج کو جھنجھوڑا ہے وہ دراصل ہمیں دعوت فکر دیتا ہے کہ آج کے دور میں فلم سب سے موثر میڈیا ہے‘ اپنی بات دوسروں تک پہنچانے اور رائے عامہ کو ہموار کرنے کا۔ ویسے بھی ہر دور میں فلموں نے اپنے اپنے انداز میں سماج پر کسی نہ کسی طرح سے اپنے اثرات مرتب کئے ہیں۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد یہودیوں سے بدظن کرنے اور ان کے خلاف نفرت پیدا کرنے کے لئے ہٹلر کے دست راست جوزف گوبلز نے Jud SuB بنوائی تھی جسے اس زمانے میں 20 ملین افراد نے دیکھا تھا اور فلم کے بجٹ سے 6گنا زائد اس کی آمدنی ہوئی تھی۔ ہٹلر نے مختلف ذرائع سے مختلف طریقہ اختیا رکرتے ہوئے یہودیوں کو کیڑے مکوڑے، زہریلے جراثیم جن سے بیماریاں پھیلتی ہیں پھیلادیا تھا اور پھر یہودیوں نے فلم ہی کو اپنا ہتھیار بنایا گیا۔ نازیوں (ہٹلر کی فوج) کے جبر و ستم اپنی بے بسی اور بے زمین آبادی کو اس انداز میں پیش کیا کہ ساری دنیا اس سے ہمدردی کرنے لگی۔ تبھی سے یہودیوں نے ایجوکیشن، میڈیا، بینک اور گولڈ مارکٹ کو اپنے قبضے میں رکھنے کا فیصلہ کیا اور یہ چاروں شعبے اس کی گرفت میں ہے۔ آج ساری دنیا کی میڈیا کا 96% یہودیوں کے ہاتھ میں ہے۔ ہالی ووڈ کی ہر بڑی فلم کمپنی مغربی دنیا کا ہر بڑا ٹی وی چیانل، ہر بڑا اخبار یہودی کی ملکیت ہے۔ اور آج سوشیل میڈیا کے تمام پلیٹ فارمس چاہے وہ فیس بک ہو یا ٹوئیٹر یہودیوں کی ملکیت ہے۔ نیویارک ٹائمز، وال اسٹریٹ جرنل ہو یا واشنگٹن پوسٹ‘ اس کے مالکین یہودی ہے۔ ظاہر ہے دنیا پر یہ بڑے آسانی سے اپنے نظریات مسلط کرتے ہیں۔ہالی ووڈ کی کئی فلموں میں مسلم سماج کی تحقیر کی گئی اور ان کا مذاق اڑایا گیا‘ ان کے خلاف عالمی سطح پر ذہن سازی کی گئی۔ چوں کہ دنیا کے ٹاپ10 دولت مند بھی یہودی ہے‘ جن میں فیس بک کا مالک مارک ذکربرگ ساتویں نمبر پر ہیں۔ یہ دنیا کے معاشی نظام کو اپنے اصولوں اور قواعد سے بدلتے رہتے ہیں۔
فلم جیسا کہ ہر دور کا پسندیدہ تفریحی میڈیا ہے‘ تو دوسری طرف تعلیم یافتہ اور غیر تعلیم یافتہ دونوں طبقات کے لئے یکساں طور پر قابل قبول ہے۔ جہاں تک بالی ووڈ کا تعلق ہے‘ گزشتہ سواسو برسوں کے دوران کئی فلمیں ایسی بنائی گئیں جس میں سماجی مسائل کو پیش کیا گیا۔ نہ صرف بالی ووڈ بلکہ ٹالی ووڈ (بنگال)، تامل اور ملیالم فلموں میں بھی سماجی ناانصافی کے خلاف آواز اٹھائی گئی۔ ستیہ جیت رے کی فلم ”پاتھرپنچلی“ میں بنگال کے قحط سے متعلق بڑی اچھی عکاسی کی گئی تھی۔ اس فلم میں عالمی سطح پر ہندوستانی فلم انڈسٹری کے وقار کو بلند کیا تھا۔ پچھلے پچاس برسوں کے دوران چند اچھی فلمیں جو اگرچہ کہ باکس آفس میں خاطر خواہ طور پر کامیاب نہیں رہی‘ مگر ان میں سچائی کو پیش کرنے کی جرأت مندانہ کوشش کی گئی تھی۔ ان میں شبانہ اعظمی کے کیریئر کی پہلی فلم ’انکور‘ جس میں زمینداروں کے ہاتھوں ان کے ملازمین خاص طور پر خواتین کے استحصال کو پیش کیا گیا تھا۔ پریہ ٹنڈولکر اور پنکج کپور کی فلم ’ایک ڈاکٹر کی موت‘ جس میں آگے بڑھنے و الے ریسرچ اسکالر کو بیرونی فیلوشپ سے محروم کرنے کے لئے اس کے اپنے قریبی قابل اعتماد رفقاء کی سازشوں کو پیش کیا گیا تھا۔ سیاست دانوں کے ہاتھوں صحافیوں کے استحصال پر ششی کپور اور شبانہ اعظمی کی فلم ’نیودلی ٹائمز‘، پھولن دیوی کی زندگی پر ’بینڈت کوئن‘ قابل ذکر ہے‘ وہیں ہندوستانی فوج میں مذہب کے نام پر تعصب، امتیاز پر کے کے مینن، راہول بوس اور جاوید جعفری کی فلم ’شوریہ‘ ذہنوں کو جھنجھوڑنے والی فلمیں ہیں۔
