فرید سحر‘ حیدرآباد۔ فون9848084306
الحمدللہ! مقدس ماہ صیام اب دوسرے دہے میں داخل ہوچکے ہیں۔ گیارہ مارچ کی اولین شب جب اس مقدس ماہ کی آمد کی مسرت میں دنیا بھر میں سائرن بجنے لگے تو مسلمانان عالم کی خوشی اور مسرت کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔ ہر کوئی ایک دوسرے کو مبارکباد پیش کرنے میں بازی لے جارہا تھا۔ کوئی شخصی طور پر بغلگیر ہوکر خوشی کا اظہار کررہا تھا کوئی موبائل فون یا لینڈ لانڈ فون کا سہارا لے رہا تھا۔ الغرض جب مبارکبادیوں کا سلسلہ تھما تو نماز عشاء و تراویح کا وقت آگیا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے الحمدللہ دنیا بھر کی مسجدیں شمع محمدی کے پروانوں سے بھرگئیں۔ لاکھوں بلکہ کروڑوں فرزندان توحید دن میں پانچ مرتبہ نہایت خوش و خضوع کے ساتھ مسجدوں میں حاضری دیتے ہوئے باجماعت نماز ادا کرتے رہے اور بارگاہ ایزدی میں گڑگڑاکر دعائیں مانگنے لتے۔ نمازیوں کی کثرت سے مسجدیں اپنی تنگ دامنی کا شکورہ کررہی ہیں۔ ان روح پروَر مناظر کو دیکھ کر منحوس شیطان کی سٹی گُم ہوگئی ہوگی۔ کاش یہ روح پرور مناظر سال کے تین سو پینسٹھ (365) دن ہمیں دکھائی دیں‘ تب ان شاء اللہ العزیز دنیا بھر میں ہماری عظمت بحال ہوجائے گی۔
اب جبکہ رمضان المبارک کا پہلا ”دہا“ ختم ہوا ہے‘ ملعون شیطان کی خوشیاں واپس ہوتی دکھائی دے رہی ہیں۔ کیوں کہ دوسرے دہے کے پہلے دن سے ہی مسجدوں میں مصلیوں کی تعداد دھیرے دھیرے گھٹتی جارہی ہے۔ ہم نے بعض احباب سے دریافت کیا کہ آیا وہ نماز تراویح پابندی سے پڑھ رہے ہیں تو جواب عطا ہوا کہ پہلے دہے میں ایک قرآن امام صاحب کے پیچھے ٹھہر کر سُن چکے ہیں۔ لہٰذا اب نماز عشاء کے بعد گھر واپس ہورہے ہیں۔ ہمارے نادان بھائی کی سوچ‘ سمجھ اور عقل پر حیرت ہوتی ہے کہ ایک ماہ یعنی تیس دن تک نماز تراویح پابندی سے پڑھنے کے حکم سے کس طرح دامن بچارہے ہیں۔ نماز تراویح ”سنت مؤکدہ“ ہے جسے پڑھنا اہم اور ضروری ہے۔ لیکن یہ سمجھ رہے ہیں کہ ایک قرآن پاک کو سماعت کرلئے‘ یہی کافی ہے۔ استغفراللہ!
ہمارے معزز علمائے کرام اور ائمہ صاحبین کی یہ عین ذمہ داری ہے کہ وہ عامۃ المسلمین کو نماز تراویح کے بارے میں صحیح معلومات بہم پہنچائیں۔ کیوں کہ ہم لوگ سمجھ رہے ہیں کہ دس دن میں روزانہ تین پارے سن کر ایک قرآن کی سماعت کے بعد ہماری نماز تراویح کا حق ادا ہوگیا‘حالانکہ ایسا بالکل نہیں ہے۔ ہمیں مقدس ماہ صیام کے پورے تیس دن تک اس اہم ”سنت مؤ کدہ“ یعنی نماز تراویح ادا کرنی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس غلط فہمی کے باعث مسجدوں میں دوسرے دہے کے پہلے دن سے ہی نمازیوں کی تعداد صرف ایک یا دو صفوں تک محدود ہورہی ہے۔ اب وہ جوش اور ولولہ باقی نہیں رہا جو آغازِ ماہِ صیام کے وقت تھا۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اس مقدس ماہ کی تمام عبادتوں کو خشوع و خضوع کے ساتھ ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
”ختم جیسے ہی ہوا پہلا دہا
ہورہی ہیں مسجدیں خالی سحرؔ“