سہیل انجم۔موبائل: 988195929
شائستہ پروین، کل کی ہاؤس وائف یعنی خاتونِ خانہ اور آج کی موسٹ وانٹیڈ یعنی پویس کی نظر میں انتہائی مطلوب۔ اترپردیش کی پولیس نے ان کے سر پر 50 ہزار روپے سے زائد کا انعام رکھا ہوا ہے۔ وہ ان کی تلاش میں جگہ جگہ چھاپے ڈال رہی ہے۔ انھوں نے کبھی سوچا بھی نہیں ہوگا کہ ان کی پُر آسائش گھریلو زندگی اس طرح پُر خطر ہو جائیگی کہ انھیں اپنی جان بچانے کیلئے روپوش ہونا پڑے گا۔ انھوں نے یہ بھی نہیں سوچا ہوگا کہ محض دو دنوں کے اندر ان کا بیٹا اور شوہر ہلاک کردیئے جائیں گے۔ 13 اپریل کو ان کا 19 سالہ بیٹا اسد جھانسی کے نزدیک پولیس کے ساتھ انکاؤنٹر میں مارا جاتا ہے اور ان کے شوہر عتیق احمد کو 15 اپریل کو پولیس کی حراست اور تحفظ میں ہلاک کر دیا جاتا ہے۔
یہ دنیا جانتی ہے کہ عتیق احمد مافیا ڈان، گینگ لیڈر، ہسٹری شیٹر اور دبنگ کی حیثیت سے مشہور تھا۔ وہ سابق رکن پارلیمنٹ و رکن اسمبلی بھی تھا۔ 15 اپریل کو جب کہ اسے پولیس حراست اور تحفظ میں طبی معائنے کے لیے پریاگ راج کے ایک اسپتال میں لے جایا جا رہا تھا تو اسپتال کے احاطے میں تین حملہ آوروں نے کیمرے کے سامنے اسے اور اس کے بھائی اشرف کو گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ شائستہ کے شوہر کے خلاف ایک سو سے زائد مقدمات درج ہیں تو ان کے خلاف تین معاملات درج ہیں۔ دو دھوکہ دہی کے اور ایک مقدمہ قتل میں ملوث ہونے کا۔ 2005 میں ہونے والے بی ایس پی کے رکن اسمبلی راجو پال کے قتل میں انھیں 2009 میں ملزم بنایا گیا تھا۔ اپنے خاندان میں وہ پہلی خاتون ہیں جن کا نام کسی مجرمانہ معاملے میں درج ہوا ہے۔
اکیاون سالہ شائستہ پروین موجودہ پریاگ راج اور سابق الہ آباد کے داموپور گاؤں میں ایک پولیس کانسٹبل محمد ہارون کے گھر پیدا ہوئی تھیں۔ انھوں نے اپنی ابتدائی زندگی سرکاری پولیس کوارٹر میں گزاری۔ ان کے خاندان کا جرم کی دنیا سے کوئی رشتہ نہیں تھا۔ انھوں نے تنازعات سے دور رہ کر ایک پر امن زندگی جینے کی توقع کی تھی۔ لیکن 1996 میں الہ آباد کے عتیق احمد سے شادی کے بعد ان کی زندگی کا ڈھرا بالکل بدل گیا۔ عتیق کی جہاں معمولی تعلیم ہوئی تھی وہیں شائستہ گریجویٹ ہیں۔ ان کے پانچ بیٹے ہیں جن میں سے ایک پولیس انکاؤنٹر میں مارا گیا جبکہ دو جیل میں بند ہیں اور دو نابالغ ہیں اور جوینائل ہوم میں ہیں۔ مبصرین کہتے ہیں کہ شائستہ نے جرم کی دنیا میں شامل ہونے کے بارے میں کبھی نہیں سوچا تھا۔ وہ صرف گھریلو کاموں میں مصروف رہتی تھیں۔ لیکن پولیس کا دعویٰ ہے کہ وہ راجو پال قتل کیس کے ایک اہم گواہ امیش پال اور دو پولیس محافظوں کی ہلاکت میں شامل رہی ہیں۔ امیش پال کا اسی سال 24 فروری کو پریاگ راج میں دن دہاڑے گولی مار کر قتل کر دیا گیا تھا۔ پولیس کا یہ بھی کہنا ہے کہ جب عتیق جیل میں تھا تو شائستہ نے اس کے گروہ کو سنبھالنے میں اہم کردار ادا کیا۔ عتیق کو اگر گاڈ فادر تو شائستہ کو گاڈ مدر کہا جاتا تھا۔ ان دنوں وہ عتیق کی مجرمانہ سرگرمیوں میں رفتہ رفتہ ملوث ہوتی چلی گئیں۔ رپورٹوں کے مطابق عتیق کے ایک رشتے دار اور پراپرٹی ڈیلر محمد ذیشان کا دعویٰ ہے کہ ایک بار عتیق نے 25 شوٹرز کے ساتھ اپنے ایک بیٹے کو اس کے پاس بھیجا تھا اور کہا تھا کہ وہ اپنی زمین شائستہ کے نام کر دے۔ اس نے پانچ کروڑ روپے کا بھی مطالبہ کیا تھا۔ اخبار ٹائمز آف انڈیا کے مطابق ذیشان کا کہنا ہے کہ شائستہ نے عتیق کا مطالبہ پورا کرنے کے لیے اسے دھمکیاں دی تھیں۔ (یہ سب کچھ پولیس کے بیان او ر میڈیا کی رپورٹوں میں ہے ہم اس کی تصدیق یا تردید نہیں کرسکتے)۔
