سلام کی دو اہم عیدوں میں سے ایک عید ’’عید قرباں ‘‘ ہے ، جو ذی الحجہ کی دسویں تاریخ کو ساری عالم میں منائی جاتی ہے ، جسے عربی میں ’’عید الأضحی‘‘اور اردو ’’عید قرباں ‘‘ کہتے ہیں ، یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اپنے بیٹے کی قربانی کی عظیم یادگار ہے ، جسے اللہ عزوجل نے رہتی تک بطور عبادت اور شعار اسلام کے زندہ اور تابندہ کر دیا ، اس قربانی کا مقصود صرف جانور کی قربانی نہیں ہے ؛ بلکہ اس کا مقصود اور مطمحِ نظر یہ ہے کہ بندہ کے اندر اس قربانی کے نتیجے میں اللہ کے احکام کے لئے جذبۂ فدویت پیدا ہوجائے ، اللہ عزوجل کے حکم کے سامنے اپنے ہر جذبہ اور خواہش کو قربان کرنے والاوہ بن جائے ، حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ساری زندگی اسی جذبۂ فدویت اور احکام خداوندی پر وارفتگی سے معمور ہے ، انہوں نے ساری زندگی اعلاء کلمہ اللہ اور حق اور توحید کی آواز بلند کرنے اور احکام خداوندی کو بلاچوں وچرا اور من وعن تسلیم کرنے میں گذاردی ، جس میں ان کو زندگی کے مختلف مراحل میں مختلف کٹھن اور دشوار گذار نہایت روح فرسا، جاں گسل ، صبر آزما امتحانات سے گذرنا پڑا ، اعلائے کلمۃ اللہ کے خاطر دہگتی ہوئی آگ میں ڈالے گئے اور وہ اس سے بصحیح وسالم باذن خداوندی نکل آئے ، بڑی آرزؤں اور ارمانوں سے زندگی کے آخری مراحل میں ، ناامید ی اور مایوسی کے ایام میں اولاد سے سرفراز کئے گئے ؛ابھی بچے کے شیرخواری اور لڑکپن ہی کا زمانہ تھا کہ حکم خدا ہوا کہ اپنے بچے کو بے آب وگیاہ ااور جنگل اور ویرانے میں چھوڑ آؤ ، چنانچہ اللہ عزوجل کے حکم کے آگے سرنگوں ہوتے ہوئے اس کی بھی تعمیل کی اور ماں سمیت بچے کو مکہ کے سنگلاخ پہاڑیوں میں چھوڑآئے ، جس کی برکت کے نتیجے میں مکہ جیسا مقدس شہر اور خانہ کعبہ جیسا مبارک گھر اور آب زمزم جیسا متبرک پانی وجود میں آیا ، اور بچے کے ہوش سنبھالنے کے بعد بحکم خداوندی اپنے اس لخت جگر اور چہیتے کی قربانی کے لئے بھی تیار ہوئے اس کے گلے پر چھری چلائی اور امتحان کے اس مرحلہ میں بھی کامیاب وکامراں ہوئے اور بحکم خداوندی چھری نے اپنا کام نہیں کیا اور اسماعیل علیہ السلام ذبح سے بچ گئے اور یہ قربانی کا عمل اللہ عزوجل کو اس قدر پسند آیا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے گھر سے نکلنے سے لے کر اس قربانی کے عمل تک سارے مراحل کو حج جیسے عظیم رکن اسلامی میں شامل گیا ، صفاومروہ کی سعی ، منی وعرفات کا قیام اور رمی جمار یہ سارے اعمال اسی قربانی کے عظیم عمل کی یادگار ہیں ،یہ قربانی نہ صرف حجاج کے لئے ضروری قرار دی گئی ؛ بلکہ تمام مسلمانانِ عالم کے لئے جو مستطیع ہیں اس قربانی کے عمل کو ان کے لئے واجب قرار دیا گیا ، یہ قربانی تو صرف ایک علامت ہے ، مقصود تو اس کے ذریعہ احکامِ خداوندی کے سامنے اپنے جذبات ، خواہشا ت کی قربانی ہے ،اسی کو اللہ عزوجل نے فرمایا : ’’ اور یاد رکھو کہ اللہ کو نہ تو ان جانوروں کے گوشت پہنچتے ہیں اور نہ ہی ان کے خون بلکہ اس کے یہاں تو صرف تمہاری پرہیزگاری اور اخلاص نیت کی پونجی ہی پہنچتی ہے۔