سمیع اللہ ملک
ڈاکٹرمحموداحمدغازی کی کتاب محاضرات قرآنی کے صفحہ148پردرج اس اقتباس نے مجھ پرحیرت کے کئی درواکردئیے ہیں۔ آپ لکھتے ہیں:آپ نے ڈاکٹر حمیداللہ صاحب کانام سناہوگا،انہوں نے غالبا1958 میں خودبراہ راست مجھ سے یہ واقعہ بیان کیاتھا کہ غالباً1958-1957 میں ایک شخص ان کے پاس آیا۔ان کی زندگی کایہ ایک عام معمول تھاکہ ہرروزدوچارلوگ ان کے پاس آتے اوراسلام قبول کرتے تھے۔وہ بھی ایساہی ایک دن تھاکہ ایک صاحب آئے اورکہاکہ میں اسلام قبول کرنا چاہتاہوں۔ڈاکٹرصاحب نے حسب عادت ان کو کلمہ پڑھوایااوراسلام کامختصرتعارف ان کے سامنے پیش کردیا۔اپنی بعض کتابیں انہیں دے دیں۔ ڈاکٹرصاحب نے بتایاکہ ان کامعمول تھاکہ جب بھی کوئی شخص ان کے ہاتھ پراسلام قبول کرتاتھاتووہ اس سے یہ ضرورپوچھا کرتے تھے کہ اسے اسلام کی کس چیزنے متاثر کیا ہے؟1948سے 1996 تک یہ معمول رہاکہ ڈاکٹرصاحب کے دست مبارک پر اوسطاً دوافرادروزانہ اسلام قبول کیاکرتے تھے۔عمومالوگ اسلام کے بارے میں اپنے جو تاثرات بیان کیاکرتے تھے،وہ ملتے جلتے ہوتے تھے۔انمیں نسبتًا زیادہ اہم اورنئی باتوں کو ڈاکٹر صاحب اپنے پاس قلم بندکرلیاکرتے تھے۔اس شخص نے جوبات بتائی،وہ ڈاکٹر صاحب کے بقول بڑی عجیب وغریب اورمنفردنوعیت کی چیزتھی اور میرے لیے بھی بےحدحیرت انگیزتھی۔
اس نے جوکچھ کہا،اس کے بارے میں ڈاکٹرصاحب کاارشادتھاکہ میں اسے بالکل نہیں سمجھا اورمیں اس کے بارے میں کوئی فنی رائے نہیں دے سکتا۔اس شخص نے بتایا:میرانام ”ژاک ژیلبیر“ہے۔میں فرانسیسی بولنے والی دنیاکاسب سے بڑا موسیقار ہوں۔میرے بنائے اورگائے ہوئے گانے فرانسیسی زبان بولنے والی دنیامیں بہت مقبول ہیں۔آج سے چندروزقبل مجھے ایک عرب سفیرکے ہاں کھانے کی دعوت میں جانے کاموقع ملا۔جب میں وہاں پہنچاتووہاں سب لوگ جمع ہوچکے تھے اورنہایت خاموشی سے ایک خاص انداز کی موسیقی سن رہے تھے۔جب میں نے وہ موسیقی سنی تومجھے ایسالگاکہ جیسے یہ موسیقی کی دنیاکی کوئی بہت ہی اونچی چیزہے،جویہ لوگ سن رہے ہیں۔میں نے خود آوازوں کی جودھنیں اوران کاجونشیب وفراز ایجادکیاہے،یہ موسیقی اس سے بھی بہت آگے ہے بلکہ موسیقی کی اس سطح تک پہنچنے کیلئے ابھی دنیاکوبہت وقت درکارہے۔
میں حیران تھاکہ آخریہ کس شخص کی ایجاد کردہ موسیقی ہوسکتی ہے اوراس کی دھنیں آخرکس نے ترتیب دی ہیں؟جب میں نے یہ معلوم کرناچاہاکہ یہ دھنیں کس نے بنائی ہیں تولوگوں نے مجھے اشارہ سے خاموش کردیالیکن تھوڑی دیربعدپھرمجھ سے رہانہ گیا اورمیں نے پھریہی بات پوچھی لیکن وہاں موجودحاضرین نے مجھے خاموش کردیا۔ڈاکٹرصاحب کہتے ہیں کہ اس گفتگوکے دوران وہ فن موسیقی کی کچھ اصطلاحات بھی استعمال کررہا تھا،جن سے میں واقف نہیں، کیوںکہ فن موسیقی میرامیدان نہیں۔
