مولاناحافظ محمد عبدالقوی ناظم ادارہ اشرف العلوم حیدرآباد و صدر ریاستی رابطہ مدارس اسلامیہ ،کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔ آپ حضرت مولاناحافظ محمد عبدالغنی صاحبعلیہ الرحمہ کے فرزند ہیں۔ مولاناحافظ محمد عبدالقوی صاحب 3رمضان المبارک ۱۳۷۹ ہجری کو جنگاؤں کے قریب موضع سلاخ پورمیں پیدا ہوئے۔ آپ کے دادا جناب محمدغلام محی الدین نارائن پور ، ضلع نلگنڈہ کے پٹیل تھے ۔ جناب غلام محی الدین صاحب کے چھ فرزندوں میں سب سے چھوٹے فرزند مولانا حافظ محمد عبدالغنی ہیں۔ جناب غلام محی الدین پٹیل نے اپنے تمام فرزندوں کو عصری تعلیم دلائی اور آپ کے پانچ فرزندان محکمہ تعلیمات میں خدمات انجام دے چکے ہیں، جبکہ آپ کے سب سے چھوٹے فرزند یعنی مولانا حافظ محمد عبدالغنی صاحب کی ابتدائی تعلیم نلگنڈہ میں ہوئی ، ہائی اسکول کی تعلیم دیور کنڈہ اور پھر محبوب نگر میں ہوئی اس کے بعد پی یو سی (انٹر میڈیٹ) کیا۔
آپ ابتداء ہی سے ذہین رہے ، آپکے والد محترم نے آپ کو سٹی کالج ،حیدرآباد میں گرائجویشن کیلئے داخلہ دلایا اس طرح وہ اعلیٰ تعلیم کے حصول کیلئے حیدرآباد منتقل ہوگئے آپ کے قیام و طعام کا انتطام نامپلی میں تھا۔ اسی محلہ میں ایک عالم دین مولانا عبدالجبار ندوی مقیم تھے۔ مولانا عبدالجبار ندوی صاحب سٹی کالج میں لکچرار تھے اور مسجد عامرہ ، عابڈس میں تفسیر قرآن بیان فرماتے تھے۔ مولانا نے اپنے کالج کے طالب علم محمد عبدالغنی کو بھی مسجد عامرہ میں آپ کے درس قرآن میں شریک ہونے کی دعوت دی اور جب یہ نوجوان عبدالغنی مسجد عامرہ میں درس قرآن کی محفل میں حاضر ہوئے تو یہیں سے آپ کے دل و دماغ میں ایک تڑپ سی محسوس ہوئی اور آپ کا دل پوری طرح قرآن شریف اور دینی علوم کی جانب رغبت کرنے لگا۔ مولانا محمد عبدالقوی بتاتے ہیں کہ والد ماجد کا بیان ہے کہ ’’مجھے قرآن کی زبان سیکھنے کا شدت سے احساس ہوا اور اپنے طور پر میں عربی زبان سیکھنے لگا۔ ایک روز مولانا عبدالجبار ندوی کی نظر مجھ پر پڑی جو عربی کتاب کا مطالعہ کررہے تھے جب وہ قریب آئے اور دیکھا کہ کالج کی دیگر کتابوں کے نیچے ایک عربی کتاب بھی موجود ہے تو آپ نے مجھے (محمد عبدالغنی صاحب )کو مشورہ دیا کہ کوئی ایک کام کرو یعنی کالج کی تعلیم پوری کرو یا پھر دینی تعلیم کے حصول میں لگ جاؤ۔ لہذا آپ نے دینی علم سیکھنے کا طئے کیا اور اپنے والد ماجد جناب غلام محی الدین صاحب سے اس خواہش کا اظہار کیا، جس پر آپ کے والد صاحب نے اجازت مرحمت فرمائی‘‘ اس طرح آپ عصری علوم کے بجائے دینی علوم کو ترجیح دےئے ۔
