دنیا میں جاری بحرانوں میں اس وقت روہنگیا قوم کا مسئلہ الم ناک ترین ہے۔ روہنگیا دنیا کی وہ واحد قوم ہے، جو کسی بھی ملک کی شہریت نہیں رکھتی۔ حالاں کہ ان کا آبائی ملک میانمر (سابق برما) کی مغربی ریاست راکھین ہے، جو ماضی میں سلطنت اراکان کے نام سے جانی جاتی تھی۔ روہنگیا مسلمان اس علاقے کے قدیم باشندے ہیں، جہاں ان کی مساجد اور آبا و اجداد کی صدیوں پرانی قبروں کے نشان آج بھی موجود ہیں۔ اس کے باوجود میانمر کی بدھ حکومت انہیں بنگلادیشی قرار دیتی ہے اور اسی بہانے کو لے کر انہیں شہریت سے محروم کررکھا ہے۔ بات شہریت سے محروم کیے جانے کی ہوتی، تو شاید یہ قضیہ اتنا المناک اور حساس نہ ہوتا، تاہم روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام اور بے وطن کیے جانے نے پوری دنیا کے عوام کو ہلا کر رکھ دیا۔ گزشتہ برس اگست کے اواخر میں میانمر کی فوج اور بدھ بھکشوں نے روہنگیا مسلمانوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کی۔ اس دوران 24ہزار افراد کو قتل، 43 ہزار کو گولیاں مار کر زخمی، 18 ہزار عورتوں اور بچیوں کو بے آبرو، 34 ہزار بچوں کو یتیم، 300 سے زائد دیہات کو نذرآتش اور 8 لاکھ افراد کو بنگلادیش نقل مکانی پر مجبور کیا گیا، تاہم بین الاقوامی برادری کا ضمیر نہ جاگا۔ عالمی رہنماں نے کھوکھلے بیان دینے پر اکتفا کیا، جب کہ عملی اقدام کہیں نظر نہ آیا۔ دنیا بھر نے میانمر کی جمہوری رہنما آنگ سان سوچی پر خوب لعن طعن کی، لیکن ان کے کان پر جوں نہ بھی رینگی۔ حتی کہ گزشتہ روز اقوام متحدہ کے سبکدوش ہونے والے انسانی حقوق کمشنر شہزادہ زید رعد الحسین کو یہ کہنا پڑا کہ اس بحران کے باعث سوچی کو مستعفی ہوجانا چاہیے تھا۔ انہوں نے کہا کہ سوچی نے اس المیے کی مذمت کرنے کے بجائے فوجی کارروائی کو جواز فراہم کرنے کی کوشش کی۔ دوسری جانب اقوام متحدہ اور امریکی حکومت روہنگیا بحران سے متعلق مسلسل بیان داغنے میں مصروف ہے، شاید اس کی وجہ فلسطینی مسلمانوں کے خلاف اسرائیل کا مکمل ساتھ دینے اور شام میں حزب اختلاف کو بے یارومددگار چھوڑنے والی امریکی حکومت کی روہنگیا بحران میں انسانی کے بجائے سیاسی دلچسپی ہے۔
چین نے اپنے ون بیلٹ ون روٹ منصوبے کے ساتھ کئی ممالک میں سرمایہ کاری کی ہے، وہیں میانمر کے ساتھ چین میانمر معاشی راہ داری کا اربوں ڈالر کا معاہدہ کیا ہے۔ اس منصوبے کے تحت میانمر میں ریلوے لائنوں، سڑکوں اور اکنامک زونز کا جال بچھایا جائے گا۔ اسی میں 1060 کلومیٹر کی گیس اور آئل پائپ لائن بھی شامل ہے جو راکھین کی بندرگاہ کیوکپیو سے چین کے صوبے یوننان تک جاتی ہے۔ چین اس پائپ لائن کے ذریعے خلیج بنگال سے سالانہ 2 کروڑ 20 لاکھ ٹن خام تیل درآمد کرے گا۔ امریکی حکومت کی بیان بازی بھی اسی بڑھتے چینی اثرورسوخ کے باعث ہے۔ چین میانمر معاشی راہ داری کا اہم ترین حصہ راکھین کی ریاست ہے۔ یہی وجہ ہے کہ روہنگیا بحران سے متعلق چین پر بھی انگلیاں اٹھ رہی ہیں۔چین کے لیے زیادہ ضروری تھا کہ وہ اس قضیے کے حل میں عالمی اور علاقائی طاقت اور میانمر کا اقتصادی شراکت دار ہونے کے ناتے مثبت کردار ادا کرتا، تاہم اس کی جانب سے بھی ایک دو کمزور بیانات سے زیادہ کوئی ردعمل دیکھنے میں نہ آیا۔
اسی طرح ایشیا، مشرق وسطی اور یورپ کے ممالک بھی اس بحران سے آنکھیں چراتے رہے، جس کے باعث یہ المیے کی صورت اختیار کرگیا۔ تاہم ابھی موقع ہے کہ اس کی تلافی کی جائے۔ اس کا طریقہ یہی ہے کہ بنگلادیش اور میانمر کے درمیان طے پائے مہاجرین کی واپسی کے معاہدے پر من و عن عمل کرانے کے لیے نیپیدا حکومت پر دبا ڈالا جائے، جو مسلسل لیت و لعل سے کام لے رہی ہے۔
روہنگیا مسلمانوں کی بحفاظت وطن واپسی اور آبادکاری پوری دنیا کی اخلاقی ذمے داری ہے، جس سے کوئی بری نہیں ہوسکتا۔حیرت اس پر ہے کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو نے میانمر پر زور ڈالنے کے بجائے کہا ہے کہ میانمر کی صورت حال مسلمانوں کی واپسی کے لیے موزوں نہیں ہے۔ یعنی ان کو اپنے وطن واپس نہیں جانا چاہیے۔ پھر وہ کہاں جائیں ؟ بنگلا دیش کے کاکسس بازار کے مہاجر کیمپ کو جنرل سیکرٹری نے اپنے دورے کے بعد ظلم و ستم کی زندہ تصویر قرار دیا ہے جہاں مہاجروں کی حالت زار ناقابل بیان ہے۔ اقوام متحدہ کے ماہرین کی رپورٹ ہے کہ میانمر کی اعلی فوجی قیادت جنگی جرائم میں ملوث ہے۔ میانمر حکومت نے اس رپورٹ کو مسترد کردیا۔ اقوام متحدہ بھی صرف بیان دینے میں دلچسپی رکھتی ہے۔
(بہ شکریہ روزنامہ جسارت)