جاویدجمال الدین (ممبئی)
ہندوستان کے موجودہ حالت سے سبھی واقف ہیں، ہرطرف افراتفری اور طواف الملکی کا دور دورہ ہے، عوام کی حفاظت وتحفظ اور امن نافذ کرنے والے اداروں کو مہرہ بنانے کی کوشش قابل مذمت ہے،لیکن اس کے باوجود چند ایجنسیاں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کررہی ہیں، یہ کہنا فی الحال جلد بازی ہوگا، کیونکہ مہاراشٹر انسداد دہشتگردی دستہ (اے ٹی ایس) نے ایک ہندو انتہا پسند تنظیم سناتن سنستھا کیخلاف جو جامع وٹھوس کارروائی کی ہے، اس کے نتیجے میں ارباب اقتدار کے ہوش اڑادیئے ہیں، لیکن ساتھ ساتھ ایک کھڑکی پونے پولیس نے بھیما کورے گاؤں تشدد کی تحقیقات کے بعد کھول دی ہے اور دلت رہنماء پرکاش امبیڈکر سمیت انسانی حقوق کے علمبرداروں کاالزام ہے کہ اے ٹی ایس کی بھگوا بریگیڈ کے خلاف کی گئی کارروائی کو دبانے کے لیے ارباب اقتدار نے دانستہ طور پربائیں بازو کے خلاف محاذ کھول کر رکھ دیاہے۔
اے ٹی ایس نے سب سے پہلے آنجہانی ہیمنت کرکرے کی سربراہی میں بھگوادہشت گرد تنظیموں کو بے نقاب کیا تھا، اور انہیں شدید دباؤ میں کام کرنا پڑا تھا۔اس بار جو کارروائی ہوئی ہے بلکہ جاری ہے ،اس کی تفتیش کے دوران اس بات کا انکشاف ہوا ہے کہ سناتن سنستھا سے وابستہ ان ملزمین نے اسلحہ کا بڑا ذخیرہ کیا ہواتھا اور 15اگست کو یوم آزادی کی تقریبات، بقر عیداور پھر مہاراشٹر میں گنیش اتسو کے دوران بموں سے پنڈالوں اور عبادت گاہوں کو نشانہ بنانا ان کی سازش میں شامل تھا، جسے اے ٹی ایس نے ناکام بنادیا، ویسے تحقیقات میں کچھ سست روی محسوس ہونے لگی ہے ، لیکن شاید میڈیا کی دلچسپی نے حکومت کو خاموش ضرور کردیا ہے، پھر بھی اسے دبانے کیلئے درپردہ ہاتھ پیر مارے جارہے ہوں گیجس میں کامیابی نہیں ملی ہے۔
ان سناتن سنستھا کے رضا کاروں کی گرفتاری کے دوران ریاست میں دستور کی کاپیاں جلانے اور باباصاحب امبیڈکر کے مجسموں کی بے حرمتی کے مبینہ واقعات بھی پیش آئے ہیں۔ مہاراشٹر میں کانگریس اور نیشنلسٹ کانگریس کمیٹی کے لیڈران نے ریاستی وزیر اعلیٰ دیویندر فڑنویس سے ان گرفتاریوں کے سلسلے میں وضاحت پیش کرنے کا مطالبہ کیا ہے کیونکہ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ فڑنویس معمولی معمولی واقعات اور معاملات پرٹویٹ کرکے بیان جاری کرتے ہیں اور اکثر پریس کانفرنس بھی طلب کرلیتے ہیں۔ مہاراشٹر میں سرگرم سنا تن سنستھا سے اتنا بڑا واقعہ پیش آنے اور بڑے پیمانے پر تنظیم سے وابستہ افراد کی گرفتار ی پر ان کی خاموشی تعجب خیز ہے، انہیں چاہیے تھا کہ اس معاملہ میں بھی اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے‘ اپنی پوزیشن واضح کردیتے، لیکن ایسا نہیں ہوا ہے جو کہ تشویش ناک امر ہے۔دراصل مذکورہ گرفتار شدگان کے بارے میں تحقیقات سے پتہ چلاہے کہ ان کے تار بائیں بازو کے متعدد سماجی کارکن کے قتل سے جڑے ہوئے ہیں جن میں پڑوسی ریاست کرناٹک کے کلبرگی اور گوری لنکیش کے ساتھ ساتھ دھابولکراور گووند پنسارے کے قتل کے معاملات بھی شامل ہیں۔ انہوں نے مشہو ر فلم اداکار گریش کرناڈ کے قتل کی سازش رچی تھی بلکہ ان کی فہرست میں 22 شخصیات شامل ہیں جنہیں نشانہ بنانا تھا۔