ان دنوں نواب بہادر یار جنگ کی دعوت پر علامہ سلیمان ندوی صاحبؒ اکثر حیدرآباد تشریف لایاکرتے تھے آپ کی تقاریر میں محمد عبدالغنی صاحب شریک ہوتے ۔ مولانا عبدالقوی بتاتے ہیں والد صاحب نے مولانا سے متاثر ہوکر آپ کو خط لکھا کہ میں دین کا علم حاصل کرنا چاہتا ہوں۔ اسکے لئے میں کہاں تعلیم حاصل کروں۔ ان ہی دنوں کی بات ہے کہ ہردوئی میں حضرت مولانا ابرار الحق صاحبؒ نے ایک مدرسہ’’اشرف المدارس‘‘ قائم کیا تھا ۔ مولانا سلیمان ندوی صاحبؒ نے آپ کے والد یعنی مولانا محمد عبدالغنی صاحب کوصلاح دی کہ وہ ہردوئی کے مدرسہ اشرف المدارس میں شریک ہوں۔ اس کے ساتھ آپ نے فرمایا کہ جب ہردوئی جاؤ تو بھوپال ہوتے جانا تاکہ میں آپ کو ایک سفارشی پرچی دوں۔ پہلی مرتبہ محمد عبدالغنی صاحب ریل کا سفر کرتے ہوئے بھوپال پہنچے اور پھر وہاں سے ہودوئی کا سفر کیا ۔ جب آپ اشرف المدارس میں داخلہ لینے پہنچے تو وہاں دیکھا کہ اب تک صرف پانچ طلبا ہی کا داخلہ ہوا تھا اور وہ چھٹویں طالب علم کی حیثیت سے شریک مدرسہ ہوئے۔
کیونکہ مدرسہ کا قیام ہوئے کچھ ہی عرصہ ہوا تھا۔ یہ نوجوان جو عصری تعلیم کے ماحول سے نکل کر اپنے خالق و مالک کے اس عظیم الشان کلام مقدس کو جو پیارے نبی کریم حضرت محمد مصطفی ﷺ پر نازل ہوا اسے حفظ کرنے کا آغاز کیا اور تقریباً 19سال کی عمرمیں حافظ قرآن بن گئے۔ پھر عالم کورس میں داخلہ لیا اور چھٹی جماعت تک تعلیم حاصل کی تھی کہ تقسیم ہند کے عمل میں آپ کے دونوں بھائی پاکستان منتقل ہوگئے جن میں آپ کے ایک بڑے بھائی جوآپکی کفالت کرتے تھے وہ بھی شامل تھے اور انہوں نے پاکستان منتقل ہونے سے قبل آپ کی کفالت سے معذرت کرلی تھی۔ حافظ صاحب نے اپنے استاذِ محترم مولانا ابرار الحق صاحبؒ کے سامنے یہ بات رکھی اور آپ سے مشورہ کیا۔ استاذ محترم نے آپ کو یہیں پر یعنی اشراف المدارس میں خدمات انجام دینے کیلئے کہا آپ چھ سال تک اشرف المدارس ہردوئی میں خدمات انجام دے کر حیدرآباد واپس ہوئے اس طرح آپ نے ہردوئی میں 14سال تک قیام فرمایا۔اپنی صلاحیتوں، علم سے شغف ، اخلاق کریمہ کی وجہ سے محی السنۃ حضرت مولانا شاہ ابرار الحق صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے نورِ نظر بن گئے تھے ۔
مولانا عبدالقوی صاحب فرماتے ہیں کہ اسی اثناء مولانا محمد امام صاحب جوجامعہ نظامیہ کے فارغ اور حضرت مولانا اشرف علی تھانوی صاحبؒ کے مرید تھے ، آپ نے مولانا ابرار الحق صاحب کو اپنی نواسی کے رشتہ کے سلسلہ میں خط لکھا کہ کوئی اچھا لڑکا ہو تو بتائیں۔ ان دنوں جب آپ عنبر پیٹ حیدرآباد میں مقیم تھے ، مولانا سید محمد ذکی صاحب جن کی ابتدائی تعلیم جامعہ نظامیہ میں ہوئی تھی اور فراغت دارالعلوم دیوبند سے ہوئی آپ کی صاحبزادی سے حافظ محمد عبدالغنی کا نکاح ہوا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ مولانا ابرار الحق صاحب اپنے شاگرد خاص محمد عبدالغنی صاحب کی تقریب شادی میں نکاح پڑھانے کیلئے پہلی مرتبہ حیدرآباد تشریف لائے ۔ نکاح کے بعد عبدالغنی صاحب اپنی شریک حیات کو لے کر ہردوئی چلے گئے۔ وہیں پر آپ کی ایک صاحبزادی اور ایک فرزند مولانا مفتی عبدالمغنی کی ولادت ہوئی۔
