محمد ہاشم قادری مصباحی، جمشیدپور۔
9386379632
عالم اسلام کی عبقری شخصیت قاضی القضاۃ فی الھند، شہزادہ حضورمفسر اعظم حضرت مولانا محمد ابراہیم رضا خان عرف جیلانی علیہ ا لرحمہ وجا نشین حضرت مولانا مصطفےٰ رضا خان عرف مفتی اعظم ہند رحمۃ اللہ علیہ حضورعلامہ مفتی ازہری میاں بمعروف تا ج ا لشریعہ علیہ الر حمہ کی اللہ کی بار گاہ میں مقبولیت کی یہ دلیل ہے کہ آپ کی نماز جنازہ میں بے شمار لوگ حاضر ہوئے ،بیرون ملک وعالم اسلام کی عبقری(کار ہائے نمایہ سر انجام دینے والا) شخصیتیں تشریف لائیں اور ہندوستان کی ہر خانقاہ کے بزرگ، جید علماء، مبلغ، مفکر، سجادہ نشین حضرات بھی شریک ہوئے، مارہرہ مطہرہ شریف، کچھو چھہ شریف، بدایوں شریف، امجھر شریف، بلگرام شریف، کالپی شریف، خانقاہ عالیہ چشتیہ معینیہ،اجمیر معلیٰ شریف، وغیرہ وغیرہ۔ صدق دل سے سوچیں تو یہ آپ کی کرامت بھی مانی جاسکتی ہے کہ آپ نے اپنے وصال پر سبھی کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کردیا۔ اللہ والوں کو منجا نب اللہ مقبولیت ملتی ہے اور یہ مقبولیت ان کی ولایت و محبو بیت کی دلیل ہے، حضور تا ج الشریعہ،اعلیٰحضرت امام احمد رضا (اور پیرو مرشد) مفتی اعظم ہند سیدی مصطفےٰ رضا خاں کے علوم کے وارث و امین اور ان کے جا نشین تھے۔ آپ صحیح معنوں میں نائب رسول اور وارث انبیاء تھے۔ علم قرآن، علم حدیث،علم فقہ، اور دیگر علوم وفنون میں متبحر اور کئی زبانوں کے ماہر تھے، عربی، فارسی، اور انگریزی زبان لکھنے اور بولنے میں کافی دسترس رکھتے تھے۔ وہ علم شریعت اور علم طریقت کے سنگم تھے۔ اسی لئے شریعت پر چلنے والے بھی آپ کے شیدائی ہیں اور طریقت کو اپنانے والے بھی آپ کے فدائی ہیں اس کی واضع دلیل ہے کہ پوری دنیا میں آپ کے مر یدین کی تعداد لگ بھگ کروڑوں تک ہے۔ 22جولائی 2018 کو بریلی شریف میں آپ کی نماز جنازہ پڑھنے کے لیے لاکھوں لاکھ مسلمانوں کا اکٹھا ہو نا اور پوری دنیا میں آپ کے ایصال ثواب کیلئے،مجالسِ دعا منعقد ہونا ،آپ کے پیر طریقت،رہبر شریعت، ولی کامل اور قطب عالم ہونے کی دلیل ہے آپ کی رحلت بلا شبہ عالم اسلام کیلئے بہت بڑا سانحہ ہے( بہر حال موت تو برحق ہے) آپ کی وفات سے (ناچیز راقم) اور پورا عالم اسلام سوگ وارو رنج وغم میں ہے ایسے ہی موقع کیلئے فر مایا گیا ہے۔ ’’موت العالمِ مو ت العالَم‘‘ عالم کی موت ایک عالم (دنیا) کی موت ہے یہ زبر دست خلاہے۔ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ یہ خلا کیسے اور کب پر ہو گا۔
