ڈاکٹر مظفر حسین غزالی
ایک طرف بی جے پی، این ڈی اے جی نہیں وزیر اعظم نریندرمودی ”اب کی بار چار سو پار“ کا نعرہ لگا رہے ہیں۔ وہیں دوسری طرف حزب اختلاف کے مضبوط امیدواروں کا پرچہ نامزدگی رد کرنے کی خبریں آرہی ہیں۔ کھجوراؤ میں انڈیا اتحاد کے امیدوار کا پرچہ نامزدگی خارج کیا گیا۔ اس نے برسراقتدار جماعت پر ان کی امیدواری رد کرانے کا الزام لگایا ہے۔ بی جے پی کو بغیر الیکشن کے ہی جیتنے اور اقتدار میں بنے رہنے کی جلدی ہے۔ سورت کا انتخابی مینجمنٹ اسی طرف اشارہ کر رہا ہے۔ وہاں کانگریس اور عآپ کے مشترکہ امیدوار نلیش کمبھانی کا پرچہ نامزدگی الیکشن سے محض ایک دن پہلے خارج کر دیا گیا۔ کہا یہ گیا کہ ان کے تینوں تجویز کنندگان Proposer نے ریٹرنگ آفیسر کو حلف نامہ کے ذریعہ مطلع کیا ہے کہ پرچہ نامزدگی پر ان کے دستخط فرضی ہیں۔ جب انہیں طلب کیا گیا تو وہ سامنے نہیں آئے۔ ان کے حلف نامے بی جے پی کے ایڈوکیٹ نے تیار کئے تھے۔ ریٹرنگ آفیسر نے بغیر معاملہ کی تحقیق کئے، شکایت پر ہی پرچہ نامزدگی خارج کر دیا۔ جبکہ ان تجویز کنندگان میں ایک نلیش کمبھانی کے بہنوئی، دوسرا بھتیجا اور تیسرا ان کا کاروباری پارٹنر ہے۔ شکایت کے بعد سے یہ انڈر گراونڈ ہیں۔ پرچہ خارج ہونے کے بعد نلیش بھی کسی کے رابطہ میں نہیں تھے۔ نہ وہ پریس کے سامنے آئے اور نہ ہی اس مسئلہ کو وہ عوام کے درمیان لے کر گئے۔ یہ معاملہ یہیں نہیں رکا بلکہ آٹھ دوسرے امیدواروں نے بھی اپنا نام واپس لے لیا۔ ان میں ایک بی ایس پی کا امیدوار بھی شامل ہے۔ اس کے بعد بی جے پی کے مکیش دلال کو بلا مقابلہ کامیاب قرار دے دیا گیا۔
سوال یہ ہے کہ تیسرے شخص کے ذریعہ ملے تجویز کنندگان کے حلف ناموں کو ریٹرنگ آفیسر نے بغیر تصدیق کے قبول کیوں کیا؟ امیدوار تجویز کنندگان کے ساتھ کہاں غائب ہو گیا؟ اسے تلاش کیوں نہیں کرایا گیا؟ فرضی دستخط والا پرچہ نامزدگی داخل کرنے کے لئے امیدوار کے خلاف کاروائی کیوں نہیں کی گئی؟ باقی کے آٹھ امیدواروں نے اپنے نام کیوں واپس لئے؟ کیا انہیں ڈرایا گیا یا کوئی لالچ دیا گیا؟ کانگریس امیدوار ملی بھگت بھی اگر اس میں شامل ہے تو اس سے بھی پردہ ہٹنا چاہئے۔ قانونی طور پر صحیح ہے یا غلط یہ دیکھنا عدالت کا کام ہے۔ لیکن سورت کے پندرہ لاکھ ووٹروں کو ان کے حق رائے دہندگی سے محروم کیوں کیا گیا اس کا جواب ملنا چاہئے۔ سورت کے واقعہ نے چنڈی گڑھ کے میئر انتخاب میں ہوئی دھاندلی کی یاد کو تازہ کیا ہے۔ وہاں کانگریس اور آپ کے ووٹوں کو رد کرکے بی جے پی کے میئر امیدوار کو جتا دیا گیا تھا۔ سی سی ٹی وی کیمرے میں اس کی پوری ریکارڈنگ قید تھی۔ پنجاب ہائی کورٹ نے ریٹرنگ آفیسر کے فیصلے پر روک لگانے سے انکار کر دیا تھا۔ یہ معاملہ سپریم کورٹ آیا جہاں یہ فیصلہ پلٹ گیا۔ حالانکہ ریٹرنگ آفیسر کے فیصلے کو صحیح ثابت کرنے کے لئے حکومت نے بڑے بڑے وکیلوں کو عدالت میں کھڑا کیا تھا۔ سپریم کورٹ نے اس موقع پر کہا کہ ہم جمہوریت کا اس طرح خون ہوتے ہوئے نہیں دیکھ سکتے۔ عدالت نے ریٹرنگ آفیسر پر جھوٹ بولنے کے لئے مقدمہ قائم کیا تھا۔
