تسنیم شیخ (اورنگ آباد)
گرمیوں کی خوشگوار شام تھی۔ ایک طرف سورج غروب ہورہا تھا اور دوسری طرف شمس کی آنکھیں سانسوں کی ٹھنڈی ہواؤں کے ساتھ برسنے لگی تھی۔
’’بیٹا کتنا روؤگے۔‘‘ دادی نے سر پر ہاتھ پھیر کر شمس سے کہا۔
اپنے اندر کے طوفان کو ٹھنڈا کرتے ہوئے شمس نے کہا : ’’ابو ہمیشہ میرے ساتھ ہی ایسا کرتے ہیں دادی اماں مجھے نہیں جانا ہاسٹل (Hostel) ، آپ بولئے نا ابو کو، وہ آپ کی بات سنتے ہیں۔‘‘
بڑی شفقت سے دادی نے سمجھایا : ’’بیٹا وہاں کی پڑھائی بہت اچھی ہوتی ہے۔ آپ کی degree وہاں سے مکمل ہوجائے گی تو ابو کے کاروبار میں آپ ان کی مدد کرسکوگے۔ آپ کے لئے چیزیں آسان ہوگی اور مستقبل میں جدید تعلیم حاصل کرنا وقت کی بھی ضرورت ہے۔‘‘
’’دادی اماں میں ہی کیوں ، یہ میرا بھائی موٹو کو اتنا لاڈ۔ اس موٹو کو بھیج دو نا۔‘‘
’’چھوٹا ہے بیٹا وہ۔‘‘
’’دادی اماں صرف دو سال چھوٹا ہے۔ ابو اور آپ سب لوگ اسی کا لاڈ کرتے ہیں مجھے کوئی پیار نہیں کرتا ، اس لئے مجھے دور بھیج رہے ہیں۔‘‘
’’ایسا نہیں ہے بیٹا ۔‘‘ کہہ کر دادی نے پھر سر پر ہاتھ پھیرا‘ بڑی محبت سے۔ دادی اور پوتے کی آنکھیں نم ہوگئی۔
Graduation کے لئے شمس کے والد اُسے جامعہ ملیہ یونیورسٹی بھیج رہے تھے۔ وہ اپنے شہر امراوتی کے گورنمنٹ کالج میں پڑھنا چاہتا تھا۔ والدین ہمیشہ اپنے بچوں کی بہتری اور ان کے روشن مستقبل کے لئے سوچتے ہیں لیکن ناتجربہ کاری کی وجہ سے بچوں کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ انھیں اپنی مرضی سے جینے نہیں دیا جارہا ہے۔
’’السلام علیکم اماں! تیاریاں مکمل ہوگئی۔ صاحب زادے کی۔ Flight سے پانچ گھنٹے قبل نکلنا ہوگا ہمیں اماں۔ ‘‘ کہتے ہوئے ابو‘ دادی کے کمرے میں داخل ہوئے۔
’’وعلیکم السلام ! ہاں بیٹا سب تیاری مکمل ہوگئی۔ کون جارہا ہے شمس کے ساتھ ناگپور۔‘‘
’’اماں اس کے ماموں آرہے ہیں چاندور بازار سے، بس پہنچتے ہوں گے۔ اُن کے ساتھ ہی صاحب زادے کو روانہ کردیجئے۔ مجھے کچھ کام ہے شام میں۔‘‘
جاتے وقت ابو نے جیب خرچ دیتے ہوئے تاکید کی :’’ اس کا استعمال صحیح کرنا۔‘‘ شمس سبھی گھر والوں سے مل کر بجھے ہوئے دل کے ساتھ کار میں بیٹھ گئے۔ بھاگتے ہوئے بانوبی آئی۔
’’چھوٹے صاحب یہ ڈبا دادی اماں نے دیا ہے آپ کے لئے۔‘‘ ہانپتے ہوئے کہا۔ ’’اس میں لال لڈو اور گلابی جامن ہے۔‘‘ دادی سے بچھڑتے شمس کو بہت تکلیف ہورہی تھی۔ بانو بی سے ڈبہ لیتے ہوئے کہا :