جنگاؤں ،ریاست تلنگانہ کے قریب موضع مدّور کے تاجر جناب عبدالستار صاحب جو حضرت مولانا ابرار الحق صاحب کے معتقد تھے انہوں نے اشرف المدارس کے نہج پر قرآن شریف کی اچھی تعلیم و تربیت کیلئے مدرسہ قائم کرنے کا ارادہ کیا تو وہ ہردوئی گئے اور اشرف المدارس میں مولانا عبدالقوی صاحب کے والد محترم مولانا حافظ محمد عبدالغنی سے ان کی ملاقات ہوئی، جب انہیں یہ پتہ چلا کہ حافظ عبدالغنی صاحب ان ہی کے علاقے کے ہیں تو انہوں نے حضرت مولانا ابرار الحقؒ سے اپنے وطن میں مدرسہ کھولنے کی درخواست کی اور یہ بھی خواہش کی کہ یہ نوجوان ہمارے علاقے کے ہیں ان ہی کو بھیج دیا جائے ۔ اسطرح آپ کے والد دوبارہ اپنے افراد خاندان کے ساتھ وطن واپس ہوئے اور مدرسہ فیض العلوم کے نام سے سلاخ پور، جنگاؤں میں افتتاح کیا۔ اسی موضع سلاخ پور میں مولانا حافظ محمد عبدالقوی کی ولادت ہوئی۔ فیض العلوم جو سلاخ پور میں مختصر مدت چلایا گیا اس کے بعد اسے جنگاؤں منتقل کیا گیا وہاں سے ورنگل اور پھر سعیدآباد، حیدرآباد منتقل ہوا۔ فیض العلوم میں مولانا حافظ محمدعبدالغنی صاحب نائب ناظم کی حیثیت سے کم و بیش 28سال تک خدمات انجام دیتے رہے۔
فیض العلوم کے ناظم حضرت مولانا ابرار الحق صاحب تھے۔ بانئ مدرسہ حاجی عبدالستار صاحب نے بھی اپنی تمام حیات اسی مدرسے کی خدمت و ترقی میں لگادی۔مولانا حافظ محمد عبدالغنی کے پانچ فرزند اور پانچ صاحبزدیاں ہیں ۔ آپ نے اپنے پانچوں فرزندوں کو حافظ قرآن بنایا اور دینی علوم سے آراستہ کیا ۔ الحمد للہ آج آپ کے پانچوں صاحبزادے علم دین کی اشاعت و تبلیغ سے جڑے ہوئے ہیں۔آپ کے پانچ فرزندوں میں بڑے فرزند مولانامفتی حافظ محمد عبدالمغنی ناظم مدرسہ سبیل الفلاح و صدر سٹی جمیعت العلماء ، دوسرے فرزند مولانا حافظ محمد عبدالقوی ناظم ادارۂ اشرف العلوم و صدر ریاستی رابطہ مدارس اسلامیہ ، تیسرے فرزند حافظ محمد عبدالولی نائب ناظم ادارہ اشرف العلوم، چوتھے فرزند حافظ محمد عبدالحفی مدرسہ سبیل الفلاح میں استاذ ہیں اور پانچویں فرزند حافظ محمد عبدالمحصی معہد اشرف کے نگراں ہیں۔گذشتہ دنوں حضرت مولانا محمد عبدالغنی علیہ الرحمہ کی بڑی صاحبزادی رحلت کرگئیں۔
مولانا حافظ محمد عبدالقوی کا داخلہ فیض العلوم ، حیدرآبادمیں ابتدائی تعلیم کے سلسلہ میں ۲۱؍ جمادی الاولیٰ ۱۳۸۵ ہجری میں ہوا۔ فیض العلوم سے ہی حفظِ قرآنِ مجید کی تکمیل ۲۴؍محرم الحرام ۱۳۹۶ھ کو کی اورتکمیلِ فضلیت شعبان المعظم ۱۴۱۳ھ میں ہوئی ۔آپ ہردوئی میں شعبہ عالمیت کی ابتدائی تعلیم حاصل کئے، وہاں طبیعت ناساز رہنے لگی تو حیدرآباد منتقل ہوگئے۔ حضرت مولانا شاہ ابرار الحقؒ کے مشورے پرفیض العلوم کے شعبہ حفظ میں پڑھانا شروع کیا۔