عتیق کے جیل میں رہنے کے دوران شائستہ نے سیاست میں بھی قسمت آزائی کی۔ انھوں نے سال 2021 میں رکن پارلیمنٹ اسد الدین اویسی کی سیاسی پارٹی آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین میں شمولیت اختیار کی۔ لیکن 2023 میں وہ مایاوتی کی پارٹی بی ایس پی میں شامل ہو گئیں۔ ان کا خیال تھا کہ پارٹی ان کو الہ آباد کے میئر کے انتخاب میں ان کو اپنا امیدوار بنائے گی۔ لیکن جب ان کا نام راجو پال قتل معاملے میں سامنے آیا تو مایاوتی نے انھیں اپنا امیدوار بنانے سے انکار کر دیا۔ لیکن اسی درمیان ایسی خبریں بھی شائع ہوئی ہیں کہ بی ایس پی ان کو اب بھی اپنی پارٹی میں مانتی ہے۔ بی ایس پی لیڈر اوما شنکر کا کہنا ہے کہ پارٹی نے انھیں معطل نہیں کیا ہے۔ ان کو کسی معاملے میں سزا نہیں ہوئی ہے۔ پارٹی ان کو میئر کا الیکن لڑانا چاہتی تھی۔ البتہ اگر ان کو کسی معاملے میں سزاہوتی ہے تو پارٹی ان کو معطل کر دے گی۔ سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہے جس میں ان کے بیٹے اسد کو ایم آئی ایم کے عوامی جلسے میں اسد الدین کی موجودگی میں تقریر کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔ جبکہ ایک ویڈیو میں عتیق احمد عوامی جلسے میں لوگوں سے اپیل کر رہا ہے کہ وہ دو وقت کی جگہ پر ایک ہی وقت کی روٹی کھائیں لیکن اپنے بچوں کو ضرور تعلیم دلوائیں۔ اس کا کہنا تھا کہ اسے اس بات کا بہت احساس ہوتا ہے کہ اس کی اعلیٰ تعلیم نہیں ہوئی ہے۔
اس وقت میڈیا کے نزدیک اگر کوئی بڑی خبر ہے تو وہ عتیق اور شائستہ کی ہے۔ تمام نیوز چینل عتیق کے مبینہ سربستہ رازوں کا انکشاف کر رہے ہیں۔ وہ شائستہ کی روپوشی اور پولیس کی جانب سے ان کی تلاش کی رپورٹنگ بھی خوب کر رہے ہیں۔ جس پر بعض مبصرین نے تنقید کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ میڈیا شائستہ کو ایک خطرناک گینگ لیڈر کی حیثیت سے پیش کر رہا ہے۔ سابق آئی پی ایس اور مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ کے سابق ڈائرکٹر جنرل آف پولیس محمد وزیر انصاری کا کہنا ہے کہ میڈیا شائستہ کو ایک ویلن کے طور پر پیش کر رہا ہے۔ جس سے نہ صرف یہ کہ ان کے انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہو رہی ہے بلکہ ان کے پرائیویسی کے حق کو بھی پامال کیا جا رہا ہے۔ انھوں نے اس اندیشے کا اظہار کیا ہے کہ شائستہ کے ساتھ بھی وہی کچھ ہو سکتا ہے جو ان کے بیٹے اور شوہر کے ساتھ ہوا۔ ان کے ساتھ ساتھ دوسرے بہت سے لوگ بھی یہ کہتے ہیں کہ عتیق کے قتل میں بڑی طاقتیں ملوث ہیں۔ محمدوزیر انصاری نے اپنے تجربات کی روشنی میں کہا کہ ایسے واقعات میں ثبوتوں کو مٹانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ لہٰذا یہ بھی ممکن ہے کہ تینوں حملہ آوروں کو سزائے موت دے دی جائے یا جیل ہی میں ان کا قتل ہو جائے تاکہ عتیق کے قتل کی سازش میں ملوث عناصر کے نام سامنے نہ آسکیں۔ انھوں نے اس معاملے میں پولیس کے کردار پر بھی سوال اٹھایا ہے