‘‘حضرت مفتی شفیع صاحب اس آیت کی تفسیر میں قربانی کی حقیقت اور اس کے مقصود کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:عبادات کی خاص صورتیں اصل مقصود نہیں بلکہ دل کا اخلاص و اطاعت مقصود ہے:’’ لن ینال اللہ لحومہا‘‘ میں یہ بتلانا مقصود ہے کہ قربانی جو ایک عظیم عبادت ہے اللہ کے پاس اس کا گوشت اور خو ن نہیں پہنچتا نہ وہ مقصود قربانی ہے ؛بلکہ مقصود اصلی اس پر اللہ کا نام لینا اور حکم ربی کی بجا آوری دلی اخلاص کے ساتھ ہے۔ یہی حکم دوسری تمام عبادات کا ہے کہ نماز کی نشست و برخاست کرنا اور بھوکا پیاسا رہنا اصل مقصود نہیں ؛بلکہ مقصود اصلی اللہ تعالی کے حکم کی تعمیل دلی اخلاص و محبت کے ساتھ ہے اگر یہ عبادات اس اخلاص و محبت سے خالی ہیں تو صرف صورت اور ڈھانچہ ہے روح غائب ہے ؛مگر عبادات کی شرعی صورت اور ڈھانچہ بھی اس لئے ضروری ہے کہ حکم ربانی کی تعمیل کیلئے اس کی طرف سے یہ صورتیں متعین فرما دی گئی ہیں۔ واللہ اعلم۔(معارف القرآن )
اسی قربانی کی حقیقت کو حاصل کرنے کے لئے رسول اکرم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے : جو آدمی قربانی کرے گا اس طرح سے کہ قربانی کرتے وقت اندر سے اس کا جی خوش ہورہا ہو کہ میں اللہ کے راستے میں قربانی پیش کررہا ہوں اور اپنی قربانی پر ثواب کی امید بھی رکھتا ہو ’’کانت لہ حجابا من النار ‘‘ تو یہ قربانی اس کے اور جہنم کے بیچ میں حائل ہوجائے گی ، رکاوٹ بن جائے گی (الترغیب والترہیب ) نبی پاک ﷺ نے اس حدیث میں دو باتیں ارشاد فرمائیں ہیں : (۱) کوئی بھی عمل اللہ عزوجل کے سامنے جب انسان پیش کرے تو خوش دلی سے پیش کرے اور دل وزبان پر یہ ہوا کہ اے اللہ ! تیرا شکر ہے ، تیرا احسان ہے ، فضل وکرم ہے کہ تو نے مجھے اس عمل کی توفیق عطا فرمائی ہے (۲) ثواب کی امیدر کھے کہ اللہ عزوجل اس جانور کو اس کے اور جہنم کے درمیان رکاوٹ بنادیں گے ، ایک دوسری حدیث کے میں آتا ہے کہ یہ جانور پل صراط پر اس کے لئے سواری بن جائے گا۔
قربانی کی فضیلت :
کسی بھی چیز کی فضیلت واہمیت کے ذکر سے اس چیز کی قدر وعظمت کواپنے دل میں جاگزیں کرنا مقصود ہوتا ہے، اور ہزار مشکلات کے باوجود بندہ اس کی فضیلت کے حصول کے لئے اس عمل کو حتی الوسع بجالانے کی تگ ودوکرتا ہے،اللہ کی رضا اور ثوابِ آخرت کی جستجو میں اس عمل انجام دیتا ہے،قربانی کی اسی اہمیت کے پیشِ نظر اس کے بے انتہا فضائل بیان کئے ہیں ، چند ایک فضائل ملاحظہ ہوں:حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یوم نحر (دس ذوالحجہ)کو اللہ کے نزدیک خون بہانے سے زیادہ کوئی عمل محبوب نہیں (یعنی قربانی سے)قربانی کا جانور قیامت کے دن اپنے سینگوں