از:ڈاکٹرسیدفاضل حسین پرویز، حیدرآباد۔ فون:9395381226
تلنگانہ میں کانگریس کی اقتدارپرواپسی میں مسلمانوں کے رول کو نہ تونظرانداز کیاجاسکتاہے اورنہ ہی فراموش۔ بی آرایس کے خلاف مہم میں کانگریس سے وابستہ قائدین اور کارکنوں نے بڑا اہم رول اداکیا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ کانگریسی قائدین نے جس طرح سے ریاست کے چپہ چپہ میں مخالف بی آرایس اورموافق کانگریس مہم چلائی‘ وہ تلنگانہ کی تاریخ میں سنہرے حروف میں لکھی جائے گی‘ کیونکہ عام تاثریہی تھاکہ تلنگانہ میں کانگریس کی اقتدارپرواپسی ناممکنات میں سے ہے۔ایک تو بی آرایس کی ناقص کارکردگی کے سی آر کا رویہ‘ عوام سے ہی نہیں خود پارٹی کارکنوں اورقائدین سے دوری نے عوام کو بدظن کردیا تودوسری طرف ان کے کھوکھلے دعوؤں اورجھوٹے وعدوں کے خلاف منظم اورمنصوبہ بند انداز میں کانگریس کے پروپگنڈے نے ناممکن کو ممکن کردکھایا۔
2004میں وائی ایس راج شیکھر ریڈی کی زیر قیادت کانگریس نے اسی طرح سے چندرابابونائیڈو کی زیرقیادت تلگودیشم کوشکست سے دوچار کیا تھا اور اس کے لئے انہوں نے ریاست گیر مہم چلائی تھی۔ مسلمانوں نے تب بھی بھرپورساتھ دیاتھا‘ جس سے متاثر ہوکر وائی ایس راج شیکھر ریڈی نے مسلمانوں کے کئی مسائل کی یکسوئی کی تھی۔ ریونت ریڈی نے وہی تاریخ دہرائی اورالیکشن سے پہلے مائناریٹی ڈیکلریشن کے ذریعہ مسلمانوں کا دل جیتنے کی کوشش کی۔ محنت رائیگاں نہیں گئی‘ اقتدارپرواپسی کے بعد ریونت ریڈی کے لئے دوسرے طبقات کی طرح مسلمانوں کے کئی مسائل درپیش تھے۔ ان سے زیادہ سب سے اہم اوردشوارگزار مرحلہ پارٹی کے مسلم قائدین اوروفادارکارکنوں کواہم عہدوں پر فائز کرنا تھا۔ کانگریس کو مسلمانوں کی بدولت اقتدارملا‘ مگر مسلم امیدوارہارگئے‘ جس کی وجہ سے وزارت میں کوئی مسلم شامل نہ ہوسکا۔ شکست کے باوجود محمدعلی شبیر‘ محمد اظہرالدین کی وزارت میں شمولیت کی امید کی جارہی تھی‘ تاہم پارٹی کی ایک طاقتورلابی جو خودبھی وزارت اعلیٰ کی دعویدار تھی اس نے یہ شرط ہائی کمان کے آگے رکھدی تھی کہ شکست خوردہ کسی بھی لیڈرکو نہ تو وزارت میں شامل کیا جائے اورنہ ہی ایم ایل سی کے طورپر نامزدکیا جائے۔ اس کا مقصد شبیر صاحب اورمحمداظہرالدین کو وزارت میں داخلہ سے روکنا تھا۔ اس مرحلہ کے بعد ایم ایل سی کے طورپر نامزدگی کے لئے کئی مسلم امیدوارویٹنگ میں تھے‘ جن کی اپنی پارٹی کے لئے غیرمعمولی خدمات رہیں۔ ان میں ظفر جاوید‘ عامرعلی خان اورعظمت اللہ حسینی قابل ذکر ہیں۔