’’تفقہ فی الدین‘‘حضور تا ج ا لشر یعہ کی جو لانیاں و نکات دیکھنا ہو تو آپ کے فتاؤیٰ کو ملاحظہ فر مائیں آپ کی کتا بوں کا مطالعہ فرمائیں (1)ٹائی کا مسئلہ (2)آثار قیامت (3)تین طلاقوں کا شرعی حکم مسئلہ‘ وغیرہ وغیرہ۔ بلا شبہ اللہ رب ا لعزت کی عطا سے ہی یہ دولت آپ کو ملی تھی۔ تفقہ فی الدین ایک ایسا اثاثہ ہے کہ اس جوہر کو ہر دل کی تجوری میں مقفل نہیں کیا جاتا۔ اور نہ ہی اس کا رشتہ کسب و حصول کے تانے بانے سے جڑا ہے۔ تفقہ فی ا لدین کا تعلق مشیت ایزدی سے وابستہ ہے۔ تر جمہ:اللہ تعالیٰ اپنے جس بندے پر احسان او ربھلائی کر نا چاہتا ہے اسے تفقہ فی ا لدین کے گوہر سے ما لا مال فر ماتا ہے(بخاری شریف، حدیث71، مسلم1037) آپ کی کتاب حضرت ابراہیم کے والد تارخ یا آزر۔ اور ٹائی کا مسئلہ اہل علم ضرور مطالعہ فر مائیں ۔
مورانواں ،ضلع اناؤ،یوپی میں تاج الشریعہ کی آمد۔ حضور تا ج الشریعہ اور حضور مفتی اعظم ہند علیہ ا لرحمہ کو سب سے پہلے1979 میں دیکھنے کا شرف حاصل ہوا اور وہیں حضور مفتی اعظم ہند علیہ ا لرحمہ سے بیعت کا شرف بھی حاصل ہوا اس کے بعد متعد دبار ملا قات کا شرف ملتارہا اور تقریباً ہر جگہ حضور تا ج الشریعہ سے بھی ملا قات ہوتی رہی،دوران طالب علمی الجا معۃ الاشرفیہ مبارکپور میں 2 ملا قا تیں ہوئیں پھر بریلی شریف میں کئی بار اور پھر شہر آہن جمشید پور میں 3 ملا قاتیں تا ریخی کانفرنس کنز الایمان کانفرنس میں ہوئیں۔ کنزالایمان کانفرنس حضرت مولانا مبین الھدیٰ صاحب نے کرائی تھی ناچیز راقم بھی اس میں پیش پیش تھا۔ حضور تا ج الشریعہ سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع میسر ہو ۔ا3 کرا متیں بھی میں نے دیکھیں (ان شا ء اللہ بشرط حیات، صحت و عافیت کتاب لکھنے کا ارادہ ہے اللہ کامیاب فر مائے آمین) تقریباً ہر سال ایک یا دوبار بریلی شریف کی حاضری ہو رہی ہے اور ہمیشہ تاج الشریعہ کی زیارت و ملا قات کا شرف حاصل رہا۔ کئی واقعات قلم بند کرنے سے تعلق رکھتے ہیں ، تاج ا لشر یعہ کے تفقہ فی الدین کاا یک دلچسپ واقعہ ملاحظہ فرمائیں۔ راقم کا آبائی وطن قصبہ مو رانواں ،ضلع اناؤ ، یوپی ہے جہاں قدیم تاریخی مدرسہ ضیاء الاسلام ویتیم خانہ قائم ہے جو کہ تقریباً 90سالوں سے چل رہا ہے واضح رہے کہ مدرسہ ویتیم خانہ یہ ضلع اناؤ تو کیا یوپی کے نامی گرامی بلکہ ہندوستان کے پرانے مدرسوں ویتیم خانوں میں سے ایک ہے۔ الحمد للہ !آج بھی شان وشوکت سے چل رہا ہے‘ جس کی بنیاد حاجی عبد الو حید رحمۃ اللہ علیہ نے رکھی، چلایا پھر آپ کے بعد ان کے قریبی رشتے دار کوتوال صاحب نے چلایا ان کے بعد ، آج ملک کے مشہور عالم دین ومفتی کانپوراور مدرس احسن المدارس کانپور محمد حنیف کے نا نا حضرت مولوی دلا ور حسین صاحب نے تقریباً30سال چلایا انتہائی نیک شریف پابند صوم وصلاۃ ،بہت ایمان دار، چہرہ نورانی چمکتا دمکتا ہوا بہترین مشفق استاد پیار سے پڑھا تے ناچیز کا املا درست کرانے میں آپ کی محبت بھری کاوش شامل ہے45سال گزر جانے کے بعد بھی ان کے میٹھے بول، مشفقانہ تنبیہ اور پاکیزہ تعلیم وتربیت کی یادیں بالکل تازہ ہیں پا بندی نمازکا اثر انھیں کی محبت بھری نصیحت و کاوش کا نتیجہ ہے اب ایسے نیک اور طالب علم کے خیر خواہ استاد کہاں دور دور تک دھند لا دیکھائی دیتا ہے‘ الا ما شاء اللہ۔