بالوں اور کھروں سمیت آئے گااور بے شک اس کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالی کے ہاں مقام قبولیت حاصل کر لیتا ہے پس اس خوشخبری سے اپنے دلوں کو مطمئن کر لو (ترمذی )یہاں دو باتیں ملحوظ رہیں کہ اس حدیث میں پہلی بات تو یہ بتائی گئی کہ روزِ قربانی اللہ عزوجل کے یہاں اس قربانی کے عمل سے کوئی عمل بیش قیمت وبیش بہا ہے ہی نہیں ، اور یہ جانور روزِ قیامت سینگوں اور کھروں سمیت آئے گا اور قربانی کرنے والے کی بخش کا سامان بنے گا ، البتہ دوسری بات یہ پیشِ نظر رہے یہ قربانی ریاکاری ، دکھلاوایا گوشت خوری کے لئے نہ ہو محض رضاء خداوندی اور اللہ کی قربت اور اس کی عبادت صرف مقصود ہو تو یہ قربانی کا عمل صحیح معنی میں مفید دنیا وآخرت میں کامیابی وکامرانی کا سبب بن سکے گا۔مزید قربانی کی فضیلت واہمیت کا ذکر تے ہوئے فرمایا گیا: حضرت زید بن ارقم رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! یہ قربانیاں کیا ہیں ؟ فرمایا تمہارے والد ابراہیم کی سنت ہیں۔ انہوں نے عرض کیا ان میں ہمیں کیا ملے گا ؟ فرمایا ہر بال کے بدلہ نیکی۔ عرض کیا اور اون میں ؟ فرمایا اون کے ہر بال کے بدلہ (بھی)نیکی۔(ابن ماجہ)اس روایت میں تو قربانی کے جانور کے ہر بال کے بدلے ایک نیکی کے بطوراجر کے ملنے کی بات کہی گئی اور ظاہر ہے جانور کے بالوں کو گننا اور شمار کرنا ممکن ہی نہیں ؛ پھر کیوں کر قربانی کے عمل کے ثواب کااندازہ بآسانی لگایا جاسکتا ہے ؟۔
رسول اللہ ﷺ نے حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا : اے فاطمہ ! اپنی قربانی کے پاس حاضر ہوجاؤ ؛ کیوں کہ اس کے خون کے پہلے قطرے کی وجہ سے تمہارے پچھلے گناہ معاف ہوجائیں گے ، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے سوال کیا : یا رسول اللہ !کیا یہ فضیلت صرف ہمارے لئے یعنی اہل بیت کے واسطے مخصوص ہے یا سب مسلمانوں کے لئے ہے ؟ آپ نے فرمایا : یہ فضیلت ہمارے لئے اور تمام مسلمانوں کے لئے ہے (الترغیب والترہیب)
قربانی ایک عبادت اور شعارِ اسلام :
ہر صاحب استطاعت پر قربانی واجب ہے ، قربانی ایک مستقل عبادت اور شرائع اسلام میں سے ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مدینہ کے دس سالہ قیام میں ہر سال قربانی فرمائی ، حضرات صحابہ کرام ، تابعین وتبع تابعین اور ائمہ مجتہدین واسلاف غرض پوری امت کا متوارث عمل بھی قربانی کرنے کا رہا ہے ، آج تک کسی نے نہ اسے حج اور مکہ معظمہ کے ساتھ خاص سمجھا ہے اور نہ ہی صدقہ وخیرات کو اس کے قائم مقام گردانا ہے ۔حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دس سال مدینہ منورہ میں قیام فرمایا اور اس عرصہ میں آپ مسلسل قربانی فرماتے رہے ۔(ترمذی )اس سے پتہ چلا کہ قربانی نہ حج کے ساتھ خاص اور مکہ معظمہ کے ساتھ ؛ ورنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ میں ۹؍سال قربانی کیوں فرماتے ؟