Thursday , November 21 2024
enhindiurdu

کی میزبانی او رہندوستان G-20

سچ تو مگر کہنے دو !

ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز

ساری دنیا کی نظریں ہندوستان پر مرکوز ہیں۔ جس کے دارالحکومت دہلی میں 9 اور 10ستمبرکو دنیا کے 20 معاشی طور پر مستحکم ترقی یافتہ ممالک کے سربراہان اور عالمی بینک، IMF، اقوام متحدہ اور اہم مالیاتی اداروں کے گورنرس اور نمائندے G-20 میں شرکت کریں گے۔ دہلی کو دلہن کی طرح سجایا سنوارا گیا ہے۔ G-20 جس کی صدارت کا اعزاز ہندوستان کو ملا ہے‘ حال ہی میں چندرایان3 مشن کی کامیابی اور پھر سورج کے پہلے مشاہدے کے لئے آدتیہ L1 کی کامیاب پرواز کے بعد ہندوستان کی عالمی سطح پر قدر و منزلت بڑھ گئی ہے۔ ایسے وقت میں G-20 کی میزبانی سے یقینی طور پر اس کے وقار میں اضافہ ہوگا۔ ایک طرف ملک کو یقینی طور پر فائدہ ہوگا۔ تو دوسری طرف وزیر اعظم نریندر مودی کو سیاسی فائدہ ہوگا کیوں کہ اس کا اس میزبانی کی کامیابی اور گلوبل پبلسٹی کا اثر الیکشن24 پر ضرور ہوگا۔ چین کے صدر ژی زنگ پن جان بوجھ کر اس سربراہ کانفرنس میں شرکت سے گریز کررہے ہیں اور ان کی نمائندگی وزیر اعظم لی کیانگ کررہے ہیں جو G-20 کے پروٹوکول کے خلاف ہے۔ چینی صدر کی عدم شرکت سے ان کی بدنیتی اور ہندوستان کی ابھرتی ہوئی طاقت سے حسد کا اندازہ ہوتا ہے۔ LAC کے مسئلہ پر ہندوستان اور چین کے درمیان شدید اختلافات ہیں۔ چین نے ہٹ دھرمی کرتے ہوئے ہندوستان کے کافی بڑے رقبے پر قبضہ کررکھا ہے۔ وہ 1962ء کی جنگ میں قبضہ کئے گئے جنوبی تبت اور اکسائی چن کے علاقے کو اپنی ملکیت قرار دیتا ہے۔ اور اس نے حال ہی میں اپنے ملک کا جو نقشہ جاری کیا ہے‘ اس میں بھی اروناچل پردیش کو چین کا حصہ قرار دیا ہے۔ جس پر ہندوستان نے اعتراض اور احتجاج کیا ہے۔
یوں تو سرکاری طور پر چین نے G-20 کی ہندوستانی صدارت کی حمایت کی ہے مگر اس نے G-20-23کے theme پر ناراضگی جتائی ہے۔ یہ تھیم ”واسودھیواکٹم بکم“ مہا اپنی شد سے سنسکرت زبان سے لیا گیا ہے۔ جس کے معنے ہیں ”ایک زمین، ایک خاندان یعنی تمام جاندار ایک ہی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں چاہے انسان ہوں‘ یا جانور ے پرندے…
ہندوستان نے G-20 میں گلوبل ساؤتھ کی بات کہی ہے‘ اس پر بھی چین کو اعتراض ہے۔ گلوبل ساؤتھ یعنی برازیل، ہندوستان، انڈونیشیا، چین، نائجیریا اور میکسیکو کا جو رقبہ اور آبادی کے لحاظ سے اپنی اہمیت کے حامل ہیں‘ انہیں تیسری دنیا بھی کہا جاتا ہے۔ چین اپنا پلڑا بھاری رکھنا چاہتا ہے کیوں کہ وہ غریب ممالک کو قرض کے دلدل سے باہر نکالنے والے عالمی بنکوں کو زیادہ سے زیادہ سرمایہ فراہم کرتا ہے۔ اس نے BRICS میں اپنے دبدبے کو بڑھایا ہے اور چھ نئے ممالک جن میں سعودی عرب، ارجنٹینا شامل ہے انہیں شامل کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ اس کی اصل دلچسپی BRICS کا نیشنل ڈیولپمنٹ بنک ہے‘ جس کی تشکیل کے وقت اس نے اپنی جانب سے 50بلین ڈالرس کا فنڈ فراہم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ تاہم ہندوستان نے طاقت کے توازن کو برقرار رکھنے کے لئے اس کی مخالفت کی اور BRICS کے ہر ممبر کے لئے دس دس بلین ڈالرس کے فنڈس کی حد مقرر کی۔ چین کو خواتین کی زیر قیادت ترقی، ایم ایس ایم ای ایس، مشن لائف اسٹائل، پر بھی اعتراض ہے اس نے کئی بار G-20کی میزبانی میں رکاوٹیں پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ چنانچہ سری نگیر میں ماحولیات پر منعقدہ اجلاس میں بھی چین نے اپنا نمائندہ نہیں بھیجا تھا۔