حضور تاج ا لشر یعہ کا تصلب فی الدین:
تصلب فی الدین اوصاف حمیدہ میں سے ہے،یہ وہ عظیم وصف ہے جو مرد مومن کو بہت سے درجات و مناصب جلیلہ سے معراج کمال اللہ ورسول ا کی محبوبیت تک پہنچا دیتاہے،اللہ رب ا لعزت کا ارشاد ہے۔ تر جمہ: بیشک وہ جنہوں نے کہا ہمارا رب اللہ پھر اس پر قائم رہے ان پر فرشتے اتر تے ہیں کہ نہ ڈرو اور نہ غم کرو اور خوش ہو اس جنت پر جس کا تمہیں وعدہ دیا جاتاتھا،(القرآن، سورہ حم سجدہ41 ،آیت 30 )۔ حدیث پاک میں ہے ’’جس نے اللہ کے لیے بغض رکھا، اللہ کے لیے دیا، اللہ کے لیے روک رکھا، تو اس نے ایمان کامل کرلیا‘‘(مشکوٰۃشریف،حدیث30)۔ تصلب عر بی زبان کا لفظ ہے۔ جس کے معنی ہیں سخت، محکم اور مضبوط ہونا۔ یہ ’’صُلب‘‘ سے مشتق ہے۔ ’’صُلب‘‘ ریڑھ کی ہڈی کو کہتے ہیں قرآن مجید میں وہ مادہ اور نطفہ جس سے انسان کی تخلیق ہے اس کا ذکر کر تے ہوئے فر مایا گیا ہے۔ ترجمہ: وہ ریڑھ اور سینے کی پسلیوں کے بیچ سے نکلتا ہے (القرآن، سورہ طارق86، آیت7)۔ اور ہڈی چونکہ ایک سخت چیز ہے خاص کر ریڑھ کی ہڈی لہٰذا تصلب کے معنی اسی مناسبت سے سختی، شدت،مضبوطی اور استحکام کے ہیں۔
تصلب فی الدین کا مطلب:
دین میں تصلب کا مفہوم ہے سختی، مضبوطی کے ساتھ تاعمر اپنے دین پر قائم رہنا،اپنے دین کے علا وہ تمام ادیان کو غلط اور باطل اور خلاف حق جاننا اور اپنے قول و فعل سے یہی ظاہر کر نا اور ہر وہ نظریہ و عقیدہ جو دین اسلام کے خلاف ہو اس سے کنارہ کشی اور دوری اختیار کرنا ،دین اسلام کے احکام پر مضبوطی سے قائم رہنا۔ دین اسلام کی ترقی اور خوش حالی دیکھ کر خوش ہونا اس کی تنزلی اور بربادی دیکھ کر غمگین اور رنجیدہ ہونا۔ دین یہی ہے، تصلب فی ا لدین یہی ہے، اسی کو حضور تا ج ا لشریعہ کے دادا حضور اعلیٰ حضرت امام احمد رضا علیہ ا لرحمہ یوں فر ماتے ہیں۔
دہن میں زبا ں تمہاا رے لیے، بدن میں ہے جاں تمہارے لیے
ہم آئے یہاں تمہارے لیے،اْ ٹھیں بھی وہاں تمہارے لیے
اللہ کے جتنے بھی مقدس و بر گزیدہ بندے ہیں خواہ خلفائے راشدین کی جماعت ہو یا صحا بہ کرام،تابعین کی جماعت ہو یا صالحین کی یا ربانی علما کی جماعت ہو یا اقطاب واغواث اور اولیائے عارفین کی سبھی تصلب فی الدین اور اعلان علی الحق کے وصف جمیل سے متصف اور آراستہ رہے ہیں ، دین کے دشمنوں اور بد مذہبوں نے جب بھی دین اسلام میں قطع برید کر نے اور مسلما نوں کے عقیدے پر شب خون مار نے کی ناپاک کوشش کی تو مردان حق نے بغیر کسی پس و پیش کے مو منانہ فراست اور مجاہدانہ ہمت کے ساتھ خود میدان عمل میں کود کر دین اسلام کی حفاظت فر مائی ہے سر زمین بریلی شریف میں خانو دہ اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا کی تاریخ اٹھاکر دیکھ لیں ہمیشہ پیش پیش رہے ہیں۔ حضور مفسر اعظم حضرت مولانا ابراہیم رضا خان جیلانی میاں ، حضور حجۃ الاسلا م ہوں ، حضور ریحان ملت ہوں ، ایمر جنسی کے دور میں نس بندی کے خلاف فتویٰ دینا ’’نس بندی حرام حرام حرام ہے۔ قانونِ الٰہی نہیں بد لتا حکو متیں بدل جاتی ہیں ‘‘ نوٹ۔ ناچیز کا مضمون ’’ قانون الٰہی نہیں بدلتا حکو متیں بدل جاتی ہیں ‘‘نیٹ میں ہے سرچ کریں ضرور پڑھیں ) یا حضور تاج الشریعہ ہوں ،ہر زمانے میں نئے نئے فتنوں نے جنم لیا لیکن ان اللہ کے بندوں نے ان کا منھ توڑ جواب دیا اور اللہ کی مخلوق کی رہنمائی فر مائی سیکڑوں مثالیں دی جا سکتی ہیں۔ اعلائے کلمۃ الحق وتصلب فی ا لدین کا ایک واقعہ ملاحظہ فر مائیں۔ 1945ء کی بات ہے حضور مفتی اعظم ہند حج و زیارت کے لیے حرمین شریفین حاضر ہوئے ادھر نجدی حکومت نے پوری دنیا سے آئے ہوئے لاکھوں حجاج کرام پر حج و زیارت کا ٹیکس(Tax)لگادیا ،زرخرید نجدی علماء نے جواز کا فتویٰ دے دیا۔ ظلم وجبر واستبداد کو مد نظر رکھتے ہوئے،علماے حرمین شریفین رخصت پر عمل کرکے خاموش رہے،لیکن مجدد اعظم امام احمد رضا خاں علیہ الرحمہ کے صاحبزادے حضور مفتی اعظم ہند سے خاموش نہ رہا گیا،آپ کی غیرت ایمانی پھڑک اٹھی،اعلائے کلمۃ الحق کے لیے آپ نے فوراً قلم اٹھایا اور میدان عمل میں آگئے اور آپ نے دارالافتاء کی چہاردیواری کے اندر نہیں بلکہ ظالموں کے ملک میں بیٹھ کر اس کے خلاف فتویٰ صادر فرمایا اور دنیا کو بتایا کہ تصلب فی الدین کیا ہے؟ نجدی حکومت لرز گئی اور ٹیکس کی واپسی کا اعلان کردیا۔
آئین جواں مرداں حق گوئی و بے باکی
اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی
قرآن کریم میں جگہ جگہ تصلب فی الدین کی تعلیم دی گئی ہے ،صرف چند آیات کریمہ کے تراجم ملاحظہ فرمائیں : (۱) سورہ فاتحہ جو قرآن مجید کی سب سے معظم سورہ ہے پورے قرآن کا نچوڑ اور خلاصہ ہے اس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو جو دعاتعلیم فرمائی ہے ظاہر ہے کہ وہ دعاؤں میں سب سے افضل دعا ہوگی۔ اس میں فرمایا جاتا ہے :اے اللہ!ہمیں سیدھا راستہ چلا،راستہ ان کا جن پر تونے احسان کیا ،نہ ان کا جن پر تونے غضب کیا۔ نہ بہکے ہوؤں کا (القرآن:سورہ فاتحہ،آیت7,6) ان کلمات میں واضح طور پر مخصوص و محبوب بندوں کے پیچھے چلنے کی تلقین کی گئی ہے،وہیں جن سے اللہ ناراض ہے اور جن پر اس کا غضب(عذاب) نازل ہوا ان سے نفرت و بیزاری و دوری اور علاحدگی کا سبق دیا گیا ہے اور یہ دونوں باتیں ہی دین میں تصلب کا دوسرا نام ہے۔ جس میں یہ جتنی زیادہ ہوں گی اتنا ہی زیادہ متصلب ہوگا ،جس کو اللہ تعالیٰ کے محبوب بندوں سے جتنی زیادہ محبت ہوگی اس کو اس کے دشمنوں سے اتنی ہی زیادہ نفرت ہوگی اور جس کو اللہ تعالیٰ کے دشمنوں سے جتنی زیادہ نفرت ہوگی اس کو اتنی ہی زیادہ اللہ کے محبوب بندوں سے محبت ہوگی۔ یہ ہوہی نہیں سکتا کہ جس کو اللہ و رسول کے دشمنوں سے نفرت نہ ہو اس کو اللہ اور اس کے دوستوں کی محبت نصیب ہوجائے۔ (۲) ایک جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے (القرآن:سورہ مائدہ،5آیت51)ترجمہ: اے ایمان والو! یہود ونصاریٰ کو دوست نہ بناؤ۔ وہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں ،اور تم میں کوئی ان سے دوستی رکھے گا وہ انہیں میں سے ہے۔ (۳) (القرآن:سورہ مائدہ،5آیت81)۔ (۴) (القرآن:سورہ مجادلہ،سورہ 58، آیت :27) ترجمہ: تم نہ پاؤگے ان لوگوں کو جو اللہ اور قیامت کے دن پر یقین رکھتے ہیں کہ دوستی کریں ان سے جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول سے مخالفت کی ہے۔ اگرچہ وہ ان کے باپ ،بیٹے ،بھائی یا کنبے والے ہوں۔ اور مطالعہ فرمائیں سورہ ممتحنہ آیت:2,1اور 13بھی۔ سورہ نساء:آیت :14۔ سورہ مائدہ:آیت :57۔ سورہ بقرہ:آیت 208۔ سورہ فتح:آیت :29۔ قرآن کریم کا مطالعہ فرمائیں ،احادیث طیبہ پڑھیں تصلب فی الدین ہی ایمان کی جڑ ہے،مسلمان ہو کر دوسرے مذاہب کے احکام اور ان کی شریعتوں کی پاسداری اور مراعات مسلمانوں کے لئے قطعاً روا نہیں ہے اور اسلام میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ صحابہ کرام، بزرگان دین کے دینی تصلب میں قائم رہنے کے بے شمار واقعات تاریخ میں موجود ہیں۔
محمد ہے متاع عالم ایجاد سے پیارا
پدر مادر برادراولاد سے پیارا
مشرکین مکہ نے رسول کریم ا کو اتحاد واتفاق کی دعوت (Offer) دی اور یہ کہا کہ ایک سال تم ہمارے معبودوں کو پوجواور ایک سال ہم تمہارے معبود کو پوجیں گے۔ اس پر اللہ رب العزت نے قرآن میں سورہ کافرون نازل فرمائی اور اس پیش کش کو سختی کے ساتھ ٹھکرادیا۔ ہم مسلمان یہ سوچ کر نہیں ہیں کہ سب مذہب حق ہے۔ اگر سب کو حق سمجھ لیں تو کیا ضروری ہے کہ پھرمسلمان رہیں ؟اور ہم سنی اس لیے نہیں ہیں کہ سب فرقے سچے اور ناجی ہیں اگر سب کو ناجی اور جنتی خیال کرتے تو سنی ہونے کو ضروری کیوں خیال کرتے؟حضور تاج الشریعہ یا خانوادہ اعلیٰ حضرت کے بزرگوں کی زندگی کا مطالعہ فرمائیں تو حق اور سچ کی پہچان ہوگی۔ ہمارے آقاؤں نے مارہرہ مقدسہ، کچھوچھہ مقدسہ وغیرہ وغیرہ نے حق اور سچ کی تعلیم دی اسی میں فلاح و بھلائی ہے ،کچھ لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ عالم اسلام کی عظیم دینی متصلب شخصیت کا دینی کردار اور اسلامی انداز اور مذہبی طریقہ بتایا ہوں اسی پر عمل کریں اللہ نجات عطا فرمائے گا۔ اللہ ہمیں سچا پکا مسلمان بنائے۔ (آمین ثم آمین)