افسوس اس بات کا ہے کہ بالی ووڈ نے ابھی تک جتنی سوشیل فلمیں بنائی ہیں ان میں مسلمانوں کو ذلیل کیا‘ کوٹھا، طوائف، دلال، بگڑے ہوئے نواب، ڈان، اسمگلر، قوال جیسے رول پیش کئے گئے ہیں۔ فلم مغل اعظم کو بڑی قدرو منزلت سے دیکھا جاتا ہے۔ ایمانداری کی بات تو یہ ہے کہ اداکاری اور بزنس کے لحاظ یہ اپنے دور کی کامیاب فلم رہی ہوگی مگر اس فلم میں ایک کنیز کے لئے بیٹے کی باپ کے خلاف بغاوت اور اس پر تلوار اٹھانے کو پیش کیا گیا ہے۔ ایسے خیال پر لعنت بھیجنے کو جی چاہتا ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ہمارا سماج اُسے بھی سراہتا ہے۔ ایسی کتنی سوشیل فلمیں ہیں چاہے وہ میرے حضور ہو، پاکیزہ، میرے محبوب (نمی کا رول)، مقدر کا سکندر (ریکھا زہرہ بائی کے روپ میں)، امراء و جان اور کئی فلمیں ہیں جس میں ہماری تذلیل کی گئی ہے۔ فلم شطرنج کے کھلاڑی بھی ایک شاہکار فلم تھی جس میں ناکام نامراد عیاش بادشاہ واجد علی شاہ کے ہاتھوں سے جاتی ہوئی سلطنت کی تصویر کشی کی گئی ہے۔ جس سے کوئی انقلاب تو نہیں آسکتا‘ اپنے ماضی اور اپنے نااہل نکمے حکمرانوں پر ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے۔
ایسی کوئی فلم نہیں بنی جس سے مسلمانوں کی قدر و منزلت بڑھ سکے۔ ہندوستان کے لئے یا پھر ساری دنیا کے لئے مسلمانوں کی خدمات کی صحیح تصویر پیش کی جاسکے۔ اس کے برعکس ہندو مائیتھالوجی پر فلمیں بناکر ہندوؤں میں ہندوتوا کی تحریک کو مضبوط کیا گیا۔ رامانند ساگر نے دوردرشن پر رامائن اور بی آر چوپڑہ نے مہابھارت کو کئی ایپی سوڈس میں پیش کرتے ہوئے ہندوتوا تحریک کو پروان چڑھایا اور اب چھوٹے بھیم کے ذریعہ نئی نسل کی ذہن سازی کی جارہی ہے۔ ایسی اَن گنت فلمیں بالی ووڈ میں بنادی گئی جس میں ہندو راجاؤں کے کردار کو بہتر اور مسلم کردار کو ظالم و جابر کے روپ میں پیش کیا گیا۔ حال ہی میں بنائی گئی فلم پدماوت‘ اس کی ایک بہترین مثال ہے۔ کشمیر فائلس کے ذریعہ ویوک اگنی ہوتری نے کشمیری پنڈتوں پر مظالم، ناانصافی ا ور کشمیریوں کی دیش سے غداری کو پیش کرنے کی کوشش کی۔ جسے بالی ووڈ کے تنگ نظر اداکاروں نے سراہا۔ مسلم سماج کے لئے اگر کوئی ٹیلی سریل واقعی اصلاحی، حوصلہ افزاء رہا تو ترکی ٹیلی سیریل ”ارطغرل‘‘ ہے جسے اردو میں ڈبنگ کا سہرا پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خاں کے سر جاتا ہے۔ اس قسم کے سیریلس کی ضرورت ہے جو ایک طرف ہندوستانی مسلمانوں کو جوش، خروش، ہمت اور حالات سے مقابلہ کرنے جذبہ پیدا کرتا ہے۔ دولت مند مسلمانوں کی کمی نہیں‘ چار دولت مند مل کر جوان جیسے فلمیں بنانے کی کوشش کرسکتے ہیں۔ حالیہ عرصہ کے دوران مسلمانوں کی ان کی سرزمین سے بے دخل کرنے کی سازشیں‘ مختلف حیلے بہانوں سے ان کے مکانوں پربلڈوزر چلانے کے واقعات، فسادات میں چن چن کر مکانات اور دکانات کو نشانہ بنانے کے حقائق کو بہت ہی متاثر کن انداز میں فلموں کے ذریعہ پیش کیا جاسکتا ہے اور اس سے ہندوستان کے سیکولر سماج کے سوئے ہوئے ضمیر کو کچوکے لگائے جاسکتے ہیں۔ جیسا کہ فلم جوان میں شاہ رخ خان نے لگائے ہیں۔ پہلی مرتبہ کسی سچے واقعہ یعنی ڈاکٹر کفیل خاں کے واقعہ کو فلم جوان میں اس انداز سے پیش کیا گیا کہ دیکھنے والا ہر فرد یہ کہنے کے لئے مجبور ہوا کہ جوان میں بچوں کی آکسیجن کی کمی سے موت انسانیت نواز ڈاکٹر کی خدمات کے صلہ میں جیل اور نوکری سے برطرفی‘ کفیل خان کی کہانی ہے۔ ایک طرح سے کفیل خان کو غیبی مدد ملی کہ ان کے ساتھ ناانصافی کا مسئلہ ہر عام و خواص کی زبان پر ہے۔ حکومت اترپردیش کو ذراسی بھی غیرت ہے تو وہ کفیل خاں کے ساتھ انصاف کرے گی۔ ورنہ وقت ہی انصاف کرے گا۔ جتنے بھی ظالم، جابر ارباب ا قتدار رہے ان کا ہمیشہ سے عبرتناک انجام ہوا ہے۔ اب بھی جو مسلمانوں کے ساتھ جبروستم کررہے ہیں‘ انہیں بھی قدرت کے ہاتھوں عبرتناک سزا ضروری ملے گی۔اس کا ہمیں پورا یقین ہے۔