عتیق کے قتل کے سلسلے میں اس وقت میڈیا میں کئی خطوط کا حوالہ دیا جا رہا ہے۔ جن میں ایک خط چیف جسٹس آف انڈیا کے نام، ایک وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے نام اور ایک الہ آباد کے چیف جسٹس کے نام ہے۔ وزیر اعلیٰ کے نام شائستہ پروین کے خط میں عتیق اور اشرف کے قتل کی مبینہ سازش کا ذکر کیا گیا ہے۔ یہ خط 27 فروری کو لکھا گیا تھا۔ خط کے مطابق عتیق کے قتل کی مبینہ سازش میں ایک ریاستی وزیر اور چند اعلیٰ پولیس عہدے دار بھی ملوث ہیں۔ شائستہ پروین کی مبینہ مجرمانہ سرگرمیوں کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ تعزیرات ہند کی دفعہ 120 کے تحت مجرمانہ سازش کی جو بات کہی گئی ہے وہ بہت مبہم ہے کسی کو بھی کسی معاملے میں پھانسنے کیلئے اس کا دفعہ کا استعمال کیا جاتا ہے۔ بقول ان کے شائستہ پروین کا مجرمانہ سرگرمیوں سے جوڑ کر بدنام کیا جا رہا ہے۔
تاریخ میں اس کی متعدد مثالیں موجود ہیں کہ کس طرح خواتین نے بھی جرم کی دنیا میں قدم رکھا اور پھر وہ اپنی مجرمانہ حرکتوں سے دنیا میں مشہور یا بدنام بھی ہوئیں۔ پتلی بائی کا نام تو تاریخ کے صفحات پر اس طرح ثبت ہے کہ اسے کوئی مٹا نہیں سکتا۔ اس کی کہانی کا آغاز آزادی کے فوراً ہوتا ہے۔ چمبل گھاٹی میں اس کی زبردست دہشت قائم تھی۔ اس کے گروہ کا نام سن کر لوگ لرز جایا کرتے تھے۔ بتایا جاتا ہے کہ ایک ہاتھ کٹ جان کے باوجود وہ بیس بیس مردوں سے مقابلہ کرتی تھی۔ وہ گوالیار کے ایک غریب خاندان سے تعلق رکھتی تھی۔ اس کا اصل نام گوہر جان تھا۔ اس کا پیشہ شادیوں میں رقص کرنا تھا۔ اس دوران اس وقت کا مشہور ڈاکو سلطانہ اس پر عاشق ہو گیا اور اسے اپنے ساتھ جنگل میں لے گیا۔ اس کو 1958 میں پولیس مڈبھیڑمیں مارا گیا تھا۔ اس کی کہانی پر فلم بھی بن چکی ہے۔ اسی طرح پھولن دیوی کا نام بھی خاتون ڈاکوؤں میں سرفہرست ہے۔ اس کا بھی ایک گروہ تھا جو چمبل کی گھاٹی میں روپوش رہتا۔ اس کی کہانی ظلم کے بطن سے پیدا ہوتی ہے۔ اس پر اونچی ذات کے ہندوؤں نے بہت ظلم کیا تھا جس کا انتقام اس نے ڈاکو بن کر لیا۔ وہ رکن پارلیمنٹ بھی بنی تھی۔ لیکن اس کا بھی قتل ہوا۔ ا س کے نام پر بھی ایک فلم بنائی گئی تھی۔ ایک بار اس سے جبکہ وہ رکن پارلیمنٹ تھی، میری بھی ملاقات ہوئی تھی۔ اس کو دیکھ کر کوئی یہ اندازہ بھی نہیں لگا پاتا کہ یہ وہی خاتون ہے جس نے درجنوں افراد کا قتل کیا ہے۔
جرم کی دنیا بڑی جابر، ظالم اور سفاک ہوتی ہے۔ مجرم کا انجام اچھا نہیں ہوتا۔ اس کو بہرحال سزا مل کر رہتی ہے۔ ان دونوں ڈاکوؤں کے ذکر سے ہماری مراد یہ قطعاً نہیں ہے کہ خدا نخواستہ شائستہ کا بھی ریکارڈ ایسا ہی ہے یا انھوں نے بھی جرم کی دنیا میں پناہ لے رکھی ہے یا مستقبل میں وہ اس دنیا میں پناہ لے لیں گی۔ اس مثال کو پیش کرنے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ اگر شائستہ نے اس راہ پر قدم نہیں رکھا ہے تو وہ آگے بھی نہ رکھیں۔ کیونکہ کوئی نہیں چاہے گا کہ وہ شریفانہ زندگی ترک کرکے غلط راستہ اختیار کریں۔ اور اگر وہ واقعی کسی جرم میں ملوث ہیں تو انھیں چاہیے کہ وہ قانون کا سامنا کریں۔ لیکن پولیس محکمے، قانون کے رکھوالوں اور میڈیا سے یہ توقع بھی کی جائے گی کہ چونکہ وہ ایک خاتون ہیں اس لیے ان کیساتھ شریفانہ برتاؤ کیا جائے، ان کی کردار کشی نہ کی جائے۔