قصہ مختصر جب وہ موسیقی ختم ہوگئی اوروہ آوازبندہوگئی توپھراس نے بڑی بے تابی اورمضطرب اندازمیں لوگوں سے پوچھاکہ یہ سب کیاتھا۔لوگوں نے بتایاکہ یہ موسیقی نہیں تھی بلکہ قرآن مجید کی تلاوت ہے اورفلاں قاری کی تلاوت ہے۔موسیقارنے کہاکہ یقینایہ کسی قاری کی تلاوت ہوگی اوریہ قرآن ہوگا،مگراس کی یہ موسیقی کس نے ترتیب دی ہے اوریہ دھنیں کس کی بنائی ہوئی ہیں؟وہاں موجودمسلمان حاضرین نے بیک زبان وضاحت کی کہ نہ یہ دھنیں کسی کی بنائی ہوئی ہیں اورنہ ہی یہ قاری موسیقی کی ابجد سے واقف ہیں۔اس موسیقارنے جواب میں کہاکہ یہ ہوہی نہیں سکتاکہ یہ دھنیں کسی کی بنائی ہوئی نہ ہوں لیکن اسے یقین دلایا گیاکہ قرآن مجیدکاکسی دھن سے یافن موسیقی سے کبھی کوئی تعلق ہی نہیں رہا۔ یہ فن تجویدہے اورایک بالکل الگ چیزہے۔
اس نے پھریہ پوچھاکہ اچھامجھے یہ بتاو¿کہ تجویداورقرا¿ت کایہ فن کب ایجادہوا؟اس پرلوگوں نے بتایاکہ یہ فن تو14صدیوں سے زائد سے چلا آرہاہے۔رسول اللہﷺنے جب لوگوں کوقرآن مجیدعطافرمایاتوفن تجویدکے اصولوں کے ساتھ ہی عطافرمایاتھا۔اس پراس موسیقارنے کہاکہ اگر محمدﷺنے اپنے لوگوں کوقرآن مجیداسی طرح سکھایا ہے جیساکہ میں نے ابھی سناہے توپھربلاشبہ یہ اللہ کی کتاب ہے۔اس لئے کہ فن موسیقی کے جو قواعد اور ضوابط اس طرزقرا¿ت میں نظرآتے ہیں،وہ اتنے اعلی وارفع ہیں کہ دنیا ابھی وہاں تک نہیں پہنچی۔
ڈاکٹرحمیداللہ صاحب اس کی یہ بات سمجھنے سے قاصرتھے کہ وہ کیاکہہ رہاہے۔اس شخص نے کہاکہ بعدمیں،میں نے اوربھی قرا¿کی تلاوت قرآن کوسنا،مسجدمیںجاکرسنااورمختلف لوگوں سے پڑھوا کرسنااورمجھے یقین ہوگیاکہ یہ اللہ کی کتاب ہے اوراگریہ اللہ کی کتاب ہے تواس کے لانے والے یقینااللہ کے رسول تھے،اس لیے آپ مجھے مسلمان کرلیں۔ ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ میں نے اسے کلمہ شہادت پڑھواکرمسلمان کرلیالیکن میں نہیں جانتا کہ جوکچھ وہ کہہ رہاتھاوہ کس حدتک درست تھا،اس لیے کہ میں اس فن کا آدمی نہیں۔
ڈاکٹرصاحب نے بتایاکہ میں نے ایک الجزائری مسلمان کوجوپیرس میں زیرتعلیم تھا،اس نئے موسیقار مسلمان کے بے حداصرارپر اس کی دینی تعلیم کیلئے مقررکردیا۔تقریبا ڈیڑھ ماہ بعدوہ دونوں میرے پاس آئے اورکچھ پریشان سے معلوم ہوتے تھے۔ الجزائری معلم نے مجھے بتایاکہ وہ نومسلم قرآن مجیدکے بارے میں کچھ ایسے شکوک کااظہارکررہاہے جن کا میرے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔ ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں کہ میں نے سوچاکہ جس بنیاد پریہ شخص ایمان لایاتھا،وہ بھی میری سمجھ میں نہیں آئی تھی اب اس کے شکوک کامیں کیا جواب دوں گااورکیسے دوں گالیکن اللہ کانام لے کرپوچھاکہ بتاو¿تمہیں کیاشک ہے؟