اور نہ ہی قربانی کامقصد ناداروں کی مدد کرنا ہے جو صدقہ وخیرات سے پورا ہوجائے ؛ بلکہ قربانی میں مقصود جانور کا خون بہانا ہے ، یہ عبادت اسی طریقہ سے ادا ہوگی ، محض صدقہ وخیرات کرنے سے یہ عبادت ادا نہ ہوگی ، نہ اس کے مطلوبہ ثمرات وفوائد حاصل ہوں گے ، ورنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کے دور میں غربت وافلاس دورِ حاصر کے بنسبت زیادہ تھا، اگر جانور ذبح کرنا مستقل عبادت نہ ہوتا تو وہ حضرات جانور ذبح کرنے کے بجائے اس کی رقم کو غریبوں پر تقسیم کرتے ، درحقیقت قربانی حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کی اس عظیم الشان عمل کی یاد گار ہے جس میں انہوں نے اپنے لختِ جگر کو ذبح کرنے کے لئے لٹایا تھااور ہونہار فرزند نے بلا چوں وچرا حکم الٰہی کے سامنے سرِ تسلیم خم کیا تھا ، مگر اللہ تعالی نے اپنا فضل فرما کر دنبہ کو فدیہ بنایا تھا، اس یادگار پر عمل ذبح کرنے ہی سے ہوسکتا ہے ، محض صدقہ وخیرات سے اس عمل کی یاد تازہ نہیں ہوسکتی ۔اسی قربانی کی حقیقت کو بیان کرتے ہوئے اللہ عزوجل نے فرمایا : ’’اور ہر امت کے واسطے ہم نے مقرر کر دی ہے قربانی کہ یاد کریں اللہ کے نام ذبح پر چوپایوں کے جو ان کو (اللہ نے دیے)سو اللہ تمہارا ایک اللہ ہے سو اسی کے حکم میں رہو، اور بشارت سنادے عاجزی کرنے والوں کو ‘‘امام ابن کثییر اور امام رازی وغیرہ مفسرین نے اس آیت کی تفسیر میں تصریح فرمائی ہے کہ خون بہا کر جانوروں کی قربانی کا دستور شروع دن سے ہی تمام ادیان ومذاہب میں چلا آرہا ہے
۔(تفسیر ابن کثیر : ۳؍۲۲۷، تفسیر کبیر :۳؍۳۴)اور ایک جگہ اللہ عزوجل کا ارشاد گرامی ہے : ’’اپنے رب کے لئے نماز پڑھئے اور(اسی کے نام کی ) قربانی دیجئے ‘‘(الکوثر :۲)نیز حافظ ابن کثیر وامام رازی رحمہا اللہ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما ، حضرت عطاء، حضرت مجاہد ، حضرت عکرمہ ، حضرت حسن بصری ، حضرت قتادہ ، حضرت محمد بن کعب قرظی ، حضرت ضحاک رحمہم اللہ وغیرہ کا قول نقل کیاہے کہ مشرکین عرب غیر اللہ کے نام پر جانور ذبح کیا کرتے تھے ، اس لئے رسول اللہ کو حکم دیا گیا کہ آپ اپنے رب کے نام پر جانور ذبح کریں (تفسیر ابن کثیر :۴؍۷۳۴)اس لئے ہر صاحب نصاب پر قربانی واجب ہے اور استطاعت کے باوجود اگر کوئی شخص قربانی نہ کرے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر سخت ناراضگی کا اظہار فرمایا ہے اور نمازِ عید کی ادائیگی کے لئے اس کو عید گاہ آنے سے بھی منع کیا ہے کہ بغیر قربانی کے عمل عید گاہ آنے کا اور خدا کے حضور دورکعت شکرانے کی نماز ادا کرنے کا مستحق ہی نہیں ہے :حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس کو وسعت ہو پھر بھی وہ قربانی نہ کرے تو وہ ہماری عیدگاہ کے قریب بھی نہ آئے۔(ابن ماجہ )