عظمت اللہ حسینی آزادی کے بعد کی 78سالہ تاریخ میں واحد مسلم ہیں جو یوتھ کانگریس کے نیشنل جنرل سیکریٹری اوراین ایس یو آئی کے اسٹیٹ پریسڈنٹ منتخب ہوئے۔ انہیں تلنگانہ وقف بورڈ کے صدرنشین کے عہدہ پر فائز کیا گیا‘ جو کوئی کم اہم عہدہ نہیں ہے۔ تاہم ایم ایل سی کی حیثیت سے وزارت میں شمولیت کے وہ بھی امیدوار تھے۔
ظفرجاوید ابتداء ہی سے ایک حرکیاتی شخصیت رہے‘ این ٹی آر نے 1994میں ان کی پارٹی میں شمولیت کے صرف چھ ماہ کے اندرہی آصف نگر اسمبلی حلقہ سے مقابلہ کے لئے امیدوار بنادیاتھا۔ وہ تلگودیشم میں کافی متحرک تھے۔ بشیرالدین بابوخان‘ لعل جان باشاہ کے ساتھ انہوں نے تلگودیشم کے مائناریٹی ڈیکلریشن کی تیاری کی تھی‘ وہ وقف ڈیولپمنٹ کونسل کے صدربھی رہے۔ تاہم جب چندرابابونائیڈونے بی جے پی سے مفاہمت کااعلان کیاتوظفرجاوید کی ایماء پر جناب بشیرالدین بابوخان نے وزارت سے اور خود ظفر جاوید نے تلگودیشم سے استعفےٰ دیدیاتھااورتب ہی سے وہ کانگریس کے سرگرم قائد بن گئے۔ریاستی اورمرکزی کانگریسی قائدین کے ساتھ انہوں نے کافی کام کیئے۔
ایک اطلاع کے مطابق ریونت ریڈی کی قیادت میں تلنگانہ کانگریس نے مائناریٹی ڈیکلریشن تیارکیا تو اس میں بھی ظفرجاوید کا بڑا اہم رول رہا‘ انہوں نے سلطان العلوم ایجوکیشن سوسائٹی میں پارٹی کے مرکزی قائدین کے کئی اجلاس کی میزبانی کی اوران کی کارکردگی کے پیش نظر اس بات کا یقین تھاکہ انہیں ایم ایل سی نامزدکیا جائے گا۔ ظفرجاوید سلطان العلوم ایجوکیشن سوسائٹی کے روح رواں ہیں اورتلنگانہ اورمتحدہ آندھراپردیش کے اقلیتی اداروں کے فیڈریشن کے صدرنشین بھی ہیں‘ جس کی وجہ سے مسلمانوں کے ساتھ ساتھ عیسائیوں اورپارسیوں میں بھی وہ مقبول ہیں۔ ایک معزز‘ مہذب‘اعلیٰ تعلیمی خاندانی پس منظر سے تعلق ہے۔ بہرکیف پہلے مرحلہ میں انہیں ایم ایل سی کیلئے نامزدنہیں کیاگیا۔
عامرعلی خان ایڈیٹرسیاست کو مسلم نمائندگی کا موقع ملا۔ عامرعلی خان کے داداجناب عابدعلی خان مرحوم پکے کانگریسی تھے‘ اورہمیشہ سے ان کا اخبار کانگریس کا حمایتی رہا۔ نواب زاہد علی خان نے کچھ عرصہ کے لئے تلگودیشم سے وابستگی اختیارکی تھی‘ مگر تلخ تجربات کے بعد اس سے لاتعلقی اختیارکرلی۔