اس نومسلم نے کہا کہ آپ نے مجھے یہ بتایا تھا اور کتابوں میں بھی میں نے پڑھاہے کہ قرآن مجید بعینہ اسی شکل میں آج موجودہے جس شکل میں اس کے لانے والے پیغمبرﷺنے اسے صحابہ کرام کے سپردکیاتھا۔ ڈاکٹرصاحب نے جواب دیاکہ واقعی ایساہی ہے۔اب اس نے کہاکہ ان صاحب نے مجھے اب تک جتناقرآن پڑھایاہے،اس میں ایک جگہ کے بارے میں مجھے لگتاہے کہ اس میں کوئی نہ کوئی چیزضرورحذف ہو گئی ہے۔اس نے بتایاکہ انہوں نے مجھے” سورہ نصر“پڑھائی ہے اوراس میں ”افواجاً“ا ور”فسبح“ کے درمیان خلا ہے۔جس طرح انہوں نے مجھے پڑھایاہے،وہاں افواجاً پروقف کیاہے۔وقف کرنے سے وہاں سلسلہ ٹوٹ جاتاہے جونہیں ٹوٹناچاہیے جبکہ میرافن کہتاہے کہ یہاں خلانہیں ہونا چاہیے۔
ڈاکٹرصاحب فرماتے تھے کہ یہ سن کرمیرے پیروں تلے زمیں نکل گئی،اورکچھ سمجھ میں نہیں آیاکہ اس شبہ کاجواب کیادیں اور کس طرح مطمئن کریں۔کہتے ہیں کہ میں نے فوراً دنیائے اسلام پرنگاہ دوڑائی توکوئی ایک فردبھی ایسانظر نہیں آیاجوفن موسیقی سے بھی واقفیت رکھتاہواورتجویدبھی جانتاہو۔ ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ چندسیکنڈکی شش وپنج کے بعد بالکل اچانک اوریکایک میرے ذہن میں ایک پرانی بات اللہ تعالیٰ نے ڈالی کہ اپنے بچپن میں جب مکتب میں قرآن مجید پڑھاکرتا تھا تو میرے معلم نے مجھے بتایاتھاکہ ”افواجا“ پروقف نہیں کرناچاہیے بلکہ افواجاکوبعدکے لفظ سے ملاکرپڑھا جائے۔ایک مرتبہ میں نے”افواجا“پروقف کیا تھا تو اس پرانہوں نے مجھے سزادی تھی اورسختی سے تاکیدکی تھی کہ افواجا کوآگے ملاکرپڑھاکریں۔
میں نے سوچاکہ شایداس بات سے اس کاشبہ دورہوجائے اوراس کواطمینان ہوجائے۔میں نے اسے بتایاکہ آپ کے جوپڑھانے والے ہیں،وہ تجویدکے اتنے ماہرنہیں ہیں۔ دراصل یہاں اس لفظ کوغنہ کے ساتھ آگے سے ملاکر پڑھا جائےگا۔ ”افواجا فسبح“۔ ڈاکٹرصاحب کا اتناکہناتھاکہ وہ خوشی سے اچھل کرکھڑاہوگیااورمجھے گودمیں لے کرکمرے میں ناچنے لگااورکہنے لگاکہ واقعی ایسے ہی ہونا چاہیے۔یہ سن کراس کومیں نے ایک دوسرے قاری کے سپردکردیاجس نے اس شخص کوپورے قرآن پاک کی تعلیم دی۔وہ وقتافوقتا مجھ سے ملتاتھااوربہت سردھنتاتھاکہ واقعی یہ اللہ تعالی کی کتاب ہے۔وہ بہت اچھا مسلمان ثابت ہوااورایک کامیاب اسلامی زندگی گزارنے کے بعد1970 کے لگ بھگ اس کا انتقال ہوگیا۔اس واقعے سے مجھے خیال ہوتاہے کہ قرآن مجیدکی جوصوتیات ہے،یہ علم وفن کی ایک ایسی دنیاہے جس میں کوئی محقق آج تک نہیں اتراہے اورنہ ہی قرآن مجید کے اس پہلوپراب تک کسی نے اس اندازسے غوروخوض کیاہے۔
