حضرت سید قبول بادشاہ شطاری کی زندگی قرآن و سنت کے عین مطابق رہی۔ آپ نے اسلاف کے مشن کو آگے بڑھانے میں اپنی ساری زندگی گزار دی۔ خانقاہی نظام کی ترویج و اشاعت میں خاص کر بندوں کو اللہ سے جوڑنے میں آپ نے کوئی کسر نہیں چھوڑا۔ ان خیالات کا اظہار مرکزی بزم انوار صوفیہ شاہ ولی اللہی حیدرآباد کے زیر اہتمام درگاہ شریف حضرت سلطان الواعظینؒ احاطہ صوفی منزل مصری گنج میں منعقدہ جلسہ خراج عقیدت حضرت ضیاء المشائخ مولانا سید قبول بادشاہ قادری شطاریؒ سے اپنے مختصر صدارتی خطاب میں جگر گوشہ حضرت خواجہ غریب نوازؒ حضرت سید خواجہ غیاث الدین چشتی اجمیری جانشین قدیم دیوان درگاہ اجمیر شریف نے کیا۔ حضرت مولانا سید ابراہیم حسینی فاروق پاشاہ زرین کلاہ سجادہ نشین و متولی خانقاہ قبول مصطفوی نے اپنے خطاب میں کہا کہ حضرت قبول بادشاہ شطاری کی رحلت سے طبقہ مشائخ میں جو خلاء پیدا ہوا ہے اس کا پر ہونا مشکل ہے۔ آپ نے اپنی ساری زندگی پیرانہ سالی کے باوجود خانقاہی نظام کو آگے بڑھانے میں گذار دی اور کہا کہ وہ قوم زندہ ہے جو اپنے اسلاف کے کارناموں کو یاد رکھتی ہے۔ مرکزی بزم انوار صوفیہ کے جلسہ خراج عقیدت کے انعقاد پر انہوں نے ستائش کی۔ مولانا ڈاکٹر حافظ سید شاہ رضوان پاشاہ قادری لاابالی الحیدری بانی دی قرآن فاؤنڈیشن و کامل جامعہ نظامیہ نے اپنے خصوصی خطاب میں حضرت ضیاء المشائخ کی حیات و خدمات پر تفصیلی روشنی ڈالتے ہوئے کہاکہ حضرت قبول پاشاہ شطاری اپنے اندر بہت سی خوبیاں رکھتے تھے۔ جس سے ہمیں سیکھنے کی ضرورت ہے۔ ہم میں سے بہت سے لوگ ایسے ہیں جن کو آپ سے بار بار ملنے کا آپ کی صحبت میں بیٹھنے کا موقع ملا۔ آپ کی مجلسوں میں بیٹھنے کا موقع ملا۔ یہ بات حقیقت ہے کہ جس کو اللہ بڑا بناتا ہے بے وجہ وہ بڑا نہیں بنتا۔ حیدرآباد دکن میں غور کرے تو پتہ چلتا ہے کہ حیدرآباد علماء و مشائخ اور اولیاء کا شہر ہے۔ تقریباً ڈھائی دہے قبل حضرت قبول بادشاہ شطاری کو اس وقت کے نامور علماء مشائخ کی تائید و حمایت سے صدر مجلس علمائے دکن کا معتمد اور مرکزی رویت ہلال کمیٹی کا صدر بنایا گیا۔ اس جلیل القدر عہدے پر فائز ہونا کوئی اتفاق نہیں بلکہ آپ کے اندر وہ خوبیاں تھی وہ صلاحیتیں تھیں جس کی وجہ سے اس وقت کے ممتاز نامور علماء مشائخ نے آپ کو اس عظیم عہدے پر فائز کیا۔ حالانکہ جامعہ نظامیہ میں بڑے بڑے علماء اور حیدرآباد کے نامور مشائخ جو اپنی اپنی جگہ خودمیں ایک انجمن تھے، موجود تھے۔ سب نے آپ کی صدارت پر اعتماد کیا۔ حضرت ضیاء المشائخ کے اندر بہت سی خوبیاں تھیں جن میں سب سے بڑی خوبی یہ تھی جو ہمیں سیکھنے اور عمل کرنے کی ضرورت ہے، وہ آپ کی سادگی اور شفقت تھی۔ آپ تشنگانِ علم و عرفان کو وقت دیتے تھے۔ آپ سے جو بھی ملاقات کے لئے آتے ان کی خوب ضیافت کرتے اور ان کو اپنے اسلاف کے واقعات سناتے۔ ایک معنی میں ان کی معنوی تربیت کرتے اور ان کو یہ بتلاتے کہ تمہارے اسلاف کیسے تھے اور تمہیں آگے کام کیسا کرنا ہے۔ حضرت قبول بادشاہ کی زندگی کا یہ خاصہ تھا کہ وہ ہر آنے والے کو اگر وہ کچھ سیکھنے کی نیت سے آتا تو اس کو ضرور وقت دیتے اور اس کو اپنے پاس بٹھاتے اور اس کو بہت کچھ سکھاتے اس کے علاوہ آپ کی شخصیت میں رکھ رکھاؤ بھی بہت تھا جو اپنے بزرگوں کی علامت ہے۔ آپ سنت کے مطابق سر پر عمامہ باندھتے، شایہ، رومال زیب تن کرتے جس مجلس میں آپ جاتے لوگ دوڑ دوڑ کر آپ سے شرف ملاقات کو آتے۔ آپ تمام طبقات میں مقبول تھے۔ آپ زبان عربی، فارسی، اردو کا ذوق رکھتے تھے۔ آپ کی خانقاہ کی محافل خاص کر محفل سماع کی خاصیت یہ رہتی کہ جب حضرت غوث اعظمؓ کا نام آتا اس شعر کو بار بار سنتے اور آپ پر وجدانہ کیفیت طاری ہوجاتی۔ آپ کے رخت و وجد کو دیکھ کر دیگر پر بھی وجدانہ کیفیت طاری ہوجاتی۔ آپ بڑے گھرانے یعنی حضرت غوث اعظمؓ کے گھرانے سے تعلق رکھنے کے باوجود کبھی بھی غرور یا تکبر نہیں کرتے۔ آج ایسے بزرگوں کی طرح نئی نسل میں یہ خوبیاں بہت کم دیکھنے کو مل رہی ہے۔ نئی نسل اکثر اپنے اسلاف کی تعلیمات سے دور ہوتے ہوئے نظر آرہی ہے۔ کمرشیل ذہن بڑھتا جارہا ہے جو ہمارے لئے ایک بڑا المیہ ہے۔ جو لوگ اپنے آپ کو قادری، چشتی، نقشبندی وغیرہ ہونے پر فخر کررہے ہیں انہیں چاہئے کہ اپنے بزرگوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے زندگی گذاریں۔ ہمارے اسلاف نے اتباع قرآن و سنت پر عمل کرتے ہوئے فخر محسوس کیا۔ قادری، چشتی، نقشبندی ایک دوسرے کو کم تر سمجھنا اسلاف کی تعلیمات کے خلاف ہے۔ اپنے سلسلے کو سب سے بڑا سلسلہ سمجھنا کم علمی ہے۔ سب سے بڑا سلسلہ قرآن و سنت کی پیروی میں گذارنے والے صوفیائے کرام کا سلسلہ ہے۔ اس موقع پر مولانا سید غلام غوث شیخین احمد قادری شطاری کامل پاشاہ جانشین حضرت ضیاء المشائخ و سجادہ نشین مرکزی آستانہ شطاریہ نے اپنے مختصر خطاب میں تمام علماء و مشائخ کا شکریہ ادا کیا جو حضرت کے حیات و خدمات پر روشنی ڈال رہے تھے۔ داعی جلسہ قاضی صوفی شاہ محمد عبدالقادر قادری چشتی ثانی قادر پاشاہ سجادہ نشین و نبیرہ حضرت سلطان الواعظین و بانی بزم نے اپنے خطاب میں کہا کہ حضرت ضیاء المشائخ کے وصال سے ہماری بزم کا بہت بڑا نقصان ہوا۔ پچھلے 27 سال سے بزم کے اور صوفی منزل وغیرہ میں ہونے والے محافل مجالس کی آپ نہ صرف صدارت کرتے رہے بلکہ آپ وعظ و نصیحتوں سے اہل ذوق کو مستفیض کرتے رہے۔ ممتاز نوجوان عالم دین مولانا ڈاکٹر حافظ سید خلیل اللہ بشیر اویس نقشبندی القادری نے اپنے خطاب میں کہا کہ حضرت قبول بادشاہ اسم با مسمہ تھے۔ آپ کو تمام مکاتب فکر کے لوگ محبت کی نظر اور احترام سے دیکھتے تھے۔ مولانا سید اسحاق محی الدین قادری ناظم و بانی مدرسہ انوار محمدی نے اپنے خطاب میں کہا کہ حضرت قبول پاشاہ شطاری ایک عظیم ہستی کا نام ہے جو ہر وقت نئی نسل کو آگے بڑھانے میں مصروف رہتے۔ آپ کا مشن یہی تھا کہ نئی نسل اپنے اسلاف کے مشن کو آگے بڑھانے میں کوئی کسر نہ چھوڑے۔ مولانا حافظ عبدالصمد قادری‘ فاضل جامعہ نظامیہ، مولانا حافظ شمس الدین قادری کامل جامعہ نظامیہ نے بھی خطاب کیا۔ اس موقع پر مولانا سید شاہ عبدالروف حسینی بغدادی، مولانا سید علی محی الدین عاکف پاشاہ قادری زریں کلاہ، مولانا سید مصباح الدین چشتی اجمیری، مولانا سید سراج محمد قادری، مولانا سید نجم الدین قادری، مولانا محبوب پاشاہ ثانی چشتی، مولانا اطہر علی شاہ صوفی قلندری (تیگل کنٹہ)، مولانا سید اقبال پاشاہ صوفی ذاکر علوی شطاری، مولوی سید سہیل مرزا وغیرہ موجود تھے۔ قاضی صوفی شاہ محمد عبدالرافع صوفی پاشاہ نے شکریہ ادا کیا۔
Check Also
ہندوستان میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کیلئے ذہن سازی۔غیر اخلاقی تعلقات سے پاک و صاف ماحول کی ضرورت
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے انتخابات اور منظورہ قراردادیںآل انڈیا مسلم پرسنل لا …
دینی تعلیم خانقاہوں اور درگاہوں کا اصل مشن
چشتی چمن میں گرمائی کلاسس کا اختتام۔ پیرنقشبندی کا خطابدورحاضر میں امت محمدی ﷺکی نئی …