عامرعلی خان کو کانگریس سے وابستگی ورثہ میں ملی ہے۔ انہوں نے بی آرایس کے خلاف زبردست مہم چلائی اورکانگریس کی حمایت کی۔کانگریسی ہائی کمان کے پاس ان کی تائید میں ایک طاقتور لابی سرگرم رہی‘ ویسے ہائی کمان کے پاس ہر امیدوارکے خلاف اس کے مخالفین‘الزامات‘شکایتوں کے ساتھ پیش ہوتے رہے۔عامرعلی خان ایم ایل سی نامزد ہوئے‘ قانونی رکاوٹیں پیدا کرکے انہیں کئی ماہ تک حلف برداری سے روکا گیا۔سپریم کورٹ کے عبوری فیصلہ کی بدولت وہ حلف لے چکے ہیں اوراب ایک مکمل سیاست دان کی حیثیت سے اپنے سیاسی کیرئر کا آغاز کرچکے ہیں۔ یہ خبر عام تھی کہ عامر علی خان کو ایم ایل سی کے طورپر نامزدنہ کرنے کے لئے ریونت ریڈی کے علاوہ ہائی کمان پر دباؤڈالا گیا تھاتاہم ریونت ریڈی نے کسی دباؤ کو قبول نہیں کیا۔ یہ بھی خبر ہے کہ انہیں وزارت میں شامل نہ کرنے کے لئے نمائندگی کی جارہی ہے‘ آگے کیا ہوگا یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ البتہ عامر علی خان کیلئے ایم ایل سی نامزدہونا اعزاز بھی ہے اورچیلنج بھی۔ ایک طرف سماج میں مقام بھی ہے اوریہ کانٹوں کی سیج بھی۔ سیاست اخبار نے کامیابی کے ساتھ 75برس مکمل کیئے‘یہ ہندوستان ہی نہیں اردو دنیا کا معیاری اخبار ہے اب اس کے معیار اوراس کی غیرجانبداری کو برقرار رکھنا سب سے بڑا چیلنج ہوگا۔ سیاست کے قاری یہ کبھی نہیں چاہیں گے کہ ان کا اخبار کسی ایک جماعت کا ترجمان بن کر رہ جائے۔اپنے بدترین مخالف‘ دشمن کی خبر کیلئے بھی سیاست میں جگہ ملنی چاہئے اس کے لئے عامرعلی خان کو اپنے حاشیہ سے ان عناصر کو دوررکھنا ہوگا جو اپنے مفاد کیلئے آپس میں لڑانے کا کام کرتے ہیں‘ دوسروں کی برائی اورعیب جوئی کرنے والا‘ آپ کی برائی بھی کرسکتا ہے۔
عامرعلی خان سے بہت سی امیدیں‘ توقعات ہیں‘ دنیا میں ایک ایڈیٹراوردانشمند دانشورکی حیثیت سے ان کی امیج ہے‘ اپنی زبان اورقلم دونوں پر کنٹرول ضروری ہے۔ میڈیا ہو یا خوشامد پرست حلقہ‘ لقمہ دے کر اپنی مرضی کی بات کہلواتا ہے اوراس سے اچھے خاصے غیرجانبداربھی بدظن ہوتے ہیں۔ عامرعلی خان کو وزارت میں شامل کیا جائے گا یا نہیں ابھی نہیں کہا جاسکتا‘ ان کا عزم ہے کہ اگروہ وزارت میں شامل ہوں توہر سال ایک لاکھ مسلم نوجوانوں کو روزگار کے مواقع فراہم کریں گے۔
ان دنوں فہیم قریشی کے چرچے ہیں‘ ریونت ریڈی کے خاص دوست‘جن کے بارے میں کہا جاتاہے کہ کسی اپائنٹمنٹ کے بغیر وہ کسی بھی وقت ریونت ریڈی سے مل سکتے ہیں‘ ان کے سب سے قابل اعتمادساتھی ہیں اور ریونت ریڈی نے انہیں ”سرکار“ کا خطاب دے رکھا ہے۔ انہیں ٹمریز کا وائس چیرمین اورصدر مقررکیا گیاہے‘ وہ وزارت میں شمولیت کے امیدوار اوردعویدار بتائے جاتے ہیں‘ ایک اطلاع کے مطابق کانگریس کی ایک طاقتورلابی نے بھی فہیم قریشی کے خلاف ہائی کمان سے نمائندگی شروع کردی ہے۔