دارالعلوم حیدرآباد میں اعلیٰ دینی تعلیم کا انتظام ہوا تو فیض العلوم میں استعفیٰ دے کر وہاں پڑھنے لگے ۔ پنجم عربی میں داخلہ لیا اور دو سال تعلیم حاصل کی۔ بائیں آنکھ کی کمزوری کی وجہ سے کئی مرتبہ راستہ میں حادثات کا شکار ہوئے جس کی وجہ سے مزید تعلیمی سلسلہ کو ترک کرکے اکبر باغ میں مدرسہ اشرف العلوم کا قیام عمل میں لایا۔مولانا عبدالقوی صاحب فرماتے ہیں ایک مرتبہ مدرسہ میں مولانا محمد حسام الدین عاقل ؒ کو جلسہ میں مدعو کیا گیا تھا، جلسہ کے اختتام کے بعد مولانا عاقل نے آپ کو تعلیم مکمل کرنے کی جانب توجہ دلائی۔
مولاناحافظ محمد عبدالقوی نے دوبارہ دارالعلوم حیدرآباد میں داخلہ لیا اور دور حدیث سے فراغت حاصل کی۔ الحمد للہ آپ کا قائم کیا ہوا ادارہ اشرف العلوم گذشتہ 34سال سے ترقی کی سمت گامزن ہے۔ یہاں سے اب تک ایک ہزار سے زائدبچے حفظ قرآن مجید مکمل کرچکے ہیں، جبکہ 100سے زائدعلماء کرام نے افتاء کا کورس مکمل کیا ۔ادارہ اشرف العلوم میں سات تعلیمی اور دو انتظامی شعبے قائم ہیں۔ شعبہ حفظ و ناظرہ ، شعبہ عا لمیت جو 8سالہ اعدادیہ تا ہفتم جماعت تک کا کورس ہے ، شعبہ تخصصات کے تحت علوم دینیہ سے فارغ التحصیل طلبہ کو فقہ اسلامی اور اصولِ فتویٰ میں اختصاص کے ساتھ ساتھ دعوتِ دین کے بنیادی اصولوں اور نفسیاتی تقاضوں سے واقف کرایا جاتا ہے۔ ٹیچرس ٹرینگ میں 650علماء کو تیار کیا گیا جنہیں نظام تعلیم کے سلسلہ میں تربیت دی جاتی ہے۔ اسی طرح ایک اہم شعبہ اتحاد العلوم (معہد اشرف) گیارہ سال قبل قائم کیا گیا تھا اب تک اسکے چار بیاچس نکل چکے ہے اس شعبہ کے تحت ایس ایس سی کامیاب طلبہ کو انٹر میڈیٹ اور ڈگری کی تعلیم کے ساتھ پانچ سالہ مکمل عالم کورس کرانے کا اہتمام ہوتا ہے اس میں 60طلبہ زیر تعلیم ہیں ۔
شعبہ عصری تعلیم کے تحت ’’اشرف ماڈل اسکول کا قیام1995ء میں عمل میں لایا گیا یہ انگلش میڈیم اسکول ہے ابتداء میں نرسری تا چھٹویں جماعت تک تعلیم کا نظم تھا، 2005ء میں ہائی اسکول سطح تک تعلیم کا آغازہوا اس میں بچوں کو دینی ماحول میں دینی مسنونِ طرزِ زندگی کے ساتھ عصری تعلیم دی جاتی ہے ، چھٹویں تا دسویں جماعت کے طلبا ء کیلئے اقامت کا بھی انتظام ہے۔ شعبہ نشر و اشاعت کے تحت دین اسلام کی دعوت و تبلیغ کیلئے حسب ضرورت مضامین، لٹریچر اور چارٹس کی شکل میں مختلف زبانوں میں شائع کرکے منظر عام پر لائے جاتے ہیں۔ ماہنامہ اشرف الجرائد اردو میں اور ماہنامہ پیغام ہدایت تلگو میں پابندی کے ساتھ شائع ہوتے ہیں۔ مولانا محمد عبدالقوی جو ناظم ادارہ جات ہونے کے ساتھ ساتھ درس و تدریس کا سلسلہ بھی جاری رکھے ہوئے ہیں،آپ مختلف جماعتوں کوبخاری شریف ، عقیدہ و تفسیرکا درس دیتے ہیں ۔ ادارہ اشرف العلوم کی خصوصیات میں سے ایک یہ بھی ہیکہ یہاں پر حیدرآباد دکن یعنی شہر حیدرآباد ، متحدہ آندھراپردیش، مراٹھوارہ کے اضلاع سے تعلق رکھنے والے طلبا تعلیم حاصل کررہے ہیں اوریہاں کے فارغین مفتیان ،علماء و حفاظ اپنے اپنے علاقوں میں دینی ملی اور فلاحی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ آپ درس و تدریس، وعظ و نصیحت اور دعوتی و اصلاحی مصروفیات کے ساتھ ساتھ کئی اداروں سے وابستہ رہ اپنی ذمہ داری نبھارہے ہیں ان اداروں میں تحفظ ختم نبوت کے خازن، مجلس علمیہ کے رکن عاملہ، ریاستی رابطہ مدارس اسلامیہ کے صدر، جامعہ مظاہرالعلوم سہارنپور کے رکن شوریٰ ہیں۔
ادار�ۂ اشرف العلوم میں خانقاہی نظام بھی چلتا ہے۔ مولانا محمد عبدالقوی صاحب ایک باعمل متقی پرہیزگار عالم دین اور صاحب طریقت شیخ بھی ہیںآپ حضرت مولانا شاہ ابرار الحق ہردوئی ؒ کے ہاتھ پر بیعت کئے آپؒ کی وفات کے بعد آپ ہی کے خلیفہ مخدومی حضرت مولانا مفتی سعید احمد صاحب برنام بٹی کے ہاتھ پر بیعت کی اور خلافت سے سرفراز کئے گئے۔ مولانا حافظ محمدعبدالقوی اپنے مریدین و معتقدین کو شرعی تعلیم کے ساتھ تصوف کی تعلیم بھی دیتے ہیں۔آپ کے یہاں ہر جمعہ بعد نماز عصر مجلس ہوتی ہے۔ ہر مہینے کے دوسرے اتوار کو دن بھر کا تربیتی نظام ہے جو صبح 9بجے تا رات9بجے تک جاری رہتا ہے۔ جس میں شہر کے علاوہ دیگر اضلاع سے مریدین و معتقدین تشریف لاتے ہیں۔اسی طرح ہر سال رمضان المبارک کے عشرۂ آخیرہ میں اعتکاف کا نظم ہوتا ہے جس میں تقریباً چار سو افراد معتکف رہتے ہیں ان میں زیادہ تر تعداد نوجوانوں کی ہوتی ہے ، جنہیں عقیدہ و اخلاق کی تعلیم و تربیت دی جاتی ہے۔
آپ وعظ و نصیحت اور اصلاح کیلئے ملک و بیرون ملک دورے کرتے ہیں ۔ آپ اپنے انگلینڈ کے دورے کے موقع پر 23مقامات پر اصلاحی محفلوں میں خصوصی خطاب کے ذریعہ تعلیم و تربیت کی۔ دو سال قبل مسقط ،سلطنت عمان میں رمضان المبارک کے موقع پر تروایح کے بعد دروس قرآن دےئے۔اندرون ملک شہر حیدرآباد کے علاوہ تلنگانہ، آندھراپردیش، کرناٹک، مہاراشٹرا، ٹاملناڈو میں کثرت سے دینی دعوتی دورے ہوتے ہیں ۔ نارائن کھیڑ ، ضلع سنگاریڈی میں امداد العلوم کے نام سے اصلاحی سنٹر قائم ہے جس میں 200طلبا اقامتی ہیں اور اطراف و اکناف کے دیہاتوں میں 42مکاتب چلائے جارہے ہیں جس میں تقریباً 700لڑکے اور لڑکیاں استفادہ کررہے ہیں۔ ضلع نظام آباد کے نوی پیٹ میں مدرسہ آحسن المدارس قائم ہے ان مدارس میں ماہانہ اصلاحی پروگرام کئے جاتے ہیں جس میں اطراف و اکناف کے دیہاتوں سے بڑی تعداد میں مردو خواتین شریک ہوتے ہیں۔ اس طرح مولانا حافظ محمد عبدالقوی صاحب مدظلہ العالی ملک بھر کے بیشتر علاقوں میں دینی دعوتی و اصلاحی پروگراموں سے خطاب فرماکر شمع محمدی ﷺ کے پروانوں کو تقربِ الٰہی اور عشقِ رسول ﷺ سے سرشار فرمارہے ہیں۔
