Thursday , November 21 2024
enhindiurdu

مولاناعبدالوحید صدیقی: مجاہدآزادی اور معمارِصحافت‘ کااجرا

باوقار تقریب، قائدین ملک و ملت، صحافیوں اور ارباب علم و ادب کی شرکت۔ کتاب کے مواد پر فکرانگیز گفتگو
’نئی دنیا، ’ھما‘ اور ’ھدیٰ‘جیسے عہد ساز اخبارات ورسائل کے بانی اور مشہور مجاہد آزادی مولانا عبدالوحید صدیقی کی حیات و خدمات پر دستاویزی کتاب’مولانا عبدالوحید صدیقی: مجاہدآزادی اور معمار صحافت‘ کی رسم اجرا کانسٹی ٹیوشن کلب میں ہفتہ13/مئی کی شام معززین کے ہاتھوں انجام پائی۔ تقریب میں قائدین ملک و ملت، ذی فکرو شعور نوجوانوں، صحافیوں اور ارباب علم وادب کی کثیر تعداد شریک تھی۔ جلسے کی صدارت ’نئی دنیا‘ کے ایڈیٹر، سابق رکن پارلیمنٹ شاہد صدیقی نے کی جبکہ مہمانانِ خصوصی میں جمعیۃ علما ہند کے صدر اور دارالعلوم دیوبندکے صدرالمدرسین مولانا ارشد مدنی، مشہور اسلامی اسکالر اور مولانا آزاد یونیورسٹی کے سابق صدر پروفیسر اختر الواسع، کالم نگار عظیم اختر، سابق رکن پارلیمنٹ اور اخبار نو کے ایڈیٹر م۔افضل، انٹر فیتھ ہارمونی فاؤنڈیشن کے صدر ڈاکٹر خواجہ افتخار، معمر مصنف و صحافی فاروق ارگلی اور مشہور شاعر متین امروہوی شامل تھے۔ 
اس موقع پر شاہد صدیقی نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ محبوب ملتؒ کی قائدانہ شخصیت کو تاریخ کے وسیع تناظر میں دیکھنے اور دریافت کرنے کی ضرورت ہے اور یہ کتاب اس راہ کی پہلی سنجیدہ کوشش ہے۔ یہ وہ آئینہ ہے جس میں نہ صرف مولانا کی شخصیت اوران کے تاریخی کردار، ان کے معاصرین اور ان کے عہد کی سیاسی و سماجی تصویر کو دیکھا جاسکتا ہے بلکہ آج ہم تاریخ کے جس پرآشوب و مایوس کن دور میں ہیں اس کے لیے بھی اس میں روشنی ہے۔ مولانا نے اس سے زیادہ دشوار حالات کا سامنا کیااور ان کی مومنانہ فراست و عزیمت ہربار سرفرازو سرخروہوئی۔


کتاب کے مرتب مشہور کالم نگار، صحافی و مصنف احمد جاوید نے تعارفی کلمات میں کہا کہ انسان دجلہ حیات کا قطرہ ہے تومولانا عبدالوحید صدیقی ایک ایسا قطرہ تھے جو دریا کی موجوں اور اس کے سمت و رفتار پر اثر انداز ہوتاہے لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے یہاں صرف شہید یا فاتح کو یاد رکھنے کی بڑی مضبوط روایت ہے۔ ہم اپنی تاریخ کے ان کرداروں کو بھول جاتے ہیں جن کا ملک و ملت کے بنانے میں بنیادی کردار ہے۔ یہ کتاب اس روایت کو توڑنے، ملک و ملت کے اصلی ہیرو اور حقیقی محسنوں کو سوشیو پولیٹکل ڈسکورس اور ڈسکشن میں لانے کے جذبے سے لکھی گئی ہے۔انہوں نے کہا کہ مولانا کی عظمت یہ ہے کہ آزادی کے بعد جب اوروں نے ارباب اقتدار کی سمع و طاعت کی راہ اختیار کی تو انہوں نے آزادی اور جمہوریت کی بقا کیلئے جدوجہد کا راستہ چنا۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ مختلف طبقات کی سیاسی سماجی غوروفکرکے مرکز میں جب ان طبقات کے قائدین موجود ہیں تو مولانا عبدالوحید صدیقی یا سید بدرالدجی، غلام سرور، حمید دلوائی، ڈاکٹر فریدی اور کلیم الدین شمس اپنی نئی نسلوں کے ذہن و فکر میں یہی مقام کیوں نہیں رکھتے؟ انہوں نے ملک میں پریس کی آزادی کی لڑائی کا ذکر کرتے ہوئے کہاکہ آزاد ہندوستان میں اس جدو جہد کے ہر سنگ میل پر سب سے نمایاں اور سنہری حروف میں فیروز گاندھی اور مولانا عبد الوحید صدیقی کے نام درج ہیں لیکن یہ ہماری ہی آنکھوں سے اوجھل ہیں۔انہوں نے کہا کہ سرمایہ داروں اور حکومت کے تسلط سے پریس کی آزادی کو بچانے کے لیے آج کل جن اصولوں کو اپنانے کی باتیں ہورہی ہیں۔ مولانا نے روز اول ہی ان کو اپنا نصب العین بنایا۔ انہوں نے ہر حال میں اپنے قارئین کے مفادات کو مقدم رکھا اور جو کچھ لینا ہے قارئین سے لیا، کسی ایسے فریق یا حکومت سے کبھی کچھ بھی قبول نہیں کیا جو ان کی ادارتی پالیسی کو متاثر کرتا۔ سابق رکن پارلیمنٹ م۔افضل نے اس موقع پر اپنی یادداشت کے بہت سے اوراق پلٹ کر حاضرین کے سامنے رکھے۔ انہوں مولانا کی دیانت داری اور وقت کی پابندی کے کئی قصے تازہ کیے جبکہ پروفیسر اختر الواسع نے کہا کہ بڑا آدمی وہ نہیں ہوتا جو ہوا کے رخ پر چلتا ہے، بڑا وہ ہوتا ہے جو صحیح وقت صحیح فیصلے لیتا ہے۔ مولانا عبدالوحید صدیقی ہوا کے خلاف کھڑے ہونے اور مشکل فیصلہ لینے کا ملکہ رکھتے تھے، مولانا نے اردو صحافت کو نیا رنگ اور نیاآہنگ دیا۔