قارئین!مجھے یہ واقعہ دس برس پیچھے لے گیاجب میری اہلیہ کاپوراجسم فالج کی وجہ سے شدید متاثر اور معذور ہوگیا۔اس اچانک افتادنے دنیااندھیرکردی اور بالآخر ان کے علاج اورتشخیص کیلئے اہلیہ کے تمام ٹیسٹ پر ڈاکٹروں کاایک پورا بورڈ میسر آگیا اور خوش قسمتی سے دنیاکے سب سے بڑے معالج پروفیسربیکرکی خدمات حاصل ہوگئیں۔کانفرنس روم میں موت جیساسناٹا چھایا ہواتھاکہ نجانے کیااعلان ہو۔تمام متعلقہ ٹیسٹ کے بعدڈاکٹربیکرنے اپنی نیلی آنکھوں پرسے چشمہ ہٹاتے ہوئے میرے چہرے پرنظریں گاڑدیں اورمجھے یوں محسوس ہورہاتھاکہ میرادل حلق کے اندر آگیا ہے۔ پروفیسرنے پہلے تمام ٹیسٹ کے نتائج کے بارے میں آگاہ کیااورآخرمیں انتہائی افسوس کے ساتھ بتایاکہ” مریض کے پاس صرف دوہفتے ہیں لیکن مجھے اس بات پربڑے حیرت ہورہی ہے کہ مریضہ کے دماغ سے یہ حملہ ہواجس نے ان کے سارے جسم کومفلوج کردیالیکن ان کا چہرہ ،گلا، ناک،آنکھیں اور کان اس حملے سے کیسے بچ گئے؟“
پروفیسربیکرکے اس اعلان پرمیری آنکھوں کے آگے اندھیراچھاگیاتھااوردل کی دھڑکن اس قدرتیزہوگئی تھی کہ میں ہکابکااس کے چہرے کودیکھ رہاتھاکہ ممکن ہے کہ یہ کوئی اچھی خبر سنادے۔میں نے پروفیسر کومخاطب کرتے ہوئے کہاکہ میں ڈاکٹروں کے پورے بورڈکے تجربات کوجھٹلانے کی ہمت تونہیں کرسکتالیکن اہلیہ کے چہرے کے بارے میں جو رائے دی گئی ہے،اس کی بابت یہ بتاناچاہتاہوں کہ جس رب کی طرف سے یہ آزمائش آئی ہے،میں نے اپنی ساری ازدواجی زندگی اہلیہ کوقرآن کاعاشق پایا ہے اورعین ممکن ہے کہ میرے کریم رب نے اس قرآن پڑھنے اوراس پرعمل کرنے کے طفیل ان کے چہرے کومکمل محفوظ رکھاہو۔ یہ کہہ کرمیں کھڑا ہوگیا۔ فوری طورپرپروفیسرنے میرے دونوں کندھوں پراپنے دونوں ہاتھ جماتے ہوئے مجھے بڑے خوبصورت اندازمیں یہ نصیحت کی کہ”ہم ڈاکٹرصرف اپنے تجربات کی بناپراپنی آرا قائم کرتے ہیں لیکن ضروری نہیں کہ بالکل ویساہی ہو، تاہم میں آپ کی اس بات سے مکمل طورپراتفاق کرتاہوں کہ ہمیں ان معجزات پربھی یقین کرناہوگاجوہمیں کبھی کبھاردیکھنے کو ملتے ہیں۔
اہلیہ اس واقعے کے بعدچھ سال تک زندہ رہیں لیکن اپنی معذوری کی اورشدیدعلالت کی بناپرانہیں نرسنگ ہوم میں منتقل کرناپڑ گیا۔وہ اس حال میں بھی ہروقت قرآن وتسبیحات میں مشغول رہتی تھیں۔معجزاتی طورپران کے جسم کادایاں حصہ حرکت کرنے لگا اورامیدبندھ گئی اورپروفیسربیکربھی اس تبدیلی پربڑاحیران تھا۔