اس دور میں سورت جمہوریت اور جمہوری اداروں کو کمزور کرنے کی تجربہ گاہ کے طور پر ابھرا ہے۔ مہاراشٹر کی مہا وکاس اگھاڑی حکومت کو گرانے کے لئے شیوسینا کے باغی ممبران اسمبلی کو ایک ناتھ شنڈے کے ساتھ 2022 میں یہیں رکھا گیا تھا۔ وہ فیصلہ بھی سورت کی عدالت سے ہی ہوا تھا جس نے راہل گاندھی کی پارلیمنٹ کی ممبرشپ ختم کر دی تھی۔ ملک میں اپنی نوعیت کی یہ پہلی مثال ہے کہ ووٹنگ کے بغیر لوک سبھا کا انتخاب جیتا دیا گیا جسے سورت نے پیش کیا ہے۔ ویسے 1951 سے اب تک 35 امیدوار بنا ووٹنگ کے لوک سبھا الیکشن جیت چکے ہیں۔ ان میں ڈمپل یادو بھی شامل ہیں، 2012 میں کنوج لوک سبھا کے ضمنی انتخاب میں ڈمپل کے سامنے کوئی امیدوار نہیں تھا ایسے میں ان کی بلامقابلہ جیت ہوئی تھی۔ سورت کو چھوڑ کر گجرات کی باقی بچی 25 سیٹوں کے لئے 265 امیدوار میدان میں ہیں۔ اگر اسی طرح دوسرے حلقوں میں بھی الیکشن مینج کیا گیا تو انتخاب کا مطلب ہی ختم ہو جائے گا۔ بی جے پی اسی سمت میں آگے بڑھنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اروناچل پردیش کے اسمبلی انتخابات میں دس امیدوار بلامقابلہ الیکشن جیت چکے ہیں۔ یہ سبھی بی جے پی کے امیدوار ہیں۔
سورت‘ بی جے پی کا گڑھ مانا جاتا ہے۔ لیکن اس مرتبہ سورت کی سیٹ پر سخت مقابلے کا اندیشہ تھا۔ ایک طرف کپڑا کاروباری بی جے پی سے ناراض ہیں احتجاج میں فیکٹریاں بند ہیں۔ اس کی وجہ سے ساٹھ ستر ہزار فیکٹری مزدور سورت سے چلے گئے ہیں۔ دوسری طرف راجپوت پنچایت کر بی جے پی کو ووٹ نہ دینے کا اعلان کر چکے ہیں۔ گجرات میں ان کی تعداد 35 سے 40 لاکھ بتائی جاتی ہے۔ ایسے میں بی جے پی سورت کی سیٹ گنوا سکتی تھی۔ اس کا گجرات کی سیاست پر منفی اثر ہوتا۔ شاید اسی ڈر سے الیکشن کو مینج کر بھاجپا نے اس سیٹ کو جیتا ہے۔ مگر ملک میں اسکا میسج بہت خراب گیا ہے۔ اس سے آئین اور جمہوریت کو ختم کرنے کے شک کو تقویت ملی ہے۔ عوام کے درمیان آئینی اداروں کو کمزور کرنے یا ختم کرنے، ون نیشن ون الیکشن ون کینڈیڈیٹ اور 2024 کا الیکشن آخری ہونے جیسے موضوعات پر بحث شروع ہو گئی ہے۔ یہ کہا جارہا ہے کہ اپوزیشن کے بغیر اگر کوئی جمہوریت کے زندہ رہنے کی بات سوچتا ہے تو وہ مردہ ہو چکا ہے، اس کی سوچنے سمجھنے کی طاقت ختم ہو چکی ہے۔ کیونکہ سورت کا واقعہ کوئی عام معاملہ نہیں ہے یہ انتخابی لوٹ کا ایشو ہے۔ اگر ایسے الیکشن مینج ہونے لگا تو پھر انتخاب کا کوئی مطلب نہیں رہ جائے گا۔ بھاسکر کی رپورٹ کے مطابق یہ میچ فکسنگ کا معاملہ کانگریس کے امیدوار نلیش کمبھانی کی ملی بھگت کی وجہ سے عمل میں آسکا۔ اس لئے ضروری ہے کہ اس واقعہ پر سنجیدگی سے غور و فکر کرکے کانگریس امیدوار اور اس کے تجویز کنندگان پر سخت دفعات کے تحت مقدمہ قائم کرایا جائے تاکہ آئندہ کوئی الیکشن کو مذاق بنانے کی حرکت نہ کر سکے۔