مہاراشٹر اے ٹی ایس کی تفتیش سے ہرروز انکشافات ہورہے ہیں، سناتن سنستھا کی مشتبہ سرگرمیوں کا انکشاف 2013 میں ہی ہوگیا تھا، جب نریندردھابولکرکے قتل کے سلسلہ میں پولیس نے سنستھا کے ایک مشتبہ ملزم کو گرفتارکیا تھا، لیکن بتایا جاتا ہے کہ سابق نائب وزیراعلی اور داخلہ آنجہانی آر آرپاٹل نے اس ضمن میں مبینہ سست روی کا اشارہ کیا تھا کیونکہ متعدد مراٹھا اور این سی پی لیڈران کے اس قسم کی تنظیمو ں کے عہدیداروں سے تعلقات تھے اور یہی وجہ ہے کہ تحقیقات میں کافی لاپروائی برتی گئی جس نے سنستھا کے حوصلہ بلند کردےئے اور فی الحال بڑے پیمانے پر کارروائی کے باوجود اس کے حوصلہ بلند ہیں اور یہی وجہ ہے کہ سناتن سنستھا کی ہرایک گرفتاری کے بعد وہ دیدہ دلیری کے ساتھ پریس کانفرنس منعقد کرتے ہیں۔ ہاں اب سنبھا جی بھیڑے کی گرفتاری ہوچکی ہے جوشیوپرتسٹھان سے وابستہ ہے اور گنپتی پنڈال میں دھماکہ کی سازش رچنے کا ملزم ہے۔ بھیما کورے گاؤں میں تشددکے لیے اہم ملزم قرار دیئے گئے بھیڑے کو وزیراعلیٰ فڑنویس نے بھی کلین چٹ دے دی تھی۔
سناتن سنستھا کے ساتھ نرمی برتنے کے لیے سبھی قصور وار ہیں کیونکہ سابق وزیراعلیٰ پرتھوی راج چوان نے مرکز کو ایک رپورٹ اپنے دور میں روانہ کی تھی ،لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتاہے کہ مرکز میں کانگریس کی حکومت ہونے کے باوجود مرکزی وزیر داخلہ سشیل کمارشندے نے کوئی توجہ نہیں دی اور معاملہ ٹھنڈے بستہ میں ڈال دیا گیا، سناتن سنستھا سے نرمی برتنے کے لیے حمام میں سبھی ننگے ہیں۔کیونکہ سناتن سنستھا کے ساتھ نرمی برتنے کانتیجہ یہ سامنے آیا کہ ان۔کے حوصلے بلند ہوگئے اور انہیں قتل وخون خرابے کاسرٹیفکیٹ مل گیا ،اور انہوں نے پنسارے، کلبرگی اور بنگلور میں لنکیش کو تہ تیغ کردیا اور اس انکار کرتے ہوئے اپنے قدکو مزید اونچا کرلیا، ان کا ڈر وخوف بھی نکل چکا تھا اور انہیں موجودہ حکومت کی وجہ سے یہ محسوس ہونے لگا کہ ان کا کوئی کچھ بگاڑ نہیں سکتا ہے۔ ممبئی کے جس مضافاتی علاقہ سے سناتن کے ان رضاکاروں کو پکڑاگیا، ان کی گرفت آس پاس کے علاقوں میں اتنی مضبوط ہے کہ ان ملزمین کی حمایت میں احتجاجی جلوس نکالے گئے، اور رہائی کامطالبہ کیا گیا، لیکن اے ٹی ایس اپنے فیصلہ پراٹل ہے، اورفی الحال کہیں کمزورنہیں پڑی ہے۔ مہاراشٹر میں چند سال قبل اقلیتی فر قہ کے نوجوانوں کی گرفتاری کے خلاف آواز اٹھانے اور احتجاج کرنے پر انہیں ساری قوم کو قصور ٹہرایا جاتا تھا اور نیوز چینلز چیخ چیخ کراپنی بات کو ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔
فی الحال سناتن کامعاملہ اتنا طول پکڑ چکا ہے کہ فدنویس اوربی جے پی اور حکومت کے گلے کی ہڈی بن گیا ہے۔کیونکہ سنگھ پریوار کے چہتے فڑنویس کو ان کے دور میں ہی اپنوں کو سلاخوں کے پیچھے ڈالنا پڑرہا ہیاور چچوندر کی طرح نہ اسے نگل پارہے ہیں اور نہ ہی اگل۔