اسد مرزا(دہلی)
”وائٹ ہاؤس کے ایک اہلکار نے واضح کیا ہے کہ چین کے بارے میں امریکی صدر جو بائیڈن کا یہ تبصرہ کہ چین ایک ٹائم بم کی طرح ہے وہ چین کی اندرونی معاشی اور سماجی تناؤ کا حوالہ دیتا ہے۔ اور اس کا اثر اس بات پر پڑسکتا ہے کہ بیجنگ دنیا کے ساتھ کس طرح کے تعلقات قائم رکھتا ہے۔“
گزشتہ پندرہ دنوں کے دوران امریکہ نے چین کے خلاف دو ایسے بیانات اور اقدامات کیے ہیں جن کا اثر مستقبل میں امریکہ- چین تعلقات پر ضرور ہوگا ہی، ساتھ ہی یہ باہمی تعلقات میں امریکہ کی منفی سوچ کو بھی ظاہر کرتے ہیں۔ اس ماہ کے اوائل میں امریکی صدر جوبائیڈن نے ایک سیاسی تقریب میں کہا تھا کہ چین “مشکل میں ہے” اور معاشی اور معاشرتی مسائل سے دوچار ہے۔ بائیڈن کا کہنا تھا کہ یہ اچھا نہیں ہے کیونکہ جب برے لوگوں کو پریشانی ہوتی ہے تو وہ برے کام زیادہ کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ چین ایک ٹک ٹک کرتا ٹائم بم بھی ہے۔اس کے پیچھے شاید یہ وجہ رہی تھی کہ اب تک چین اپنی ترقی کو برقرار رکھنے کے لیے 8 فیصد سالانہ کی شرح سے ترقی کر رہا تھا۔ لیکن، گزشتہ سال میں یہ شرح صرف 2 فیصد کے قریب رہ گئی ہے۔
چین کے قومی ادارہ شماریات کے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ پہلی سہ ماہی میں چینی معیشت کی نمو 4.5 فیصد اور دوسری میں 6.3 فیصد رہی، مجموعی گھریلو پیداوار (جی ڈی پی) میں 2.2 فیصد توسیع کے بعد گزشتہ سہ ماہی سے اپریل تا جون میں صرف 0.8 فیصد اضافہ ہوا۔
وائٹ ہاؤس کے ترجمان جان کربی نے صحافیوں کو بتایا کہ چین کے حوالے سے امریکی تشویش کا ایک شعبہ یہ ہے کہ “جس طرح وہ دنیا بھر کے ممالک کو دھونس، زبردستی اور دھمکاتے ہیں ” وہ انتہائی سود والے بنیادی ڈھانچے کے قرضوں کی پیشکش کرتے ہیں اور پھر اثاثوں کو ضبط کرتے ہیں جب ملک نادہندگان ہوجاتے ہیں۔جیسا کہ توقع تھی بائیڈن کے تبصروں پر بیجنگ کی طرف سے شدید ردِعمل سامنے آیا ہے۔
چینی سفارت خانے کے ترجمان لیو پینگیو نے واشنگٹن کو بیجنگ کو “قربانی کا بکرا” بنانے اور “تقسیم اور تصادم” کو ہوا دینے کے خلاف خبردار کیا۔ انہوں نے بائیڈن کا نام لیے بغیر جمعے کو رائٹرز نیوز ایجنسی کو ایک بیان میں کہا، ”ہم امریکی فریق کی طرف سے چین کو مسئلہ بنانے، چین کو بدنام کرنے یا چین کے امکانات پر بات کرنے کی مخالفت کرتے ہیں۔“ لیو نے کہا کہ چین کی جی ڈی پی کی نمو عالمی معیشت کی ترقی کے لیے اہم معاونت فراہم کر رہی ہے۔