لہٰذا قربانی ہر مسلمان عاقل ،بالغ ،مقیم پر واجب ہے ،جس کی ملک میں ساڑھے باون تولہ چاندی یا اسی کی قیمت کا مال اس کی حاجاتِ اصلیہ سے زائد ہو ، یہ مال خواہ سونا چاندی یا اس کے زیورات ہوں ، یا مالِ تجارت یا ضرورت سے زائد گھریلو سامان یا مسکونہ مکان سے زائد کوئی مکان ، پلاٹ وغیرہ (شامی ،کتاب الأضحیہ )قربانی کے معاملہ میں اس مال پر سال بھر کا گذرنا بھی شرط نہیں (بدائع:۵؍۶۵،کتاب الأضحیہ ) لہٰذا بعض لوگوں کا یہ باور کرنا کہ گھر میں ایک قربانی ہوجانا کافی ہے یہ درست نہیں ہے ؛ بلکہ میاں بیوی اگر دونوں صاحبِ نصاب ہوں تو دونوں کی طرف سے دو قربانیاں لاز م ہیں ، اسی طرح اگر باپ بیٹا دونوں صاحب نصاب ہوں تو خواہ اکٹھے رہتے ہوں مگر ہر ایک کی طرف سے الگ الگ قربانی واجب ہے ، چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ہر سال دو بکروں کی قربانی کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اس کی وصیت فرمائی تھی ، لہٰذا میں ایک قربانی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے کرتا ہوں (أبوداؤد ، ترمذی )اسی طرح بعض لوگوں کا یہ سمجھنا کہ قربانی عمر بھر میں ایک دفعہ کر لینا کافی ہے ، یہ خیال غلط ہے؛ بلکہ جس طرح زکوۃ اور صدقۂ فطر ہر سال واجب ہوتا ہے ، اسی طرح ہر صاحبِ نصاب پر قربانی ہر سال واجب ہے۔چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدنیہ منورہ کے قیام کے دس سالہ دورانیہ میں ہر سال قربانی فرمائی ہے جیساکہ اوپر روایت میں گزرا۔
قربانی کے بعض اہم مسائل :
* سب سے پہلے قربانی میں نیت کی اصلاح کرے ، اگر محض گوشت کھانے کی نیت سے قربانی کرے ،عبادت کی نیت نہ کرے تو اس کو قربانی کا ثواب نہیں ملتا ، اگر ایسے لوگوں نے کسی اور کے ساتھ حصہ رکھا ہو تو کسی کی بھی قربانی نہیں ہوگی (البحر الرائق : ۸؍۱۹۷)
* قربانی کی عبادت صرف تین دن کے ساتھ مخصوص ہے ، دوسرے دنوں میں قربانی کی کوئی عبادت نہیں ، قربانی کے دن ذی الحجہ کی دسویں ، گیارہویں اور بارہویں تاریخیں ہیں ، ان میں جب چاہے قربانی کرسکتا ہے ، البتہ پہلے دن کرناافضل ہے (البحر الرائق : ۸؍۱۷۶)
* بھیڑ ، بکرا ، دنبہ ، ایک ہی شخص کی طرف سے قربان کیا جاسکتا ہے ،گائے ، بیل ، بھینس ، اونٹ سات آدمیوں کی طرف سے ایک کافی ہے (الفتاوی الہندیہ : ۵؍۳۰۴، طبع رشیدیہ ،کوئٹہ )بشرطیکہ سب کی نیت ثواب کی ہو ، کسی کی نیت محض گوشت کھانے کی نہ ہو ، بکرا ، بکری ایک سال کا پورا ہونا ضروری ہے ، بھیڑ اور دنبہ اگر اتنا فربہ اور تیار ہو کہ دیکھنے میں سال بھرکامعلوم ہو تو وہ بھی جائز ہے ، گائے ، بھینس دوسال کی ، اونٹ پانچ سال کا ہونا ضروری ہے ، ان سے کم عمروں سے کم جانورقربانی کے لئے کافی نہیں ،(الفتاوی الہندیہ : ۵؍۲۹۷)جس جانور کے سینگ پیدائشی طور پر نہ ہو ں یا بیچ میں سے ٹوٹ گئے ہوں اس کی قربانی درست ہے ، ہاں ! سینگ جڑ سے اکھڑ گیا ہو جس کا اثر دماغ پر ہونا لازم ہے تو اس کی قربانی