G-20 کا 1999ء میں قیام عمل میں آیا۔ معاشی طور پر سرفہرست 19ممالک اور یوروپین یونین پر مشتمل اس فورم کا کوئی ہیڈ کوارٹر نہیں ہے۔ موجودہ میزبان ملک، سابقہ میزبان اور مستقبل کا میزبان مل کر سربراہ کانفرنس کا اہتمام کرتے ہیں جسے TROIKA کہتے ہیں۔ گزشتہ سال G-20 انڈونیشیا کے شہر بالی میں منعقد ہوئی۔ اس وقت یہ فورم ایک طرح سے تقسیم ہوچکی تھی۔ روس۔ یوکرین جنگ کے سائے اس پر پڑرہے تھے۔ G7 ممالک کے ساتھ آسٹریلیا، ساؤتھ کوریا، یوروپی یونین ایک بلاک میں شامل ہوگئے تھے اور دوسرے بلاک میں 8ممالک ہندوستان، برازیل، ارجنٹائنا، میکسیکو، انڈونیشیا، سعودی عرب اور ترکی شامل تھے۔ اس کانفرنس میں چین نے اپنی برتری قائم رکھی تھی۔
ہندوستان کوشاں ہے کہ اس کی برتری اور دبدبے کو بے اثر کردے۔ دہلی میں اُسے اس لحاظ سے موقع ملے گا کہ چین کے اصل حریف امریکہ کے صدر بائیڈن اور حلیف روسی صدر پوٹن شرکت کررہے ہیں۔ امریکہ نے چینی صدر کی غیر حاضری پر پہلے ہی تنقید کی ہے اور ہندوستان سے دوستانہ تعلقات کو مزید بہتر بنانے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔ ایک امریکہ ہی کیا‘ چین کے سوا تمام ممالک سے ہندوستان کے تعلقات بہتر سے بہتر ہوسکتے ہیں۔ کئی شعبے جات ہیں‘ اُسے فروغ حاصل ہوگا۔ امریکی صدر کی شرکت سے ہندوستان کا ڈائمنڈ جویلری بزنس بحال ہوسکتا ہے۔ یاد رہے کہ امریکہ نے ایک کرات اور اس سے بڑھ کر وزن والے تراشیدہ اور پالش کئے گئے ڈائمنڈس کو ڈائمنڈس کے امپورٹ میں 50% کمی کردی ہے۔ جس کی وجہ سے ڈائمنڈس بزنس بُری طرح سے متاثر ہوا ہے۔ سورت جو ڈائمنڈس کٹنگ اور پالیشنگ کا مرکز ہے وہاں 20لاکھ کاریگر کا روزگار متاثر ہوا ہے۔ کیوں کہ ہندوستان سے 8200.4 ملین ڈالرس کے ڈائمنڈس امریکہ ایکسپورٹ کئے جاتے تھے وہ گھٹ کر 5667.33 ملین ڈالرس ہوگئے ہیں۔
G-20دنیا کی 85فیصد جی ڈی پی اور 75فیصد انٹر نیشنل ٹریڈ اور دوتہائی آبادی کی نمائندگی کرتی ہے۔ ہندوستان کو صدارت کا اعزاز اس لحاظ سے بھی ملا ہے کہ اس نے گذشتہ دس برس کے دوران غیر معمولی ترقی کی ہے اور دنیا کی دسویں بڑی معیشت سے پانچویں بڑی معیشت بن گئی ہے۔ اپنے صدارت کے ایک سال کے دوران اس نے سربراہ کانفرنس کو کامیاب بنانے اور عالمی قائدین کو متاثر کرنے کے لئے زبردست محنت کی۔ وزارتی سطح پر 18میٹنگس کی اور ورکنگ گروپس کے 80اجلاس منعقد کئے جن میں بینکس، گلوبل فینانس اور ڈولپمنٹ سے متعلق اداروں کی نمائندگی شامل ہے۔ دو روزہ سربراہ کانفرنس کے دوران مختلف شعبوں میں اسے فروغ حاصل کرنے کے مواقع ملیں گے ان میں توانائی کا شعبہ اہمیت کا حامل ہے۔ ہندوستان جس کی آبادی دنیا کی آبادی کا 17فیصد ہے کم سے کم کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج ہوتا ہے اس حیاتیاتی ایندھن Fossil fuelپر توجہ دی ہے۔ حیاتیاتی ایندھن ہائیڈرو کاربن، کوئلا، تیل، قدرتی گیس ہے جو مردہ جانوراور پودوں سے تیار کیا جاتا ہے۔