چین کے سرکاری حمایت والے اخبار گلوبل ٹائمز نے کہا ہے کہ بائیڈن نے امریکہ میں مسائل سے گھریلو سامعین کی توجہ ہٹانے اور اپنی صدارتی مہم کو فروغ دینے کے لئے چین کے لیے تذلیل اور بدتمیزی کرنے والے تبصرے کیے ہیں اور ایک حد تک یہ بات درست بھی ہے۔ گلوبل ٹائمز نے فوڈان یونیورسٹی میں سینٹر فار امریکن اسٹڈیز کے ڈپٹی ڈائریکٹر ڑن کیانگ کے حوالے سے بتایا کہ 2024 کے صدارتی انتخابات کے دوران زیادہ تر امریکی صدارتی امیدوار چین کو نشانہ بنائیں گے۔ صدارتی مہم کے دوران اس میں شامل موضوعات میں اسقاط حمل، بندوق اور منشیات جیسے مسائل کے ساتھ چین پر امریکی زور زبردستی بھی اس مہم کا حصہ رہیں گے۔
مزید برآں گزشتہ ہفتہ امریکی اخبار وال اسٹریٹ جرنل کے مطابق بائیڈن نے ایک ایگزیکٹو آرڈر کے تحت امریکی پرائیویٹ ایکویٹی اور وینچر کیپیٹل فرموں کو چین میں کچھ سرمایہ کاری کا انکشاف کرنے کی ہدایت جاری کی ہیں۔ امریکہ کچھ چینی ٹیکنالوجی کمپنیوں میں پرائیویٹ ایکویٹی اور وینچر کیپٹل سرمایہ کاری پر پابندی بھی لگا رہا ہے، جس سے بیجنگ کو اپنی فوج کے لیے جدید ٹیکنالوجی تیار کرنے سے روکنے کے لیے واشنگٹن کی کوششوں میں اضافہ ہو گا۔
اس ایگزیکٹو آرڈر میں تین ٹیکنالوجی کے شعبوں میں براہ راست سرمایہ کاری کا احاطہ کرے گا: سیمی کنڈکٹرز، کوانٹم کمپیوٹنگ اور مصنوعی ذہانت۔ یہ ان ٹیکنالوجیز کی کچھ شکلوں میں سرمایہ کاری کو ممنوع قرار دے گا، جبکہ چین میں کاروبار کرنے والے امریکیوں کو تین ہائی ٹیک شعبوں میں سرمایہ کاری کے بارے میں مزید وسیع پیمانے پر امریکی حکومت کو مطلع کرنے کی ضرورت ہوگی۔
ایگزیکٹو آرڈر اس بڑھتی ہوئی تشویش کا نتیجہ ہے کہ امریکی ٹیکنالوجی اور نادانستہ طور پر بیجنگ کو ایسے ہتھیار تیار کرنے میں مدد کر سکتے ہیں جو وہ فوجی تنازعہ میں امریکہ کے خلاف استعمال کر سکتا ہے۔ بائیڈن انتظامیہ نے پچھلے سال چین کو جدید سیمی کنڈکٹرز اور چپ تیار کرنے والے آلات کی برآمدات پر پابندی لگا دی تھی، اور امریکہ نے امریکی ٹیکنالوجی کمپنیوں میں چینی سرمایہ کاری کی جانچ پڑتال کو بھی بڑھا دیا ہے۔
جبکہ بائیڈن انتظامیہ کے اہلکاروں نے امریکی قومی سلامتی کے تحفظ کے لیے اہدافی کوششوں کے طور پر یہ اقدام کیا ہے، بیجنگ میں حکام کا کہنا ہے کہ ان کا مقصد چین کی اقتصادی ترقی اور ترقی کو گھٹنے ٹیکنا ہے۔ چینی رہنما شی جن پنگ نے گزشتہ سال صدر بائیڈن سے سیمی کنڈکٹرز پر برآمدی کنٹرول کے بارے میں شکایت کی تھی۔ اور امریکی برآمدی پابندیوں کے جوابی اقدام کے طور پر بیان کیے جانے والے ایک قدم میں، چین نے اپنی بڑی فرموں پر اس سال کے شروع میں، امریکہ میں سب سے بڑی میموری چپ بنانے والی کمپنی مائکرون ٹیکنالوجی سے ٹیکنالوجی خریدنے پر پابندی لگا دی ہے۔