ای وی ایم میں گڑ بڑی، الیکشن کمیشن کے بھاجپا رکن کے طور پر کام کرنے اور اپوزیشن کے ساتھ امتیازی رویہ اپنانے پر تو اعتراض ہوتا ہے۔ مگر الیکشن کے طریقہ کار پر زیادہ بات نہیں ہوتی۔ موجودہ انتخاب کی ہی بات کریں تو یہ پونے دو ماہ چلے گا۔ سات مرحلوں میں ووٹ ڈالے جائیں گے۔ لیکن یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ ہر مرحلے میں کئی ریاستوں کی کچھ کچھ سیٹوں پر ووٹ ڈالے جائیں گے۔ مثلاً پہلے مرحلے میں 21 ریاستوں کی 102 سیٹوں پر ووٹ ڈالے گئے۔ جس میں اترپردیش کی آٹھ اور بہار کی چار سیٹیں شامل تھیں۔ دوسرے مرحلے میں 13 ریاستوں کی 89 سیٹوں پر ووٹ ڈالے جائیں گے۔ اس میں بھی یوپی کی آٹھ اور بہار کی صرف پانچ سیٹوں پر ووٹ پڑیں گے۔ یہ الیکشن ہے یا مذاق کہ ایک سیٹ پر ووٹ ڈالے جا رہے ہیں وہی اس کے برابر کی سیٹ پر اگلے مرحلے میں ووٹ پڑیں گے۔ وہاں وزیراعظم یا دوسرا کوئی بڑا لیڈر عین ووٹنگ کے دن ریلی کر ووٹروں کو متاثر کرنے کی کوشش کر رہا ہوتا ہے۔ اس طریقہ نے ایک طرف الیکشن کو بہت خرچیلا بنا دیا ہے۔ وہیں دوسری طرف غیر جانبدارانہ و منصفانہ انتخاب کے امکان کو کم کر دیا ہے۔ پارٹی لیڈران کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک دوڑنے پر بڑی رقم خرچ ہوتی ہے۔ پھر سیکورٹی اور نگرانی کا مسئلہ بھی پیدا ہوتا ہے۔
ہونا تو یہ چاہئے کہ ملک کو چار یا پانچ زون میں بانٹ کر دو دن یا تین دن کے فاصلے سے الیکشن کرایا جائے۔ الیکشن ختم ہونے کے دو یا تین دن بعد نتیجوں کا اعلان ہو۔ کئی مرتبہ کسی پولنگ بوتھ یا اسٹیشن پر کسی وجہ سے دوبارہ ووٹنگ کرانی ہو تو وہ بھی ہو جائے۔ اس سے ایک طرف وقت اور پیسوں کی بچت ہوگی، سیکورٹی اور نگرانی کے مسائل بھی کم ہوں گے دوسری طرف غیر جانبدارانہ صاف ستھرے انتخابات کا امکان بھی بڑھ جائے گا۔ لیڈران کے لئے ووٹروں کو متاثر کرنا آسان نہیں ہوگا۔ انتخابی کمیشن کو اس پر غور کرنا چاہئے، اگر الیکشن کمیشن دھیان نہیں دیتا ہے تو سپریم کورٹ کو از خود مداخلت کرکے انتخابات کے لئے ہدایات جاری کرنی چاہئے۔ ابھی انتخاب کے نام پر جو کچھ ہو رہا ہے وہ کسی مذاق سے کم نہیں ہے۔ انتخابات کو مذاق بننے سے بچانے کے لئے کسی کو تو پہل کرنی ہی پڑے گی وہ چاہے سیاسی جماعتیں ہوں، الیکشن کمیشن ہو، عدالت ہو یا پھر عوام۔
Tags یہ الیکشن ہے یا مذاق