ہندوستانی آٹوموبائیل کے شعبہ پر بھی دنیا کی نظر رہے گی کیونکہ الیکٹریکل وھیکلز پر ہندوستان نے توجہ مرکوز کی ہے کیونکہ ماحولیاتی توازن کے لئے ضروری ہے۔ شہری ہوا بازی Aviationبھی ہندوستان کا ایک اہم تجارتی شعبہ ثابت ہوسکتا ہے۔ ہندوستان نے حال ہی میں پیرس میں جو ایئر شو میں حصہ لیا اس میں ہندوستانی کمپنیوں کو کافی آرڈرس ملے ان میں انڈی گو 500، ایئر انڈیا470، اور اکاسا۔4قابلِ ذکر ہے۔ اگرچیکہ ہندوستان کی کئی فضائی کمپنیاں دیوالیہ کا شکار ہوچکی ہیں۔ ہندوستان کو اگر سب سے زیادہ سرمایہ کاری کی امید ہے تو وہ خلائی شعبہ ہے، ہندوستان وہ 27واں ملک ہے جس نے امریکہ کے ساتھ Artemis Accordپر دستخط کی ہے جس کے تحت امریکہ نے 2025تک چاند پر انسان کی واپسی کا وعدہ کیا ہے۔ چندرایان۔3کی کامیابی اور سورج مشن پر روانگی کے بعد کئی غیر ملکی سرمایہ دار ہندوستان کی خلائی شعبہ میں سرمایہ کاری میں دلچسپی رکھتے ہیں ہندوستان میں 400 سے زائد پروائیویٹ اسپس کمپنیاں ہیں۔ 150اسٹارٹپس ہیں جن کا بزنس 8بلین ڈالرس کا ہے۔ Spaceکے شعبہ میں خاطر خواہ سرمایہ کاری کی امید ہے جس سے ہندوستان کے خلائی پروگرام کامیاب ہوتے رہینگے۔ ریئل اسٹیٹ ایک ایسا شعبہ ہے جس میں وزیٹنگ فارن انوسٹرس اور این آر آئیز دلچسپی لے سکتے ہیں۔ G-20 میں جہاں ممبر ممالک کے سربراہ شرکت کررہے ہیں وہیں ایک لاکھ سے زائد مہمان بھی شریک ہونگے ظاہر ہے کہ ان میں اکثریت سرمایہ دار طبقہ کی ہوگی جو ریئل اسٹیٹ ای کو سسٹم ہیوی میٹل، سمنٹ جیسے سیکٹرس میں سرمایہ کاری اور دلچسپی دکھا سکتے ہیں۔
G-20کی میزبانی سے ہندوستان کو اپنی تہذیب، ثقافت مختلف امور میں مہارت دنیا کے سامنے پیش کرنے کا موقع ملے گا۔ دہلی دو دن کے لئے عالمی سربراہوں کا مرکز ہے اگرچیکہ بعض تاجرین کو نقصان بھی برداشت پڑرہا ہے تاہم دو دن کے دوران ساری دنیا میں دلّی کے چرچے ہونگےG-20 کے دعوت ناموں میں انڈیا کے بجائے بھارت نام شمار کیا گیا ہے جس پر جس طرح سے میڈیا میں بحث ہورہی ہے اس سے غیر محسوس طریقہ سے اپوزیشن اتحاد کو فائدہ ہوگا کیونکہ انڈیا کو دبانے کی کوشش میں اسے اور اچھالا جارہا ہے اور نہ صرف ہندوستانی عوام بلکہ دنیا بھر میں یہ بات محسوس کی جائے گی کہ بی جے پی حکومت واقعی اپوزیشن اتحاد کے نام انڈیا سے پریشان ہے۔ بھارت بھی کوئی نیا نام نہیں کیونکہ کانگریس نے ہی میرا بھارت مہان کا نعرہ دیا تھا اور اکثر و بیشتر ہندوستانی عوام لفظ بھارت یا ہندوستان ہی کا استعمال کرتے ہیں نام بدلنے کی بی جے پی حکومت کو عادت ہے ابھی تک سڑکوں، شہروں، ریاستوں کے نام بدلتے رہے اب ملک کا نام بھی بدل دیا تو اس میں حیرت یا تعجب کئی بات نہیں۔ 2024میں اگر مودی حکومت ہیٹ ٹرک کرتی ہے تو دستور ہند (دستور بھارت) بھی بدل جائے گا، ہندوراشٹر کا نیا دستور تشکیل دیا جائے گا

About Gawah News Desk

Leave a Reply