’’گلابی جامن نہیں گلاب جامن۔ ‘‘
’’ہاں ہاں وہی۔‘‘ شمس کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ بکھری اور کار سفر کے لئے روانہ ہوگئی۔
شمس کی ماں کے انتقال کے بعد دادی اماں نے ہی شمس کی پرورش کی تھی اور وہ گھر میں سب سے قریب ماں کے جانے کے بعد دادی سے ہی تھا۔ والد (یوسف صاحب) نے دوسری شادی کردلی تھی جن سے ان کو ایک بیٹا حسن تھا۔ یوسف صاحب نے پہلی بیوی کے چہلم کے بعد ہی دوسری شادی کرلی تھی‘ یہ سوچ کر کہ وہ شمس کو اپنی محبت کے زیرسائے رکھے گی۔ مگر اپنی اولاد ہونے کے بعد بچوں میں بھی فرق ہوجاتا ہے۔
راستہ بھر شمس ٹھنڈی ہوا کے جھونکے کار کی کھڑکی سے گرم آہوں کے ساتھ برداشت کرتا رہا۔ ایئرپورٹ پر پہنچ کر دادی اماں کو ٹیلی فون کیا:
’’ دادی میں ایئرپورٹ پہنچ گیا ہوں۔ اب ہوسٹل کے ٹیلی فون سے فون کروں گا پہنچ کر۔‘‘ بے شمار دعاؤں کے ساتھ دادی سے فون کال منقطع کرتے ہوئے ’’اللہ حافظ‘‘ کہا اور آنسوؤں کی ایک لکیر ان کے چہرے پر رواں ہوگئی۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی پہنچ کر شمس نے دائیں بائیں دیکھا۔ ہر طرف ہریالی۔ بڑی سی آسمان چھوتی ہوئی عمارتیں، خوشگوار موسم، کھلے کھلے چہرے ، ہاتھوں میں بستہ کا بوجھ اٹھائے کچھ لوگ ہوسٹل کی طرف جاتے ہوئے دکھائی دیئے۔
’’جناب یہ Boys Hostelیہ سامنے والی عمارت ہی ہے نا۔‘‘
’’ جی وہاں چلے جایئے نوفل صاحب سے مل لیجئے وہ انچارج ہیں۔‘‘
شمس تیز تیز قدموں کے ساتھ سامنے والی عمارت میں جہاں سبھی لڑکے کھانے کے لئے ٹیبل اور کرسیوں پر براجمان تھے‘ داخل ہوگیا۔ اندرون وسیع سا ہال ، جاتے ہی warden کو نام کہہ کر ، اپنے روم کی چابی لے کر روم کی طرف روانہ ہوگیا۔ دل تو نہیں چاہ رہا تھا لیکن وہ کھانے کی ٹیبل پر fresh ہوکر آگیا۔ کچھ لوگوں سے دوستی ہوگئی۔ الگ الگ stream کے الگ الگ شہر سے آئے ہوئے سبھی لڑکے ایک جگہ کھانا کھا رہے تھے۔ یہ دیکھ کر شمس کو اچھا لگا۔