درست نہیں (شامی :۶؍۳۲۳)خصی بکرے کی قربانی جائز ؛ بلکہ افضل ہے (الہندیہ :۵؍۲۹۹) اندھے ، کانے اور لنگڑے جانور کی قربانی درست نہیں ، اسی طر ح ایسا مریض اور لاغر جانور جو قربانی کی جگہ تک اپنے پیروں نہ جاسکے اس کی قربانی بھی جائز نہیں ، جس جانور کا تہائی سے زیادہ کان یا دم کٹی ہوئی ہو اس کی قربانی جائز نہیں (شامی:۶؍۳۲۳)جس جانور کے دانت بالکل نہ ہوں یا اکثر نہ ہوں اس کی قربانی جائز نہیں (در مختار : ۵؍۲۹۸) اسی طرح جس جانور کے کان پیدائشی طور پر بالکل نہ ہوں ، اس کی قربانی درست نہیں ( درمختار :۴؍۱۶۵) اگر جانور صحیح سالم خریدا تھا ، بھر اس میں کوئی عیب مانع قربانی پیدا ہوگیا تو اگر خریدنے والا غنی صاحب نصاب نہیں ہے تو اس کے لئے اسی عیب دار جانور کی قربانی جائز ہے اور اگر یہ شخص غنی صاحبِ نصاب ہے تو اس پر لازم ہے کہ اس جانور کے بدلے دوسرے جانور کی قربانی کرے (درمختار :۴؍۱۶۵)
* قربانی کاگوشت خود کھائے ، دوست واحباب میں تقسیم کرے ، غریب مسکینوں کودے اور بہتر یہ ہے کہ اس کے تین حصے کرے ،ایک اپنے لئے ، ایک دوست واحباب اور عزیر واقارب کو ہدیہ دینے کے لئے اور ایک ضرورت مند نادار میں تقسیم کرنے کے لئے ، الغرض کم ازکم تہائی حصہ خیرات کردے؛ لیکن اگر کسی نے تہائی سے کم گوشت خیرات کیا ، باقی سب کھالیا یا عزیز واقارب کو دے دے تب بھی گناہ نہیں (رد المحتار : ۶؍۳۲۸)
*جانور ذبح کرتے وقت کی دعا :’’ بِسْمِ اللہِ اَللّٰہُ أَکْبَرُ ، إِنِّیْ وَجَّہْتُ وَجْہِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضَ حَنِیْفًا وَّمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ،إِنَّ صَلاَتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْن‘‘
( میں نے متوجہ کیا اپنے منہ منہ کو اسی طرف جس نے بنائے آسمان اور زمین سب سے یکسو ہو کر اور میں نہیں ہوں شرک کرنے والوں میں سے ، بے شک میری نماز اور میری قربانی اور میرا جینا اور مرنا اللہ ہی کے لئے لئے ہے جو پالنے والا سارے جہاں کاہے ‘‘پھر جانور ضبحر کرنے کے بعد یہ دعا پڑہے :
’’اّللّٰہُمَّ تَقَبَّلْ مِنِّیْ کَمَا تَقَبَّلْتَ مِنْ حَبِیْبِکَ مُحَمَّدْ وَخَلِیْکَ إِبْرَاہِیْمُ عَلَیْہُمَا السَّلَامُ(احمد ، ابوداؤد ، ترمذی ، مشکوۃ ، کتاب الأضحیۃ ) اے اللہ ! اس قربانی کو مجھ سے قبول فرما ، جیسے کہ آپ نے قبول کیا اپنے حبیب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور اپنے خلیل حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ۔
اللہ عزوجل ہمیں قربانی کی صحیح حقیقت کو سمجھتے ہوئے ، اس کے فضائل کے استحضار اور اس کے عبادت خالصہ ہونے کا یقین رکھتے ہوئے ، اس کے مسائل کو جان کراس ’’ذبح عظیم ‘‘ کے عمل کو انجام دینے کی کوشش کرے ۔
رفیق تصنیف دار الدعوۃ والارشاد یوسف گوڑہ ، حیدرآباد،
استاذ حدیث دار العلوم دیودرگ
rafihaneef90@gmail.com