امریکہ یورپ اور ایشیا میں اپنے اتحادیوں پر بھی چین میں سرمایہ کاری کو محدود کرنے کے لیے اسی طرح کے اقدامات کرنے کے لیے دباؤ ڈال رہا ہے، مثال کے طور پر، لندن یا ٹوکیو کے ذریعے فرموں کو صرف پیسے کی منتقلی سے روکنے کی امید میں۔ امریکی لابنگ کے بعد، موسم بہار میں سات ترقی یافتہ جمہوریتوں کے گروپ نے اتفاق کیا کہ سرمائے کے کنٹرول “برآمدات اور اندرون ملک سرمایہ کاری پر ہدفی کنٹرول کے موجودہ ٹولز کی تکمیل کے لیے اہم ہو سکتے ہیں۔” یورپی کمیشن نے تجویز پیش کی ہے کہ 27 رکنی بلاک بیرون ملک سرمایہ کاری پر پابندیاں اپنائے۔
دریں اثنا، برطانوی حکومت بھی امریکی صدر کی جانب سے نئے اقدامات کا اعلان کرنے کے بعد چین میں سرمایہ کاری سے متعلق قوانین کو سخت کرنے پر غور کر رہی ہے جس کا مقصد ملک میں حساس ٹیکنالوجیز میں بہنے والے ڈالر اور مہارت کو محدود کرنا ہے۔برطانوی اخبار دی گارڈین کا کہنا ہے کہ اس کے باوجود نہ تو برطانیہ اور نہ ہی یورپی یونین سے فوری طور پر امریکہ کی پیروی کی توقع کی جانے چاہیے۔
حالیہ برسوں میں تعلقات میں خرابی کے بعد برطانیہ اور امریکہ دونوں نے چین کے ساتھ تعلقات کو بحال کرنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن اقتصادی اور سلامتی کے خدشات کی وجہ سے الیکٹرک گاڑیوں اور جدید کمپیوٹنگ ترقی جیسے شعبوں میں تجارت اور سرمایہ کاری کی جنگ میں تبدیل ہو گئے ہیں۔اس کے ساتھ ہی امریکہ سنکیانگ میں ایغور مسلمانوں کی مبینہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، بشمول جبری مشقت، اور عالمی سپلائی چینز میں اس خطے کے کردار کی اہمیت سمجھتے ہوئے چین کے ساتھ تجارت کی جانچ پڑتال میں اضافہ کرتے نظر آنا چاہتا ہے۔لیکن جیسا کہ پہلے کہا جاچکا ہے کہ مجموعی طور پر ان تمام اقدامات کا اصل مقصد عالمی سطح پر امریکی کہ اجارہ داری کو قائم رکھنا ہے، جبکہ عملی طور پر اب ایسا ہونا ممکن نہیں لگتا۔کیونکہ جس طریقے سے پہلے تو مختلف شعبہ جات میں امریکہ نے چینی کمپنیوں کے ساتھ کاروبار کو فروغ دیا اور پھر امریکہ اور یوروپ سے تمام کارخانے چین منتقل کردئیے، ان سب اقدامات کا مجموعی فائدہ چینی لیڈرشپ نے بہت ہی سوچے سمجھے اور سلجھے ہوئے طریقے سے یہ حکمت عملی بناکر کیا کہ آج کے موجودہ دور میں آپ کسی بھی شعبے میں بغیر چین کے بنائے ہوئے پروڈکٹس یا چینی کمپنیوں کے اشتراک کے بغیر کچھ بھی بازار میں نہیں لا سکتے ہیں۔ اس لیے چین مخالف اقدامات سے جہاں تعلقات میں بدمزگی میں اضافہ ہوگا وہیں امریکہ دوبارہ اپنے یہاں کل کارخانے قائم کرنے میں ناکام ہوگا۔
(مضمون نگارسینئر سیاسی تجزیہ نگار ہیں‘ ماضی میں بی بی سی اردو سروس اور خلیج ٹائمزدبئی سے بھی وابستہ رہ چکے ہیں)