دارالعلوم دیوبند کے صدرالمدرسین مولانا ارشد مدنی نے اپنے خطاب میں کہا کہ وہ جس بات کو حق سمجھتے تھے اس پر ڈٹ جاتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ میں اس کتاب کو پڑھ رہا ہوں اور یہ کتاب بہت اہم ہے اور اس کا مطالعہ ہمارے لیے مفید ہوگا جبکہ مولانا نیاز احمد فاروقی نے کہا کہ میں مولانا کا فیضیاب یافتہ ہوں۔ مولانا کا ہم وطن ہوں، وہ بحری آباد غازیپور کے تھے۔ وہ میرے محسن تھے۔ میں کم عمری میں یتیم ہوگیا تھا، مولانا نے میرے سرپر ہاتھ رکھا۔ میں چونکہ ان کے شب و روز کا عینی شاہد ہوں کہہ سکتا ہوں کہ یہ کتاب حرف بہ حرف سچ ہے۔


ڈاکٹرخواجہ افتخار احمد نے اس موقع پر کہا کہ مولانا سے میرا بالواسطہ تعلق رہا ہے لیکن یہ تین دہائیوں سے زیادہ عرصہ کا تعلق ہے۔ مولانا نے جدید ہندوستان میں اردو صحافت کو بنیادیں فراہم کیں ان کے اَخلاف و اولاد حوصلے کی ایک عظیم وراثت کے امین ہیں جبکہ مشہور صحافی و مصنف فاروق ارگلی نے کہا کہ وہ ہندوستان کی اردو صحافت کی ایک سب سے بڑی عظمت ہیں، میں جو کچھ ہوں ان کی حوصلہ افزائی اور شفقتوں کی وجہ سے ہوں۔ تقریب کا افتتاح ڈاکٹر یامین انصاری کی تلاوت قرآن سے ہوا، اس کے بعد معروف شاعر متین امروہوی نے مولانا عبد الوحید صدیقی کو منظوم خراج عقیدت پیش کیا۔ اپنے اظہار تشکر میں کتاب کے ناشر اسکائی لائن پبلی کیشنز کے ڈائریکٹر شفیق الحسن نے کہا کہ یہ کتاب متبادل تاریخ نگاری کے جذبہ سے لکھی گئی ہے اور اس کیلئے مولانا صدیقی کے معاصرین، رفقائے کار اور ان کو قریب سے دیکھنے سننے والوں کی تحریروں اور تاریخی دستاویزات سے کام لیا گیا ہے۔انہوں نے کہ ہمارے دوست احمد جاوید نے اس کیلئے بڑی محنت کی ہے۔ کتاب کے ناشر نے یہ بھی کہاکہ عام قارئین تو عام، تاریخ کے طالب علموں اور ہندوستان کی صحافت اور سیاست کے محققوں کیلئے بھی یہ ایک دستاویزی تحفہ ہے۔

About Gawah News Desk

Leave a Reply