جیسے تیسے شمس کی کالج کی کلاس شروع ہوگئی۔ ابتدائی مہینوں میں تو اتنی مشکلیں نہیں آئی مضامین سمجھنے میں۔ لیکن جیسے جیسے وقت گذرتا گیا اور BE کے دوسرے سال میں چیزیں مشکل ہوتی گئی۔ شمس کی محنت پڑھائی میں کم پڑنے لگی۔ تین دوست بن گئے تھے شمس کے، اُن کو بھی مشکلیں پیش آرہی تھی۔ Subject کے concept clear نہیں ہورہے تھے۔ ساری رات چاروں پڑھائی کرتے، دن میں کلاس کرتے لیکن پھر بھی اچھا perform نہیں کر پارہے تھے۔ ایک رات چاروں آپس میں گفتگو کرنے لگے کہ ان کی یہ مشکل کیسے آسان ہوگی۔ ریاضی اتنی آسان بھی نہیں ہے۔ وہ بات ہی کررہے تھے کہ کمرے کی بتی جلتی دیکھ کر نوفل صاحب (warden) اندر آگئے۔
’’کیا ہورہا ہے بچوں ، ابھی تک سوئے کیوں نہیں۔‘‘ تینوں کو جاگتے دیکھ کر انھوں نے سوال کردیا۔ جب شمس نے ساری روداد سنائی تو نوفل صاحب نے کہا :
’’بچوں میرے پاس اس مشکل کا حل ہے۔ آپ لوگ tution class لگالیجئے۔ Extra coaching ہوجائے گی ۔‘‘
چاروں ایک دوسرے کی صورت دیکھنے لگے۔ کیوں کہ ٹیوشن یہ لفظ اس وقت بڑا معیوب سمجھا جاتا تھا اور یہ بھی سمجھا جاتا تھا کہ جو بچے بہت کمزور ہوتے ہیں پڑھائی میں ان کو ٹیوشن کی ضرورت پڑھتی ہے لیکن وارڈن کی رائے سبھی کے سمجھ میں آئی اور دوسرے دن سبھی نے طئے کیا کہ وہ اپنے والدین سے بات کریں گے۔ اس بارے میں شمس کے تینوں دوستوں کو منظوری مل گئی لیکن دادی اماں کا ٹیلی فون نہیں آیا تو وہ فکرمند تھا کہ ابو نے پتہ نہیں اجازت دی ہوگی کہ نہیں۔ پھر اس نے اجازت لے کر ہوسٹل سے بڑی ہمت کے ساتھ فون لگا لیا۔
’’السلام علیکم ابو! ‘‘
’’وعلیکم السلام‘‘
’’ابو آپ کو دادی اماں نے بتایا کہ ہمیں ریاضی کے لئے ٹیوشن کی ضرورت پیش آرہی ہے۔‘‘
ابو نے جواب دیا : ’’ٹھیک ہے! اپنے ریاضی کے ٹیچر سے کہئے کہ ہم سے بات کرے اور اگر انھوں نے کہا واقعی آپ کو ضرورت ہے تو ہم اجازت دے دیں گے۔ ‘‘
یہ سن کر شمس کو ابو پر بہت غصہ آیا اور وہ غصے سے اپنے روم میں آکر اپنا سامان باندھنے لگا۔ دوستوں نے پوچھا :
’’کیا ہوا شمس؟ ابھی مت جاؤ ، تین دن بعد ویسے بھی چھٹیاں لگے گی تو چلے جانا۔‘‘
ایک دوست نے ہاتھ پکڑ کر پوچھا :’’کیا ہوا یار بتاؤ تو سہی۔ ‘‘لیکن وہ کچھ کہے بنا وہاں سے نکل گیا۔ غصہ کی وجہ کہیں نہ کہیں شمس کو اپنے والد کی زیادتی لگی کہ وہ اب یقین بھی نہیں کریں گے ، ٹیچر بولیں گے تو یقین آئے گا۔ میرا بھروسہ نہیں ابو کو۔ یہ سوچتے ہوئے وہ warden کو عرضی دے کے گھر کے لئے روانہ ہوگیا۔
اچانک دادی اماں نے شمس کو گھر پر دیکھ کے سوالوں کی بارش کردی : ’’بیٹا کیسے آئے ؟ بولتے تو میں ابو سے کہہ کر ٹکٹ بک کرادیتی ، نکلنے سے پہلے بتا دیتے۔‘‘ وغیرہ وغیرہ۔