ایک دن پروفیسراہلیہ کی تیمارداری کیلئے جب آیاتوہم سب حسب معمول قاری عبدالباسط مرحوم کی آوازمیں ”سورہ الرحمن“کی تلاوت سن رہے تھے۔میںجب لیپ ٹاپ پرآوازکو کم کرنے لگاتواس نے مجھے منع کردیااورخودبھی بڑے انہماک کے ساتھ سنناشروع کردیا۔ میں اس کے چہرے کے تغیرات کوبغوردیکھ رہاتھا۔سور ہ مکمل ہونے پراس نے مجھ سے اس بارے میں دریافت کیاتواس نے بے ساختہ کہاکہ میراجی چاہتاتھاکہ یہ آوازجاری وساری رہے اورکبھی ختم نہ ہوجبکہ میں اس کے مفہوم ومعنی سے بالکل نابلدہوں لیکن یہ میرے دل پراثرکررہی تھی۔
ہمارایہ معمول تھاکہ دن کازیادہ وقت سورہ رحمن سنتے رہتے تھے لیکن اس دن مجھے بہت تعجب ہواجب نرسنگ ہوم کے انگریز ڈائریکٹرنے مجھ سے اس سورہ کے بارے میں درخواست کی کہ میں اپنے کمرے کادروازہ کھول کراسے اونچی آوازمیں لگادیا کروں کہ باقی مریض بھی اس سے استفادہ کریں کہ مریضوں کی اکثریت دروازے کے باہرکھڑی بڑی خاموشی کے ساتھ سن کربڑا سکون محسوس کرتے ہیں۔انہی مریضوں میں ایک 91سالہ”ارنسٹ ٹوملیسن‘(Ernest Tomlison)بھی تھاجوکینسرکامریض تھااورانتہائی کرب کےساتھ سارا دن چیختااور تڑپتا رہتا تھا ۔ اس کوروزانہ انجیکشن دیکراس کرب سے نجات کیلئے سلادیاجاتاتھا۔ایک دن اس نے جب سورہ رحمن کوسناتواس نے بے اختیارنرس کواس آوازکے تعاقب کیلئے بھیجا۔معلوم ہونے پراس نے ہمارے کمرے میں آنے کی درخواست کی۔
حیرت انگیزطورپروہ انتہائی خاموشی کے ساتھ اس کوسنتارہااوراس نے بڑی عاجزی کے ساتھ درخواست کی کہ مجھے ہرروزاس کوسننے کیلئے کمرے میں آنے کی اجازت دی جائے جبکہ میں نے اسی کے کمرے میں اس کابندوبست کردیا۔یہ معاملہ ایسابڑھاکہ نرسنگ ہوم میں باقاعدہ طور پر ہر روز دوگھنٹے کیلئے سورہ رحمن کی تلاوت کااہتمام کردیاگیا۔ اہلیہ تورمضان کی27 ویں مبارک شب کواللہ کے پاس چلی گئیں مگر بعد ازاں مجھے بتایا گیا کہ”ارنسٹ“برطانیہ کاایک مشہورمیوزیشن رہاہے اوراس کی تیارکردہ ہزاروں دھنیں پوری دنیامیں بہت مشہورہیں۔
میں نہیں جانتاکہ اس سارے واقعہ کی منطقی وجوہات کیاہیں لیکن اس واقعہ کوپڑھنے کے بعدمجھ پرحیرت کے پہاڑٹوٹ گئے ہیں کہ ہم نے آخرتحقیق سے کیوں منہ موڑرکھاہے کہ اغیارکی گواہیاں علی اعلان سامنے آرہی ہیں۔
Check Also
Telangana Family Digital Cards Pilot Project Begins Today: All You Need to Know
The Telangana Government has launched a pilot project for issuing Family Digital Cards (FDC) to …
CM Revanth Reddy Calls for Unity and Secularism at ‘Prophet for the World’ Book Launch
Hyderabad, September 14: Telangana Chief Minister A. Revanth Reddy stressed the need for unity and …