ایک دوماہ بعد ایک بارپھر ایم ایل سی کیلئے نامزدگی ہوگی‘ اورظفرجاوید اس کے لئے مضبوط امیدوار ہیں۔ کامیاب وہی ہوگا جس کی لابی زیادہ اثرانداز ہو‘ ویسے لین دین کی روایت بھی عملی سیاست کے کلچر کا حصہ ہے۔
کانگریس میں مسلم لیڈرس کی کمی نہیں‘ مگر بہت کم ہیں جنہوں نے اپنے آپ کو منوایا۔ ایس کے افضل الدین جیسے بھی ہیں جنہوں نے کھدر اور گاندھی بھون کو کبھی نہیں چھوڑا۔ یہ ایک المیہ ہے کہ مسلم نوجوان کارکنوں کو ابھرنے کا کم موقع ملا۔ وہ احساس کمتری کا شکار رہے۔ کسی بڑے لیڈر نے مسکراکر بات کرلی‘ بس یہی ان کی کامیابی ہے۔
اس وقت کانگریس میں مسلم لیڈرشپ پر کئی سوالیہ نشان ہیں‘ یہ ایک حقیقت ہے کہ محمدعلی شبیر سے بڑا کوئی اورمسلم لیڈر پارٹی میں نہیں ہے‘ مسلم تحفظات ہو یا متحدہ آندھراپردیش اور تلنگانہ ریاستوں میں ان کے رول کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ شبیر صاحب اپنے مخالفین اوردشمنوں کو آسانی سے پہچان لیتے ہیں‘مگر وفاداروں اورسچے ہمدروں کو پرکھنے میں دھوکہ کھا جاتے ہیں‘ جس سے انہیں نقصان ہوتارہا۔
اس وقت کانگریس کی مسلم لیڈرشپ کی اوسط عمر(60)برس ہے‘ موجودہ سینیئر قائدین نے اگراپنے جانشین تیار نہیں کیئے تو کانگریس کا حال بی آر ایس جیسا ہوسکتا ہے۔ اس وقت نوجوان نسل میں سیدعظمت اللہ حسینی‘سیدعامرجاوید‘ محمدفہیم قریشی‘ ارشاد احمد ناصر‘ جاوید(کھمم)قابل ذکر ہیں۔
عامرجاوید این ایس یو آئی کے آل انڈیاجنرل سکریٹری رہ چکے ہیں اوریوتھ کانگریس کے ورکنگ پریسڈنٹ ہیں‘ وہ اے آئی سی سی کے ریسرچ ڈپارٹمنٹ کے بھی روح رواں ہیں۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ اورقائدانہ صلاحیتوں کے حامل ہیں۔
اصل لیڈرشپ اضلاع میں پروان چڑھتی ہے‘ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان نوجوانوں کی صلاحیتوں کواجاگرکیاجائے انہیں ابھرنے کا موقع دیا جائے‘ تاکہ آنے والا کل یہ کانگریس کے علمبردار بن سکیں۔
تلنگانہ میں مسلم لیڈرشپ کے ذکر کے ساتھ مجلسی قائدین کا تصور ابھرتا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ متحدہ آندھراپردیش ہو یا تلنگانہ حکومت کسی بھی پارٹی کی ہو‘ مجلس سے اس کے تعلقات اگر پہلے کشیدہ رہے بھی تو وہ دوستانہ ہوجاتے ہیں۔ یہی مجلس کی طاقت، حکمت عملی اور کامیابی کا راز ہے۔ یہ تعلقات عام طور پر امیدواروں کے انتخاب سے لے کر وزارت میں شمولیت اور قلمدانوں کی تقسیم پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں۔