آپ 60سے زائد کتابوں کے مصنف ہیں جن میں پیارے رسول ﷺ کی سیرتِ مبارکہ پر لکھی ہوئی مختصر لیکن جامع کتاب ’’ذکر حبیب ﷺ ‘‘ جو کئی مدارس کے نصاب میں شامل ہے ۔ اسی طرح ایک کتاب ابتدائی دینیات ملک بھر کے بیشتر مدارس کے نصاب میں شامل ہے، دیگر کتب میں مقالاتِ اصلاحی تین جلدوں میں، تذکرہ اسلاف و اکابر رحمۃ اللہ علیہم، تحفۂ سالکین و طالبین صحابہؓ کے فضائل اور صحبت کے فوائد وغیرہ ہیں آپ کی کتب اردو، انگریزی، تلگو اور ہندی زبانوں میں ہیں۔ انتھک محنت کے باوجودآپ ملت اسلامیہ کے ان نونہالوں کوجو ادارہ اشرف العلوم میں اقامت کے ساتھ حفظ کلام اللہ اوردینی علوم سے آراستہ ہورہے ہیں ان کی دیکھ بھال پر خصوصی توجہ دیتے ہیں آپ اپنے دعوتی و اصلاحی اسفار سے واپسی کے بعد چاہے رات کا کوئی بھی حصہ ہو ادارہ میں تشریف لاکر تمام حالات کا جائزہ لیتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ آپ کو صحت و تندرستی کے ساتھ درازی عمر عطا فرمائے اور آپ کے دعوتی و اصلاحی مشن کا سلسلہ جاری و ساری رکھے۔مولاناحافظ محمد عبدالقوی کو گجرات فسادات سے متعلق ایک دس سالہ قدیم مقدمہ میں ملوث کرکے مارچ 2014میں حراست میں لیا گیا تھا۔مولانا پانچ ماہ دس دن احمد آباد کی سامبر متی جیل میں قید و بند کی صعوبیتں برداشت کئے اس دوران آپ کے معمولات میں نمازوں کی پابندی ، تلاوت قرآن، ذکر و مراقبہ اور مطالعہ و تالیف شامل تھے۔ جب آپ گجرات جیل سے حیدرآباد اےئر پورٹ پہنچے تو ہزاروں کی تعداد میں آپ کے چاہنے والوں نے استقبال کیا۔
مولانا حافظ محمد عبدالقوی نے کاغذ نگر آصف آباد کے ایک کمپنی میں ملازم جناب عبدالحلیم محمد الیاس صاحب کی صاحبزادی سے ۱۳؍ شوال المکرم ۱۴۰۱ میں نکاح کیا۔ آپ کو چار صاحبزادے اور تین صاحبزادیاں ہیں۔ غیرمعمولی مصروفیات کے ساتھ ساتھ آپ نے والد محترم کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت میں کوئی کسر نہ چھوڑی ۔
بڑے فرزند مفتی عبدالملک انس اسی مدرسہ میں تدرسی خدمات انجام دے رہے ہیں ، دوسرے فرزند مولوی حافظ محمد عبدالباقی ہیں جو دینی و عصری تعلیم حاصل کئے اور اشرف ماڈل اسکول کے نگران کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں، تیسرے فرزند حافظ محمد عبدالفتاح جوحافظ قرآن ہیں اسی مدرسہ میں استاذ ہیں اور چوتھے فرزندمحمد عبدالفتاح جو زیر تعلیم ہیں۔
بڑے فرزند مفتی عبدالملک انس اسی مدرسہ میں تدرسی خدمات انجام دے رہے ہیں ، دوسرے فرزند مولوی حافظ محمد عبدالباقی ہیں جو دینی و عصری تعلیم حاصل کئے اور اشرف ماڈل اسکول کے نگران کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں، تیسرے فرزند حافظ محمد عبدالفتاح جوحافظ قرآن ہیں اسی مدرسہ میں استاذ ہیں اور چوتھے فرزندمحمد عبدالفتاح جو زیر تعلیم ہیں۔