مگر وہ تھا کہ ایک گہری چپی کے ساتھ اپنے کمرے میں چلا گیا۔
جب یوسف صاحب کو یہ بات پتہ چلی تو وہ بہت ناراض ہوئے پھر سوچ کے خاموش ہوگئے کہ ایک مہینے کی چھٹیاں ہیں ، ایسے بھی وہ شمس کو بلوانے والے ہی تھے تین دن بعد۔ ایک ہفتہ بعد شمس کے چاندنی چوک کے دوستوں سے ملاقات ہوئی اور سنیما جانے کا پلان بنا۔ دادی اماں نے پیسے دے دیئے اور گھر جلدی آنے کی تاکید کی۔
یوسف صاحب تھوڑے گرم مزاج اور اصولوں کے پکے انسان تھے۔ حسب معمول وہ گیارہ بجے گھر آجاتے ، اس دن دس بجے ہی آگئے۔ آتے ہی آواز دینے لگے :
’’شمس ، حسن ، اماں ، کہاں ہے سب لوگ؟ بچو! دیکھو آپ کے لئے تحفے لایا ہوں۔‘‘
شمس کو دوبارہ آواز لگانے کے بعد بھی جب وہ نہیں آیا تو یوسف صاحب سوالیہ نشان کے ساتھ اپنی اماں کو دیکھنے لگے تو آہستہ سے اماں نے کہا : ’’یہیں گیا ہے باہر، آجائے گا دوستوں کے ساتھ ہوگا۔‘‘
سبھی کھانے پر شمس کا انتظار کرنے لگے۔ بارہ بھی بج گئے تو شمس کا پتہ نہیں تھا۔ پھر یوسف صاحب نے گھر سے باہر جا کے دوستوں میں پوچھ تاچھ کرنے کا سوچ کر وہ نکل گئے۔ سامنے گلی کے موڑ پر صاحب زادے گانا گارہے تھے ’’جب پیار کیا تو ڈرنا کیا‘‘ اور سبھی دوستوں کی قہقہوں کی آواز رات کے سناٹے میں بکھر رہی تھی۔ وہ پلٹ کر واپس آگئے اور غصہ میں آگ بگولہ ہوگئے اور اپنی اماں سے کہنے لگے :
’’اماں جان !آپ کی بے جا محبت نے صاحب زادے کو بہت بگاڑ دیا ہے۔ کل ہی لڑکی دیکھئے اب اس کی شادی کردینا ہے‘‘ کہہ کر وہ اپنے گمرے میں چلے گئے۔ چپکے سے شمس نے سبھی باتیں سن لی۔ اندر آکر معصوم سی صورت بنا کر دادی سے شکایت کرنے لگے :
’’آخر ابو کی زیادتی کب ختم ہوگی۔ ابو کو کہو میں ابھی صرف ۱۷؍سال کا ہی ہوں۔‘‘
دادی نے کہا :’’صبح میں سمجھا دوں گی، ابھی آپ سوجاؤ۔ ‘‘ کہہ کر وہ بھی سونے چلی گئی۔
دوسرے دن پتہ چلا کہ کچھ مہمان آنے والے ہیں گھر ۔ دادی اماں بار بار تاکید کرتی شمس کو : ’’بیٹا گھر میں رہنا ورنہ ابو غصہ کریں گے۔ ‘‘
شام ہوئی تو سوچا کہ ایک دوست کے یہاں سے آجاؤں۔ صبح سے وہ کہیں نہیں گیا تھا۔ دادی نے آدھے گھنٹے کا وعدہ لے کر جلدی آنے کا کہا۔ جیسے ہی وہ واپس آیا اسے ماجرا ہی سمجھ نہیں آیا ۔ کیا دیکھتا ہے گھر کے سامنے منڈپ لگا ہوا ہے، مانڈا قورمہ بن رہا ہے، سبھی رشتہ دار آئے ہیں۔ جیسے ہی وہ منڈپ کے نزدیک پہنچا بڑے ماموں جان تو ہاتھ پکڑ کر اندر لے گئے اور کہنے لگے : ’’باوا تو ابھی تک تیار نہیں ہوا۔ ہم اچل پور اتنے دور سے آگئے تو کہاں غائب تھا۔‘‘
ابھی وہ یہ منظر سمجھ ہی رہا تھا کہ چاچاجان شیروانی لے کے کھڑے ہوگئے اور کہنے لگے :
’’چلو بیٹا شاباش جلدی تیار ہوجاؤ۔‘‘
جیسے ہی وہ تیار ہوکے باہر آیا۔ ماموں جان سہرا لے کے سامنے حاضر تھے۔ وہ سہرا دیکھ کے گھبرا گیا اور سیدھا دادی کے کمرے میں گیا اور کہنے لگا :
’’دادی ایک گانے کی اتنی بڑا سزا۔‘‘
دادی کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور اپنے تلملاتے پوتے کو بہت پیار سے سمجھایا کہ یہ تو ایک دن ہونا ہے۔ والدین اپنے بچوں کا برا نہیں چاہتے اور سمجھا کے دادی نے شمس کو شادی کے لئے راضی کرلیا۔ یوسف صاحب کے نزدیکی دوست کی بیٹی جو کہ انٹر کررہی جو بہت خوبصورت تو نہیں تھی لیکن قبول صورت ضرور تھی جبکہ شمس کا گورا رنگ چاند کی طرح سہرے میں سے چمک رہا تھا۔ جیسے تیسے شمس کی شادی ہوکے دو مہینے گذر گئے۔ اب کالج سے بھی ٹیلی فون آرہے تھے ، پھر سے دادی نے سمجھاکر شمس کو دلّی روانہ کیا۔ شمس کی ڈگری جیسے ہی مکمل ہوئی وہ امراوتی پہنچا اور ایک ٹھنڈی سانس لی کہ سب زیادتیاں ختم ہوگئی۔ پڑھائی بھی ہوگئی اور شادی بھی۔ اب تو جی بھر کے جینا ہے آرام سے۔ اب میں بڑا ہوگیا ہوں ، اپنے فیصلے خود لوں گا۔ ابو کی نہیں سنوں گا۔ وہ اپنی اندرونی سوچوں کی زیادتیوں کے طوفان سے الجھ ہی رہا تھا کہ گھر پہنچا اور پہلا قدم گھر میں رکھا ہی تھا کہ یوسف صاحب نے اپنے دونوں ہاتھ آگے بڑھائے اور بہت خوشی سے گلے لگاتے ہوئے کہا :
’’اماں میرا بیٹا انجینئر بن گیا ہے۔‘‘ وہ اپنے ابو کے گلے لگ کر ان کی شفقتوں محبتوں کو محسوس ہی کررہا تھا کہ اچانک شمس کو اپنے ابو کے بازو کی گرفت چھوٹتی ہوئی محسوس ہوئی۔ ’’ سنبھل کے ابو‘‘ اور ایک دم سے اپنے زانو پہ ابو کی منڈی کو محسوس کیا۔ جلدی سے بدحواس ہوتا دیکھ کر صوفے پر لٹایا۔ ’’ابو ابو کیا ہوا، ابوجی ‘‘ کہہ کہ چلانے لگا۔ لیکن یوسف صاحب کو خوشی کی وجہ سے ہارٹ اٹیک آچکا تھا اور ان کی روح پرواز کرچکی تھی۔
شمس کو جب یہ احساس ہوا کہ اب ابو نہیں رہے ، کہیں نہ کہیں وہ بس یہ سوچ کر رہ گیا کہ اس پر کی گئی زیادتیاں اصل میں محبت کی ایک شکل تھی۔